تعارف و تبصرہ / شکیل رشید
اگر ماضی اور حال پر نظر ڈالی جائے تو ، بہت سے ادبی پرچوں کے ’ افسانہ نمبر ‘ یا ’ کہانی نمبر ‘ نظر آ جائیں گے ، لیکن ایسے ’ نمبر ‘ شاید ہی نظر آئیں ، جن میں صرف اور صرف ’ معاصر اردو افسانہ ‘ پر بات کی گئی ہو ۔ نمبروں میں زیادہ تر اُن افسانہ نگاروں اور ان کی تخلیقات پر تحریریں شامل ہوتی ہیں ، جنہیں معاصر کہنا درست نہیں ہو سکتا ، کیونکہ وہ عرصہ دراز سے لکھتے چلے آ رہے ہیں ، اور اب ’ قدیم ‘ کی صف میں شامل ہو چکے ہیں ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ’ معاصر اردو افسانہ ‘ کے موضوع پر مواد ملنا بہت مشکل ہے ۔ اس لیے نہیں کہ نئے لکھنے والوں کی قلّت ہے ، نہیں ! درجنوں ایسے نئے افسانہ نگار مل جائیں گے جو افسانوں کے پورے کے پورے مجموعے لے کر بیٹھے ہوئے ہیں ، وہ کہیں بھی ، کسی پرچے ، رسالے اور اخبار تک میں اپنے افسانے شائع کروانے کے لیے تیار رہتے ہیں ، لیکن اُن افسانوں کی بنیاد پر کوئی ’ نمبر ‘ نکال کر یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ’ معاصر اردو افسانہ نمبر ‘ ہے ! کیونکہ یہ تھوک کے بھاؤ میں ملنے اور چھپنے والے افسانے پڑھنے کے لیے نہیں ہوتے ، ان کی حقیقی جگہ ردی کی ٹوکری ہوتی ہے ۔ لیکن دانش کمال اثری کی ادارت میں شائع ہونے والے ادبی پرچے ’ عالمی ادبستان ‘ کا تازہ شمارہ اس معنیٰ میں قابلِ توجہ ہے ، کہ اس میں پوری ایمانداری سے یہ کوشش کی گئی ہے ، کہ بات ’ معاصر افسانوں ‘ پر کی جائے ، اورافسانے بھی معاصر افسانہ نگاروں کے ہی شائع کیے جائیں اور کوشش کی جائے کہ افسانے اچھے بھی ہوں ۔ اس پرچے کے لیے اُن افسانہ نگاروں کو چُنا گیا ہے جن کے افسانوی مجموعے ۲۰۰۰ء کے بعد شائع ہوئے ہیں ۔ اسی لیے اس خاص شمارہ میں سینیئر ترین افسانہ نگار شامل نہیں ہیں ، ہاں چند پیش رو ہیں ، جن کے مجموعے ۲۰۰۰ء کے بعد شائع ہوئے ہیں ۔ دانش اثری نے ’ راہ پُر خار ہے اور......‘ کے عنوان سے اِس خاص نمبر کی ’ کہانی ‘ لکھی ہے ، جو دلچسپ تو ہے ، لیکن سوچ کے در بھی کھولتی ہے ۔ انہوں نے بجا شکوہ کیا ہے کہ ’ ادبی نشستیں ‘ چاہے وہ ’ افسانوی ‘ ہوں کہ ’ شعری ‘ اب دَم توڑ رہی ہیں ، اور اب ’’ فکر ادب سے زیادہ فکر معاش کا غلبہ ہے اور اگر سچ کہا جائے تو ادب بھی اب بھرے پیٹ کا چونچلاہی معلوم ہوتا ہے ۔‘‘ وہ آگے بتاتے ہیں کہ جب ’ معاصر اردو افسانہ نمبر ‘ کا اعلان کیا گیا تو کسی جانب سے دلچسپی کا مظاہرہ سامنے نہیں آیا اور ، ’’ لوگوں نے لکھنے اور موضوعات محفوظ کرانے میں جس تیزی کا مظاہرہ کیا معیاد پوری ہوتے ہوتے وہ سارا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ چکا تھا ۔ عین وقت پر تقریباً ڈیڑھ درجن اسکالرز نے معذرت کر لی اور افسانہ نگاروں کی بھی خاصی تعداد نے اسی عمل کا مظاہرہ کیا ۔ ‘‘ لہٰذا جو کچھ جمع ہوسکا وہی پیش کر دیا گیا ۔ دانش کمال اثری لکھتے ہیں ، ’’ خواہش تو یہ تھی اور امید بھی تھی کہ یہ خصوصی شمارہ نئے افسانہ نگاروں کے حوالے سے ایک دستاویز کی شکل اختیار کرجائے لیکن افسوس کہ متذکرہ صورت حال سے الجھنے کے بعد صرف مختلف علاقوں کی نمائندگی پر ہی اکتفا کر لیا گیا ۔‘‘ اداریہ میں مدیر نے افسانہ نگاروں کا تعارف بھی کرایا ہے ، اور ان کے افسانوں پر بھی بات کی ہے ، اس طرح اس شمارے کے شرکاء کو سمجھنے میں آسانی ہوگئی ہے ۔ پرچے میں مضامین کی تعداد ۳۹ ہے ، اداریہ کو ملالیں تو یہ تعداد ۴۰ ہوجاتی ہے ۔ تین مضامین افسانوں کی مجموعی صورت حال پر ہیں ۔ پروفیسر اسلم جمشیدپوری کا مضمون ’ نئی صدی کا افسانہ ‘ معاصر افسانہ نگاروں اور ان کی تخلیقات کو خوبصورتی کے ساتھ متعارف کرانے میں کامیاب ہے ۔ نورالعین ساحرہ کا مضمون ’ اکیسویں صدی کا اردو ادب اور ایک اچھے افسانے کے بنیادی عناصر ‘ افسانہ نگاری کی تکنیک پر مبنی ہے ۔ یہ ایک اچھا مضمون ہے ۔ ثمینہ سیّد ( لاہور ) کا مضمون ’ جدید افسانہ کے خد و خال ‘ جدید افسانوں میں کیے جانے والے تجربات پر روشنی ڈالتا ہے ۔ یہ ایک مختصر مگر بھرپور مضمون ہے ۔ ایک مضمون ’ ۲۰۰۰ء کے بعد مالیگاؤں میں اردو افسانہ ‘ کے عنوان سے ہے ، اس کے لکھنے والے ڈاکٹر مبین نذیر ہیں ۔ یہ مضمون مدیر کی درخواست پر لکھا گیا ہے ۔ دانش اثری نے اس بارے میں لکھا ہے ، اور سچ ہی لکھا ہے کہ ، ’’ مالیگاؤں اردو ادب کے حوالے سے ایک ایسی بستی بن چکی ہے کہ کسی بھی صنف ادب کی گفتگو ہو اسے نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہوتا ، اس لیے اس کا اجمالی جائزہ کچھ ضروری بھی تھا ۔‘‘ اس شمارہ میں مالیگاؤں کے ایک نوجوان افسانہ نگار ( اور شاعر بھی ) احمد نعیم کا افسانہ ’ دھڑکتے تلوے ‘ شامل ہے ، جو اپنے موضوع اور پیش کش ، دونوں لحاظ سے دلچسپ ہے ۔ کُل ۲۳ افسانے شامل ہیں ، جو ملک کے مختلف علاقوں کی نمائندگی بھی کرتے ہیں اور پڑھنے والوں کو یہ بھی بتاتے ہیں کہ آج کیسے افسانے لکھے جا رہے ہیں ، ان کے موضوعات کیا ہیں اور تکنیک کا کس طرح سے استعمال کیا جا رہا ہے ۔ تنقیدی مضامین جو شامل ہیں ، ان میں آج کے افسانہ نگاروں کی تخلیقات کا بےلاگ جائزہ لیا گیا ہے ، اِن کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ لکھنے والوں نے محنت کی ہے ۔ پرچے کی ضخامت 496 ہے ،قیمت 500 روپیہ ہے ۔ اسے موبائل نمبر 9236741905 پر رابطہ کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔
یہ افسانہ فوجی آمر جنرل ضیاء کے دور حکومت میں پاکستان میں بین کیا گیا تھا۔
افسانہ: چابک بدست امام
سلطان سبحانی
مالیگاوں ۔ انڈیا
انتخاب، ٹائیپنگ اور پیشکش: احمد نعیم ۔ مالیگاوں۔ انڈیا
سلطان سبحانی ترقی پسند تحریک سے وابستہ ایک صاحب طرز ادیب، شاعر، صحافی اور مصور کی حیثیت سے برصغیر ہند و پاک میں مشہور رہے ہیں۔ مالیگاؤں انڈیا سے جاری شدہ رسائل "نشانات" اور "ہم زباں" کی ادارت کا فریضہ بھی آپ نے نبھایا۔ مشہور ادبی رسالہ "شاعر" کے متعدد سرورق آپ کی مصوری کے شاہکار مانے جاتے ہیں۔
آپ کے افسانوں کے مجموعوں میں:
اجنبی نگاہیں (1966)،
راستے بھی چلتے ہیں (1969)،
میرا کھویا ہوا ہاتھ (1987)،
بدن گشت بادبان (1990)،
شام کی ٹہنی کا پھول (1999)،
اور
اندھے سانپ والا (2012) شامل ہیں۔ چند شعری مجموعے اور ادب اطفال کے تحت کچھ ناول بھی شائع ہوئے ہیں۔ چند دن پہلے سلطان سبحانی کا انتقال ہوا ہے۔
خراج عقیدت کے طور پر ان کا افسانہ "چابک بدست امام" یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔
اس افسانے پر رشید امجد نے اپنے تاثرات یوں بیان کیے ہیں ۔۔۔
