برسہا برس سےعید قرباں اور مدارس کا ایک گہرا تعلق رہا ہے۔ مدارسِ اسلامیہ دینِ اسلام کے نہ صرف مضبوط قلعے ہیں بلکہ دین متین کی بقاء کے ضامن بھی ہیں۔ مدارس اسلامیہ نہ صرف منبع علم ونور ہیں بلکہ بڑی بڑی تحریکوں کے مراکز بھی رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مدارس اسلامیہ ہمیشہ ہی سے دشمنان اسلام کے نشانے پر ہیں۔ مدارس کو بند کرنے کی مسلسل نت نئی سازشیں ہوتی رہی۔ شاید یوپی اور آسام سمیت ہندوستان کے کئی صوبوں میں اب تک سینکڑوں مدارس کا مقفل کردیا جانا نیز کئی مدرسوں پر بلڈوزر کا چلادیا جانا اسی کی علامت ہے۔ مدارس کے سروے کے نام پر مدارس کو ٹارگٹ کیا جانا اور منتظمین مدارس کو ہراساں کیا جانا مدارس میں تعلیم وتعلم میں مصروف معلمین ومتعلمین کو سروے کے نام پر برادران وطن کے سامنے شکوک وشبہات کے دائرے میں لاکھڑا کرنا یہ سب نہ صرف اغیار کی سازشیں ہیں بلکہ حکومت کی تنگ نظری کی واضح نشانیاں ہیں۔ گذشتہ دو برس قبل آسام یوپی بہار سمیت کئی ریاستوں میں تین سو سے زائد ایسے مدرسوں پر تالے ڈال دیے گئے جو حکومتی امداد یافتہ تھے، اور ابھی بھی وہ مدارس جو حکومتی امداد پر چل رہے ہیں ان پر من مانی نصاب تعلیم مسلط کرنے کی ناپاک سازشیں جاری وساری ہیں، اسی سبب ملک ہندوستان میں اکثر مدارس آپ کو ایسے ملیں گے جو حکومتی امداد سے عاری ومبرا ہیں۔ جن کے کل اخراجات کا ذمہ قوم وملت کے مخیران کے کاندھوں پر ہوتا ہےجسےمخیرین بحسن وخوبی انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ سال بھر میں دو مواقع ایسے ہوتے ہیں جو مدارس اسلامیہ کےلیے مالی فراہمی کا خاص ذریعہ ہوتے ہیں ان میں ایک تو *" رمضان المبارک"* کا بابرکت مہینہ اور دوسرا *"عید الاضحٰی"* کا مبارک موقع! ماہ رمضان میں مسلمانان اسلام اپنی زکوٰۃ وصدقات اور دیگر عطیات اور عیدالاضحیٰ کے موقع پر چرم اور دیگر عطیات کے ذریعے اپنے مضبوط قلعوں کے اخراجات میں حصہ لیتے ہیں۔ لیکن ہندوستان میں موجودہ حکومت کی تنگ نظری اور غیرضروری اقدامات کی بناء پر ان دنوں مدارس گہری مالی تنگی سے جوجھ رہے ہیں۔ اولاً تو حکومت کے دو ڈھائی سالہ غیرمنظم لاکڈاون کا راست اثر مدارسِ دینیہ پر ہوا ہے اور دوسے تین رمضان اسی کے نذر ہوئے ہیں جسکی وجہ سے مدارس میں خاطرخواہ مالی حصولیابی نہ ہوپانے کے سبب مدارس مسلسل خسارے کا شکار ہیں۔ دوسرا یہ کہ عیدالاضحیٰ کے موقع پر جو جانور کی چرم (کھال) سے مدارس کی خاصی امداد ہوجاتی تھی وہ گائے اور اسکی نسل کے جانوروں کے ذبیحے پر پابندی کے سبب مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ سال 2014 سے قبل جبکہ رنگین جانوروں کی قربانی پر ممانعت نہیں تھی ہمارے اپنے شہر مالیگاؤں میں اس وقت ان جانوروں کے کھالوں کی قیمت کم وبیش دوہزار روپے فی چرم ہوا کرتی تھی۔ پھر رنگین جانوروں کے ذبیحے پر پابندی لگ جانے کے بعد کالے جانوروں کی کھالوں کی قیمتیں مسلسل گراوٹ کا شکار رہیں حتی کہ گذشتہ دوتین سالوں میں دو سو ڈیڑھ سو سے ہوتے ہوتے اب محض پچاس روپے ہی باقی رہ گئی ہے۔ جانور کی کھالوں کے داموں کا گرجانا بظاہر مدارس اسلامیہ پر ایک بڑا بھاری مرحلہ تھا لیکن سالِ گذشتہ شہر کے تمام مدارس نے حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ متفقہ فیصلہ لیا کہ اب بجائے کھال حاصل کرنے کے مخیرین حضرات سے نقد وصولی کی جائے۔ اسلئے کہ اگر کالے جانور کی کھال لی گئی تو اسے منزل تک پہنچانے کےلیے ٹرالی کا کرایہ پھر اس پر نمک سازی کا خرچ پھر اس کے ایکسپورٹ کے اخراجات وغیرہ اسکی قیمت پر بھاری پڑ جائیں گے اور مدارس بجائے فائدے کے نقصان کی نذر ہوجائیں گے۔ سالِ رواں بھی مدارس دینیہ کو کچھ اسی طرح کے حالات کا سامنا ہے، اوّلاً کھالوں کے بیوپاری بیک وقت ہزاروں کی تعداد میں کھال لینے کےلیے رضامند نہیں ہیں تو وہیں دوسری طرف فی چرم محض پچاس روپے کی آمدنی متوقع ہے جو یقیناً نمک سازی، ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے محنتانے اور ایکسپورٹ کے اخراجات پر حاوی ہے۔
اور یہ بات بھی آپ کے علم میں ہونی چاہیے کہ بجٹ ختم ہوجانے کے سبب کتنے ہی مدارس مقروض ہوچکے ہیں،کتنے ہی مدارس زبوں حالی کا شکار ہیں،کتنے ہی مدارس ہنگامی چندہ کرنے پر مجبور ہیں،کتنے ہی مدرسوں کے معلمین ومدرسین کی کئی کئی مہینوں کے تنخواہیں رکی ہوئیں ہیں، اور کتنے ہی مدرسوں پر تالے ڈال دینے کی نوبت آن پہنچی ہے! معراج فیض آبادی نے کہا تھا
*اپنے کعبے کی حفاظت تمہیں خود کرنی ہے*
*اب ابابیلوں کا لشکر نہیں آنے والا......*
*آئیے!* "عیدالاضحیٰ" کے اس پر مسرت موقع پر ہم عزم کریں کہ اپنے مدارس کی بقاء کی خاطر،دشمنان اسلام کو انھیں کی چالوں میں ناکام کرنے کی خاطر،اپنے مذہب کے مضبوط قلعوں کے تحفظ کی خاطر، حکومتی تنگ نظری کو غلط ثابت کرنے کےلیے، آنے والے وقت میں اسلام ومسلم کے تحفظ کےلیے اور اپنی آنے والی نسلوں کو تعلیمات اسلامی پر منجمد کرنے کےلیے ہم دامے درمے قدمے سخنے ہر ممکن مدارس کا تعاون کریں گے۔ ان شاءاللہ
*ہم مدارس کا تعاون کیسے کریں؟*
(1) ویسے تو ماشاءاللہ تمام صاحبِ نصاب افراد نے اپنی زکوٰۃ ادا کردی ہوگی لیکن اگر رمضان المبارک میں کسی سبب زکوۃ نہ ادا کرسکے ہو تو اپنے زکوٰۃ کے پیسوں کی رسیدیں بنوالیں۔
