تعارف وتبصرہ / شکیل رشید
ہم اردو لکھنے پڑھنے والوں کو ، اُدین واجپئی کا شکر گزار ہونا چاہیے ، کہ انہوں نے اردو زبان و ادب کے عظیم نقاد و محقق اور بڑے فکشن نگار مرحوم شمس الرحمٰن فاروقی سے ، ایک ایسا یادگار مکالمہ کیا ، جس میں مرحوم نے اپنی زندگی کے ہر دور کو کھول کر سامنے رکھ دیا ہے ۔ صحافت کے اصولوں میں ایک اصول یہ بھی ہے کہ ، جس سے انٹرویو کیا جائے ، اُسے اپنی باتوں سے ایسا موہ لیا جائے کہ ، وہ سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کھُلتا چلا جائے ۔ اور اِس گفتگو یا مکالمہ کو پڑھتے ہوئے یہ خوب اندازہ ہوتا ہے کہ ، اُدین واجپئی نے فاروقی صاحب کو اپنی باتوں سے موہ لیا تھا ، اور کچھ اس طرح کہ فاروقی صاحب کھُلتے چلے گئے تھے ۔ بات کتاب ’ ایک فکشن نگار کا سفر : شمس الرحمٰن فاروقی اور اُدین واجپئی کے درمیان مکالمہ ‘ کی ہو رہی ہے ، جو پہلے ہندی زبان میں ۲۰۱۸ء میں منظر عام پر آئی تھی ، اور اب کوئی پانچویں سال میں اردو زبان میں ترجمہ ہوکر قارئین کے ہاتھوں میں پہنچی ہے ۔ ترجمے کا یہ کارنامہ نوجوان ادیب و بہترین مترجم رضوان الدین فاروقی کا ہے ۔ ترجمہ کی ایک اپنی کہانی ہے جسے ’ عرضِ مترجم ‘ میں اِن لفظوں میں بیان کیا گیا ہے ، ’’ پچھلے دِنوں ممبئی سے میرے کرم فرما اشعر نجمی صاحب اپنی ایک نجی ضرورت کے تحت بھوپال تشریف لائے تو چند ادب دوستوں سے بھی ملاقات ہوئی ۔ چناچہ اُدین واجپئی صاحب سے بھی ایک تفصیلی ملاقات بھوپال کے مشہور ’ انڈین کافی ہاؤس ‘ میں ہوئی جہاں شہر کے بہترین دماغ جمع ہوتے ہیں اور مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں ۔ گفتگو کے دوران فاروقی صاحب کے مکالمے کی بات بھی نکلی ۔ دونوں حضرات کی خواہش تھی کہ یہ مکالمہ اردو میں بھی آنا چاہیے ۔ مجھے ذاتی طور پر خوشی ہوئی جب انہوں نے میری ناکافی صلاحیتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے یہ بارِ گراں میرے سپرد کیا ۔ ‘‘ پھر رضوان الدین فاروقی نے نہ دن دیکھا اور نہ رات ، ہندی کی کتاب کا بڑی تیزی کے ساتھ اردو ترجمہ کردیا ، اور ’ اثبات پبلیکیشنز ، ممبئی ‘ نے اسے اتنی ہی تیزی کے ساتھ شائع بھی کر دیا ۔ اب یہ کتاب قارئین کے ہاتھوں میں ہے ۔ مترجم اس کتاب کا ترجمہ کیوں کرنا چاہ رہے تھے ، اور یہ ترجمہ اردو والوں کے لیے کیوں ضروری تھا ؟ اس سوال کا جواب بھی ’ عرضِ مترجم ‘ میں مِل جاتا ہے ۔ رضوان الدین لکھتے ہیں ، ’’ دیکھا جائے تو شمس الرحمٰن فاروقی اور اُدین واجپئی کی یہ گفتگو محض رسمی نہیں ہے اور نہ ہی ان کی شائع شدہ درجنوں مطبوعات پر مشتمل ہے بلکہ یہ ماضی کے ان تمام انٹرویوز سے اس لیے مختلف اور اہم ہے کہ اس میں اُدین واجپئی نے جو سوالات قائم کیے ہیں وہ نہ صرف اردو زبان وادب کے لیے اہم ہیں بلکہ عالمی پس منظر میں بھی ان کی اہمیت مسلّم ہے ۔ اس سے قبل فاروقی صاحب کے تقریباً دو درجن انٹرویوز ہوئے ہیں جن میں سے رحیل صدیقی نے کافی پہلے کچھ اہم انٹرویوز کا انتخاب کر کے کتابی شکل میں ’ شمس الرحمن فاروقی محو گفتگو ‘ کے عنوان سے شائع کیا تھا ۔ میری نظر سے وہ انٹرویوز بھی گزرے ہیں اور میں پوری ذمہ داری سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ اُدین واجپئی والا انٹرویو یا مکالمہ مجھے ان سب سے قدرے مختلف لگا کیونکہ اُدین واجپئی نے اس کو فاروقی صاحب کی ابتدائی زندگی سے شروع کیا ہے اور اس میں ان کی عائلی زندگی ، تعلیمی مصروفیات ، ملازمت سے متعلق معلومات ، تخلیقی شب و روز ، تنقیدی محرکات وغیرہ کو اس تسلسل اور روانی کے ساتھ پیش کیا ہے کہ قاری کی دلچپسی شروع سے آخر تک بنی رہتی ہے ۔‘‘
اس سے پہلے کہ ’ مکالمہ ‘ پر بات کی جائے معروف فکشن نگار خالد جاوید کی کتاب میں شامل ’ تقریظ ‘ پر نظر ڈال لی جائے ۔ خالد جاوید کی تحریر ہم پڑھنے والوں کو ، اُدین واجپئی سے بڑے ہی خوب صورت انداز میں متعارف کراتی ہے ۔ خالد جاوید لکھتے ہیں ، ’’ اُدین واجپئی کے سوالوں کی نوعیت بہت تخلیقی ہے ، اور یہ سوال فاروقی صاحب کے شعور اور تحت الشعور دونوں کے اندھیرے گوشوں کو روشن کر رہے ہیں ، فاروقی صاحب جس طرح اپنے ماضی اور بچپن کی یادوں کو ازسرِ نو زندہ کرتے ہیں ، اس کے محرک اُدین واجپئی کے ذہین اور تخلیقی سوالات ہیں ۔ اُدین واجپئی کی شخصیت بہت اعلیٰ پایے کے علمی ، ثقافتی ، تہذیبی اور تخلیقی عناصر کے ذریعے تشکیل ہوئی ہے ۔ تھیٹر ، فلم ، ڈرامہ ، شاعری ، مصوری ، موسیقی ، ناول اور افسانہ گویا آرٹ یا فنون لطیفہ کی ہر شق اُدین واجپئی کی دبیز اور گھنی شخصیت میں رچی بسی ہے بلکہ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ میڈیکل سائنس کے پروفیسر ہونے کے باوصف انھوں نے میڈیکل سائنس میں آرٹ یا کلا کے تمام امکانات کو دریافت کر لیا ہے ‘‘۔ اور اعلیٰ پایے کی اس شخصیت نے فاروقی صاحب سے کچھ اس طرح سوالات کیے کہ وہ کسی پس و پیش کے کھل کر جواب دیتے چلے گئے ۔ پہلا سوال تھا ’’ آپ نے کہیں لکھا ہے کہ بہت شروعات میں تنقید لکھنے سے قبل آپ نے افسانے لکھے تھے ۔‘‘ بظاہر سوال بڑا سادہ سا ہے ، لیکن اس سوال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سوال کرنے والے نے فاروقی صاحب کو خوب پڑھا ہے ، لازماً فاروقی صاحب خوش ہوئے ہوں گے کہ اُن سے گفتگو کرنے والے اُدین واجپئی اُن سے خوب واقف ہیں ، اور اِس سے انہیں واجپئی سے قربت کا احساس ہوا ہوگا ۔ یہی وہ احساس تھا جس کی وجہ سے انہوں نے کھل کر باتیں کیں ، اپنے لڑکپن کی بات ، ’ گلستان ‘ نام سے اپنی بہن کے ساتھ مل کر ایک چھوٹا سا پرچہ نکالنے کی بات ، پرچہ جو کاپیوں سے پھاڑے گئے پنّوں پر ، ہاتھوں سے لکھی تحریروں پر مشتمل ہوتا تھا ۔ یہی نہیں انہوں نے اپنے معاشقے کا ذکر تک کر دیا ! جہاں فاروقی صاحب ایک سوال کے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ ’’ ہمارا وہیں ( الہٰ آباد ) شادی کرنے کا بھی ارادہ تھا ، کیونکہ ہماری ہونے والی بیوی جمیلہ وہیں تھیں ۔ اس لیے الہٰ آباد میں رہنا ہمارے لیے اچھا تھا ۔‘‘ وہیں ایک سوال کا کہ کیا ’ آپ کی اُن سے دوستی تھی ؟‘ جواب وہ ’’ ہاں تھی ‘‘ میں دیتے ہیں ۔ اور ایک جگہ تو یہ کہتے ہیں کہ ’’ میرے بھائی کی شادی میری اماں نے اپنی بہن کی بیٹی سے کی ، میرے ابا بالکل راضی نہیں تھے ۔ لڑکی معمولی شکل و صورت کی ، کم پڑھی لکھی تھی ، مگر اماں اڑی رہیں ۔ ہمارے باپ مان گئے ۔ ہم بدمعاش تھے ، گھر کے باہر نکل گئے ، وہ الگ بات ہے ، ورنہ شادی ہماری بھی گھر میں ہی لگی ہوئی تھی ۔‘‘
فاروقی صاحب کے بچپن کی یادوں میں اُن دنوں کے سیاسی حالات بھی شامل ہیں ، وہ بٹوارے کو بھی یاد کرتے ہیں ۔ ایک سوال کے جواب میں وہ بتاتے ہیں ، ’’ یہ اتفاق ہی ہے کہ میرے خاندان پر بٹوارے کا اثر کم پڑا ۔ ہمارے لوگوں نے سنہ ۷۱ء میں زیادہ دکھ جھیلے کیونکہ کچھ لوگ یہاں سے بنگال چلے گئے تھے ، ان میں سے کچھ مرے بھی اور کچھ لُٹ گئے ۔ سنہ ۴۷ ء میں ہم مشرقی اترپردیش میں تھے ۔ ہمارے قریبی لوگ غازی پور ، اعظم گڑھ ، بنارس ، بلیا ، گورکھپور اور بستی وغیرہ جیسے مقامات پر تھے ۔ ان میں سے چند لوگ پاکستان چلے ضرور گئے لیکن میرے گھر کا اور بالکل قریب کا کوئی نہیں گیا ۔ میرے نانا مسلم لیگ کے بڑے لیڈروں میں تھے ، وہ بنارس کے ایم ایل اے تھے لیکن وہ بھی نہیں گئے ۔ ہمارے ابا کے جانے کا سوال ہی نہیں تھا ۔ ہمارے چچازاد اور ماموں زاد بھائیوں میں سے کچھ گئے ۔ بعد کے سالوں میں میری بہنوں کی شادی وہاں ضرور ہوئی ۔ انھیں یہاں مشکل سے آنے کو ملتا ہے ۔ ان سے ملاقاتیں کم ہو گئیں ۔ اب تو اور بھی کم ہوگئیں ‘‘۔ فاروقی صاحب نے اُس دور کے نوجوان لکھنے والوں کا ذکر دلچسپ انداز میں کیا ہے ، وہ کہتے ہیں ، ’’ اس زمانے میں نوجوان قلم کاروں ، اگر وہ مسلمان ہوئے ، کے سامنے دو ہی راستے تھے : یا تو آپ لیفٹسٹ ہو جائیے یا جماعت اسلامی کی طرف چلے جائیے ۔ اگر آپ ہندو ہیں تو آپ سوشلسٹ بھی ہو سکتے تھے ، کانگریس بھی ایک راستہ تھا ۔ ہمارے خاندان میں زیادہ تر لوگ جمعیتہ علما ہند کے تھے جو گویا کانگریس کی ہی ایک شکل تھی ۔ مسلم لیگ کے زیادہ تر لوگ پاکستان چلے گئے ۔ اگر ادبی سرگرمیوں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو نہ جمعیتہ علما ہند کام کی تھی ، نہ کانگریس اور نہ ہی مسلم لیگ ۔ ادب کے لیے یا تو آپ ترقی پسندوں میں جاؤ یا پھر اس زمانے میں ( مولانا )مودودی کے زیر اثر جماعت اسلامی چل پڑی تھی ۔ وہ نو جوانوں سے کہتے تھے کہ زندگی اور مذہب کو ایک ساتھ مینج کرنا چاہیے ۔ ان میں اور ترقی پسندوں میں کوئی خاص فرق نہیں تھا ، صرف اتنا تھا کہ ترقی پسند لوگ معاشرتی انقلاب کی بات کرتے تھے ، وہ کہتے تھے کہ ادب کی سماجی اہمیت ہونا چاہیے اور اسے لوگوں کو انقلابی پروگرام کی جانب لے جانا چاہیے ۔ انقلابی پروگرام سے ان کا مطلب کمیونسٹ انقلاب تھا ۔ جماعت اسلامی کے لوگ کہا کرتے تھے کہ کیونکہ ساری حکومت اللہ کی ہے ، اس لیے ادب بھی اللہ ہی کے لیے ہونا چاہیے ۔ ۵۱-۱۹۵۰ء میں ، میں ان دونوں کے بیچ ڈول رہا تھا ۔ میں دونوں کے جلسوں میں اٹھتا بیٹھتا تھا ‘‘۔ سوال ترقی پسند تحریک اور جدیدیت پر بھی ہیں ، ان کے جواب بھی دلچسپ ہیں ، جواب دیتے ہوئے فاروقی صاحب نے جگہ جگہ اُس دور کے ادیبوں کا ذکر کیا ہے ، کرشن چندر ، بیدی ، عصمت چغتائی وغیرہ ۔ فاروقی صاحب ان کی کہانیوں کے سخت نقاد ہیں لیکنان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’ مگر یہ لوگ روشن خیال تھے ‘‘ ۔ شیکسپیئر کا ذکر بڑی عقیدت سے کیا گیا ہے ، کہتے ہیں ، ’’ میں نے اپنی ساری عقل شیکسپیئر کو پڑھنے میں لگا دی ... اس سے میری کھوپڑی کھل گئی ۔ ایک بات میری سمجھ میں آ گئی کہ اس طرح کا مصنف نہ ترقی پسندی میں جائے گا نہ ملّوں میں ۔ میں اسی کے ساتھ ہوں ۔ یہ میری زندگی کی سب سے بڑی کھوج تھی ‘‘۔
اُدین واجپئی کے سوال ایسے ہیں کہ فاروقی صاحب کو اپنی یادوں کا پِٹارا کھولنا پڑتا ہے ، وہ اپنی تنقید ، فکشن نگاری ، اپنے ناول ’ کئی چاند تھے سرِ آسماں ‘ اس کے کردار اور تاریخی حقائق ، شاعری ، ادب کی صورت حال غرضیکہ مختلف موضوعات پر بےتکان بولتے چلے جاتے ہیں ، اور جیسا کہ رضوان الدین نے لکھا ہے قاری دلچسپی سے پڑھتا چلا جاتا ہے ، اور اس کے سامنے فاروقی صاحب کی سوانح ، ان کے افکار اور ان کی تنقیدی سوچ سب عیاں ہوکر آجاتی ہے ، اور احساس ہوتا ہے کہ فاروقی صاحب کا علم کتنا وسیع ہے ۔ اُدین واجپئی کتاب کے ’ پیش لفظ ‘ میں لکھتے ہیں ، ’’ جن قارئین نے ان کے ناول اور کہانیاں پڑھی ہیں ، یہ جانتے ہوں گے کہ وہ غالبؔ ، میرؔ ، مصحفیؔ وغیرہ کئی اردو فارسی تخلیق کاروں کے نہ صرف بہترین قاری ہیں بلکہ ایسا لگتا ہے جیسے ان کے ساتھ فاروقی صاحب کے دوستانہ تعلقات ہیں ۔ ان کی گفتگو میں تمام شاعر ، افسانہ نگار ، ناول نگار ، قارئین اس طرح آتےجاتے رہتے ہیں جیسے وہ فاروقی صاحب کے گھر ہی میں غائبانہ طور پر رہ رہے ہوں اور فاروقی صاحب کے پکارتے ہی ان کی گفتگو میں شامل ہوجاتے ہوں ‘‘۔ اُدین واجپئی کا ایک بار پھر شکریہ کہ انہوں نے فاروقی صاحب سے ایک ایسا مکالمہ کیا جو شاید کوئی اردو والا نہیں کرپاتا ۔ شکریہ رضوان الدین فاروقی کا بھی کہ انھوں نے ہندی سے اردو میں کتاب کا ایسا لاجواب ترجمہ کیا کہ فاروقی صاحب کا اندازِ گفتگو اس میں رچ بس گیا ۔ کتاب کا انتساب مترجم نے اپنے والدین کے نام کیا ہے ۔ کتاب 136 صفحات پر مشتمل ہے ، قیمت درج نہیں ہے ۔ کتاب موبائل نمبر 9372247833 پر رابطہ کرکے حاصل کی جاسکتی ہے ۔