آپ کا افسانہ "چابک بدست امام" تاثر سے بھرپور ہے۔ جذبے اور احساس حدبندیوں اور فاصلوں کے محتاج نہیں ہوتے۔ آپ نے اس دکھ کو جس سطح پر محسوس کیا ہے وہ میرا بھی ہے۔ مجھے لگتا ہے یہ افسانہ میں نے لکھا ہے۔ اظہار بھی خوبصورت ہے۔ آپ نے کمالِ فنی چابکدستی سے اسے گمبھیر کر کے پھیلا دیا ہے۔ یہاں اس حوالہ سے کوئی بڑا افسانہ لکھا نہیں گیا۔ دکھ اتنا شدید ہے کہ شاید اس میں عرصہ لگے۔ اس کی وجہ قریبی فاصلہ بھی ہو سکتا ہے۔ آپ نے بلاشبہ اس حوالہ سے بڑا افسانہ لکھا ہے اور مصنوی دوریوں اور حد بندیوں کو توڑ دیا ہے۔ ذہنی اور فکری وابستگی اور نظریاتی تسلسل کا یہ تحرک تیسری دنیا کی ترقی پسند سوچ میں ایک مبارک مرحلہ ہے۔
چابک بدست امام
جزیرے میں وردی پوش خود ساختہ امام نے سر ابھارا -
اور اُس نے اپنا چابک فضا میں لہر کر جزیرے والوں سے یوں خطاب کیا -
*"اے لوگو! میں سچ ہوں"*.....
"بدنہاد _______بد کردار ______بد ہیت! -" پورا جزیرہ چیخ اُٹھا -
اُس نے اپنا خطاب جاری رکھا
"لوگو -!
اس وقت وقت پورا جزیرہ میرے محاصرے میں ہے - میں تمہیں راہِ راست پر لانے کے لئے لئے ظاہر ہوا ہوں - مجھے پہچانو" - اگر تم لوگوں نے مجھے اپنا امام تسلیم کرلیا تو میرے اس جزیرے میں ایک سبز سورج طلوعِ ہوگا جو تمہاری بےشباہت زمینوں کو پیالوں سے ڈھانک کر ثمر بار کردے گا - یہ چابک دیکھ رہے ہو یہ اژدھا ِ موسیٰ سے مشابہ ہے خدا کی قدرت ہے کہ یہ برق کی طرح لپکتا ہے اور انسانوں کی کھال پھاڑ کر اُن کی ہڈیوں پر میرا نام ثبت کرکے انھیں میری بیعت میں لے کر آتا ہے - یہ چابک ہی اصل تمہارا نجات دہندہ ہے - اُسے اور اپنے اس پاسبان کو بھول جاؤ جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ تمام بکھرے ہوئے پرزوں کے درمیان اتحاد کی علامت بن کر اُبھرا ہے یہ جھوٹ ہے اتحاد کی علامت علامت وہ نہیں بلکہ میں ہوں - یہ چابک گواہ ہے تمہارا وہ پاسبان تو موجِ ریگ کی مانند ہے جو اس وقت میری قید میں پانی کے قطرے قطرے کو ترس رہا ہے - "
" منافق -! " انسانوں کے دور تک پھیلے ہوئے کوہِ ندا میں بازگشت ہوئی تم یہاں یزیدیت لے کر نمودار ہوئے ہو - وہ سبز سورج تو اس صدیوں پہلے طلوعِ ہوچکا ہے - تم کس سورج کی بات کر رہے ہو؟؟؟ سبز سورج کے نام پر تم نے پورے جزیرے میں بارود بچھا دیا ہے - تم انسان نہیں درندے ہو"
اچانک وردی پوش کی آنکھیں سُرخ ہوگئیں اور اس کے چہرے میں چھپا ہوا ایک اور چہرہ نمودار ہوا کھڑے ہوئے کان، آنکھوں کے گہرے گڑھوں میں جلتی موم بتیاں، رخساروں کی ابھری ہوئی ہڈیاں اور لمبوترے چہرے پر وحشیانہ تناؤ -
" میں نورِ حق ہوں "
" ماں...... بھیڑیا -" ایک بچہ سہم کر اپنی ماں سے لپٹ گیا -
"احسان فراموش! کوہ ندا بپھر گیا - نورِ حق بننے سے پہلے اپنی سیاہ کاریوں کا حساب دو"
اچانک وردی پوش کی آنکھوں میں جلتی ہوئی موم بتیاں سُرخ ہوگئیں اور اُس کے دایاں بایاں سے بہت سارے فوجی بُوٹ نکل کر کوندا کی طرف دوڑ پڑے - ایک شور اٹھا اور کوہِ ندا منتشر ہوگیا لیکن اپنے پیچھے کچلی ہوئی لاشیں چھوڑ گیا -
وردی پوش نے فخر سے کہا -
سبز سورج طلوع ہوچکا ہے - اب پاسبان کے حواریوں کے ہاتھ کاٹنے کا موسم شروع ہوگا - اب ان کے ہاتھ مغرب کے تاجروں کو نذر کئے جائیں گے - اب یہ چابک پورے جزیرے پر لہرائے گا کیونکہ اپنے آپ کو تسلیم کروانے کے لئے ہر طرح کی طاقت کا استعمال جائز ہے اور بغاوت کا علاج صرف بربریت!