(2) اپنے صدقات کے ذریعے مدارس کا تعاون کریں اسلئے کہ صدقہ بلاؤں کا ٹالتا ہے۔ اور اللہ ربّ العزت کے غصے کو ٹھنڈا کرتا ہے۔ مسلمانوں پر آئے ہوئے حالات جو کسی بلا سے کمنہیں ہیں شاید اس صدقے کے بدولت ٹل جائیں۔
(3) وہ افراد جن پر قربانی کرنا واجب نہیں ہے وہ بھی اپنے صدقات وعطیات کے ذریعے مدارس کا تعاون کریں۔ اسلئے کہ ایسے افراد کےلیے صدقہ کرنا قربانی کرنے سے افضل ہوگا۔
(4) عیدالاضحی کے اس مبارک موقع پر عطایا کا خوب اہتمام کریں اور اپنے عطیات میں مدارس کا ضرور خیالرکھیں۔ یاد رہے یہعطایا ایک طرح سے خداوند عالم کی جانب سے "اتنی وسعتدیے جانے کہ ہمقربانی جیسے اہم فریضۂ ربانی پر قادر ہوئے" کا شکرانہ ہوگا۔
(5) خوشی کے موقعے پر عام طورپر لوگ اپنے مرحومین کو یاد کرتے ہیں چنانچہ عیدالاضحیٰ کے اس پر مسرت موقع پر اپنے مرحومین کے نام ایصال ثواب کی غرض سے مدارس کی پر رسیدیں بنواکر انھیں سچا خراج عقیدت پیش کریں۔
(6) اگر کسی نے ٢٣ ہزار کا جانور خریدا ہے تو وہ اسے ٢٥ ہزار کا تصور کرے اور دو ہزار روپیے مدارس کےلیے وقف کرے تاکہ ہماری یہ ادنی سی کوشش 2014 سے قبل فروخت شدہ کھالوں کے داموں کے قائم مقام ہوسکے۔
(7) اور اگر اتنی دسترس نہ ہو تو چرم کے بدلے کے طور پر اپنی صوابدید کے مطابق مدارس کا نقد روپیوں سے بھرپور تعاون کریں۔
(8) ہوسکے تو کسی طرح سے جانور کی کھال فروخت کردیں اور ان پیسوں کو اپنے استعمال میں نہ لاتے ہوئے اسکی رسید بنوالیں (ہماری معلومات کے مطابق امسال فرداً فرداً بیچے جانے وہ والی کالے جانور کی کھال کی قیمت پچاس سے سو روپیوں کے درمیان ہونی چاہیے اور دیگر بڑے جانوروں کی اور زیادہ۔۔۔)
(9) جانور کے اندر سے نکلنے والا ایک مخصوص حصہ جسے *سات پُڑی* کہا جاتا ہے (جسے عامطور پر قصائی لوگ لےکر چلے جاتے ہیں) کو فروخت کرکے ان پیسوں کی بھی رسید بنوالیں۔ (واضح ہوکہ اجرت ملنے کے ساتھ قصائی کا سات پُڑی پر کوئی حق نہیں پھر بھی اگر لیکر جاتا ہے تو گناہگار ہوگا۔۔۔ سالِ رواں سات پڑی کے بھی کم وبیش دو ڈھائی سو روپیوں میں فروخت ہونے کا امکان ہے)
(10) سات پڑی ہی کی طرح جانور کی منڈی اور دیگر جو بھی چیزیں فروخت ہوسکتی ہو تھوڑا بھاگ دوڑ کرکے اسے فروخت کریں اور ان سے حاصل شدہ پیسوں کو راست مدارسِ دینیہ تک پہنچا کر ان کے حق ادا کرنے کی سعی پیہم کریں۔
*تلك عشرة كاملة* یہ دس ترکیبیں ہیں جو مدارس کے تعاون کے طریقۂ کار کے طور پر راقم کے ذہن میں تھیں۔ اسکے علاوہ بھی مزید راستے ہوسکتے ہیں مدارس کے تعاون کے سلسلے میں جسے آپ مَن جَدَّ وَجَدَ (حدیث) کے بمصداق ازخود تلاش کرسکتے ہیں۔ اللہ ربّ العزت ہم سب کو اپنے دین کے مضبوط قلعوں کے تحفظ کی خاطر ان کی مالی اعانت میں شریک ہونے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین