کا یہ سفر دو برس پورے کرنے والا ہے، اور اس بات کی خوشی ہے کہ پہلے ہی دن سے اس کے قاریوں میں شامل ہونے کے علاوہ میری تحریروں کو بھی یہ رسالہ رونق بخشتا رہا ہے، جناب صادق اسد صاحب اور بڑے بھائی کی طرح محترم اطہر کلیم کی کوشش یقینا سراہے جانے کے لائق اور قابل تحسین ہے، جو اس کی ذمہ داریوں کو بحسن خوبی انجام دے کر تسکین ذوق کا سامان پیدا کررہے ہیں، اس رسالہ میں موضوعات کا تنوع تو ہوتا ہی ہے لیکن خاص بات جو ہمیشہ ہمیں متاثر کرتی آئی ہے وہ ہے سرورق کی انفرادیت اور تحریروں کے موضوعات سے متعلق دلکش تصاویر کا انتخاب اور عمدہ ڈیزائنگ، جو نگاہوں کے سامنے آتے ہی دل ودماغ پر اپنی چھاپ چھوڑ جاتی ہے، جس طرح اطہر کلیم صاحب اس کے سرورق کو بہتر اور منفرد بنانے پر توجہ کرتے ہیں میرا خیال ہے یہ چیز اور نیا پن کسی دوسرے رسالہ میں دیکھنے کو نہیں ملے گا۔
ماہنامہ اقراء کے جون کا شمارہ اپنی تمام تر رعنائیوں اور دیدہ زیب سرورق کے ساتھ ہمیشہ کی طرح وقت پر موصول ہوا، اور جھٹ موبائل اسکرین پر روشن بھی ہوگیا، اداریہ کے بعد سب سے پہلے جبین نازاں کی تحریر نظر نواز ہوئی، یہ ایک ایسے شخص کی کہانی تھی جو نوجوانی کے جوش میں والدین کے جذبات کا خون کرتا ہے اور پھر وہی چیز اس کی موت کا سبب بن جاتی ہے، جو موجودہ دور میں پیش آمدہ ان حالات اور جذبات میں لئے گئے ان فیصلوں پر چوٹ کرتی ہے جن کا نتیجہ پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ہوتا، البتہ اس کو زبان وبیان کی ہلکی سی توجہ سے مزید خوبصورت بنایا جاسکتا تھا، محمد علی صدیقی نے اپنی تحریر "غافل" سے حقیقت کو پیش کیا ہے، "کرونا راج" ایک بہترین اور عمدہ مضمون لگا جس میں کرونا راج کی ایک نئی تصویر پیش کی گئی ہے، "آخری عدالت" کے عنوان سے مرزا صہیب اکرام نے ایک اچھا افسانہ لکھا ہے، موسم کے لحاظ سے آم پر لکھا گیا "سر بہ مہر گلاس" از محمد مصعب ایک خوبصورت مضمون ہے جس میں علامہ اقبال اور غالب کے لطیفے بھی شامل ہیں، اس مضمون کو پڑھتے ہوئے خیال گزرا کہ اگر سہیل کاکوروی کے "آم نامہ" سے بھی چند اشعار اس میں شامل کردئیے جاتے تو لطف ہی آجاتا، صادق اسد صاحب کا لکھا افسانہ "بالیاں" موجودہ حالات و حادثات کے پس منظر میں ایک بہترین تخلیق ہے جس میں کورونا اور اس کی مہاماری سے پیش آنے والے واقعات جو مسلسل دیکھنے میں آرہے ہیں اور ان کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے سے متعلق ایک دلسوز واقعہ کی بہت سلیقے سے تصویر اتاری ہے کہ دل سے بے ساختہ آہ نکل کر فضا میں تحلیل ہوجاتی ہے، حذیفہ اشرف عاصمی کی تحریر بعنوان "باپ سراں دے تاج" خوبصورت مضمون ہے جیسا کہ سرخی سے ہی ظاہر ہے، "الف سے الہ آباد" سے صرف نظر اقراء کے گوشہء خاص کی طرف آتے ہیں جس میں "مرزا اظفری" جو کہ ایک شاعر تھے اور فارسی ترکی و اردو میں شعر کہا کرتے تھے پر مفصل معلوماتی مضمون ہے جسے پڑھ کر مرزا اظفری کے حالات زندگی اور ادبی خدمات سے مقدور بھر واقفیت ہوجاتی ہے، اسرا رحمن کی تحریر "سپنوں کی دنیا" کتابوں اور کتب عاشقوں کے حوالے سے ایک لاجواب تحریر ہے جس میں مضمون نگار نے ایک خیالی خواب کے ذریعہ اپنی کتاب عاشقی کا ذکر
کیا ہے، آخر میں "سسکتی ممتا" کے عنوان سے رخسانہ نازنین صاحبہ کا افسانہ ہے جس میں اپنی اولاد کے تئیں ماں کی محبت اور اس کی قربانی کا ذکر کرتے ہوئے بچوں کی والدین سے بے اعتنائی کا شکوہ کیا گیا ہے جو کہ بجا ہے اور حقیقت بھی، اس کے علاوہ رسالہ میں امیر الدین امیر، فیصل عادل، اور تحسین رضوی کی غزلیں بھی شامل ہیں اور سابقہ روایت کی طرح گوشہ قارئین بھی اپنی دلچسپی کے ساتھ موجود ہے۔
