ابرار مجیب
اردو میں افسانچہ، منی افسانہ، مختصر مختصر افسانہ کی روایت نئی نہیں ہے۔ سیاہ حاشیے کے تحت لکھی گئیں منٹوکی تحریریں اس سلسلے کا نقظہٗ آغاز مانی جاتی ہیں ۔ قصہ گوئی کی مختصر ترین ہئیت منٹو سے قبل بھی حکایتوں ، اساطیری کہانیوں کی شکل میں موجود تھی۔ اس کی ایک عمدہ مثال ایسپ فیبلز ہیں۔ انگریزی اور دوسری یورپی زبانوں میں فلیش فکشن اور مائکرو فکشن جو کہ مختصر ترین افسانہ نویسی کی ہی ایک شکل ہے حالیہ دنوں میں تیزی سے مقبول ہورہی ہے۔ ہر دو اصطلاح سے قبل مغربی اد ب میں very short story کی اصطلاح کا استعمال ہوتا تھا، یہ اصطلاح بینادی طور پر بیسویں صدی سے مخصوص ہے۔ اکیسویں صدی میں ڈیجیٹل ورلڈ کے فروغ یا یوں کہیں برقی ذہن سازی اور مصنوعی ذہانت کے مایا جال نے فکشن میں اظہار کے تقاضے تبدیل کردئے ، انٹرنیٹ کے فروغ اور برقی کتابوں کے چلن کے علاوہ شوشل میڈیا جیسے فیس بک اور ٹیوٹر کی مقبولیت کی وجہ سے سماجی ،ا خلاقی ، سیاسی بلکہ تاریخی اور کلچرل تناظر میں بھی تبدیلیاں آئیں اور فکر کے زاویے یکسر بدل گئے۔ فلیش فکشن اور مائکرو فکشن ، ہر دو اصطلاح اکیسویں صدی کی دین ہے ، ظاہر ہے کہ ان دو اصنافی اصطلاحات کے تحت تخلیق کردہ فکشن بیسویں صدی کےvery short story سے مختلف ہوگا۔اس کے علاوہ فلیش فکشن اور مائکرو فکشن کے درمیان بھی فرق کیا جاتا ہے، ایک فرق تویہ ہے کہ فلیش فکشن میں جہاں افسانہ کوہزار سے تین ہزار الفاظ کے درمیان سمیٹنا ہوتا ہے وہیں مائکرو فکشن تین سو الفاظ سے زیادہ صرف کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ فرق بذات خود کسی صنف کو اختصاص اور شناخت عطا نہیں کرتا ، اردو اصناف سخن میں غزل ، مثنوی اور رباعی کی اپنی ہئیتی شناخت ہے اور ان اصناف شعر میں بحروں اور ان کے ارکان بھی مخصوص ہیں ، یعنی ان کی تنظیم اور ترتیب بہت حد تک متعین ہے اور شاعر کو ان اصناف کے اصول شعر کے تحت ہی اظہار کے راستے تلاش کر نے پڑتے ہیں ، اس لحاظ سے دیکھیں تو فلیش فکشن اور مائکرو فکشن میں الفاظ کی پابندی سمجھ میں آتی ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا الفاظ کہ علاوہ بھی کچھ ایسا ہے جو فلیش فکشن اور مائکرو فکشن کو علیحدہ شناخت کا حامل بناتا ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اردو میں رائج افسانچہ ، منی افسانہ ، مختصر مختصر افسانہ یا ماضی میں سفر کرتے ہوئے ہم منٹو کے سیاہ حاشیے کا موازنہ فلیش فکشن اور مائکرو فکشن سے کریں تو کیا یہ نتیجہ نکالنا ممکن ہے کہ یہ سب ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں ۔ دوسرے سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے یہ دیکھنا زیادہ مناسب ہوگا کہ انگریزی میں فلیش فکشن اور مائکرو فکشن الفاظ کی حد بندی کے علاوہ کس طرح مختلف ہیں ۔