عالمی افسانہ میلہ 2015
افسانہ نمبر 117
کھیتی
نعیم سلیم ،مالیگاؤں ، مہا راشٹریہ
میں اب میں سسرال نہیں جاؤنگی'میری تکلیف اور پریشانی کو سمجھو نہیں تو میں مر جاؤنگی،شمع نے روتے ہؤے کہا.پاس ہی اس کے والد عابد سیٹھ سرجھکاۓ خاموش بیٹھے ہؤے تھے.والدہ اوربہنیں دلاسہ دے رہی تھیں.گھر میں چھائی اداسی سے معلوم ہوتا تھاگویا میت ہوگئی ہو.بھلے سے کوئی مرا نہیں تھالیکن پل پل گھٹ گھٹ کرکتنی ہی آرزوئیں اور ارمان اس گھر میں دم توڑ چکے تھے..... ....عابد سیٹھ برسوں پہلے کی ان یادوں میں کھوگئے جب وہ صوفے پر دراز ایک ہاتھ میں ٹی وی کا ریموٹ دوسرے ہاتھ میں سگریٹ سلگاۓفکر دنیا سے بے نیاز فلم سے لطف اندوز ہورہے تھے.فیکٹری مینیجر کے بھروسے چل رہی تھی.زندگی عیش آرام سے کٹ رہی تھی.بچے شہزادی شہزادوں کی طرح پرورش پارہے تھے.عابد سیٹھ بھی کسی نواب سے کم نہیں تھے.اپنی عیاش طبیعیت سےمجبور یکے بعد دیگرے تین شادیاں کیں اور معمولی باتوں پر طلاق دیدی.فی الحال چوتھی بیوی ساتھ میں تھی.آوازوں کا شور بڑھا توعابد سیٹھ چونکے ' ہاں ہاں میں بات کرتا ہوں زینو سردار سےوہ ضرور اس مسئلے کو سلجھا دینگے'ہاں وہ تو ہۓ........مگر شمع بیٹی رکنے کیلئے کہہ رہی ہۓ اس تعلق سے کیا کہتے ہو؟؟ عا بد سیٹھ پھر کھو گۓ .....غفارچاچا میں نے کہہ دیا تین مرتبہ تو پھر کیا رہ جاتا ہۓ؟عدت مہر کی جتنی رقم تم لوگوں نے طۓکی میں نے دیدی اب معاملہ ختم کرو.مگر بیٹا تم کب تک.....درمیان میں ہی عابد سیٹھ تیز آواز میں بولے،'مجھے نصیحت مت کرومجھے جو کرنا تھا کیا تمہیں جو کرنا تھا تم نے کیا.غفار چچا نے بھی پلٹ کر گرجدار آواز میں کہا'عابد اپنی دولت کے غرور میں یہ نہ سمجھو کہ تم ھمیں دبا لوگے یہ تمہارا تیسرا معاملہ ہۓ طلاق کا،وہ تو خیر مناؤہر بارتمہارا پالا اچھے اور غریب لوگوں سے پڑاہۓ..ورنہ..کورٹ میں گھسیٹےجاؤگے تو ساری عیاشی اور چربی نکل جاۓ گی.اور پھر غفار چچا نے متعلقین کوآگاہ کردیا کہ خبر دار اب کوئی مجبورومظلوم، عابد کےچنگل میں نہ پھنسنے پاۓ .چھ ماہ تک.بہت کوشش کے بعد بھی کوئی رشتہ نہ ملا تو عابد سیٹھ بیرون شھر سے چوتھی بیوی نکاح کرکے لے آۓ.اور اس کے بعد ہی سارا کاروبار چوپٹ ہونا شروع ہوگیا.اچھے دنوں میں تین بیٹیوں کی شادیاں ہوچکی تھیں اسلۓ وہ کھاتے پیتے گھرانوں میں گئیں.جبکہ دو بیٹیوں کی شادی تک پورا کاروبارختم ہوگیا.شھر کا گھر فروخت کرکے مضافات میں چھوٹا ساگھر لیا اور کسی طرح ان دو بیٹیوں کے بھی ہاتھ پیلے ہوگۓ............
