دانیال میاں نےزوردار سلام کے ساتھ گھر میں قدم رکھا۔ اسکول سے گھر تک کا فاصلہ دوڑتے بھاگتے ہی طے ہوا ہوگا، اس لئے سانسیں زور سے چل رہی تھیں اور ماتھے پر پسینے کی بوندیں چمک رہی تھیں۔ کندھے سے اپنا بستہ اتارتے ہوئے دانیال میاں نے پہیلی بجھائی۔’’ پتہ ہے آج کیا ہوا؟‘‘ ہم نےفوراًہار مانتے ہوئےکہا ’’نہیں پتہ، تم ہی بتادو۔‘‘ انہوں نے جواب دینے سے پہلے آستین سے اپنا منہ پونچھا۔ پیچھے سے دادی کی آواز آئی ’’آستین سے منہ نہیں پونچھنا بیٹے۔‘‘دانیال میاں نے بات سنی اَن سی کردی ۔ پھر بستہ کھولتے ہوئے پرجوش انداز میں اعلان کیا۔ ’’چار چار کتاب مل گئی ۔ یہ دیکھو ابّو ،ایک دو تین چار۔ آپا نے کہا ہے کہ اس پروہ لگالینا، وہ کیا بولتے ہیں...؟ ہاں .... پُٹھّا چڑھالینا۔ ‘‘
یہ بتانے کے بعد دانیال میاں نے بستے سے ایک چھوٹی سی پرچی نکال کر دکھائی۔ ’’ابّو جی یہ بیاضیں لانی ہیں۔ آپا نے اس پر سب لکھ کر دیا ہے۔ کب چلیں گے دکان پر؟‘‘ میں نے کہا کہ تم مدرسے سے آجانا پھر ہم جائیں گے۔
رات کو کھانے کے بعد دانیال میاں نے پھر یاددہانی کرائی ۔ ارمین نے بھی اپنی سلیٹ(تختی) کا تقاضا رکھ دیا۔ ہم تینوں شوقی کتاب گھر پہنچے ۔ مطلوبہ بیاضیں کاؤنٹر پر دیکھ کر بھائی سے زیادہ بہن خوش تھی۔ موٹر سائیکل پر سوار ہوتے ہوئے بھائی بہن میں تھیلی سنبھالنے پر نیا جھگڑا چھڑگیا۔ دونوں ماننے کو تیار نہیں تھے۔ کسی طرح مصالحت کرائی گئی اور ہم گھر لوٹے۔ دانیال نئی کتابیں اور بیاضیں بستے میں رکھتے ہوئے بیحد خوش تھا۔ حالانکہ یہی صاحب اسکول جاتے وقت بڑا دھمال کر رہے تھے۔ روزانہ روتی بسورتی شکل لئے اسکول پہنچائے جارہے تھے لیکن اب نئی بیاضوں اور کتابوں کی روشنائی کی مہک اورکاغذ وگوند کی گندھی ملی بو نے ان میں نیا جوش بھردیا تھا۔ ہم آپ کو بھی تو اپنے زمانہ طالب علمی میں یہ ’مہک ‘ بڑی سوندھی و پیاری لگتی تھی۔
خیر، حساب کتاب کے دوران اندازہ ہوا کہ بیاضوں کے دام بھی کس قدر بڑھ گئے ہیں۔ ہمارے زمانہ طالب علمی میں ۱۰۰؍صفحات کی بیاض ۸؍سے ۱۰؍ روپے میں مل جایا کرتی تھی۔ اب یہی دام کم ازکم ۲۵؍ سے۳۰؍ روپے ہوگئے ہیں۔ اس وقت سادہ کوالیٹی اور ڈیلکس کوالیٹی کا آپشن بھی ہوا کرتا تھا۔ جن والدین کے جیب پر بارگزرتا وہ بیچارے سادہ کوالیٹی کی بیاضیں ہی خریدلیتے۔ یا پھر آدھی سادہ اور آدھی ڈیلکس کا متبادل چنا جاتا۔ اب ۲۰۲۳ء میں سادہ، ڈیلکس کا فرق ہی مٹ گیا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو ’سرمایہ دارانہ اشراکیت‘ آگئی ہے۔ میں انہیں خیالوں میں گم تھا کہ دانیال میاں نے اگلا تقاضا یاددلایا کہ کتابوں پر پُٹھا چڑھانا ہے( جلد سازی کرانی) ہے۔ دادی نے پوتے کو حل بتایا،’’ دادا سے کہنا وہ ریاض (کاغذی) دادا کے یہاں سے کرواکر لادیں گے۔‘‘ میں نے انہیں یاددلایا’’امی میں بھی تو جلدسازی کرتا تھا، کچھ یا د آیا؟‘‘امی نے کہا ’’ہاں نا بیٹا یاد ہے ، تجھے بھی بڑا شوق تھا یہ سب کرنےکا، بڑی لگن سے یہ سب کرتا تھا ۔ ‘‘ جلد سازی وہ فن ہے جسے ہمیں اسکول میں سکھایا گیا تھا۔ عملی کام کے پیریڈ میں اس فن کو سیکھ کر طلبہ خود اپنی کتابوں اور بیاضوں کی جلد سازی کرلیتے تھے۔ کچھ تو ایسے بھی بچے تھے جو دو پیسے کمانے کیلئے یہ کام گھر بیٹھے کرتے تھے۔ ایسے بچوں کیلئے نیا تعلیمی سال ، سال میں ایک بار پیسے کمانے کا موقع ہوا کرتا تھا۔ اس کام کیلئے سرمایہ کاری بھی کچھ اتنی زیادہ نہیں ہوا کرتی تھی۔ پوکر،سُوا، دھاگہ، گوند، دفتی (پُٹھّا) وغیرہ تو ہی لانا پڑتا تھا۔ پھر اس کے بعد اپنی ہنر و مہارت کی ضرورت پڑتی تھی۔ادھر جلد سازی کا عمل مکمل ہوتا اور ادھر کٹنگ پریس کا رخ ہوتا۔ لیجئے کام مکمل ، گاہک کو اس کی کتاب تھمائی اور اپنی اجرت وصول۔ ہائے کیا دن تھے!
-اظہر مرزا
افسانہ نمبر 24
*مور*
ہارون اختر
دوپہر کو وہ میٹھی نیند سوتی اور شام کا شدت سے انتظار کرتی اس کی گہری آنکھیں چہرے کو پرکشش بناے ہوےتھیں ایسی مقناطیسی آنکھیں میں نے آج تک نہیں دیکھی۔اس کی آنکھیں بہت کچھ خاموشی سے کہہ جاتی ہیں وہ اپنی آنکھوں کے سمندر میں بہت کچھ بہالے جانے کی طاقت رکھتی ہے
مایا کی عمر 30 35 ہوگی
انتخاب حسین ایک رنگین مزاج شخصیت کا مالک شہر سب سے سرمایہ دار شخص انتہائی بدشکل لیکن دولت کی وجہ سے کوئی بھی اس کی بد صورتی پر دھیان نہیں دیتا
اس کے چہرے پر ایک چہرہ اور ہے مخیر قوم شاید اسی وجہ سے لوگ اسے عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا کرتے ہیں شہر سے دور انتخاب حسین کا ایک بڑا سا کھیت ہے کھیت کے ایک کنارے پچاس فٹ تک سبز مخملی قالین بچھی ہوئی ہے اور اسی کے ایک سرے پر دو منزلہ عمارت بھی ہے یہ عمارت ہے تو لکڑی کی مگر بہت ہی خوبصورت ہے اسمیں مایا رہتی ہے انتخاب کی مایا
انتخاب چالیس کا تھا تب مایا بیس کے قریب تھی مست آنکھوں کے سمندر میں انتخاب ڈوبا تو پھر ڈوبتا ہی چلاگیا
مایا دو منزلہ عمارت کے ساتھ کھیت کی بھی رکھوالی بھی کرتی ہے وہ چاہتی بھی یہی ہے اسکا کھیت ہمیشہ ہرا بھرا رہے اور انتخاب کی دیوانگی میں کمی نہ آے