فلیش فکشن جیسا کہ اصطلاح سے ظاہر ہے قصہ گوئی کے ایک مخصوص اسلوب کاپروردہ نظر آتا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں فلیش فکشن میں پلاٹ کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ یہ کسی ایک واقعہ ، مشاہدہ ، نجی تجربہ پر مبنی ہوسکتا ہے ، یا کئی واقعات، مشاہدات اور نجی تجربات کا مجموعہ بھی لیکن پلاٹ کی سطح پراس کی پیش کش قاری کو استعجاب، تحیر یا انکشاف سے ہم کنار کرتا ہے ، اس کے ساتھ ہی اس فکشن فورم ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ قاری کے ذہن پر فوری طور پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اردو افسانہ میں تکنیک کا یہ تجربہ منٹو کہ یہاں موجود ہے ۔منٹو کے افسانے اپنے اختتامی جملے سے ہمارے ذہن میں ایک جھماکہ سا کرتے ہیں ۔ منٹو کے یہاں برتی گئی یہ تکنیک بہت حد تک موپاساں سے مستعار مانی جاتی ہے۔ فلیش فکشن کی بنت میں یہ تکنیک بے حد نمایاں ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جب اس تکنیک میں پہلے ہی سے افسانے موجود ہیں تو فلیش فکشن کی ضرورت اور افادیت کیا رہ جاتی ہے؟اس بے حد اہم سوال کا ایک جواب تو وہی ہے کہ ہمارے دور میں زندگی کی رفتار اس قدر تیز ہے کہ طویل افسانے اور ناول کے مطالعہ کے لیے جس فراغت اور فرصت کی ضرورت ہے ، وہ میسر نہیں ۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ فلیش فکشن کا اختصار ڈیجیٹل دور کے مطالبات کے عین مطابق ہے۔ اسمارٹ فون پر کار میں سفر کرتے ہوئے آپ فکشن سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں ۔
فلیش فکشن ہو کہ مائکرو فکشن ، فکشن کی ان اصناف میں الفاظ کی قوت یا الفاظ کی معنوی گہرائی خاصی اہم ہے۔ مائکرو فکشن ، فلیش فکشن سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اس میں فلیش فکشن سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ الفاظ کا خلاقانہ استعمال ہوتاہے۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ جب صنف افسانہ پوری آپ وتاب اور تخلیقی توانائی کے ساتھ موجود ہے تو مائکرو فکشن کی کیا ضرورت ہے؟ اگر اس سوال میں موجود استدلال کو درست تسلیم کرلیا جائے تو اس سے بڑاسوال یہ ہوگا کہ جب ناول جیسی فکشن کی بہترین صنف موجود ہے تو افسانہ کی کیا ضرورت ہے؟ کسی عہد میں طویل قصیدے اور مثنوی کا دور دورہ تھا ، آج شاعری غزل تک محدود ہوکر رہ گئی ہے ، ظاہر ہے اس کی وجہ ہمارے عہد کا مزاج ہے ۔ مائکرو فکشن میں جہاں الفاظ کے تخلیقی استعمال کی اہمیت ہے وہیں موضوعاتی سطح پر فکشن کے روایتی موضوعات کی بجائے عصری منظرنامے میں زندگی کی بدلتی صورت حال اور نفسیاتی عوامل کو فوقیت حاصل ہے۔ مغرب میں عام خیال ہے کہ اکیسویں صدی کی ڈیجیٹل دنیا کے تقاضے فکشن میں الفاظ اور فکر کی سطح پر ایسے فارم کا مطالبہ کرتے ہیں جو انسانی زندگی کی آج کی سرعت اور رفتار سے ہم آہنگ ہو۔ ادب اور آرٹ کے فارم اور پیش کش میں انقلابی تبدیلیاں ہم صاف طور پر دیکھ سکتے ہیں ۔
