اس تمہید کی ضرورت اس لیے پڑی کہ برادرم عمیر منظر کا تدوین وتقویم کیا ہواانکے دادا کا سفرنامہ حج ہمارے ہاتھوں میں ہے -یہ ایک ڈائری کی صورت میں موجود تھا جسے انھوں نے جھاڑ پونچھ کر زیور طبع سے آراستہ کر دیا -علم جب شوق پر غالب آجائے تو تحریر میں فلسفہ زیادہ اور جذبہ کم ہوجاتا ہے اور صورتحال برعکس ہو تو تحریر خود اپنے کو پڑھواتی ہے -نذیر صاحب کے تاثرات ثانی الذکر زمرے میں آتے ہیں -اس سفرنا مے نے ہمارا بچپن لوٹا دیا ہے -ہماری دادی بھی غالبا 1977 میں “حج پڑھنے” ( گاؤں میں حج پڑھنا ہی کہتے ہیں ) گئی تھیں -آٹھ نو سال کی عمر کیا ہی باتیں یاد رہتی ہیں -بس اتنا یاد ہے کہ واپسی میں وہ ایک بائی سکوپ لیکر آئی تھیں جس میں دیار مقدسہ کی کچھ تصویریں تھیں -کی ہول میں آنکھ لگائیں اور داہنی طرف لگی گھنڈی گھمائیں تو مکہ مدینہ دکھائی دیتا تھا -یہ اس زمانے میں ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ تھا (بائیسکوپ ایک اور مدعی دو۔ایک پوتا اور ایک نواسہ ۔قرعہ فال پوتے کے نام گرا ۔اس زمانے میں نواسوں نواسیوں سے پیار اور پوتے پوتیوں سے خار کی بیماری نہیں پھیلی تھی )دوسری چیز جو یادداشت کے پنے پر آج بھی محفوظ ہے وہ یہ ہے کہ وہ واپسی میں اپنے ساتھ آب زمزم سے دھلا کفن بھی لائی تھیں جسے سال میں ایک بار دھوپ دکھا کر واپس ٹرنک میں بند کر دیا جاتا تھا ۔
اس کتاب پر سیر حاصل تبصرہ شعلہ صفت صحافی اور لکھاڑ برادر علم اللہ نے پہلے ہی کردیاہے جس کے بعد ہمارے پاس اس پر کچھ اور لکھنے کا جواز باقی نہیں رہا کہ انکا خامہ ہم سے زیادہ رواں ہے ۔بس ایک عرض گزارنی ہے کہ حاجی نذیر صاحب کی تحریر “ ٹوٹی پھوٹی “ نہیں ہے ۔
عبداللہ ندیم
عالمی افسانہ محفل ٢٠٢٣
افسانہ :33
صادقہ نواب سحر . انڈیا
۔۔۔۔ حنا باٸی کی چپل ۔۔۔۔
ان دنوں میں ہمارے بنگلے کے پچھلے دروازے کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر ٹرین کے آنے جانے کو دیکھا کرتی تھی۔ اسٹیشن پر کم ہی ٹرینیں آتی تھیں،جن سے اترنے چڑھنے والوں کی بھیڑ زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ اسٹیشن کے پیچھے پہاڑوں کے سلسلے دور تک چلے جاتے تھے۔ کسی کسی وقت ان پہاڑوں کے درّوں سے نکل کے بڑے سے پُل سے گزرتی ہوئی ممبئی جانے والی ٹرین بھی نظر آ جایا کرتی تھی۔میں اس چھوٹے سے گاؤں میں نئی نئی آئی تھی۔ مجھے اپنے بنگلے کے پچھواڑے کے دروازے میں بیٹھنا اچھا لگتا تھا۔ بارش کے موسم میں چھوٹے بڑے آبشار اور پہاڑوں سے گزرتے ہوئے بادل عجیب سماں باندھتے تھے۔ جب بارش کی بوچھار بڑھ جاتی اور سمت بدل کر پچھواڑے کے دروازے میں داخل ہو جاتی تو میں دوڑ کر دروازے بند کر دیتی اور اتنی دیر میں پوری بھیگ جاتی۔ میرے لیے یہ دروازہ دراصل بے پناہ خوشی کا دروازہ تھا۔ یہیں بیٹھ کر میں نے اسٹیشن اور اپنے بنگلے کے درمیان پھیلے کھلے میدان میں اپنے بچے کو حیرت سے بچہ جنتی گائے کو دیکھتے ہوئے دیکھا تھا۔اور بڑی مشکل سے اس کے چار سال کے ننھے ذہن کو ادھر ادھر کی باتوں سے بہلا کر اندر لے گئی تھی۔ اس میدان میں اکثر شام کے وقت میرے دیورگلی محلے کے لڑکوں کے ساتھ کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔چھوٹے بچے کوئلے کے ٹکڑوں یا چاک سے زمین پر نشان بنا کرکھیلتے، کنچوں پر نشانہ لگاتے، پتھر جمع کرتے، انھیں ہاتھ میں پکڑکر زمین پر ایک کے اوپر ایک رکھے پتھروں کو مار تے اور بڑا مزا لیتے دکھائی دیتے۔
سردیوں کی ایک صبح میدان میں کھدائی ہونے لگی۔ پتہ چلا کہ میدان کے مالک نے اپنی زمین کسی بلڈر کو بیچ دی تھی۔ سارے نظارے ختم ہو گئے۔نئی عمارت کے پیچھے اسٹیشن چھپ گیا۔ دھیرے دھیرے لوگوں سے پوری بلڈنگ آباد ہوگئی۔ گراؤنڈفلور پر ایک فلیٹ میں ٹیوشن کلاسیں شروع ہوئیں۔ دروازے پر ایک بڑا سا بورڈ لگ گیا تھا۔ ساتویں سے دسویں تک کی کلاسیں چلنے لگیں۔ کلاسس صبح ساڑھے سات بجے سے شروع ہوتی تھیں۔ دسویں کا ایک الگ گروپ تھا جو تین گھنٹوں تک چلتا رہتا تھا۔ نویں کا دو گھنٹوں کا اورساتویں آٹھویں ایک ایک گھنٹے کے ہوتے۔ میں صبح اپنے کام سے فارغ ہوکر پچھواڑے اب بھی بیٹھتی تھی۔ کلاسوں میں چھڑی کے زور پر چپ چاپ بیٹھے رہنے والے بچے دروازے سے نکلتے ہی جنگلی بلیوں کی طرح ٍدھکے دیتے شور مچاتے گیٹ کی طرف بھاگتے۔ مستقبل کی طرف گامزن یہ بچے اور ان کی شرارتیں مجھے اچھی لگتی تھیں۔آخر میں ٹیوشن کلاس چلانے والی خاتون اور ان کے شوہر مسکراتے ہوئے مجھے ہیلو کہتے ہوئے دروازے کو تالہ لگاتے ہوئے نکل جاتے۔ میری دلچسپی دیکھ کر اُن میاں بیوی نے مجھے دسویں کی الوداعی تقریب میں مدعو کیا۔ پھرگرمیوں کی چھٹیاں شروع ہو گئیں۔ امتحانوں کے بعد بھی نویں کلاس کے بچے دسویں کے بورڈ کے امتحانوں کی تیاری کے لیے آتے رہے۔ یہ بارہ۔پندرہ بچوں کا چھوٹا بیچ تھا۔ ایک چھوٹی سی تقریر کے ذریعے میں نے انھیں آگے کی زندگی کے خواب دکھائے۔ مزا لے کریکسوئی کے ساتھ پڑھنے اور فرمانبرداری کی تلقین کی۔