پورا جزیرہ تاریکی میں ڈوب گیا -
کہیں کہیں صرف فوجی بُوٹ روشن تھے اور گنگنا بھی رہے تھے
اس تاریکی میں آہنی سلاخوں کے پیچھے میں موت کے قدموں کی آواز سن رہا ہوں
میرے جسم سے ایک شاخ پھوٹ نکلی ہے جس کے سرے پر ایک پتیّ شمع کی طرح روشن ہے پوری کوٹھری میں بس اتنا ہی اُجالا ہے میں بیمار ہوں میرے دانتوں سے خون رس رہا ہے جس نے اس جزیرے میں شادابی کی لہر دوڑ کر شاندار مستقبل سے ہمکنار کر دیا تھا - یہ شاخ گواہ ہیکہ یہ خون وہ ہے جس نے اس جزیرے کے بارود، گولیوں بوٹوں اور زنجیروں سے نجات دلائی تھی یہ خون وہ ہے جو ہمیشہ نسلِ آدم کی خدمت میں موجزن رہا ہے لیکن آج اس پر تہمت دھر دی گئی ہے..... یہ شاخ مجھے کب تک سنبھالے گی......
یہ پتی کب تک روشن رہے گی؟؟؟ ؟
شاید ہمیشہ ______میرے بعد بھی -
مجھے پیاسا مارا جارہا ہے - ہر طرح کی اذیت دی جارہی ہے - کھانا، پانی، دوا، بستر، وغیرہ ہر چیز سے محروم کر دیا گیا ہے - اس بیماری میں بھی وزن دار بوٹوں سے کچلا جارہا ہے طرح طرح سے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں - نفسیاتی حربوں کے تمام جلوس نکال دیئے گئے ہیں - ہر رات اس کوٹھری سے باہر قبر کھو دی جارہی ہے - تاکہ میں گھبرا کر خودکشی کروں - یا اس منافق اور ظالم کے سامنے سرنگوں ہوجاؤں - یہ ناممکن ہے جب تک یہ شاخ مجھے پر سایہ فگن ہے مجھ میں حوصلہ رہے گا - دنیا کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ظالم فاتح ہوا ہو....... وادی نیل..... مقام گلگُتا.... سرزمین فرات! اس شاخ کو تازگی دے
اسے سنبھال یہ جنگ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی
*سبز سورج کے نام پر پورے جزیرے میں دھول اڑ دی گئی -*
جب سب کی آنکھوں میں دھول بھر گی تو شاہراہوں پر چابک برسنے لگے قید خانوں کو آباد کیا جانے لگا
*"لب کھولنا جرم ہے،. سچ کہنا جرم ہے کچھ لکھنا جرم ہے -*
ان احکامات کے پیچھے سازشیوں کا ایک بہت لمبا جلوس پھیلتا ہوا دور تک چلا گیا جس کا آخری سِرا دیار مغرب میں سجدہ شکر ادا کر رہا تھا ایک لازوال سجدہ _____جس میں چالیس لاکھ ڈالر کی خوشبو تھی -
وردی پوش کی حاشیہ حاشیہ بردار خونی جماعت کے سربراہ کا سینہ ِ نور سے بھر گیا
"اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں......"
لیکن سرسبز سورج تو طلوع ہوچکا ہے مساوی حقوق! تجھے آخری سلام -اب محمود کی صف میں جو بھی ایاز آئے گا اسے کچل دیا جائے گا یہاں *نظامِ سرسبز ہے
*مسلط کردہ جماعتی نظام اور اِس کا نقطہ سفر لہو کے بھنور سے ذرا آگے بڑھا تو جزیرے میں خوف و ہراس، احتجاج اور تشدد متصادم ہوگئے*
وردی پوش نے پھر مونچھوں کے تحرک میں خطاب کیا -
"مجھے پہچان لو - *" میں چابک والا ہوں - میری اطاعت قبول کرو خونی جماعت کا سربراہ بھی مجھ پر ایمان لاچکا ہے - کیا تم دیکھتے نہیں کہ اس چابک کی وجہ سے مطلق الغائی میرا شیوہ نہیں معامذت، اقتدار کی ہوس، انتقام، جھوٹی شہرت، شازش، دھوکا، ظلم، بربریت، قتل خون یا ایسی کسی بھی کمزوری سے میں سراسر پاک اور مبارک ہوں - تمہارا پاسباں ایک انتہائی ظالم انسان ہے وہ ایک سیاسی قتل کے الزام میں ماخوذ ہو ______تمہارے پاسبان نے اگر مجھ پر اعتماد کیا مجھے ترقی دی تو کیا ہوا جیسے تم لوگ خونی جماعت کا سربراہ کہتے ہو اسے بھی تو تمہارے پاسبان نے پھانسی کے پھندے سے بچایا تھا - تو کیا یہ کوئی کارنامہ ہوگیا؟؟؟ آخر ہم لوگ بھی تو اپنا عظیم انسانی فرض ادا کر رہے ہیں - ہم انصاف پسند ہیں انصاف ہمارا مہان ہے - یہ جزیرہ اگرآج بارود کی وجہ سے آتش فشاں بن گیا ہے تو کوئی بات نہیں - مکمّل سبز موسم چھانے پر گلنار ِ ابراہیم میں بھی بدل سکتا ہے لیکن تم لوگ اتنے خاموش کیوں ہو؟؟؟ اتنے خشک اور بدمزہ کیوں ہوگئے کیا میرے خطابِ نرم و نازک کا تم پر کوئی اثر نہیں؟؟؟*
لوگ گھروں سے باہر نکل آئے
اداس لوگ، فکر مند لوگ، آنسو والے لوگ، غصہ والے لوگ اور وہ سب آپس میں ملے تو وہاں ایک مینار بلند ہوگیا کروڑوں آنکھیں _____کروڑوں ہاتھ _____اور کروڑوں دل
وردی پوش کی آنکھوں میں ایک روشن سا دھبہ جھلکا اس نے دیکھا مینار کی سب سے بلند منزل پر جزیرے کا پاسبان کھڑا ہوا ہے اور اس کے سر پر ایک شاخ سایہ فگن ہے
وہ غصہ میں بھڑک اٹھا _____"جزیرے والو! اسے اپنی آنکھوں اور دلوں سے نیچے اتارو یہ ظالم ہے مجرم ہے ورنہ یہ چابک دیکھ رہے ہو.....
سینا سے آواز آئی "ظالم اور مجرم تم ہو - تم سبز سورج اور سبز موسم کے نام پر سب کو سبز باغ دکھا رہے ہو، سب کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہو - تم نے اقتدار کی ہوس اور انتقام کی آگ میں جل بھُن کر پاسبان کو بےگناہ پانسا ہے - تم نے اور تمہاری خونی جماعت نے سبز سورج کی پرستش کی بجائے اس کے ہزار ٹکڑے کر دیئے ہیں - تم نے اس جزیرے پر سبز موسم نہیں بلکہ سبز کفن ڈال دیا ہے لیکن تمہیں علم ہونا چاہیے کہ یہ بارود، یہ چابک، یہ فوجی، بُوٹ حق کو کبھی نہیں مٹا سکتے - - بددماغ!! تم سے یہ کس نے کہہ دیا کہ عیسی، سقراط یا منصور غلطی پر تھے کیا اس طرح تم اپنے داغ دھو سکو گئے؟؟؟؟ ظالم تم سردار کاہن کی کی نسل سے تعلق رکھتے ہو - اس جزیرے میں نمرودیت پھیلانے کے بعد گلزارِ ابراہیم کی بات کر رہے ہو - اس خطبہ سے تو اُسی خونی جماعت کے اندر نگارشِ و بیان کا پتہ چلتا ہے جس نے ہمیشہ اپنی ہی قوم میں فساد کھڑا کیا ہے جس نے ہمیشہ اپنی ہی قوم کے لوگوں کو کٹوایا اور جس نے ہمیشہ اپنی ہی قوم فساد کھڑا کیا ہے جس نے ہمیشہ اپنی ہی قوم کے لوگوں کو کٹوایا اور جس نے ہمیشہ اپنی ہی قوم کے خلاف سازش کی
وردی پوش کی آنکھیں سُرخ ہوگئیں اُس نے چابک لہرا کر کہا کہ -
*"گستاخی بند کرو! اس جزیرے کا حاکم اور تم سب کا امام ہوں اگرچہ داڑھی سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں - امام تو بہرحال میں ہوں - میں جدید شریعت کا حامی ہوں یاد رکھو - مجھ سے انحراف کا انجام تم سب کے لیے موت ہے کیا تم جانتے نہیں کہ ملک کا حاکم خدا ہوتا ہے-*
