ایک وقت تھا جب نریندر مودی تب کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کو ’مون موہن‘ سنگھ یعنی خاموش وزیر اعظم کہتے تھے۔ آج حالات یہ ہیں کہ خود مودی ہی ’مونی بابا‘ بن گئے ہیں۔ انھوں نے مشکل ایشوز پر خاموشی اختیار کر لینے کے فن میں مہارت حاصل کر لی ہے۔ یوگا کے تازہ ماحول میں اسے ’مون آسن‘ کہہ سکتے ہیں۔
منی پور کے ایشو پر وزیر اعظم خاموش ہیں۔ لیکن حیرانی کیسی؟ آخر کار انھوں نے ایک سال بعد کسان تحریک پر خاموشی توڑی تھی۔ پھر ایسے کئی دیگر موضوعات بھی ہیں، مثلاً گلوان میں چینی حملہ، وبا کی دوسری لہر کے دوران آکسیجن کی کمی، اڈانی گروپ سے قریبی تعلقات کے الزامات، ایک طاقتور بی جے پی رکن پارلیمنٹ کے ذریعہ جنسی استحصال کے خلاف خاتون پہلوانوں کی شکایتیں، یا پھر 2021 کی مردم شماری۔
لیکن منی پور میں حالات یقیناً بہت خراب ہیں۔ ڈیڑھ ماہ میں 130 سے زیادہ لوگوں کی موت، 50 ہزار سے زیادہ لوگوں کی نقل مکانی، 250 سے زیادہ کلیسا اور 25 سے زیادہ مندروں کو جلایا جانا۔ 40 ہزار فوجی اس ریاست میں تشدد روکنے میں جدوجہد کر رہے ہیں جس کی آبادی لکھنؤ سے بھی کم ہے۔ فوج کے 39 ٹرکوں کے قافلے کے ناقہ بندی کے سبب ہفتوں سے شاہراہ پر پھنسے رہنے کے بعد فوجیوں کے لیے ہیلی کاپٹروں سے کھانا گرانا پڑا۔ ریاست سے گزرنے والے دونوں شاہراہوں، این ایچ 2 اور این ایچ 37 بند ہیں۔
مرکزی وزیر داخلہ نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ منی پور میں آئین کے شق 355 کا استعمال کیا گیا ہے جو مرکز کو ریاست کا نظامِ قانون سیدھے اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں این بیرین سنگھ کی قیادت والی بی جے پی حکومت ہی نظامِ قانون سنبھالے گی۔ لیکن یہ مرکزی وزارت داخلہ ہی ہے جس نے سبکدوش سی آر پی ایف افسر کلدیپ سنگھ کو وزیر اعلیٰ کا سیکورٹی مشیر مقرر کیا اور انھیں ریاست میں مربوط کمان کا چیف بنایا۔ یہ بھی امت شاہ کی وزارت ہے جس نے گورنر کی صدارت میں امن کمیٹی بنائی اور وزیر اعلیٰ کو اس میں بطور ایک رکن رکھا۔ میتئی اور کوکی دونوں نے اس کا بائیکاٹ کیا۔
اس لیے جب وزیر اعظم نے ریڈیو پروگرام ’من کی بات‘ کو مہینے کے آخری اتوار کی جگہ 18 جون کو کرنے کا فیصلہ لیا تو منی پور میں امیدیں بڑھ گئی تھیں۔ لیکن منی پور پر انھوں نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ منی پوریوں نے ریڈیو سیٹ توڑ کر اور احتجاجی مظاہرہ کر کے اپنا غصہ نکالا۔ کیا وزیر اعظم کو پروا نہیں ہے؟ کیا منی پور میں حالات بے حد سنگین نہیں ہیں؟
جون کو اڈیشہ کے بالاسور میں ہوئے ٹرین حادثہ کی جگہ پر وہ جس ہڑبڑی کے ساتھ پہنچے، اس سے منی پور کے معاملے میں ان کی خاموشی مزید چبھتی ہے۔ گردابی طوفان ’بپرجوئے‘ کے متاثرین کو راحت پہنچانے اور ان کی باز آبادکاری کی وزیر اعظم نے جس طرح نگرانی کی وہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ ان کی ترجیح کیا ہے۔ وزیر داخلہ امت شاہ نے یہ کہتے ہوئے منی پور کے لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑک دیا کہ وزیر اعظم کی رہنمائی اور فوری نگرانی کے سبب گردابی طوفان سے گجرات میں ایک بھی جان نہیں گئی۔ وزیر داخلہ جانتے ہوں گے کہ منی پور میں کتنے لوگوں کی جان گئی ہے۔ ویسے حکومت 130 ہلاکتوں کی بات کرتی ہے۔