اترکاشی ضلع کے پرولا کا حالیہ واقعہ اس کی زندہ مثال ہے۔ اس واقعے میں ایک ہندو لڑکے اور لڑکی کے پیار کے معاملے کو لو جہاد قرار دیا گیا کیونکہ ان کا ایک دوست مسلمان ہے اور وہ ان دونوں کے ساتھ سیر کرنے چلا گیا۔ 26 مئی کو جب یہ تینوں پرولا بازار کے قریب سیر کے لیے گئے تھے تو کچھ لوگوں نے انہیں گھیر لیا اور ہنگامہ برپا کر دیا اور الزام لگایا کہ انہوں نے نابالغ لڑکی کو لو جہاد میں پھنسا کر بھگایا۔
تقریباً اگلے ہی دن تمام ہندو تنظیمیں سرگرم ہو گئیں۔ 28 مئی کو پرولا میں ایک بڑا جلوس نکالا گیا۔ مسلم برادری کے لوگوں کی دکانیں بند تھیں۔ ہندو رکشا ابھیان نامی تنظیم کا ایک پوسٹر دکانوں پر چسپاں کیا گیا تھا، جس میں انہیں خبردار کیا گیا تھا کہ وہ 15 جون تک پرولا کو خالی کر دیں۔ پوسٹر میں یہ دھمکی بھی دی گئی ہے کہ اگر مسلم برادری کے لوگوں نے 15 جون تک پرولا خالی نہیں کیا تو وہ خود اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ ان کا کیا بنے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
اس معاملے میں خاص بات یہ ہے کہ نابالغ لڑکی کے ساتھ پکڑے گئے دو نوجوانوں میں سے ایک ہندو ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کا لڑکی کے ساتھ محبت کا رشتہ تھا۔ جتیندر سینی نام کا یہ نوجوان بجنور کا رہنے والا ہے۔ پرولا میں جتیندر کی دکان کے بالکل سامنے بجنور کے عبید خان کی بھی ایک دکان ہے۔ دونوں اچھے دوست ہیں۔ محبت کے اس معاملے میں عبید خان صرف ایک ساتھی کا کردار ادا کر رہا تھا۔ تاہم پولیس نے دونوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ لیکن اس پورے واقعہ میں صرف مسلمانوں کے خلاف ہی محاذ کھولا گیا ہے۔
پرولا میں مسلمانوں کی تقریباً 45 دکانیں ہیں۔ ان میں بنیادی طور پر ملبوسات کی دکانیں، ہیئر سیلون، فرنیچر وغیرہ شامل ہیں۔ اب یہ دکانیں 28 مئی سے بند ہیں۔ مسلم برادری کے زیادہ تر لوگ راتوں رات پرولا سے بھاگ گئے ہیں۔ کچھ دکاندار اپنی دکانیں بند کرکے چلے گئے ہیں جبکہ کم از کم 6 دکاندار اپنا سامان باندھ کر اپنے گھروں کو چلے گئے ہیں۔ 26 مئی کو یہ واقعہ منظر عام پر آنے کے بعد ہی بنیادی طور پر ہندو رکشا ابھیان نامی تنظیم اس معاملے میں کود پڑی۔ سوامی درشن بھارتی اس تنظیم کے سب کچھ ہیں۔ انہوں نے 28 مئی کو پرولا میں ایک بڑی ریلی نکالی اور 15 جون کو مہاپنچایت کا اعلان کیا۔