مینار سے آوازیں اُبھریں
*"تم جیسا خود ساختہ نیل میں غرق ہو جاتا ہے - آگ میں جل کر کر کے خاک میں ہوجاتا ہے اور پتھروں میں دب کر دفن ہوجاتا ہے - تمہاری خدائی پر آ ____تھو!"*
مینار پھیل گیا اور پانی کی لہروں کی طرح لچکتا ہوا شاہراہوں پر شور کرنے کرنے لگا احتجاج احتجاج........ اور رات میں جب سارا جزیرہ سو گیا تو فوجی بُوٹ گلیوں میں پھیل گئے اور سوتے ہوئے لوگوں کو چن چن کر سلاخوں کے حوالے کرنے لگے پسِ سلاخ بھی احتجاج
ساری دنیا کی نظر جزیرے پر مرکوز ہوگی یہ پہلا اتفاق تھا کہ ایک قیدی کو بچانے کے لئے پوری دنیا حرکت میں آگی اتنا عظیم قیدی کہ تاریخ بھی حیران یہاں تک کہ دیارِ مغرب سے بھی نامہ و پیام چلے شاہوں کے بھی کاغذی گھوڑے دوڑے
اور گھوڑے ہنہنائے ہوئے وردی پوش کے بارود خانے میں گھُس گئے
اُس نے دیکھا ہر گھوڑے پر ایک پاسباں بیٹھا ہوا ہے جس کے سر پر ایک شاخ ہے جو تلوار کی طرح لچک رہی ہے وہ خوفزدہ ہوگیا پھر اسے اپنے چاروں طرف پاسباں کی بھیڑ نظر آنے لگی اور ایک چمکتی ہوئی تلوار
*قریب ہی ایک دوسرے جزیرے میں ایک بوڑھی عورت کچھ بچوں کو ایک ظالم بادشاہ کی کہانی سنانے کے بعد کہنے لگی ______تو بچوں جو سب کی نیند حرام کردیتا ہے وہ خود بھی نیند کو ترس ترس جاتا ہے*
میں َ سلاخوں کے پیچھے زخم اور تکلیف سے بےحال پڑا ہوں - ابھی کچھ دیر پہلے کچھ وردی پوش بھیڑیے چابک لے کر مجھ پر ٹوٹ پڑے تھے مجھے ختم کرنے کی کتنی کوششیں جاری ہیں میرے جسم سے چالیس کلو خون اور گوشت کم کر دیئے ہیں اس تنگ سی کوٹھری میں سبھی مجھے وزن دار فولادی زنجیروں سے باندھ کر رکھا گیا ہے ایک بیمار کے ساتھ اتنا بہیمانہ رویہ میں سمجھ چکا ہوں کہ میرے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جائے گا جو ہمیشہ سچ کے ساتھ ہوتا رہا ہے جھوٹے مقدمہ، جھوٹی شہادت، جھوٹے گواہ، انصاف کو ختم کرنے کے لیے کیسے کیسے اہتمام کئے گئے ہیں وہ حاکم ہونے کے باوجود آج ایک فقیر سے بھی بدنصیب ہے کہ میرے سامنے رحم کا کشکول لے کر کھڑا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کشکول میں تھوڑا رحم میں اپنے لیے مانگ لوں کتنا مختاج ہے وہ میرے سامنے شاید دنیا کو اپنی اداکاری دکھلا رہا ہے میں جانتا ہوں مجھے دار پر چڑھا دیا جائے گا میری سانسوں کی طناب توڑ دی جائے گی لیکن میں تو کروڑوں دلوں میں رہتے زندہ ہوں - یہ شاخ گواہ گواہ ہے کہ دلوں میں بسے ہوئے لوگ کبھی نہیں مرتے - - - - - -
........ اور شاخ نے دیکھا کہ خونی جماعت کے سربراہ کے ایک حاشیہ بردار نے بارود خانے میں حاضر ہوکر وردی پوش کو سلامی دی سجدہ کیا اور فضا میں انگلی سے ایک نشان بنا کر سربراہ خونی جماعت کا ایک قطعی فیصلہ پیش کیا -
وردی پوش کے لیے چہرے میں چھپا ہوا دوسرا چہرہ اُبھر آیا اور آنکھوں میں جلتی ہوئی موم بتیاں سُرخ ہوگئیں اور وہ اتنی زور سے ہنسا کہ پسِ چہرہ ایک تیسرا چہرہ بھی وجد و ظہور میں آگیا -
*مجھ سے میری آخری خواہش پوچھی گئی ہے لیکن رحم کی بھیک لے کر کھڑے ہوئے دریوزہ گر کو میں اپنی آخری خواہش سے بھی محروم رکھوں گا -سچائی، بے گناہی اور انصاف کو قتل کرنے والے اس بےرحم سفاک کی آخری خواہش بھی پوری نہیں ہونے دوں گا، میں جھوٹ، فریب اور ظلم سے سمجھوتہ نہیں کرسکتا - _______اے شاخ....... اب میں رخصت ہونے والا ہوں تو اُس جزیرے کو اپنی پناہ میں لے......... ایک مظلوم انسان اپنا اثاثہ جو کروڑوں انسانوں کی شکل میں ہے تجھے سونپ رہا ہے مجھے احساس ہوچکا ہے کہ یہ لوگ اب مجھے مار ڈالیں گے...*
کانوں میں اذان کی آواز گونجنے لگی
*اللہ اکبر
اللہ اکبر.......
