لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کار گہئہ شیشہ گری کا
یہی شیشہ گری جب کسی شاعر کی ہم رکاب ہوا کرتی ہے تو تسخیر فلک کی ساری بلندیاں ایک لمحے میں یوں ٹوٹ جایا کرتی ہیں جس طرح بھیونڈی کے عدیم المثال شاعر شکیل احمد شکیل نے فلک کی تمام بلندیاں اور حدود و قیود کو توڑتے ہوئے اپنے مسکن اپنے شہر سے نکل کر شارجہ جیسی سر زمین پر جا پہنچے جہاں پہنچنا ہر ایک کے لئے محال کہلاتا ہے.بھیونڈی کے شکیل احمد شکیل کا شمار ان شعراء میں ہوتا ہے جو اپنی خداداد تخلیقی صلاحتیوں کے بل بوتے پر نہ صرف نئے رجحانات و امکانات کے آئینہ دار ہوا کرتے ہیں بلکہ نئی نسلوں کے لئے بھی مشعل راہ کی صورت شاہراہ ادب پر اپنے قدموں کے ایسے نشانات ثبت کر جاتے ہیں جنھیں شمار کرتے ہوئے ان کے بعد آنے والے شعراء اسی مقام تک جا پہنچتے ہیں جہاں آج شکیل احمد شکیل بصد جلوہ و شان مسند نشیں ہیں. مبارک باد کے مستحق ہیں شکیل احمد شکیل کہ آج جس طرح انھوں نے اپنی شعری صلاحیتوں کے بل بوتے پر شارجہ میں اپنے شہر کی نمائندگی کا بھرم قائم رکھتے ہوئے اپنا خود کا اور شہر بھیونڈی کے نام کو دوام عطا کیا ہے اسی طرح کل ساری دنیا ان کے کلام بلاغت نظام سے یوں گونج اٹھے کہ ان کی صدائے باز گشت برسوں نہیں صدیوں تک اس طرح سنائی دے کہ ان کے بعد آنے والی نسلیں یہ پکار اٹھیں کہ....
بےکار نہ جائے یہ کوہکنی تیری
شارجہ میں کامیاب نمائندگی کے طفیل 3 جون بروز سنیچر کو یہاں کے صنوبر ہال میں شہر بھیونڈی کے ارباب نقد و نظر نے شکیل احمد شکیل کے اعزاز میں ایک ایسے اعزازی مشاعرے کا انعقاد کیا ہے جو ان کے اعزاز و اکرام کے ساتھ ساتھ عظیم الشان استقبالیہ کی صورت ایک نئی تاریخ مرتب کرجائے گا.اس اعزازی تقریب میں عالمی شہرت یافتہ شٰاعر عزیز نبیل کا بھی استقبال کیا جائے گا. مبارک باشد شکیل احمد شکیل اعزازی تقریب کے لئے پیشگی مبارک باد. اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ مقبولیت کا یہ تاج تمہارے سر یوں ہی سدا سجتا رہے اور اپنی خیرا کن چمک دمک سے دنیائے شعر و ادب کو تابندہ و درخشاں کرتا رہے.