امید کرتے ہیں کہ اقراء کا یہ سفر اپنی تمام خوبیوں کے ساتھ یوں ہی جاری رہے گا اور جلد ہی موبائل کی اسکرین سے نکل کر ہمارے ہاتھوں میں ہوگا جس کا ہمیں بے صبری سے انتظار ہے، اردو کے تئیں آپ لوگوں کی یہ خدمت تعریف کی مستحق ہے، اللہ عزوجل اس کو مزید کامیاب بنائے، آمین۔
نیک خواہشات۔
ایس ایم حسینی
ندوہ کیمپس، ڈالی گنج، لکھنؤ۔
افسانہ
گھونگھٹ
ھارون اختر ⚫
کمبھ کے میلے میں پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا
یہ پہلا اتفاق تھا
کسی کے سمجھ میں نہیں آرہا تھا یہ کیسے ہوا اور کیا ہوا ؟
زمین پھٹی تھی یا پھر کوئی دھماکہ ہوا تھا
ہر طرف لاشیں تھیں افرا تفری کا ایک عجیب سا ماحول تھا روتے بلکتے بچے چیختی انسانیت
ہر کوئی بھاگ رہا تھا ادھر سے ادھر
کمبھ کے اس میلے میں ٹھاکر صاحب کا خاندان بھی شریک تھا
ٹھاکر صاحب کی حالت قابل دید تھی انکے سامنے انکے دونوں بیٹوں کی لاشیں تھیں
وہ اپنی بہوؤں کے لے پریشان تھے ان کے سامنے آٹھ لاشیں تھیں
لیکن ! وہ اپنی بہوؤں کو کیسے پہچانے ؟
وہ جب بھی انکے سامنے آتی چہرہ گھونگھٹ کی آڑ میں ہوتا آٹھوں لاشیں دلہن کے سرخ لباس میں تھیں وہ سوچ رہے تھے اور پھر ٹھا کر صاحب کچھ سوچ کر لاشوں کے پیروں کو دیکھنے لگے ایک لاش کے پاس رک کر کہا
یہ میری چھوٹی بہو ہے
یہ جب بھی میرے سامنے آتی چہرہ پر گھونگھٹ ڈال کر آتی میری نظر اس کے پیروں پر جاتی اس کے دائیں پاؤں کی ایک چھوٹی انگلی کم تھی
یہی ہے میری چھوٹی بہو
اب ٹھاکر صاحب اپنی بڑی بہو کے لئے فکر مند ہوگئے وہ جب بھی آتی چہرہ پر گھونگھٹ ڈال کر آتی اور پاؤں ساڑی کی قید میں ہوتا
وہ اپنی سوچ کے گھوڑے دوڑا رہے تھے اچانک اکی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں لیکن دوسرے ہی پل انکے چہرے پر مایوسی تھی
وہ سوچ رہے تھے اپنی بہو کی پہچان بتاؤ کہ نہیں بتاؤ ؟
پھر ٹھاکر صاحب نے وہاں موجود سادھوؤں سے کہا
میں اسے بھی پہچان سکتا ہوں ہاں پہچان سکتا ہوں !
در اصل بات یہ ہے کہ ؟،
کیا بات ہے ٹھاکر صاحب ؟
میری بہو کی چھاتی پر ایک بڑا سا کالا تل ہے
سادھوں نے حیرت سے کہا
"ٹھاکر صاحب یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟
ٹھاکر صاحب نے اپنی بات جاری رکھتے ہوے کہا ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے
وہ میرے لئے چائے لیکر آئی
چائے سامنے ٹیبل پر چائے رکھنے کیلئے جب وہ تھوڑا سا جھکی تب میں نے وہ کالا تل دیکھ لیا تھا
🔴
غزل
انیس اظہر
مری قسمت میں یہی دام و درم ہو آمین
"دل کو ہر روز عطا نعمتِ غم ہو آمین"
جب ہنسے دنیا ، ہنسی اس کی دوامی ٹھہرے
کوئی روۓ تو مری آنکھ بھی نم ہو آمین
منزلِ شوق طلب ہوں تو سفر یاب رہوں
درد سے صبر کی میعاد نہ کم ہو آمین
لاکھ کانٹے مری راہوں میں بچھاۓ جائیں
مرے ہاتھوں میں محبت کا عَلَم ہو آمین
مرے کمرے کی ہر اک چیز ہو پھر دھول بکف
اتنی شدت سے تری یادوں کا رم ہو آمین
یوں چلے بادِ صبا میرے خرابے کی طرف
تیری خوشبو مری سانسوں سے بہم ہو آمین
رات کے پچھلے پہر چاپ سنی ہے جس کی
کاش اے کاش وہ تیرا ہی قدم ہو آمین
صورتِ وصل کسی طور تو نکلے اظہرؔ
آسمانوں میں زمیں کیسے بھی ضم ہو آمین
انیس اظہرؔ ،
غزل ھاجرہ نور زریاب
اکولہ
امورِ زیست میں الجھے ہوئے ہیں ہم دونوں
سفر یہ کیسا کہ ٹھہرے ہوئے ہیں ہم دونوں
کہا تھا ساتھ نہ دو میرا حق پرستی میں
سو آج دار پہ لٹکے ہوئے ہیں ہم دونوں
سفر پہ جانے سے پہلے دعا نہیں مانگی
وہی ہوا ہے نا، بھٹکے ہوئے ہیں ہم دونوں
کہانی عشق کی پھیلی ہے خوشبوؤں کی طرح
ورق ورق یہاں بکھرے ہوئے ہیں ہم دونوں
کسی بھی طرح نہیں آنکھ لگ رہی زریاب
شکستہ خواب کے ٹکڑے ہوئے ہیں ہم دونوں