اتواریہ ، شکیل رشید
نہ عید الاضحیٰ ایک بار کا تہوار ہے ، اور نہ ہی قربانی کا حکم کسی ایک سال کے لیے مخصوص ہے ، عید الاضحیٰ کا تہوار اور اس موقعہ پر قربانی کی ادائیگی کا عمل ، یہ دونوں تو ہمیشہ کے لیے ہیں ، اور لوگوں کی زندگیوں میں بار بار آتے رہیں گے ۔ تو یہ کیوں ہر سال قربانی کے لیے لائے جانے والے جانوروں کا مسٔلہ ایک ہی بار میں حل نہیں کر دیا جاتا ، کیوں ہر سال عید الاضحیٰ کے موقعے پر مسلمانوں کو پریشان کرنے کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ، اور کبھی ضوابط کے نام پر ، تو کبھی کسی کی شکایت پر ، تو کبھی گئو رکشھکوں کے زور پر ، اُن افراد کو ، جو باہر سے بکروں اور پاڑوں کو لاتے ہیں ، پریشان کیا جاتا ہے ، کیوں مستقل ٖضابطے نہیں بنا دیے جاتے تاکہ پھر کبھی اس ضمن میں کوئی مسٔلہ ہی نہ باقی رہے ؟ یہ اہم سوال ہیں ۔ امسال گھروں میں پالے گئے بکروں اور فارم ہاوسوں سے لائے گئے بکروں کے لیے یہ لازمی کر دیا گیا تھا کہ انہیں ممبئی کے دیونار سلاٹر ہاؤس میں لایا جائے اور ان کی انٹری کرائی جائے اور پاس لیا جائے ! یہ عجیب و غریب ضابطہ ، کہا جاتا ہے کہ نیا نہیں پُرانا ہے ! لیکن اس پر عمل پہلی بار ہو رہا تھا کیونکہ پہلے کبھی اس ضابطہ پر عمل کرتے ہوئے حکام کو دیکھا نہیں گیا تھا ۔ خیر وزیراعلیٰ ایکناتھ شندے اور نائب وزیراعلیٰ دیویندر فڈنویس نے اس مسٔلے کو سُنا اور اس ضابطے پر عمل کرنے سے افسران کو روک دیا ، اُن کا بہت بہت شکریہ ۔ لیکن اگر اس ضابطے میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں کی گئی تو آئندہ اس پر پھر عمل ہو سکتا ہے ، اور پھر مسلمان قربانی کے جانوروں کو ممبئی میں لانے کے سلسلے میں پریشان کیے جا سکتے ہیں ، اور پھر سے انہیں وزیراعلیٰ اور اعلیٰ حکام کے دروازے کھٹکھٹانے پڑ سکتے ہیں ۔ کیا اس جانب توجہ نہیں دی جانی چاہیے ؟ بالکل توجہ دی جانی چاہیے ، لیکن یہ ہمیشہ کا معمول ہے کہ توجہ نہیں دی جاتی ، اور مسٔلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بغیر حل کے برقرار رہتا ہے ۔ عید الاضحیٰ پر میں اپنے بچپن سے دیکھتا چلا آ رہا ہوں کہ مسائل کم ہونے یا ختم ہونے کی بجائے ، بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں ۔ مسائل کیوں بڑھ رہے ہیں ؟ اس سوال کا ایک جواب تو یہ ہے کہ ، کبھی کبھی اس طرح کے مسائل حکومت کی ایما پر ہی پیدا کیے جاتے ہیں ، اور اس کا سبب سیاسی ہوتا ہے ۔ حکومت پہلے تو مسٔلہ پیدا کر کے ایک طرح سے لوگوں کو پریشانی میں مبتلا کرتی ہے ، اور پھر کچھ لوگوں کے ذریعے مسٔلے یا مسائل کو اپنے سامنے لاتی ہے ، اور حل کرکے داد وصول لیتی ہے ۔ داد وصول کرنے کا عمل، صرف اور صرف ، سیاسی مفادات پر مبنی ہوتا ہے ۔ مسلمانوں کی قیادت ، چاہے وہ سیاسی ہو یا مذہبی و سماجی انگلی کٹا کر شہیدوں میں نام لکھوانے کا کام کرتی ہے ۔ مسٔلہ ہر سال کے لیے باقی رہ جاتا ہے ، یہ قیادت حل کے لیے حکام کے پاس پہنچتی ہے ، مسٔلہ عارضی طور پر حل کرواتی ہے ، اور اپنی تعریف میں لوگوں کی زبانوں سے کلمے ادا کروا کر قیادت کے پھل کھاتی ہے ۔ یہ ہمیشہ سے ہوتا چلا آ رہا ہے ۔ اور اگر قیادت مفاد پرست رہی تو یقیناً ہمیشہ ہوتا رہے گا ۔ عام مسلمان بھی ان مسائل کے اٹھ کھڑے ہونے کے کچھ کم ذمے دار نہیں ہیں ۔ قربانی کا عمل دوسرے مذاہب کے لوگوں کو نہ پریشانی میں ڈالنے کے لیے ہے اور نہ انہیں چڑھانے کے لیے ، لیکن قربانی کے عمل کو کچھ ایسا ہی بنا دیا گیا ہے یا بنا دیا گیا تھا ۔ قربانی کے بعد کی گندگی عام مقامات پر پڑی رہتی تھی ، اور بعض اوقات اُن جانوروں کو بھی ، جو ممنوع ہیں ، قربان گاہ میں لے آیا جاتا تھا ۔ ہنوز ایسی خبریں آتی ہیں ، لہذا لوگوں کی طرف سے شکایتوں کا ایک انبار لگ گیا ، اور حکام کو سخت قدم اٹھانا پڑے ۔ خیر حکومت کو چاہیے کہ وہ قربانی کے جانوروں سے متعلق ہر مسٔلے کا کوئی مستقل حل نکالے ، مسلمانوں کی قیادت کو بھی چاہیے کہ وہ مستقل حل کے لیے دباؤ بناتی رہے ، اور عام مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ قربانی پر احتیاط کریں ، احتیاط نہ کرنے پر مشکلات بھی بڑھ سکتی ہیں اور کشیدگی بھی پیدا ہو سکتی ہے ۔ اور یہ بات صرف ممبئی کے سلسلے میں نہیں کہی جا رہی ہے ، پورے ملک کے سلسلے میں کہی جا رہی ہے ۔