اتواریہ ؍ شکیل رشید
اگر آپ اپنے بچے کو اعلیٰ تعلیم دلوانا چاہتے ہیں ، یا اعلیٰ نہ سہی ، بچے کے لیے قدرے بہتر تعلیم کا سپنا دیکھ رہے ہیں ، لیکن جیب خالی ہے ، اس لیے یہ سپنا پورا نہیں ہو رہا ہے ، تو سب کچھ کریں مگر مسلم جماعتوں ، تنظیموں اور این جی اوز کے آگے ہاتھ نہ پھیلائیں ، کیونکہ ہاتھ پھیلانے پر یا تو شرمندگی ہاتھ آئے گی یا ذلیل ہونا پڑے گا ! پہلے ایک واقعہ سن لیں ؛ بچے کا نام عمار ہے ، اس نے ۹۴ فیصد نمبرات حاصل کیے ہیں ، لیکن چونکہ غریب ہے ، اس لیے اُس نے اور اس کے والد نے ایک مسلم جماعت سے اسکالر شپ کی درخواست کی ، اسے اسکالر شپ نہیں دی گئی ، کوئی بہانہ بنا دیا گیا ، اس نے مزید مسلم تنظیموں اور این جی اوز سے درخواست کی مگر کسی نے بھی اس کی درخواست قبول نہیں کی ، کئی جگہ یہ کہہ کر شرمندہ کیا گیا کہ جب پیسے نہیں ہیں تو پڑھانے کی کیا ضرورت ہے ! مایوس ہوکر اُس نے ایک ہندو فلاحی ادارے سے رابطہ قائم کیا ، اور اُسے وہاں سے اسکالر شپ مِل گئی ! آج وہ انجیرنگ کے تیسرے سال میں ہے ، اب وہ تیسرے سال کی فیس کے لیے بھاگ دوڑ کر رہا ہے ۔ ایسے واقعات کا میرے پاس ڈھیر لگا ہوا ہے ۔ مسلم جماعتیں ، تنظیمیں اور مسلم این جی اوز سب کی سب ایک ہی حمام میں ننگی نظر آتی ہیں ۔ ایک واقعہ مزید جان لیں ؛ ایک مسلم بچی کو غیر ملک میں اعلیٰ تعلیم کے لیے وہاں کی یونیورسٹی نے اسکالر شپ دی ہے ، لیکن اُس یونیورسٹی میں جانے سے قبل اس کے اہلِ خانہ کے لیے یہ لازمی ہے کہ وہ بینک میں سترہ لاکھ روپیے ’ جمع ‘ دکھائیں ، اور یہ رقم بھی ’ فریز ‘ نہیں ہوگی بچی کے یونیورسٹی پہنچنے کے بعد اس رقم کو نکالا جا سکے گا ۔ والدین اور بچی کا نانا پریشان ہے کہ کہیں سے کچھ رقم کوئی دے دے ، بھلے اس رقم کی واپسی پر زیادہ لے لے ، لیکن کوئی امیر قوم ، جماعت یا تنظیم ایسی نہیں جس کے کان پر جوں رینگی ہو ، چند دوستوں نے کچھ رقم کا انتظام کیا ہے ، دیکھیے کیا ہوتا ہے ! حیرت تو یہ ہے کہ مسلم قوم کے امراء بھی کسی کی مدد کو تیار نہیں رہتے ۔ بار بار یہ کہا جاتا ہے ، اور کہنے والے اکثر جماعتوں ، تنظیموں اور این جی اوز کے ’ قائدین ‘ اور امراء ہی ہوتے ہیں کہ مسلمان بس اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائیں ۔ سوال یہ ہے کہ مسلمان کیسے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلو سکتے ہیں ، ان کی جیبیں خالی ہوتی ہیں اور کوئی ان کی مدد کے لیے راضی نہیں ہوتا ہے ۔ بے شک مسلمان اگر آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو نوجوان نسل کے لیے اعلیٰ تعلیم ضروری ہے ، تعلیم آگے بڑھنے کے لیے میدان کو وسیع کرتی ہے ۔ مگر یہ ’ قائدین ‘ زبانی کہہ تو دیتے ہیں کہ مسلمان اعلیٰ تعلیم حاصل کریں ، تعلیم دلوانے کے لیے کوئی انتظام نہیں کرتے ۔ ایک مسٔلہ مسلم بچیوں کے ارتداد کا ہے ، کہا جاتا ہے کہ یہ مسٔلہ مخلوط تعلیمی اداروں میں جانے کے سبب پیدا ہوا ہے ، سوال یہ ہے کہ وہ افراد جو مسلم بچیوں کے ارتداد کے غم میں دبلے ہوئے جا رہے ہیں ، انھوں نے اس کے سدباب کے لیے کیا کوششیں کی ہیں ؟ کیا کسی جماعت ، تنظیم ، این جی او یا مسلمانوں کے دھنّا سیٹھوں نے خود اپنے تعلیمی ادارے بنا کر اس مسٔلے کے حل کی کوئی کوشش کی ہے ؟ مسلم سیاست دانوں نے ، جنہوں نےکروڑوں روپیے کما رکھے ہیں ، کبھی کوشش یا فکر کی کہ اپنے تعلیمی ادارے کھولیں ؟ اکّا دکّا ہی نے کوشش کی ہوگی ، باقی بس گفتار کے غازی بنے ہوئے ہیں ۔ مجھے خوب یاد ہے کہ بچپن میں بہت سی انجمنیں تھیں جو غریب بچوں کی تعلیمی امداد کرتی تھیں ، اب نہ وہ پہلے جیسے لوگ ہیں اور نہ ہی انجمنوں کو چلانے والے پہلے جیسے مخلص ہیں ، اس لیے سب ’ گڑ بڑ ‘ ہے ۔ جمعیتہ علماء اور جماعت اسلامی جیسی جماعتیں اسکالر شپ دینے کے دعوے کرتی تو ہیں لیکن حقدار عموماً محروم رہتے ہیں ۔ کئی جگہ امداد ’ اپنوں ‘ کو دی جاتی ہے ۔ کوئی ایسا نظام بنایا جانا ضروری ہے جس میں تعلیم کے حصول کی خواہش رکھنے والے غریب بچے امداد سے محروم نہ ہو سکیں ۔ کیا ہماری جماعتیں ، تنظیمیں ، این جی اوز اور ہماری دولت مند شخصیات اس جانب توجہ دیں گی ؟