شکیل رشید ( ایڈیٹر، ممبئی اردو نیوز)
صوبۂ مہاراشٹر میں سیاسی صورتِ حال دھماکہ خیز ہے ۔ دھماکہ خیز اِن معنوں میں کہ وزیراعلیٰ ایکناتھ شندے اور نائب وزیراعلیٰ دیویندر فڈنویس کے درمیان دوریاں بڑھنے ، اور اجیت پوار اور فڈنویس کے درمیان دوریاں گھٹنے کی اطلاعات ہیں ۔ اسے آسان لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ، بی جے پی اور شندھے کی شیوسینا کے درمیان اختلافات ابھر آئے ہیں ، اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی ( این سی پی ) اور بی جے پی کے درمیان قربتیں بڑھی ہیں ۔ اس خبر کا سیدھا مطلب یہ ہے ، کہ ریاست میں موجودہ حکومت ، جسے شندھے حکومت کہا جاتا ہے ، ’ خطرے ‘ میں آ گئی ہے ۔ سابق وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے کے دستِ راست ایم پی سنجئے راؤت کی مانیں تو ، بیس دن میں یہ سرکار گر جائے گی ۔ کہا جاتا ہے کہ بی جے پی نے شندھے سے جو امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں وہ ان پر پورے نہیں اترے ہیں ، اس لیے اب بی جے پی انھیں اُس کرسی سے ، جس کے لیے انھوں نے ادھو ٹھاکرے سے بغاوت کی تھی ، ’ اُتارنے ‘ کی تیاری میں ہے ۔ لیکن بات صرف اتنی ہی نہیں ہے ، بی جے پی کو اب یہ خوب اندازہ ہو گیا ہے کہ ، مہاراشٹر کے ووٹر فڈنویس اور شندھے کے گٹھ جوڑ کو ووٹ نہیں دیں گے ، کیونکہ شندھے کی بغاوت اور شیو سینا میں ’ پھوٹ ‘ کے سبب زیادہ تر لوگوں کی ہمدردیاں ادھو ٹھاکرے کے ساتھ ہیں ، اور شندھے ایک ناپسندیدہ سیاست داں بن کر رہ گیے ہیں ۔ دوسری جانب شیوسینا میں ’ پھوٹ ‘ کے لیے لوگ فڈنویس کو ذمہ دار مان رہے ہیں ، اس لیے اگر انھوں نے جلد ہی شندھے کا ساتھ نہیں چھوڑا تو بی جے پی کے لیے ، جس کی ساکھ ویسے ہی ریاست میں بڑی تیزی کے ساتھ گھٹی ہے ، پریشانیاں لاینحل ہو جائیں گی ۔ سچ تو یہ ہے کہ شندھے اور فڈنویس نے جو ساجھے کی ہنڈیا پکائی تھی وہ بیچ چوراہے پر پھوٹنے کے قریب ہے ، اور اس کے پھوٹنے سے یوں تو نقصان دونوں کا ہوگا ، لیکن فڈنویس سے کہیں زیادہ شندھے نقصان میں رہیں گے ، اور شندھے کے ساتھ شیوسینا کے جو ارکانِ اسمبلی گیے ہیں ، وہ ایک طرح سے بیچ منجدھار میں آ جائیں گے ، انھیں بی جے پی سر پر نہیں بٹھائے گی ، کیونکہ وہ اُن کے نخرے سہنے کی حیثیت میں اب نہیں ہے ۔ شندھے کے لیے مصیبتیں بڑھیں گی ، اور وہ ایک طرح سے ایک بےحیثیت سیاست دااں بن کر رہ جائیں گے ۔ لیکن یہ سیاست ہے ، کچھ بھی ہو سکتا ہے ، ممکن ہے کہ شندھے اور فڈنویس کا ساتھ برقرار رہے ، اور بی جے پی شندھے کو ، ادھو ٹھاکرے کو کمزور کرنے کے لیے مزید استعمال کرے ۔ آئندہ کے کچھ دنوں میں صورتِ حال مزید صاف ہو جائے گی ۔ اس سارے سیاسی ہنگامہ میں اجیت پوار کا کردار اہم ہے ، وہ پہلے بھی بی جے پی کے ساتھ جا چکے اور اپنے سارے ’ گناہ ‘ دھلوا چکے ہیں ، وہ باقی کے ’ گناہ ‘ دھلوانے کے لیے پھر بی جے پی کا ستھ دے سکتے ہیں ، اور پھر واپس این سی پی میں آ سکتے ہیں ۔ اجیت پوار نیشنلسٹ کانگریس پارٹی ( این سی پی ) کے سربراہ شرد پوار کے ، جو ایک گھاگ سیاست داں ہیں ، بھتیجے ہیں ، اس لیے اجیت پوار کی فڈنویس سے قربت کو سیاسی حلقوں میں دلچسپی سے دیکھا جا رہا ہے ۔ اور ایسا مانا جا رہا ہے کہ شندھے کو اگر سپریم کورٹ سے جھٹکا لگا اور ان کے ساتھ شیو سینا کے جو ارکان اسمبلی آئے ہیں ، وہ نااہل قرار دیے گیے ، تو این سی پی آگے بڑھ کر بی جے پی کو سہارا دے سکتی ہے ، اور اس کے لیے اجیت پوار کو ریاست کا وزیراعلیٰ بھی بنایا جا سکتا ہے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ’ مہاوکاس اگھاڑی ‘ کو دھچکا پہنچ سکتا ہے ۔ لیکن کیا ایسا ہوگا ؟ اگر شرد پوار کی مانیں تو ’ مہا وکاس اگھاڑی ‘ کو کوئی خطرہ نہیں ہے ، اور این سی پی کسی بھی صورت میں اس گٹھ جوڑ سے الگ نہیں ہو رہی ہے ۔ شرد پوار نے واضح لفظوں میں کہا ہے کہ ’ مہا وکاس اگھاڑی متحد ہے اور ہم ساتھ مل کر الیکشن لڑیں گے ۔‘ شردپوار ، جیسا کہ کہا گیا ہے کہ ایک گھاگ سیاست داں ہیں ، وہ بی جے پی کو مغالطے میں رکھ کر اسے شندھے کی شیوسینا سے علیحدہ کروا سکتے ہیں ، شاید اسی لیے وہ اجیت پوار کو ایک چارہ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں ، اور اگر اجیت پوار چارہ نہیں ہیں ، واقعی وہ وزیراعلی بننا چاہتے ہیں ، تب بھی شردپوار اور مہا وکاس اگھاڑی کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا ۔ اگر بی جے پی اور شیوسینا میں علیحدگی ہوئی تو مان لیں کہ آنے والے الیکشن میں فائدے میں مہاوکاس اگھاڑی ہی رہے گی ۔ ظاہر ہے کہ بی جے پی کے ساتھ جا کر شردپوار کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ، وہاں وہ نہ مودی سے آگے جا سکتے ہیں ، اور نہ ہی امیت شاہ سے آگے ، مہا وکاس اگھاڑی میں ان کی حیثیت ایک بادشاہ گر کی رہے گی ۔ لہذا وہ لوگ ، جو یہ اٹکلیں لگا رہے ہیں کہ این سی پی جلد ہی بی جے پی کے ساتھ چلی جائے گی ، وہ سارے سیاسی منظرنامے پرغور کریں ، انھیں خوب اندازہ ہو جائے گا کہ شندھے کی نیّا ہر حال میں ڈوبنے والی ہے اور فڈنویس بھی منجدھار میں آنے والے ہیں ، فائدے میں ادھو اور شردپوار ہی رپہنے والے ہیں ۔