کھیت میں نیم املی جامن کلی اور ناریل کے درخت کے ساتھ ساتھ چنار کے بھی درخت کھڑے ہیں چنار کے پتوں کا رنگ شرابی ہے اور یہی شرابی رنگ مایا کو بے حد پسند ہے جب بجلیاں چمکتی ہے بادل گرجتے ہیں رم جھم بارش ہوتی بوندیں رقص کرنے لگتی تب رقص کرتی بوندوں کیساتھ مایا کے جزبات انگڑائیاں لینے لگتے وہ کھیت میں غزال کی طرح اٹکھیلیاں کرتی شام ہوتے ہی روشنی کا نظم کرتی عمارت کے باہر چنار کے درخت کےسائےمیں الاو جلاتی اسکا حسن گیہوں کے دانے کی طرح چمک اٹھتا اس کی پتلیوں کے آگے کالے پیلے نیلے ساے رقص کرنے لگتے اس کا وفادار کتا اس کے قریب آکر بیٹھ جاتا مایا کی بے قرار آنکھیں انتخاب کا انتظار کرتی جب وہ آتا کتا دم ہلاتا ہوا کھڑا ہوجاتا
مایا کی آنکھیں چمک اٹھتیں
لوگ ایسا کہتے ہیں
جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا
میری آنکھیں گواہ ہیں
میں نے کسان کو زمین کا سینہ چیر کر بیج بوتے دیکھا ہے زمین کو کھلتے دیکھا ہے کلی کو پھول بنتے دیکھا ہے مور کو مست ہوکر ناچتے دیکھا ہے
کھیت میں جب بیج بویا جاتاانتخاب حسین موجود ہوتا اور فصل کی کٹائی بھی اس کی نگرانی میں ہوتی کیونکہ انتخاب کے دل میں چور ہے مایا کے لئے انسان بوڑھا ہوتا ہے خواہشات جوان ہوتی ہے خواہشات کی تکمیل کی کوئی حد نہیں ہوتی اور کبھی کبھی خواہشات کی تکمیل کیلئے انسان اپنا سب کچھ ہار جاتا ہے
وہ ایسی ہی ایک سرمئی شام تھی مور مست ہوکر ناچ رہا تھا
چنار کے درخت کے سائے میں الاؤ روشن ہوا مایا کا بدن کندن کی طرح چمکتارہا اور انتخاب جام حسن آنکھوں سے پیتا رہا یہ ایسا جام ہے جتنی پیو پیاس اتنی ہی بڑھتی جاتی ہے
رم جھم بارش ہوتی رہی
مور مست ہوکر ناچتا رہا
ڈوبتے سورج کا منظر انتخاب کو بے چین کرگیا اس نے محسوس کیا جوانی اس کی مٹھی سے آہستہ آہستہ پھسلتی جارہی ہے اسے اس بات کا دکھ نہیں کہ جوانی ساتھ چھوڑ رہی ہے بلکہ ایک احساس اندر ہی اندر ڈنک مار رہا ہے اس کی مایا کے حسن میں دن بدن نکھار آرہا ہے اس کے گھٹنے میں ہلکا سا درد ہو رہا ہے مایا وقت مانگ رہی ہے لیکن وہ خود کو روک نہیں پارہا ہے گھٹنے کا درد اور بڑھاپا اسے ٹھیک سے چلنے بھی نہیں دیتا ویسے بھی بڑھاپا جوانی کے آگے گھٹنے ٹیک دیتا ہے الاؤ کی تیزی میں کمی آئی
دونوں عمارت کے اندر آگئے
انتخاب کا موبائل بج اٹھا
ہاں صفدر بیٹے کیسے ہو
امتحان ہوگیا تمھارا
کل آرہے ہو اوکے بیٹا
انتخاب خوش ہوکر مایا کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا
میرا صفدر آرہا ہے
صفدر علی میرا لخت جگر
میری زندگی بھر کی کمائی کا اکیلا وارث
انتخاب کے سینے کے بالوں سے کھیلتے ہوے مایا نے آہستہ سے کہا
صرف بارہ سال کا تھا صفدر اسے پہلی بار دیکھی تھی
گول مٹول معصوم سی صورت
دس سال کے بعد صفدر آرہا ہے در اصل امریکہ میں میرا ایک چچازاد بھائی رہتا ہے صفدر کو ہم نے وہاں چھوڑ دیا تھا تاکہ وہ اپنی پڑھائی مکمل کرسکے
صفدر کی آمد پر شاندار دعوت کا نظم ہوا
صفدر کیساتھ ساتھ انتخاب کو بھی بیٹے کی کامیابی پر مبارکباد پیش کی گئی صفدر کی ماں بے انتہاخوش تھی آج برسوں بعد اس کا کھویا ہوا کھلونا اسے مل گیا تھا انتخاب کی خوشی قابل دید تھی.
وہ کبھی اپنی بیوی بانو کو دیکھتا کبھی اپنے بیٹے صفدر کو..
دن گزرتے گئے ویسے بھی خوشی کے دن جلد ہی گزرجاتے ہیں
انتخاب حسین کے گھٹنے کا درد بڑھتا گیا آخر کار نوبت آپریشن کی آگئی
آپریشن کامیاب رہا ڈاکٹر نے مکمل آرام کرنے کو کہا
اتوار کا دن تھا دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد صفدر نے انتہائی نرمی سے پوچھا
"ڈیڈی اپنے کھیت کا کیا حال ہے..... ؟"
صفدر نے پھر نرمی سے پوچھا
"ڈیڈ ی کھیت کا کیا حال ہے..؟"
وہ چونک گیا.
"ہاں بیٹا...! کھیت تو اب تک سلامت ہے.!"
"وہ کتا اور وہ عورت جسے آپ نے کام پر رکھا تھا..؟"
" ہیں.... بیٹا دونوں ہیں..." انتخاب کے بدن پر چیو نٹیاں سی رینگ گئی اسے اپنی ہی آواز پر یقین نہیں آرہا تھا جیسے اس کی آواز کسی گہرے کنوئیں سے آرہی ہو
"ڈیڈی میں اپنا کھیت دیکھ نے جارہا ہوں اور ہاں تھوڑا وقت لگے گا کافی دن بعد جارہا ہوں نا"
صفدر اپنے باپ کی طرح بد شکل نہیں تھا وہ اپنی ماں پر گیا تھا قبول صورت اور پر کشش شخصیت کا مالک جوانی انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی وہ جیسے ہی کھیت میں پہنچا
کتّا دوڑتا ہوا آیا اور دم ہلاتا ہواصفدر کے آگے پیچھے گھومنے لگا اس نے ایک نگاہ کھیت پر دوڑائی اس کی نگاہ اس عورت کو تلاش کرنے لگی کتا بھونکنے لگا اور پھر عمارت کی طرف سر اٹھا کر دیکھا
صفدر نے مسکرا کر کتے کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر عمارت کے دوسرے منزلہ کے دروازے پر پہنچا ہاتھ بڑاھاکر دروازہ کھولنا چاہا تب ہی دروازہ اندر کی طرف کھلتا چلاگیا
مایا ابھی ابھی نہا کر نکلی تھی تھی
دوسفید کبوتر پھڑ پھڑاے
اس کے بدن پر صرف چولی اور لہنگا تھا
دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہے گئے...
"آپ صفدر بابو ہیں نا...؟"
"جی ہاں..!"