مائکرو یا خورد فکشن مغرب میں کون لوگ لکھ رہے ہیںیہ نیٹ پر گوگل سرچ کے ایک کلک سے دیکھا جاسکتا ہے۔ اس لیے یہ یہاں ان ناموں کی کھتونی کو پیش کرکے ہمارے علم میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اکیسویں صدی میں زندگی بیسویں صدی جیسی نہیں ہے اور ہم پلاسٹک عہد اور ڈیجیٹل ورلڈ میں جی رہے ہیں تو اس فکر کو استحکام بخشنے کے لیے ادبی اور فلسفیانہ مطالعات میں تھیوریز کا نزول ہمارے لیے معاون ثابت ہوتا ہے۔ اشارتا’’ اس کا ذکر تحسین گیلانی بھی کرتے رہے ہیں کہ ادبی تھیوری ، پوسٹ مورڈنزم ، ایکو کریٹسزم ، ردتشکیل، مظہریات وغیرہ ادب میں موجود فکری پس منظر کو عصری منظرنامے میں ہی دیکھنے کا عمل ہے ۔ اب آئی اے رچررڈس کی عملی تنقید تک بات محدود نہیں ہے۔ پوسٹ کالونیل یا مابعد نوآبادیاتی مطالعات نوآبادیاتی مطالعات کو رد کرتے ہیں اور فلسفیانہ سطح پر کلچر اور ثقافت اپنی اپنی اکائی میں اہمیت کے حامل بنتے جارہے ہیں ۔ گلوبل ویلیج کا تصور اپنی جگہہ لیکن علاقائیت اور علاقائیت کے اندر میں ذیلی علاقائی ثقافتیں اپنی شناخت پر اصرار کرتی ہیں ۔ ایسی صورت حال میں فکشن میں مجموعہ واقعات(ناول) یا صرف ایک واقعہ (افسانہ ) سے بات آگے نکل کر انسانی ذہن کی ایک رو اور کسی جسم کی ایک حرکت کی معنویت ایک خاص اہمیت کی حامل بن جاتی ہے۔ مائکرو فکشن انگلی کے ایک اشارے کی معنویت کو بھی ایک فکری نہج عطا کردیتا ہے ۔ نعیم بیگ صاحب نے منڈے مائکرو فکشن ای میگزین کی ایک کہانی کا ترجمہ پیش کیا ہے ، اسی میگزین میں کئی ایسی کہانیاں ہیں جو صرف ایک جملے میں بیان کی گئی ہیں ۔ اس لحاظ سے یہ کہنا بیجا نہیں ہوگا کہ زندگی اور انسانی تعلقات یا انسانی اذہان کے شعور ، لاشعوری ، تحت الشعوری رویوں کے معمولی سے معمولی اتعاش کو فکشن بنانے کا ہنر ہی مائکرو فکشن ہے ، ظاہر ہے کہ یہ اتنا سہل نہیں ۔ اس کے لیے جس قدر مشاہداتی ژروف نگاہی کی ضرورت ہے اسی قدر زبان و بیان پر قدرت کی بھی ضرورت ہے ۔ ایک معمولی ذہن رکھنے والا افسانہ نگار یا ناول نگار جو الفاظ کو بے مصرف خرچ کرنے کا عادی ہے فلیش فکشن یا مائکرو فکشن نہیں لکھ سکتا۔
جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ فلیش فکشن یا مائکرو فکش اردو کے لیے کوئی بالکل نئی صنف نہیں ہے۔ اس میں لکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ جوگندر پال اس سلسلے میں ایک اہم نام ہے، اس کے علاوہ حالیہ دنوں میں محمد بشیر مالیر کوٹلوی، اشتیاق سعید، رفیع حیدر انجم ڈاکٹر ریاض توحیدی ، ڈاکٹر ارشد اقبال افضال انصاری، عاطف مرزا، راجا یوسف، قیوم اثر ، ایم اے حق ، اقبال حسن آزاد، خورشید حیات ، صدف اقبال ،امواج الساحل، مبشیر علی زیدی ،عطاالرحمن خاکی ،ابن آس ،جمیل اختر ،اقبال خورشید ،ساجد ہدایت ،مایا مریم ،ہمافلک ،ماہ جبیں آصف ،ثمینہ سید ،فارحہ ارشد ،سید کامی شاہ اور سید تحسین گیلانی اور راقم بھی لکھ رہے ہیں ۔ سر دست جو نام ذہن قرطاس پر ابهرے یہ ہیں اس کے علاوہ بهی بہت سے احباب نے اسی ایونٹ میں عمدہ مائکروفکشن لکهیں ہیں -
کسی زمانے میں اسے منی افسانے کا نام دیا گیا ، یہ ضرور ہے کہ مغرب میں اس فن سے جو کام لیا جارہا ہے فی الحال اردو موضوعاتی سطح پر عصری مزاج کو اس میں ڈھالنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ حال ہی میں اردو افسانہ فورم پر فلیش فکشن کے ایونٹ میں بہت سارے نام ابھر کر سامنے آئے لیکن ان میں سے کم ہی فلیش فکشن کے فنی مطالبات کو پورا کرتے ہیں ۔ ابھی ہمیں اس سلسلے میں کافی مشق کی ضرورت ہے ۔
انہماک فینٹسی مائکروفکشن نشست
تینتالیسواں مائکروف
نور العین ساحرہ ۔ امریکہ
~ معراج ~
کرنوں سے بنی رتھ پہ سوار اولا نے اپنے سبز حریری لباس کا آنچل ہوا میں لہرایا تو اس سے نکلنے والی تیز شعائیں پوری کائنات کو جگمگانے لگیں۔ زمین کے کچھ خطے بھی ان طلسماتی سبز روشنیوں میں نہا کر جھلملا سے گئے۔ وہاں موجود لوگ خوشی سے چلائے" ناردرن لائٹس"
یہ سن کر وہ بےاختیار ہنسی تو جلترنگ بج اٹھے اور دمکتے گالوں سے سرخی مائل سنہری روشنیاں پھوٹ کر ماحول کو خیرہ کرنے لگیں۔ فضاؤں میں دورکہیں نفیس راگوں کے سُر کچھ اور بھی دھیمے ہوئے کہ سامع تاب سماعت نہ لا سکتے تھے۔ کلیاں چٹک کر پھول بنیں۔ خوشبوؤں سے لدی اس کی روح پرور سانسیں بادلوں کے سنگ اٹکھیلیاں کرتیں زمین تک پہنچیں تو صدائے جرس بلند ہوئی۔ صحراؤں میں سفر کرتے قافلوں نے وہیں پڑاؤ ڈال دیے اورچاندنی میں نہائی طلسماتی رات کے فسوں میں کھو گئے۔ نخلستاں سراٹھا کر اسے ڈھونڈنے لگے اور جھرنوں نے ٹھنڈے میٹھے پانی کی پھواروں سے ایسا ہوشربا جادوئی رقص پیش کیا کہ لوگ مبہوت رہ گئے۔ اس نے لہراتے بل کھاتےعالم سر مستی میں اپنے آس پاس بکھرے ستاروں کو اٹھا کراپنی چوٹی میں گوندھنا شروع کر دیا۔
اپنا اختیار آزمانے کے لیے اس نے مقررہ وقت سےکچھ پہلے چاند کو اٹھا کر سورج کی جگہ رکھ دیا تواس سے متاثر ہونے والے زمین زاد حیرت کے عالم میں آسمان تکتے اپنے گھروں کوسدھارے۔
اچانک اسے دور کہیں سے کوئی مفلوک الحال شخص چھپتا چھپاتا اپنی طرف آتا دکھائی دیا جیسے صدیوں کی مسافت پیادہ پا طے کر کے آ رہا ہو۔
تم ۔۔۔۔! ایک دوسرے کو قریب سے دیکھا تو حیرت سے آنکھیں پھٹنے لگیں۔ دونوں کے درمیان جدائی کا لمحہ قطبین کی دوری بن کر پھیلا ہوا تھا۔