اشھدان لاالہ اللہ.... "
اور جزیرے کے ایک گوشے میں شمع کے نیچے بائبل کا ایک ورق ہوا سے پھڑپھڑانے لگا اور سردار کاہن اور سب صدر عدالت لسیوع کو مار ڈالنے کے لئے اس کے خلاف گواہیاں ڈھونڈنے لگے، مگر نہ پائی کیوں بہتروں نے اس پر جھوٹی گواہیاں تو دیں لیکن انکی گواہیاں (آپس میں) متفق نہ تھیں "
میں شاخ سے کہہ رہا ہوں -
یہ جنگ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی......
اور یہ دنیا کا پہلا واقعہ تھا کہ سورج رات کے ڈھائی بجے ہی طلوع ہوگیا ایک سفید چمکتا ہوا گھوڑا ہوا میں اڑتا ہوا آیا اور ایک چیخ کو سمٹ کر جزیرے سے بلند ہوگیا کوٹھری خالی ہوگئی اور یہ دنیا کا پہلا اتفاق تھا کہ کسی کے گھر میں موت اور میت کی خبر سات سمندر پار سے آئی -
*"ذرا اپنے گھر میں دیکھو تمہارا کوئی عزیز چل بسا ہے*
*...... دنیا کا سب سے ذلیل اور برترین واقعہ......"*
*لوگ چیختے ہوئے، روتے ہوئے اور سینہ کوبی کرتے ہوئے گھروں سے باہر نکل آئے پورا جزیرہ رونے کی آوازوں سے گونج گونج اٹھا -*
*شاہراہوں پر جگہ جگہ کوہِ آتش فشاں کھڑے ہوگئے
وردی پوش کتے کیا یہی ہے تمہارا سبز سورج؟؟؟؟ تم نے اتنا ظلم کیا ہے کہ اس کی مشال نہیں مل سکتی :بھیڑیے تم نے دنیا کے تمام امن پسند انسانوں کا کلیجہ پھاڑ دیا ہے ایک بیگناہ پر مسلسل ڈیڑھ سال تک ظلم کرنے کے بعد اسے رات کے اندھیرے میں اس طرح مار ڈالا کہ کس کو خبر تک نہ ہوسکی - اتنا بڑا دھوکہ اتنی بڑی سازش - ذلیل کتے کیا یہی ہے تمہارا نظام ِ سرسبز ظالم تم نے کسی ایک فرد کو نہیں بلکہ پوری ایک نسل کو پوری ایک قوم کو قتل کر ڈالا لکھ لو کہ یہ خون ایک دن ضرور رنگ لائے گا -
*گھروں سے عورتیں اور بچے بھی نکل آئے*
روتے، بلکتے اور ذبح کئے ہوئے پرندوں کی طرح پھڑپھڑاتے ہوئے لوگ
اچانک ہر طرف سے وزن دار فوجی بوٹ اور چابک حملہ آور ہوئے اور ماتم کرنے والوں کی کھالیں ادھیڑی جانے لگیں.......
