شکیل رشید ( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
وزیراعظم نریندر مودی کا دورۂ امریکہ ، ہندوستانی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق ، شان و شوکت سے شروع ہو گیا ہے ۔ وزیراعظم کا وہاں زبردست استقبال تو ہوا ہی ہے ، ساتھ ہی وہاں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں انھوں نے ’ یوگا ڈے ‘ بھی منایا ہے ، اور اس طرح ، ساری دنیا کو نہ سہی ، اپنے عقیدت مندوں کو یہ کہنے کا ایک سنہرا موقعہ تو فراہم ہی کردیا ہے کہ ، بھارت ’ وشو گرو ‘ ہے ، یا مودی جی نے بھارت کو ’ وشو گرو ‘ بنا دیا ہے ۔ انھوں نے ’ وہاں سے ’ یوگا ڈے ‘ پر ، یہ پیغام بھی دیا ہے کہ ’ یوگا کا عمل آفاقی ہے ۔ ‘ یقیناً ’ یوگا کا عمل آفاقی ہے ‘ لیکن ایک آفاقی پیغام مزید ہے ، جسے سارے بھارتی سننا چاہتے ہیں ، ’ مذہبی عدمِ برداشت کے خاتمے ‘ اور ’ امن و آشتی کی برقراری ‘ کا پیغام ۔ کیا یہ پیغام کبھی مودی جی کی زبان سے نکلے گا ؟ یہ سوال امریکہ میں بھی اٹھ رہا ہے ، بلکہ امریکہ میں پی ایم پر ’ حقوقِ انسانی ‘ کی پامالی کا الزام تک لگ گیا ہے ۔ امریکی صدر جو بیڈن کو ان کی ’ ڈیموکریٹک پارٹی ‘ کے ۷۵ ساتھی سینیٹروں یعنی ارکانِ پارلیمنٹ نے ، ایک مکتوب بھیج کر یہ درخواست کی ہے کہ ، جب آپ ہندوستانی پی ایم سے گفتگو کریں تو ہندوستان کے ’ تشویش ناک حالات ‘ پر بھی بات کریں ۔ سینیٹروں کی ’ تشویش ناک حالات ‘ سے مُراد ’ انسانی حقوق کا مسٔلہ ‘ ہے ۔ سینیٹروں نے ہندوستان میں مذہبی عدمِ برداشت ، آزادیٔ صحافت پر شکنجہ ، انٹرنیٹ پر پابندی ، اور حقوقِ انسانی کی تنظیموں اور صحافیوں کو نشانہ بنانے کی خبروں پر تشویش کا اظہار کیا ہے ، اور اِن کی جانب صدر امریکہ کی توجہ مبذول کرائی ہے ۔ ارکان پارلیمنٹ نے بہت صاف لفظوں میں کہا ہے کہ ’ اِن مسائل کو پی ایم مودی کے سامنے نمایاں طور پر رکھنا چاہیے اور اُن سے اِن مسائل پر کھل کر بات کی جانی چاہیے ۔ اور یہ بات اس لیے کی جانی چاہیے کہ ، صدر جو بیڈن نے اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد تکثیریت پر رکھی ہے ، مذہبی آزادی اور آزادیٔ صحافت کو مقدم رکھا ہے ۔‘ امریکی قانون سازوں نے خیر پی ایم مودی پر کسی طرح کا الزام نہیں لگایا ہے ، بلکہ انھوں نے یہ کہا ہے کہ پی ایم کا شایانِ شان استقبال کیا جانا چاہیے ، لیکن دونوں ملکوں کے درمیان جو تعلقات ہیں ، ان کی مزیدمضبوطی کے لیے ان کے سامنے ’ بھارت کے تشویش ناک مسائل ‘ رکھنا ضروری ہیں ۔ یہ تو رہی سینیٹروں کی بات ، لیکن اِن سے ہٹ کر نیویارک سٹی اسمبلی اور کونسل کے جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے تین ارکان نے پی ایم مودی کے خلاف سخت کلمات ادا کیے ہیں ، اور نیویارک میں مودی کی آمد پر شدید طیش کا اظہار کیا ہے ۔ تین ارکان میں زہران ممدانی ، شیکھر شیکھر کرشنن اور شاہانہ حنیف شامل ہیں ۔ اِن تینوں نے پی ایم مودی پر ’ حقوقِ انسانی کی پامالی ‘ کا الزام بھی لگایا ہے ۔ تینوں نے کھل کر پی ایم مودی پر ،گجرات میں 2002 میں ہوئے مسلم کش فساد کرانے کا الزام عاید کیا اور کہا کہ ایک وزیراعظم کے طور پر مودی نے احتجاجیوں اور مظاہرین کو سلاخوں کے پیچھے ڈالا اور صحافیوں کو نشانے پر لیا ہے ۔ جہاں تک سینیٹروں کی درخواست پر عمل کا سوال ہے ، تو وائٹ ہاؤس سے یہ اعلان آگیا ہے کہ صدر جو بیڈن ہندوستان کے وزیراعظم کو ’ انسانی حقوق کے معاملات پر کوئی لیکچر نہیں دیں گے ۔‘ لیکن یہ تو ہے کہ امریکہ میں پی ایم مودی کے دورے کے موقعہ پر اُن معاملات کو اٹھایا جا رہا ہے ، اور آگے بھی اٹھایا جا سکتا ہے ، مودی جن معاملات کو دباتے رہے ہیں ، جیسے کہ گجرات فسادات ۔ سچ یہ ہے کہ گجرات کے فسادات مودی جی کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے ہیں ۔ آسٹریلیا کے دورے پر بھی یہ معاملہ اٹھا تھا ، بلکہ وہاں بی بی سی کی گجرات فسادات کی وہ ڈاکیومینٹری بھی ، جس پر ہندوستان میں پابندی لگا دی گئی ہے ، دکھائی گئی تھی ، خیر ابھی امریکہ میں وہ ڈاکیومینٹری دکھانے کی نوبت نہیں آئی ہے ، لیکن گجرات فسادات کا معاملہ اٹھا کر مودی پر سوالیہ نشان لگانے کی کوشش تو ہو ہی گئی ہے ۔ یہ جو سوالات اٹھ رہے ہیں کیا ان کا دفاع کیا جا سکتا ہے ؟ اس سوال کا جواب مودی حکومت شاید نہ دے سکے ، لیکن وہ اتنا تو کر ہی سکتی ہے کہ ، انسانی حقوق کی پامالیوں کو روک دے ، مذہبی عدم ِ تشدد پر قدغن لگائے ، صحافیوں کو نشانہ نہ بنائے اور ملک میں تکثیریت کی قدر کرے ۔ اگر یہ سب کرلیا تو اس ملک کی حکومت اور پی ایم پر انگلیاں اٹھنا بند ہو سکتی ہیں ۔
عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ 148
"درندہ"
افسانہ نگار۔۔ عبدالرحمن اختر
مالیگاؤں مہاراشٹر انڈیا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سورج اپنی دن بھر کی تھکی ماندی کرنوں کو سمیٹ کر غروب ہو رہا تھا.پرندے اپنے آشیانوں کو لوٹ رہے تھے. نیلے آسمان پر شام کا سرمئی رنگ پھیلتا جا رہا تھا.گھروں میں موجود برقی قمقمے روشن ہونے لگے تھے. مگر رام داس کا مکان ویران پڑا تھا.
رام داس... عجیب آدمی تھا، سماج کا ستایا ہوا آدمی، اس کے چڑچڑے پن کی وجہ سے اس کے پڑوسی اس سے کٹے کٹے سے رہتے تھے اور اس کی کند ذہنی نے تو اسے کہیں کا نہ رکھا تھا.اسے کوئی اپنے یہاں کام پر نہیں رکھتا تھا اور یہی اسباب تھے کہ اس کی بیوی اکثر اس سے لڑا کرتی تھی، اسی حجت بک بک سے زندگی کی گاڑی چلتی رہی. جوں توں کچھ سال گزر گئے مگر آخر کار اسکی بیوی روز روز کی تک تک سے تنگ آکر اپنے اوپر کروسین ڈال کر خود خوشی کرلی تھی تب تو تقریباً تمام لوگوں نے ہی اس کا بائیکاٹ کردیا تھا. صرف ایک ڈیسوزا ہی تھا جو اس سے کبھی کبھی بات چیت کر لیا کرتا تھا.
ڈیسوزا، رام داس کا پڑوسی ایک ہنس مکھ ملنسار شخصیت کا مالک تھا.
اس شام رام داس اپنے دروازے سے دایاں کاندھا لگائے آنکھوں میں وحشت لئے کھڑا ہوا ڈیسوزا کے گھر کی طرف ٹک ٹکی باندھے دیکھ رہا تھا. اس کے ڈاڑھی کے بال بڑھے ہوئے تھے لباس بے ترتیب گرد آلود اور سَر کے بال بکھرے ہوئے تھے.