فسانہ فیسٹول
افسانہ نمبر(33)
انتظار
اسماء اختر انصاری
اففف آللہ ! بھائی کب آئے گا ؟
آٹھ بہنوں میں سب سے چھوٹی ثمین نے کوئی ہزارویں بار دروازے کی جانب دیکھتے ہوئے دریافت کیا ۔
"آجائے گا ۔۔۔ آجائے گا۔" دادی نے تسبیح کے دانے گراتے ہوئے گویا خود کو تسلی دی ۔
ان کے کانوں میں جیسے اپنی ہی آواز کی بازگشت گونج رہی تھی وہ بھی تو بے قراری میں اپنی ماں سے ایسے ہی سوال کررہی تھیں ۔
فیصل کو گئے کئی ساری رات گزر چکی تھی ۔اس کی واپسی کے لیے سب ہی پریشان تھے ۔
بہنیں دعاؤں میں مشغول تھیں کوئی مصلی پر تھی تو کوئی ہاتھ میں تسبیح لیے ورد کرتی ہوئی یہاں ، وہاں بے چینی سے ٹہل رہی تھی ۔
"یا اللہ رحم ، کرم فرما اپنی حفاظت میں رکھ میرے بچے کو" امی کچن سے دادی کے لیے جوشاندہ لاتے ہوئے بڑبڑائیں
"آجائے گا ، آجائے گا ۔۔۔۔سمیع بھائی کو اسپتال لے کر گیا ہے ." دادی اماں نے زیر لب یوں کہا جیسے خود کو دلاسہ دے رہی ہوں وہ خود بھی کتنی دیر سے دروازے پر نظریں جمائے فکر مند بیٹھی تھیں ۔
کرونا کی وجہ سے شہر کے طبی ، معاشی اور معاشرتی حالات روز بروز بگڑتے چلے جارہے تھے سب ہی کو جان کے لالے پڑے تھے ۔
احتیاطی تدابیر کی وجہ سے لوگ آپس میں میل جول کم رکھ رہے تھے ۔ ایسے میں کچھ لوگ ہمت کرکے مدد کے لیے آگے بڑھ رہے تھے تو کچھ لوگ ڈر کے پیچھے ہٹ رہے تھے ۔
ہر سمت اعلانات ، ڈر اور خوف کا عجب عالم تھا ۔
کرونا کتنا خطر ناک ہے کسے علم ؟
مگر دہشت ایسی ہے کہ بس اپنے گھر میں قید ہوجاؤ ۔
لوگ اپنے مریضوں کو اسپتالوں میں، مردہ خانوں میں بے یارومددگار چھوڑ کر ایسے بھاگ رہے تھے جیسے جانتے ہی نہیں ۔
کاروباری مراکز مہینوں سے بند تھے۔ کتنے گھرانے فاقوں کی نوبت تک پہنچ گئے تھے۔ فلاحی تنظیمیں امداد پہنچانے کے لیے ناکافی تھیں۔
" دور رہو ,ایک دوسرے سے فاصلہ رکھو ٫ماسک لگاؤ ٫
مسجدیں بند کرو , حج کا سفر بند ." کوئی بندش سی بندش تھی ۔
نئی وبا سے نئی نسل کے ساتھ ساتھ پرانے لوگ بھی بے حال تھے ۔ کوئی حل سمجھ نہیں آرہا تھا ۔
اپنے گھر کا واحد کفیل فیصل بیوہ ماں ، بوڑھے دادا ، دادی اور آٹھ بہنوں کا سہارا گھنٹوں پہلے دادی کے بھائی سمیع کو ہسپتال لے کر گیا تھا ۔
بند دروازے کو تکتے تکتے دادی سلطانہ اپنے ماضی میں پہنچ گئیں ۔
جہاں ایسی ہی عجب بے بسی کا وقت تھا ، ساتھ رہنے والے سنگی بیلی ایک دوسرے کے دشمن ہوگئے تھے اور اس سے پہلے کہ جانے والے کوچ کرتے انہیں انتہائی حد تک نقصان پہنچانے کی بھرپور اور منظم کوششیں جاری تھیں ۔