ایک دن صبح سات بجے نویں جماعت پاس ہونے کی خوشی میں بچوں اور ان کے اساتذہ کا یہ چھوٹا سا قافلہ ایس ٹی(اسٹیٹ ٹرانسپورٹ)بس سے کھنڈالا کے لیے نکل گیا تھا۔راج ماچی پوائنٹ کے پیچھے جنگل میں دو دن کیمپنگ کا ارادہ تھا۔ دونوں میاں بیوی پچھلے دنوں جگہ دیکھ آئے تھے، اِس کے باوجود وہ پچھلے سال بھی دسویں میں جانے والے بچوں کو یہیں پکنک کروا چکے تھے۔
گرمیوں کے دن تھے۔ ٹیوشن والا جوڑااپنے ساتھ کھانے پینے کا بہت سا سامان لے گیا تھا۔ سینڈوچ کے لیے....کیلے، فرسان وغیرہ۔اناج، مصالحے اور ضرورت کی چیزیں بھی ساتھ تھیں۔کھانا بنایا گیا۔ کھیل کھیلے گئے۔ باتیں ہوئیں۔ اگلے سال کے لیے تازہ دم ہوئے۔
تیسرے دن شام کونکلنا تھا۔ گھاٹ میں لینڈ سلائیڈ ہو گیاتھا۔ پہاڑکے تودے سڑک پر پڑے تھے۔ ٹریفک جام تھی۔ متوقع بس کا ملنا ممکن نہیں تھا۔ ہاتھ دکھا کر ٹرک کو روکاگیا۔ سب ٹرک میں سوار ہو گئے اور شٹر چڑھا لیا۔ ٹرک میں کوئی نہیں تھا۔ صرف پانچ پانچ ٹن کے دو مشینوں کے بکسے رکھے ہوئے تھے۔ کچھ بچے شٹر کے پاس بیٹھے ہنسی مذاق کر رہے تھے۔
ایک طرف دونوں ٹیچر بیٹھے مسکراتے ہوئے انھیں دیکھ رہے تھے۔ ان دنوں بورگھاٹ کا راستہ سنگل تھا۔
پہلے موڑ پر ایک لڑکا اتر گیا۔ بچوں نے ہلّا مچایا۔ اترنے والے لڑکے نے آواز دی۔ سب پیچھے شٹر کی طرف آ گئے۔ آنند اپنے دوستوں کے ساتھ ایک بکس کو ٹیک لگائے بیٹھا ہوا تھا۔ اترنے والے لڑکے کی آواز سن کر دوست بھی ”آنند اِکڑے یے۔“(آنند یہاں آ) کہتے ہوئے شٹر کے پاس چلا گیا۔ٹیچر نے بھی آواز لگائی۔آنند نے بکس کے پیچھے جھک کر دیکھا اورڈولتے ہوئے ٹرک میں رینگتا ہوا ٹیچر کی جانب بڑھا۔ لوناولہ کی طرف جاتی ہوئی ایک کارفئیٹ میں ڈرائیور کے ساتھی نے شنگروباکے خطرناک تیزموڑ پرمندر کے سامنے کھڑے ہوئے پجاری کے ہاتھوں میں پیسے اور ناریل دیے۔ پجاری نے اسے اگربتّی، ناریل اور مٹھائی کا پرشاد دیا۔
پیچھے ٹرک تیزی سے موڑ سے آگے نکلا۔ مشینوں کے کھسکنے اوربچوں کے چلانے کی آواز سے خطرے کو بھانپتے ہوئے ڈرائیور اور کلینر اپنی سیٹوں سے اترے اور ٹرک پر چڑھ کر مشینوں کو ایک دوسرے سے جدا کرکے آنند کو نکالا۔ ایک خالی ٹرک مال خالی کرکے گھاٹ اتر رہا تھا۔سب کو اس میں بٹھا دیا۔
آنند گہری گہری سانس لے رہا تھا۔ ٹیچر اور بچے رو رہے تھے۔