ڈیسوزا کے گھر کے لان میں اس کا پیارا کتّا ٹامی ایک بڑی سی گیند سے کھیل رہا تھا اور ڈیسوزا اسے بڑے انہماک سے مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا. اچانک ہی رام داس نےاپنے دروازے پر کھڑے کھڑے ٹامی کو آواز دی.
”کم ہیئر.....ہے ..... ٹامی.... کم ہیئر.“
اسکی آواز سن کر ڈیسوزا نے کھڑکی سے باہر دیکھا کہ ٹامی گیند کو چھوڑ کر رام داس کی طرف جا رہا ہے. اسے اس وقت بڑی حیرت ہو رہی تھی وہ سوچ رہا تھا.؛ رام داس تو ٹامی سے بہت نفرت کرتا ہے تو پھر اس نے ٹامی کو کیوں بلایا.؟ رامداس کی اس حرکت سے ڈیسوزا کو ایک ماہ قبل کا واقعہ یاد آگیا.
وہ شام کا خوشگوار ماحول تھا. فرحت بخش ہَوائیں چل رہی تھیں. ڈیسوزا اپنے گھر کے صحن میں بیٹھا ہوا اخبار پڑھ رہا تھا پاس ہی رام داس کی تین سالہ بیٹی شالنی اور ٹامی کھیل رہے تھے. ٹامی شالنی کے فراک کو منہ میں دابے اسے کھینچ رہا تھا اور شالنی کھلکھلا کر ہنس رہی تھی تب اچانک ہی رام داس چیختا ہوا آیا اور پاس پڑی ہوئی لکڑی اٹھا کر ٹامی کے پیٹ میں زور سے مار دی ٹامی دبی دبی سی آواز میں کیاؤں کیاؤں چیختا ہوا ایک طرف بھاگ گیا. رام داس نے اپنی بیٹی کو گود میں اٹھایا اور ڈیسوزا کے پاس پہنچ کر غرّاتے ہوئے بولا.
”ڈیسوزا تم اپنے وحشی جانور کو باندھ رکھا کرو.ورنہ کسی دن میں سے گولی مار دونگا.“
ڈیسوزا اس کی طرف حیرت سے دیکھتا رہا پھر اس کے خاموش ہوتے ہی نرمی سے کہا.
”سنو رام داس....! شالنی میری بیٹی کی طرح ہے........ وہ دن بھر اکیلے ہی رہتی ہے. ٹامی کے ساتھ تھوڑا وقت رہ کر اس کا دل بہل جاتا ہے. اور تم تو جانتے ہی ہو کہ تمہارے مزاج کی وجہ سے کوئی بھی اس کے ساتھ نہیں کھیلتا.“اسکی بات سنتے ہی رام داس نے منہ بگاڑتے ہوئے کہا.
”تمہیں میری ذات پر حملہ کرنے کا کوئی حق نہیں.... تم پڑوسی ہو پڑوسی کی طرح رہو. میں جیسا بھی ہوں ٹھیک ہوں. بہر حال تم اپنے ٹامی کو قابو میں رکھو اس سے میری شالنی کو نقصان نہیں پہنچنا چاہئے ورنہ... میں بےقابو ہو جاؤنگا سمجھے.......؟“
اس واقعہ کے بعد شالنی ایکبار بھی ٹامی کے ساتھ کھیلنے کے لیئے نہیں آئی تھی. جسکی وجہ سے ڈیسوزا اکثر سوچا کرتا تھا‘ شالنی بن ماں کی بچی ہے پتہ نہیں کس حال میں ہو کہیں رام داس نے اس پر ظلم نہ کیا ہو.... یا ہوسکتا ہے..... وہ بیمار پڑگئی ہو.....،
کتے کے بھونکنے پر اسکے خیالات بکھر گئے اور وہ چونک کر رام داس کے گھر کی طرف دیکھنے لگا.
وہاں پر ٹامی منہ اٹھائے گھر میں دیکھ رہا تھا‘ شاید وہ شالنی کو دیکھ رہا ہے.' اچانک وہ پھر بھونکنے لگا رام داس کی آنکھیں چمک اٹھیں اور وہ بڑے پیار سے ٹامی کی گردن کو سہلاتا ہوا اندر لے کر چلا گیا.