صفدر نے آہستہ سے کہا
مایا اس لپٹ گئی مایا کے لپٹتے ہی صفدر کے جسم میں بجلی سی دوڑ گئی
مایا کے ہونٹوں پر ایک شریر سی مسکراہٹ تھی اور پھر مایا کچھ سوچ کر اس سے الگ ہوئی اور نرمی سے کہا
"وہ۔ کتا۔ بھونکا تو میں سمجھی چور وور ہوگا اسی
وہ اپنی بات اُدھوری چھوڑ کر صفدر کی آنکھوں میں جھانکنے لگی
انتخاب کی زندگی نے اسے بہت سیکھا دیا تھا صفدر پھڑ پھڑاے سفید کبوتروں کو دیکھتا رہا
آنکھوں سے مکالمے ادا کرنا چہرے کے جزبات پڑھنا مایا کو اچھی طرح آتا ہے اتنی دیر میں وہ صفدر کی آنکھوں کا مفہوم سمجھ گئی تھی
"آپ بیٹھے میں چائے لاتی ہوں"
صفدر دل میں مسکرایا
مایا بے حد خوش تھی اس کے بدن کا ہر حصہ چیخ چیخ کر اپنی خوشی کا اظہار کر رہا تھا چائے بنانے کے درمیان ہی اس نے ساڑی زیب تن کرلی صفدر ابھی تک مایا کے لمس کے حصار میں تھا
مایا چائے لیکر آئی اور اس کے سامنے بیٹھ گئی چائے پینے کے درمیان دونوں ہی خاموش تھے مایا آنکھوں سے کہہ رہی تھیں
صفدر بدن کے تجزیہ میں مصروف تھا
"اچھا اب میں چلتا ہوں" صفدر نے کرسی سے اٹھتے ہوے کہا.
مایا نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور پھر آنکھوں میں جھانکتے ہوے پوچھا.
"جاؤگے... ؟"
صفدر نے آنکھوں سے آنکھوں کا جام پیتے ہوے کہا.
"جانا تو پڑےگا ہی."
دونوں ہنس پڑے
صفدر امریکہ سے آیاتھا ایک آزاد زندگی جی کر لیکن مایا کا لمس اس کے لے ایک انوکھا تجربہ تھا
کھیت سے نکلتے وقت اس نے پلٹ کر مایا کو دیکھا مایا کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا لیکن آنکھوں میں چنگاریاں تھیں..
کتا صفدر کے پیچھے دوڑتا ہوا کافی دور چلا گیا مایا کی آواز پر رکا اور واپس لوٹ آیا....
مایا دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر مسرت سے بھر پور انگڑائیاں لیں
زندگی میں پہلی بار آج وہ آئینے میں اتنی غور سے اپنی آنکھیں دیکھ رہی تھی ایک سوال تھا ان آنکھوں میں اور پھر ایک معنی خیز مسکراہٹ کیساتھ وہ گنگنانے لگی
"کیا دیکھا تھا دل نے جو تیرا ہوگیا...."
ادھر صفدر کے چہرے کی خوشی انتخاب حسین نے پڑھ لی
"بیٹا کیسا لگا کھیت... ؟"
"بہت خوب ڈیڈ ہر چیز پر نکھار آیا ہے وہ کتّے کا پلا کافی فربہ ہوگیا ہے
آپ نے بہت محنت کرلی اب آپ آرام کریں اور اپنا خیال رکھیں..
کھیت کا خیال میں رکھوں گا... ۔"
اب صفدر شدت سے شام کا انتظار کرتا گھر اور دیگر مصروفیات سے فارغ ہوتے ہی وہ کھیت کی طرف چلا آتا
مایا اس کیلئے اچھی چائے بناتی
جب رم جھم بارش ہوتی
مور مست ہوکر ناچتا
صفدر کی نگاہ کھیت پر تھی دن گزرتے گئے صفدر کے پاس وقت اور جوانی دونوں ہی تھا اور یہی وقت مایا انتخاب سے چاہتی تھی
صفدر کا زیادہ تر وقت کھیت پر گزرتا وہ جوانی کے جوش میں چور تھا..