”چلو، لوناولہ کے اسپتال لے چلتے ہیں۔“ڈرائیور نے تیزی دکھائی۔
”لوناولہ کا راستہ بند ہے۔ٹریفک میں ٹائم لگے گا۔ راستہ پیک ہے، قصبے کے میونسپل اسپتال لے چلو۔“ ٹیوشن والے سربولے۔
”ٹیچر میرے سر میں بہت درد ہو رہا ہے۔“ وہ دھیرے دھیرے بول رہا تھا۔
”تم ٹھیک ہو جاؤگے۔ گھبراؤ مت۔ بیٹا ہم اسپتال جا رہے ہیں۔“ ٹیچر نے آنند کا سر اپنی گود میں رکھ لیاوہ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیر تے ہوئے کہہ رہے تھے۔
ٹریفک جام میں پھنسے ٹرک کو شنگروبا سے سرکاری اسپتال آنے میں ڈیڑھ گھنٹہ لگ گیا۔بچے دیوانہ وار چلا رہے تھے۔
شام کے سات بجے تک ٹیوشن کلاس کے سامنے والدین کی بھیڑ جمع ہو گئی تھی۔ پکنک والے لوگ چھے بجے تک لوٹنے والے تھے لیکن آٹھ بجے تک ان کی کوئی خبر نہیں آئی۔ ٹیچر کے فون پر ’نو رِپلائی‘ آ رہا تھا۔ سب کے دل دھڑک رہے تھے۔ گھاٹ کا راستہ تھا اور اُن دنوں بے حد خطرناک بھی تھا۔ جب تب حادثوں کی خبر آتی رہتی تھی۔ پچھلے دنوں گھاٹ میں ایک موڑ پر بس الٹ گئی تھی اور نیچے بستی میں جا گری تھی۔
نو بجے کے آس پاس ٹیوشن والی ٹیم لوٹی تھی لیکن پولس اسٹیشن میں....سب اس طرف دوڑے۔بچے بے تحاشہ رو رہے تھے۔والدین اپنے اپنے بچوں کو گلے لگا کر مطمئین ہو گئے تھے لیکن جَنا بائی اب تک اپنی بیٹی اور داماد کے ساتھ نواسے کو ڈھونڈھ رہی تھی۔کچھ دیر بعد دو پولس والوں کے درمیان ٹیوشن والے میاں بیوی نکلے۔سب ان کی جانب لپکے۔
”لوناولہ لے جاتے! میں خرچ کرتی تھی نا!!“ جَنا بائی نے دوڑ کر ٹیچر کی ساڑی کا پلّو پکڑ لیا۔ پولس نے اسے چھڑایا۔ ان دونوں کو جیپ میں لے کر چلے گئے۔
پاس ہی میونسپل اسپتال تھا۔
”میں نے اسے پالا ہے... غریبی میں پالا ہے۔ آجّی (نانی)کہاں بولتا ہے مجھے، آئی(ماں) بولتا ہے۔ تجھے..اپنی ماں کو دیدی بولتا ہے۔“
”ہے بھگوان!“کہتے ہوئے کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ جَنا بائی نے پلٹ کردیکھا۔ بیٹی کھڑی رو رہی تھی۔
”تو تو جانتی ہے نا تودو برس کی تھی جب میں تجھے لے کر پالی گاؤں سے یہاں آئی تھی۔ کوئلے کے ٹھیکیدار کاکام سنبھالا،گھرسنبھالا، انھیں کھانا کھلایا۔تو بڑی ہوئی تو بھائی کے بیٹے کو گھر داماد بنایا۔ بچے کو پالا، بڑ کیا۔ کتنا کشٹ کیا تو جانتی ہے نا! اب کیسے جانے دوں گی...!“
