موبائل کیمرے نے لوگوں کی زندگی کسی حد تک آسان بنا دی ہے۔ ماضی میں لوگ تصاویر بنوانے کے لیے خاص اہتمام کرتے تھے، تیار ہو کر فوٹو گرافر کے اسٹوڈیو پہنچتے جہاں وہ مہارت سے ان کی تصاویر بناتا تھا۔ اگر کسی نے کہیں سیر کو جانا ہوتا تھا یا پھر کسی فنکشن میں شامل ہونا ہوتا تھا تو کیمرا کرائے پر حاصل کر کے اس میں ریل ڈالوا کر اسے استعمال میں لایا جاتا تھا۔
رفتہ رفتہ ٹیکنالوجی نے ترقی کی اور یادیں موبائل کیمرے میں محفوظ کی جانے لگیں۔ مزید ترقی نے ان رکی ہوئی یادوں کو چلتے ہوئے دکھانے کی کا بندوبست بھی کر دیا، یعنی ویڈیو بھی موبائل سے بننے لگیں۔ اب تو بہت سے پروفیشنل کیمرا کے فنکشنز بھی موبائل کیمرا میں عام ہو چکے ہیں۔ ہر ترقی کے کچھ منفی پہلو بھی ہوتے ہیں۔
مسائل وہاں سے شروع ہوئے جب ہر کسی کی پہنچ میں ویڈیو کیمرا آ جانے کی وجہ سے مناسب یا نامناسب واقعات کی ویڈیوز بننے لگیں۔ پھر یہی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی اپ لوڈ ہو نے لگیں۔ چند لائکس اور لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے چکر میں لوگ دھڑا دھڑ اس قسم کی ویڈیوز اپ لوڈ کرنے لگے۔ اب تو حالت یہ ہو چکی ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی بھی حادثہ، واقعہ یا سانحہ ہو ہم بجائے خبریں سننے یا ان پر فوکس کرنے کے غیر ارادی طور پر اس واقعے کی ویڈیو ڈھونڈنے لگتے ہیں۔
اکثر و بیشتر دیکھنے میں آتا ہے کہ سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز اپ لوڈ کی جاتی ہیں، کہ آئیے دیکھتے ہیں فلاں واقعہ کیسے ہوا، فلاں شخص نے حادثہ کے وقت کیا دیکھا۔ اور اچانک کوئی بھی شخص ویڈیو میں نظر آتا ہے جو پیش آنے والی صورت حال پر رواں تبصرہ کرنے کی کوشش میں ہلکان ہو رہا ہوتا ہے۔ حالاں کہ ایسے وقت میں اس واقعے کی فلم بنانے سے بہتر ہوتا ہے ہم اس کا شکار ہونے والے لوگوں کی مدد کریں۔ یا پھر کسی کو 'بے نقاب‘ کرنے کے چکر میں کیمرا آن کر کے اس کے آٖفس یا گھر میں گھس جاتے ہیں۔ ہم کسی کی بھی تصویر بناتے وقت یا پھر ویڈیو بناتے وقت اخلاقیات بھول جاتے ہیں۔ کسی بھی حادثہ کے وقت ہم ذمہ دار شہری کی طرح پیش نہیں آتے۔