ایسی ہی ایک سرمئی شام تھی چنار کے درخت کے پاس الاؤ روشن ہوا مایا کا حسن کندن کی طرح دمکنے لگا صفدر کے اندرون چنگاریاں پھوٹنے لگی
اس کی نگاہ کھیت پر تھی صفدر جب محنت کرتا اسے تھکن کا احساس تک نہیں ہوتا
انتخاب کی طرح وہ بھی کھیت پر محنت کرتا رہا دونوں کی محنت میں بہت فرق تھا
مور مست ہوکر ناچتا رہا
مور ناچتے ناچتے رکا
ایک زہریلا سانپ پھن اٹھاے کھڑا تھا مور اور سانپ دونوں آمنے سامنے آگئے
صفدر اب بھی محنت میں مشغول تھا
مور نے انتہائی مہارت سے سانپ کے پھن کو کاٹ کر اسے سالم نگل گیا صفدر اب بھی محنت میں مشغول تھا کچھ وقت اور گزرا مور نے سانپ کو اگل دیا..
لیکن۔
صرف ہڈیاں
بدن تو۔ مور کے اندر ہی رہے گیا تھا اب سانپ باہر نہیں آیا تھا بلکہ یہ اس کا ڈھانچہ تھا
ہڈیوں کا ڈھانچہ صرف ہڈیوں کے ٹکڑے چھوئی چھوئی ہڈیوں کے ٹکڑے
صفدر جب محنت سے فارغ ہوا تو ایسا لگ رہا تھا
باپ کی کھیتی نے اس کا پورا خون چوس لیا ہو
مور مست ہوکر ناچ رہا تھا..
"غزل " (غیرمطبوعہ)
جب میرے پیچھے سارا زمانہ ہی پڑگیا
مجھ کو بھی کھل کے سامنے آنا ہی پڑگیا
بچے ہمک رہے تھے ستاروں کو دیکھ کر
تھوڑا سا آسماں کو جھکانا ہی پڑگیا
پھر کھینچنے لگا تھا مجھے دشت کی طرف
تنگ آکے دل سے ہاتھ چھڑانا ہی پڑگیا
مشکل ہوئی جہاں میں سکونت تو لازماً
خوابوں میں ایک شہر بسانا ہی پڑگیا
دل میں تو اس سے ملنے کی خواہش نہ تھی مگر
آیا تو لامحالہ بٹھانا ہی پڑگیا
انکار بار بار میں کرتا رہا مگر
اے زیست تیرا بار اٹھانا ہی پڑگیا
تجھ سے بچھڑ کے کارِ زمانہ میں ایک عمر
لگتا نہیں تھا دل پہ لگانا ہی پڑگیا
دل کو کہیں قرار ملا ہی نہیں سلیم
پھر مجھ کو اس کے شہر میں جانا ہی پڑگیا
غزل
صدف اقبال
بھدیہ، گیا، بہار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں مسکرا کے وہ کب تک نگاہ سے گزرے
بہت ہوا یہ سفر ،اب کلام تک پہنچے
وہ دیکھتا ہی نہیں ہے نظر اٹھا کے کبھی
یہ بات اُسکو بھی کچھ اضطراب میں رکھے
سبھی کے اپنے ہدف ہیں ،سبھی کی اپنی طلب
کہاں کے دوست،کہاں کے یہ رابطے،رشتے
وہ میرے واسطے اک پھول روز بھیجتا ہے
سنبھالتی رہوں خوشبو کے آسماں کتنے
چلو کہ ہم بھی اُسے آزما کے دیکھتے ہیں
کہ جاکے اُس سے کہو،اس طرف نہ آیا کرے
صدف کٹھن تو بہت تھا سفر محبت کا
مگر تھکے نظر آئے نہیں ، جو آئے تھے