بلوائیوں کے بے رحم حملوں میں چھوٹے ، بڑے ، عورت ، مرد ، بزرگ ، اپاہج کی کوئی تفریق نہ تھی جو سامنے آیا کاٹ ڈالا گیا ۔
اس وقت مسلمان خطرے میں تھے۔ اور اب کرونا نے ساری دنیا کو خطرے میں ڈالا ہوا ہے۔
دادی فیصل کی خیر سے واپسی کی دعائیں کررہی تھیں جو اپنی ذات سے بے پرواہ ہوکر آئے روز مریضوں کے ساتھ یہاں وہاں اسپتال کے چکر لگاتا رہتا ۔
"لوگ کہتے کرونا چھوت کی بیماری ہے ایک سے دوسرے کو لگتی ہے۔" ثمین سے بڑی تزئین کی آواز آئی ۔
ان حالات میں تزئین کے فقرے نے پھر ماضی یاد دلا دیا جہاں فیصل کی طرح باہمت جواں بھائیوں کا انتظار لیے معصوم سلطانہ کی نگاہیں اور کان منتظر تھے ۔
ایسے ہی ایک شام تھی جب دادی سلطانہ بیگم کے تینوں بھائی دوپہر میں ہونے والے بلوائیوں کے حملے کے زخمیوں کی مرہم پٹی کررہے تھے تبھی بلوائیوں نے پلٹ کر وار کیا ۔ ایک نہیں، دو نہیں ؛تینوں بھائی یکے بعد دیگرے درانتیوں اور تلواروں سے چیر دیے گئے تھے مگر اس بات کی خبر گھر تک نہیں پہنچی تھی انہیں صرف یہ کہا گیا تھا کہ" تم اگلے قافلے میں شامل ہوجاؤ۔۔۔ وہ لوگ پیچھے آجائیں گے ۔" اعلان کرنے والے جانتے تھے کہ اگر اپنوں کے مرنے کی خبر دے دی گئی تو بچنے والے یہاں سے جا ہی نہیں سکیں گے ۔
سمیع بھائ دیگر لوگوں کے ہمراہ ، ماں اور سلطانہ کو بلوائیوں سے بچاتے ہوئے ، کھینچتے ہوئے نہ جانے کن کن رستوں سے گزر کر کیمپ تک پہنچے تھے ۔
ابھی سلطانہ اور اماں اپنوں کا نام نشان ڈھونڈ ہی رہی تھیں کہ ایک اعلان ہوا "جو یہاں ہیں وہ آگے چلیں، پیچھے کوئی نہیں بچا جس کا انتظار کیا جائے ۔"
"چلو یہاں سے اب کوئی نہیں آئے گا "سمیع بھائی نے اماں سے کہا۔
اپنے تین بیٹوں کا آخری دیدار کیے بنا اماں سارا راستہ آنسو پونچھتی رہی تھیں جہاں ہر عورت مرد اپنوں کے بچھڑ جانے پر نوحہ کناں تھا ۔
" اماں ! بھائی کب آئے گا ؟ والے سوال کا جواب سلطانہ کو کبھی نہیں ملا اور یہ سوال آج پھر اس کے سامنے آکھڑا ہوا تھا !
___________
غزل
سو طرح سے پیار کا اظہار کر سکتا تھا میں
اس کی خاطر روز دریا پار کر سکتا تھا میں
روشنی سے بھی مری حس_بصارت تیز تھی
بند آنکھوں سے ترا دیدار کر سکتا تھا میں
وہ سمجھتی تھی کہ اچھے دوست بن سکتے ہیں ہم
میں سمجھتا تھا کہ اس سے پیار کر سکتا تھا میں
میں نے اس عورت کو جھٹلانے کی کوشش ہی نہ کی
پھول کی خوشبو سے کب انکار کر سکتا تھا میں
چارہ سازی کرتے کرتے فتنہ سازی آ گئی
جو بناتا تھا اسے مسمار کر سکتا تھا میں
حمزہ یعقوب