ایک بوڑھے عیسائی نے اپنے کمسن بیٹے سے کہا -
*"اور بیٹے لسیوع کو گرفتار کرانے کے صلہ میں اُس کے شاگرد یہواہ کو صرف تیس روپے میں ملے تھے"*
*"میں حق پر ہوں - میں نے سب کچھ صحیح کیا ہے اس جزیرے پر اب مکمّل سبز نظام چھا چکا ہے...... وہ دیکھو ایٹم بم اور میزائل ہماری طرف پیش قدمی کر رہے ہیں.....*
*میں َ مرچکا ہوں لیکن دیکھ رہا ہوں کہ میری قبر کے گرد سنگینیں کھڑی کر دی گئی ہیں چاروں طرف بارودی بدن ایستادہ ہوگئے ہیں صحیفہ آسمانی کی تلاوت پر پابندی لگا دی گئی ہے میدانوں پر پہرے بٹھا دئے گئے ہیں تاکہ کوئی سجدہ نہ کرے ورنہ میری روح کو ثواب پہونچے گا یہ نظام سبز نہیں اس کا سفاکانہ قتل ہے -*
لوگ غم و غصہ میں پاگل ہوگے - - - - - - ایک تیز آگ سڑکوں پر دوڑنے لگی
انگت عمارتوں اور دفاتر کو جلا کر خاک کر دیا گیا
َ"وردی پوش امام! اب تیرا انجام ہمارے ہاتھ میں ہے اب ہم تجھے چین سے نہیں جینے دیں گے ہماری راہ میں جو بھی حائل ہوگا اسے خاک کر دیں گے یہ طوفان اب رک نہیں سکتا - بڑھتا رہے گا پھیلتا رہے گا یہ طوفان وہ ہے جس کا دوسرا نام عوام ہے اور اب تیرا مقدمہ ہمارے ہاتھ میں ہے
جزیرے سے ہزاروں میل دُور ایک ماں اپنی بچی کو صدیوں پرانی جنگوں کے واقعات اور معرکہ سُنا رہی تھی پھر اس نے ایک تلوار کا تعارف کرایا
*"بیٹی حضرت علی رضی اللہ کی تلوار کا نام ذوالفقار تھا جو ہمیشہ ظالموں کی صفیں الٹتی رہی - - - - - اور شاید ابد تک ظالموں کے تعاقب میں رہے گی-*
🔴🔴🔴🔴🔴🔴ختم شدہ انتخاب و ٹائپنگ احمد نعیم مالیگاؤں (موت ڈاٹ کام مالیگاوں بھارت)
♣️ نعتیہ غزل بر زمینِ غالب ♣️
حسنِ ازل کا جلوۂِ یکتا کہیں جسے
ایسا کہاں حسین کہ اُن سا کہیں جسے
گلزارِ کائنات میں جس کی بہار ہیے
وہ گل کہ جانِ باغِ تجلّا کہیں جسے
اُس روۓ وَالضُحیٰ کی ہو تمثیل کیا کوئی
مہر و مہ و نجوم کا مَبدا کہیں جسے
سوۓ دَنیٰ ، حضور کی پرواز دیکھ کر
حیرت زدہ ہیے ، طائرِ سدرہ کہیں جسے
بلبل نہ کیوں درود پڑھے باغ میں کہ ہے
جانِ گلاب ، اُن کا پسینہ کہیں جسے
اُس چاند سے ہر ایک صحابی ہیے تابناک
روشن ہیے اِس قدر کہ ستارہ کہیں جسے
یارب جہاں ہزاروں مَلَک آئیں صبح و شام
دیکھوں وہ در کہ کعبۂِ کعبہ کہیں جسے
ہر دم جمالِ جلوۂِ جاناں ہو عکس ریز
اک آئنہ ہو دل کہ مدینہ کہیں جسے
پروانہ وار ، دل سے کروں یوں طواف در
جائز ، تمام اہلِ فتاوا کہیں جسے
سارا جہاں اُسی کا ہیے وہ جس کا ہوگیا
اصلِ مراد ، جانِ تمنّا کہیں جسے
پی تھی علی نے بوند جوغسلِ نبی کےبعد
دریا ۓ علم نکلا وہ ، قطرہ کہیں جسے
بھاری ، ہزار پر ہوئی وہ فوج ، بدر میں
حرفِ عدد میں تین سو تیرہ کہیں جسے
سیفی ملےمجھےبھی محبت میں وہ مقام
بن جاؤں ایسا میں کہ وہ میرا کہیں جسے
سید شاکرحسین سیفی
صدر شعبہءِ افتاء دارالعلوم محبوب سبحانی
*کرلا------ ممبئی ---انڈیا---
20/10/2020
09892137196
ایک غزل احباب کی نذر
غزل
لذت یوں ترے قرب کی ہم پانے لگے ہیں
اب دل کو تری یادسے بہلانے لگے ہیں
وہ خواب جو تعبیر سے محروم پڑے تھے
آنکھوں میں وہی خواب مری آنے لگے ہیں
طاری ہے جنوں کون سا کچھ ہوش نہیں ہے
میں کیا ہوں مجھے لوگ یہ سمجھانے لگے ہیں
یونہی نہیں یہ چہرے پہ مسکان سجی ہے
ہم اپنی تمناؤں کو دفنانے لگے ہیں
ناجانے میری ذات میں کیا آیا نظرکہ
دیوار سے سر اپنا وہ ٹکرانے لگے ہیں
میں خود میں سمٹ آنے کی کوشش میں لگا ہوں
کچھ لوگ مجھے اور بھی پھیلانے لگے ہیں
تو درس وفا جا کے کسی اور کو دینا
ہم پر تو وفاداری کے ہرجانے لگے ہیں
عرفان ندیم مالیگاؤں