ھمیں مھیلا منڈل جانا چاھئے .ان کمینوں پر کیس کرنا چاہئے..........ارے ہمارے دو نکمے بھائی اور انکے دوست کم ہیں کیا؟انکی جم کر ٹھکائی کروادینی چاہئے .....بہنیں مشورے دے رہی تھیں.مگر عابد سیٹھ اب بھی اپنی سوچوں میں گم تھے..دو جوان بیٹے وہ بھی باپ کے نقش قدم پر چل رہے تھے.جو کچھ کماتے تھوڑابہت گھر خرچ کیلۓ دیتے باقی اپنے شوق اور عیاشی،عابد سیٹھ اب نہ سیٹھ تھےاور نہ ہی جوان کہ بچوں کو روکتے،روکیں بھی تو کس منہ سے؟نام کے ساتھ سیٹھ کا لاحقہ جوانی سے جڑا تھا جوآج بھی بطور پہچان اور یادگار قائم تھا.ہم کچھ کہہ رہے ہیں...کیا کرنا چاہئے ھمیں؟عابد سیٹھ نے چشمہ اتاراآنکھیں پھاڑ کر سامنے دیکھا انکی بیوی تین بیٹیاں اور سب سے چھوٹی بیٹی شمع سب حیرت وتجسس سے انہیں تک رہے تھے.شمع شادی کے چند مہینے بعد سے ہی سسرال کے ظلم و تشدد کا شکار تھی .معاملہ ناقابل برداشت ہوا تو شمع نے فیصلہ کیا کہ اب وہ نہیں جائگی اور آج وہ چاہتی تھی کہ وہ معاملات کے مستقل حل تک اپنے مائکے میں رہے.اس سے پھلے بھی دو مرتبہ اس تعلق سے پنچ حضرات افہام وتفہیم کیلۓ بیٹھے ،لیکن چند دنوں بعد پھر وہی پرانا رویہ...جبکہ عابد سیٹھ کو یہ خدشہ تھا کہ اگر وہ بچی کو بٹھالیں تو کہیں اسکی سسرال والے ھمیشہ کیلئے نہ....رشتہ ہی بڑی مشکل سے ہوا تھا..عابد سیٹھ بجاۓ کچھ کہنے کے رونے لگے سسکیوں کے ساتھ روتے جاتے اور کہتے میری بچیوں میں تمہارا گنہگار ہوں،میرے کرتوت کی سزا تمہیں بھگتنی پڑ رہی ہۓ.میرے بچوں مجھے معاف کردو.اور بے اختیار انہوں نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھا دئے میرے پروردگار میں تیرا گناھگار خطاکار بندہ،میں نےدوسروں کی بچیوں پر بہت ظلم کئےیاﷲ جو چاہے مجھے سزا دے مگر میرے بچو پر رحم کر مولی.انکی سسرال والوں کے دلوں میں رحم و محبت ڈال دے میں انہیں بد دعا نہیں دیتا،تو انہیں حسن سلوک کی توفیق بخش..وہ گڑ گڑا رہے تھےاور گھر کے سبھی افراد کے ساتھ خود شمع بھی اپنےغم بھلا کر اپنے مجبور باپ کی بےبسی پر دھاڑیں مار کر رونے لگی....
ایک غزل احباب کی عدالت میں
تجھ سے منسوب جو افسانے بنا رکھّے ہیں
ہم نے بربادی کے عنوان سجا رکھّے ہیں
اب خموشی ہی مقدّر ہے کہ باقی نہیں کچھ
سب فسانے تو تجھے میں نے سنا رکھّے ہیں
ایک میں ہوں کہ مرا پہلا یقیں تم پر ہے
تم نے میرے لیے اندازے لگا رکھّے ہیں !!
میں نے پلکوں پہ ترے اشک سے ملتے جلتے
کچھ ستارے تری آنکھوں سے چھپا رکھّے ہیں
واسطہ تک نہ تھا جن کا مرے اعمال کے ساتھ
میں نے تقدیر کے وہ زخم بھی کھا رکھّے ہیں
آج وہ نام اگر لوں تو قیامت ہوجائے
میں نے کچھ سوچ کے جو کل پہ اٹھا رکھّے ہیں
جن سے میں بھی نہیں گذرا کبھی دیوانگی میں
میں نے وہ در بھی ترے نام پہ وا رکھّے ہیں
میں نے اک پیڑ پہ لکھّے ہیں ہمارے دو نام
اور اسی پیڑ پہ دو دل بھی بنا رکھّے ہیں
🖋 فرحان دِل ـ مالیگاؤں ـ
📞 9226169933
جب بھی دیوار میں گڑی
برقی گھنٹی پہ
انگلی رکھتی ہو
میرے دل پہ دستک ہوتی ہے
گھنٹی
ڈوربیل
سائرن
رنگ ٹون
سب میرے میرے دل
کی آوازیں ہیں
جو تمہیں
بلاتی ہیں
دل کی
کھڑکی کھول
دو
🔴احمد نعیم 16جون 2023 شام سات بجے