"ہاں " اس نے مسافتوں کی تھکن اتار کر ایک طرف رکھی اور خفت سے ماتھے پر آیا پسینہ پونچھتے ہوئے حیرت سے بولا۔
"صدیوں سے تمھاری تلاش میں بھٹک رہا تھا کہ مجھے اپنی منزل تک پہنچنے کے لئے تم سے دو سوالات کے جواب چاہیں ۔ پہلا یہ کہ تمھیں یہ مقام کیونکر ملا؟ اور دوسرا یہ کہ میں اپنے مقررہ وقت سے پہلے کیسے مر گیا جس کے بارے میں تم نے مجھے خبردار بھی کیا تھا۔
یہ سوال سن کر اس نے بے چینی سے پہلو بدلا تو اس کے ماتھے پر لگے جھومر کی روشنی بجلی بن کرچمکی اورآسمان کی وسعتوں میں پھیل گئی۔ سامنے کھڑے شخص کی آنکھیں چندھیا گئیں اور وہ گھبرا کر پیچھے ہٹا۔
"کیا تم واقعی جاننا چاہتے ہو؟ وہ اس کی طرف تھوڑاسا جھکی۔
"ہاں" جلال حسن کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ اپنی کم مائگی کے احساس کو چھپاتا ، پچھتایا ہوا خوفزدہ سا جھکتا چلا گیا۔
"ہوں " وہ کچھ سوچتے ہوئے اپنی رتھ سے باہر نکلی اور قوس قزح سے بنی سیڑھیوں سے اترتے ہوئے اس کے قریب چلی آئی۔
"یاد ہے، ہماری آخری ملاقات ! جب تم بھلائی کے تصور کو محض اپنی ذات کی بھلائی سے مشروط کرنے پر بضد تھے جبکہ میرے لیے انسانیت تمام حیات اور فطرت سے محبت اور احترام کا جذبہ اہم تھا۔ تم بہت بےدردی سے سارے ناطے توڑ گئے۔ اپنی ہی انا اور "میں" کو مقدم جانا اور اپنے ایک غلط فیصلے سے بہت سے معصوموں کو مار دیا "
اسی دن میں نے "ہماری" کہانی لکھی تھی اور تمھیں یاد تو ہو گا کہ میری لکھی ہوئی ہرکہانی کے تمام کردار ہمیشہ مکافات عمل سے گزرا کرتے تھے
*🔘ــــــ خاتونِ مشرق سے خطاب ــــــ🔘*
تُو چراغِ خانۂ ہستی سے بیگانہ ہوئی
شمع محفل بن کے اک بے کیف افسانہ ہوئی
کس نے بیگانہ کیا ہے تجھ کو فطرت سے تری
زندگانی میں اجالا تھا شرافت سے تری
آج سنتا ہوں کہ ہے سارے جہاں میں تُو ہی تُو
رقص و نغمہ، عیش و عشرت، ایک وحشت چار سُو
محفلِ عشرت میں تُونے خود کو عریاں کردیا
داغ رسوائی کو آخر زیب داماں کردیا
تونے اپنے گھر کو چھوڑا عیش و عشرت کے لیے
اور پردے سے نکل آئی قیامت کے لیے
ہے تری آغوش خالی انجم و مہتاب سے
بے ادب سی ہوگئی ہے وقت کے آداب سے
تربیت تیری تباہی کی ہوئی جس کے طفیل
اس "نظامِ زندگی" سے دور رہ کر بھی نہ کھیل
کیا تجھے تاریخ رفتہ یاد ہے ائے مہ جبیں
رشک کرتے تھے کبھی عظمت پہ تیری اہلِ دیں
یاد کیا تجھ کو نہیں وہ فاطمی عزم و جلال
جو کہ پردا میں نکلتا تھا گلِ تَر کی مثال
رابعہ بصریؓ کی عفت اور عظمت یاد کر
اور جمالِ سیتا و مریم ؑ سے بھی دل شاد کر
'درسِ حوّا' بھی سُنا ہے 'بنت حوّا' نے کبھی
کس لیے ہم کو بنایا ہے سکونِ زندگی
تربیت کے واسطے حصّے میں آئے مہر و ماہ
اور مَردوں کو کیا ہے زندگانی کا سپاہ