”میں نے آنند کو بے ہوش دیکھا ہے۔ اس کے حلق میں انگلیاں ڈال کر چِکنا پدارتھ(مواد) نکال کر پھینکا ہے آئی!اسے تھوڑا سا پانی بھی پلایا ہے۔اس کا جسم گرم تھا۔ وہ مجھے چھوڑکر نہیں جائے گا...کبھی نہیں....!“ آنند کی ماں نے اپنی چیخ روکتے ہوئے سسکی لی۔
جَنا بائی بہت دیر تک چھاتی پیٹ پیٹ کر روتی رہی اور پولس اسٹیشن سے اسپتال اور کبھی اسپتال سے پولس اسٹیشن چکّر لگاتی رہی۔
”یہ بچ جائے گا نا!“ اس نے ڈاکٹر کے آگے ہاتھ جوڑے۔ اس کی نیلی آ نکھیں دھندلا گئی تھیں جنھیں اس نے اپنی روایتی مراٹھی کاشٹا ساڑی کے دا من سے رگڑ ا۔ ڈاکٹرنے اداس اور پُرامیدنظروالی اس خاتون کو دیکھااورجیسے اپنے آپ سے یہ کہتاہوا آگے بڑھ گیا،
”بیس منٹ پہلے پہنچا پاتے..تو....!!“
پولس کے اعلیٰ افسران ٹرانسپورٹ کمپنی کے مالکان، ٹیوشن سر، کچھ مقامی بارسوخ حضرات اور آنند کے والد کے درمیان دیر رات میٹنگ ہوئی۔ ضروری کاغذات پر دستخط کروائے گئے کہ آنند پر دِل کا دورہ پڑا تھا۔
ٹیوشن کلاس بند ہوئے کئی برس ہو گئے۔ اس کے دروازے پر حادثے کے دن سے آج تک ایک کالے رنگ کی دو پٹّی والی چپل لٹک رہی ہے۔یہ چپل جَنا بائی کی تھی جسے آنند پہن کرپکنک گیا تھااورجو مال بردار ٹرک میں رہ گئی تھی۔ ہرر وز صبح ساڑھے سات بجے سے دس بجے تک ہمارے بنگلے کے پچھواڑے والے فلیٹ کے سامنے سیڑھی پرجوڑی کی دوسری چپل ہاتھ میں لیے بیٹھی رہتی ہے، جو آنند کے سامان کے ساتھ گھر آئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے بہت ہی اچھے اور دیرینہ دوست صادق اسد کی ایک خوبصورت اور اعلیٰ لب و لہجے کی جامع غزل
ڈوبتے اور ابھرتے ہیں ، کنارے جائیں
ہم کبھی لب سے ترے بھی تو پکارے جائیں
کچھ صعوبت ہے مقدر ، مگر ایسا بھی کہاں
کیل کانٹوں سے ہمیں روز گذارے جائیں
مقتل عشق سے لوٹا نہیں کوئی پھر بھی
بس یہ حسرت ہے کبھی ہم بھی سنوارے جائیں
اپنے حالات ابھی بھی تو خرابے میں ہیں
کیا کسی اور کے ایسے میں دوارے جائیں
مطمئن دِل یہ کسی طور نہ ہوگا اپنا
چاند سورج بھی اگر گھر میں اتارے جائیں
صادق اسد مالیگاؤں، ناسک ، مہاراشٹر، انڈیا
صادق اسد مالیگاؤں انڈیا ـ
*🛑دیار ادیب مالیگاؤں سیف نیوز ادبی پوسٹ*
*🔴دیارِ ادیب مالیگاؤں*
*🛑دیار ادیب مالیگاؤں سیف نیوز ادبی پوسٹ*
*🔴دیارِ ادیب مالیگاؤں*
*🔴سیف نیوز مالیگاوں کی ادبی پوسٹ پر روانہ ادبی پوسٹ پیش کی جاتی ہے الہذ اپنے افسانے غزلیں، نعت، مضامین وغیرہ ارسال کریں*
* و انتخاب :- *احمد نعیم