ڈیسوزا مسکرا کر انہیں دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا. ”آخر کار ٹامی کے تئیں رام داس کا دل نرم ہوہی گیا اسی لیئے تو وہ اسے اندر لے کر گیا ہے تاکہ وہ شالنی کے ساتھ کھیل سکے.“ ڈیسوزا کا دل بھی شالنی کو دیکھنے کے لیئے مچل اُٹھا اور وہ اپنے گھر سے نکل کر رام داس کے دروازہ پر پہنچ گیا.
پائیری پر قدم رکھتے ہی اسکے نتھنوں سے ناگوار بُو ٹکرائی وہ تھوڑا سا ہچکچایا پھر ناک پر ہاتھ رکھتے ہوئے آگے بڑھ گیا.
ڈرائنگ روم کا تمام سامان بکھرا ہوا ہے. فرش بھی گرد آلود ہے جا بجا مکڑی کے جالے لگے ہوئے ہیں.
”بیوی کے گزرنے کے بعد تو رام داس اور بھی لاپرواہ ہو گیا ہے. پتہ نہیں شالنی کا مستقبل سنوار پائے گا یا نہیں...؟“
ڈیسوزا رامداس کو کوستا ہوا بیڈروم کی طرف بڑھ گیا. بیڈروم میں قدم رکھتے ہی اس کا پورا وجود لرز گیا. اس نے دیکھا روم میں ملگجا اجالا پھیلا ہوا ہے پورے کمرے میں ابتری پھیلی ہوئی ہے بدبو کے بھپکے سے دم گھٹتا ہوامحسوس ہو رہا ہے مگر....!! رام داس کمرے کے وسط میں بیٹھا ہوا ہے اور ٹامی کی ایک ٹانگ کو اپنے تیز دانتوں سے نوچ رہا ہے ٹامی پاس ہی پڑا ہوا ہے اسکا سر پھٹا ہے اور منہ کپڑے سے بندھا ہوا ہے. رامداس کے چہرے پر درندگی چھائی ہوئی ہے.اس کے دانت خون آلود ہیں اور ہونٹ کے کناروں سے تازہ تازہ خون بہہ رہا ہے.اس کے عقب میں ایک چھوٹاانسانی پِنجر پڑا ہوا ہے.
یہ سارے مناظر دیکھ کر اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا اسے پورا کمرہ اپنے گرد گھومتا محسوس ہوا. وہ اپنے سر کو دونوں ہاتوں سے پکڑ کر تھوڑی دیر ڈگمگایا اور پھر زمین پر آرہا......
ڈیسوزا کو فرش پر بےسدھ پڑا ہوا دیکھ کر رام داس نے درندگی سے بھرپور قہقہ لگایا اور ٹامی کی ٹانگ کو چھوڑ کر دھیرے دھیرے اس کی طرف بڑھنے لگاـ
کہیں جلائے گئے اور کہیں بجھاے گئے
عجیب طرز سے ہم لوگ آزمائے گئے
ہمارے غم کا مداوا کسی کے پاس نہ تھا
ہمارے نام پہ آنسو بہت بہائے گئے
فقط ہم ہی نہیں یہ بات سارے جانتے ہیں
اندھیرے کیسے کہاں روشنی بناے گئے
وہ آسمان کو چھونے کی بات کرتے ہیں
زمیں پہ پاؤں بھی جن سے نہیں جماے گئے
ہمیں بھی لوگ بُھلا دیں گے ایک دن شہزاؔد
ہمارے جیسے یہاں کتنے لوگ آے گئے
متین شہزاؔد
_________:_______
غزل
امامت کی فضیلت کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
وفا کی قدر و قیمت کونہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
بتا کس کی شرارت تھی ہمارا گھر جلانے میں
ہواؤں کی شرارت کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
یقیں تجھ کو ہے ہم کو بھی خدا کی ذات پر یارو
مگر اس کی عدالت کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
ہماری پیٹھ پر خنجر وہ مارے گا یقیں نہ تھا
حریفوں کی سیاست کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
ہمیشہ تلخ لہجے میں ہی کی ہے گفتگو ہم نے
کبھی بھی ماں کی عظمت کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
امیر شہر کی عزت ہی عزت ہے فقط یارو
کسی مفلس کی عزت کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
سکون دل میسر کس طرح ہوگا کبھی سوچا
یتیموں کی ضرورت کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
چلو دلکش معافی مانگتے ہیں ہم خطاؤں کی
شریفوں کی شرافت کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
مصطفٰی دلکش ممبئی مہاراشٹر انڈیا