تیری صورت، تیری سیرت دونوں پردے کے لیے
تیری عزّت تیری عظمت دونوں پردے کے لیے
لطف کے پردہ میں کیا تجھ پر ستم ڈھایا گیا
تجھ کو میدانِ سیاست سے جو گھر لایا گیا
تجھ کو پردہ میں بتا کیا تقص آتا ہے نظر
اور محفل میں تِری جانے سے کیا ہوتا ہے شَر
زیب دیتی ہے گہر کو اک صدف کی زندگی
شمس کو صبحِ حسیں، مہتاب کو اک چاندنی
سوزِ خلوت سے گہر پاتا ہے اپنی آب و تاب
اور حیا کے ساز سے ہوتی ہے عظمت کامیاب
عشق نے تجھ پر عیاں سب کردیے رازِ حیات
تیری خلوت باعثِ صد فخر نورِ کائنات
یہ سینما گھر، یہ آوارہ محبت کے مکاں
کتنا پاکیزہ شرف بخشا گیا تجھ کو یہاں
یہ ہے 'تہذیبِ فرنگی' کا ہوس کا رانہ وار
ختم ہوتا جا رہا ہے تیری عظمت کا نکھار
اب تری آغوش میں باقی نہیں پہلا اثر
اب ترے دامن میں ہے بے تربیت لعل و گہر
اب تری آغوش آغوشِ تباہی بن گئی
تو زمانے کے لیے اب اک سیاہی بن گئی
ہاں مٹا سکتی نہیں اپنی پریشانی بھی سن
کل تجھے انجام پر ہوگی پشیمانی بھی سُن
کیا غضب ہے دہر کی تونے سیاست سیکھ لی
ہر قدم پر سَر اٹھانا اک قیامت سیکھ لی
کاش پالیتی بصیرت سے مرا دردِ جگر
پھر پلٹ آتی جہانِ عظمتِ رفتہ کے سَر
تیرا ہر نخلِ تمنّا بار وَر ہوتا رہے!
مزرعۂ انسانیت میں مہر و مہ بوتا رہے
غم کے عالم میں سکونِ جاوداں بن جائے تُو
چاند تاروں کے لیے اک آسماں بن جائے تُو
پھر کوئی اقباؔل تیری شاخِ حسرت سے اٹھے
پھر کوئی مریم ؑ حریمِ ناز عشرت سے اٹھے
عام ہوجائے خودی کی انجمن میں دل کا رَم
اور پردے میں اتر آئیں تیرے دیر و حرم
*پھر ستارے بھی ترس جائیں ترے دیدار کو*
*اس سے بڑھ کر کیا شرف حاصل ہو اک دلدار کو*
🍁 *احمد نسیؔم مینا نگری* 🍁
*----------🔰انتخاب🔰----------*
*تنـــــــــویـــــــر اشــــــــرف
________________
پیرِ طریقت صوفیِٔ ملّت
*صوفی غلام رسول قادری*
کی یاد میں۔۔۔
ــــــــــــــ
جن کو ملّت نے دیا صوفیِٔ ملّت کا خطاب
پیکرِ مِہر و وفا لوگ جنھیں کہتے تھے
جن کا اندازِ بیاں دل پہ اثر کرتا تھا
لب ہوں ساکن تو خموشی بھی بھلی لگتی تھی
قوم و ملّت کے لئے وقف کیا جس نے حیات
خوب لگتا تھا ہمیں طرزِ خطابت ان کا
موہ لیتی تھی ہر اک دل کو نقابت ان کی
دور اندیشیاں ایسی کہ میں صدقے جاؤں
مشورہ آپ کا ہر کام بنا دیتا تھا
مختلف سب سے رہا طرزِ قیادت ان کا
محفلِ نعت و مناجات منعقد کرکے
قابلِ دید تھا پھر ذوقِ سماعت ان کا
اپنے تو اپنے وہ غیروں سے وفا کرتے تھے
صاحبِ علم و ہنر لوگ جنھیں کہتے تھے
ان کے اطوار کو تحریر کروں میں کیسے
ایک کوزہ میں سمندر کو سمیٹوں کیسے
رنج اور غم کی ہر اک سمت گھٹا چھائی ہے
یاد پھر صوفیِٔ ملّت کی مجھے آئی ہے
ہے عطؔا کی یہ دعا اتنی نوازش کرنا
ان کی مرقد پہ خدا فضل کی بارش کرنا
✏️__ازقلم : *عطؔا یارعلوی*
09/03/2021 (بروز منگل)