دہلی یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل کے ذریعے ، علامہ اقبالؔ کو سیاسیات کے نصاب سے ہٹا دینے کے فیصلے کی خبر سب نے سُنی ، اور اپنے اپنے نظریات کے لحاظ سے ردعمل کا اظہار بھی کیا ، لیکن دو خبریں اور ہیں جن پر ردعمل بہت کم سامنے آئے ہیں ۔ ایک خبر ’ ہندتوادی ‘ نظریہ ساز وی ڈی ساورکر کو داخلِ نصاب کرنے کی ہے ، اور دوسری خبر بابائے قوم مہاتما گاندھی کو نصاب کے پانچویں سیمسٹر سے ہٹا کر ساتویں سیمسٹر میں پھینک دینے کی ہے ۔ جی ہاں ِ ،’ پھینک دینے کی ‘ کہنا نادرست نہیں ہے ، یہ گاندھی جی کو ایک طرح سے نصاب سے نکالنا ہی ہوا ، کیونکہ نئی تعلیمی پالیسی کے لحاظ سے اگر کوئی طالب علم تیسرے سال کی پڑھائی کے بعد یونیورسٹی کو چھوڑنا چاہے گا ، تو اسے گاندھی جی کو پڑھنے ، جاننے اور سمجھنے کا موقعہ نہیں ملے گا ! لیکن اس کے لیے ساورکر کو پڑھنے ، جاننے اور سمجھنے کا پورا موقعہ ہوگا کیونکہ ساورکر کا نصاب پانچویں سیمسٹر میں رکھا گیا ہے ، یعنی مہاتما گاندھی کی جگہ ! تو کیا یہ مانا جائے کہ ساورکر کو گاندھی جی کا متبادل بنایا جا رہا ہے ؟ اس سوال کا کچھ لوگ یہ جواب دے سکتے ہیں ، کہ مانا جائے کا کیا مطلب ، ساورکر تو اب گاندھی جی کے متبادل بنا ہی دیے گئے ہیں ۔ لیکن ، ابھی یہ عمل مکمل نہیں ہوا ہے ، کیونکہ ابھی تاریخ کے صفحات سے وہ ابواب نہیں ہٹائے جا سکے ہیں ، یا یہ کہہ لیں کہ تاریخ کی کتابوں میں وہ سطریں ابھی موجود ہیں ، جنہیں پڑھ کر پتہ چل جاتا ہے ، یا پتہ چل سکتا ہے کہ ، ساورکر نے انگریزوں کو ’ معافی نامے ‘ بھیجے تھے ، وہ کالا پانی کی قید کو برداشت نہیں کر سکے تھے ، اور معافی مانگنے کے بعد جب جیل سے چھوٹے تھے تو انگریزوں سے پنشن بھی لیتے تھے ۔ حالانکہ ’ ہندتوادی ‘ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پنشن نہیں انہیں جیل بھتہ دیا جاتا تھا ، لیکن مورخین نے انگریز حکام سے ملنے والی رقم کو پنشن ہی لکھا اور کہا ہے ۔ ساورکر ابتدا میں آزادی کی لڑائی میں شامل تھے ، یہ سچ ہے ، لیکن بعد میں ان پر انگریز نوازی کا الزام لگا ، اور یہ حقیقت سامنے آئی کہ قید سے آزاد ہونے کے لیے انہوں نے انگریزوں کی تمام شرطیں مان لی تھیں ، اور ان شرطوں پر عمل بھی کیا ۔ یہ سارا سچ کتنے دنوں تک تاریخ کی کتابوں میں باقی رہ سکے گا ، کہا نہیں جا سکتا ، کیونکہ جی جان سے تاریخ کو بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ ممکن ہے کہ جلد ہی ساورکر ایک ’ مجاہدِ آزادی ‘ کی شکل میں سامنے لا کر کھڑے کر دیے جائیں ، اور انگریزوں سے معافی مانگنے کا سارا سچ حذف ہوجائے ، اور یہ بھی ممکن ہے کہ ملک کی آزادی کا سہرا گاندھی جی کے سر سے اتار کر ساورکر کے سر باندھ دیا جائے ۔ کوشش بہرحال یہی کی جا رہی ہے ۔ اس کوشش کی یہ ایک بڑی کامیابی ہے کہ وہ ساورکر جو اب تک نصاب کے باہر تھے ، دہلی یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل کے ذریعے شاملِ نصاب کر دیے گئے ہیں اور انہیں ایک طرح سے مجاہدین آزادی کی صف میں لاکر کھڑا کر دیا گیا ہے ، حالانکہ آزادی کی جنگ میں ، اگر ابتدا کے چند دنوں کو چھوڑ دیا جائے ، تو ان کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ اور ساورکرجگہ بھی وہ دی گئی ہے جہاں پہلے گاندھی جی تھے ! اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ ساورکر کو گاندھی جی پر فوقیت دے دی گئی ہے ۔ طلبہ ساورکر کو تو نصاب میں پڑھیں گے ، لیکن تین سال کے بعد گاندھی جی کو پڑھیں ، یہ ضروری نہیں ہے ۔ اسے اگر تاریخ کا ’ بھگوا کرن ‘ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا ۔ یہ ساورکر تھے جن پر یہ الزام ہے کہ وہ گاندھی جی کے قتل کی سازش میں شامل تھے ، حالانکہ ناکافی ثبوت کی بنیاد پر عدالت نے انہیں بری کردیا تھا ، لیکن ان کے شاگرد ، گاندھی جی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کو پھانسی دی گئی تھی ۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ گوڈسے پر ساورکر کا کافی اثر تھا ۔ شاید یہی یہ وہ ’ نیا ہندوستان ‘ ہے جس کی نوید پی ایم مودی نے پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی افتتاحی تقریب میں دی تھی ۔ باپوکو نیچے ڈھکیل دو اور ساورکر کو اندر لے آؤ ۔ رہے علامہ اقبال ؔ تو انہیں اس الزام میں نصاب سے باہر کیا گیا ہے کہ ، وہ نظریۂ پاکستان کے بانی تھے ۔ دہلی یونیورسٹی کے وائس چانسلر یوگیش سنگھ نے اقبالؔ کو نصاب سے نکال دینے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا ہےکہ ، جن لوگوں نے انڈیا کو تقسیم کرنے کی بنیاد رکھی ، انہیں نصاب میں جگہ نہیں ملنی چاہیے ۔ یوگیش سنگھ کا دعویٰ ہے کہ ’’ اقبال ؔنے ہی پہلی مرتبہ تقسیم ملک اور پاکستان کے قیام کا نظریہ پیش کیا تھا ، لہذا ایسے شخص کے بارے میں پڑھانے کے بجائے ہمیں اپنے قومی ہیروز کے بارے میں طلبہ اور نئی نسل کو بتانا چاہیے ۔‘‘ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ساورکر ’ قومی ہیرو ‘ کے طور پر شاملِ نصاب کیے گئے ہیں ۔ اور آئندہ مزید ایسے ’ قومی ہیرو ‘ شاملِ نصاب ‘ کیے جائیں گے ، جنہیں پہلے کبھی ’ قومی ہیرو ‘ نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ دہلی یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل کے پانچ اراکین نے اقبالؔ کو نصاب سے نکالے جانے کی مخالفت توکی ہی ہے ، ملک بھر کے علمی ، ادبی اور سیاسی حلقوں میں بھی دہلی یونیورسٹی کے فیصلے کی مخالفت بلکہ مذمت کی گئی ہے ۔ فیصلے کو ’ سیاسی ‘ کہا گیا ہے ، اور یہ فیصلہ ہے بھی ’ سیاسی ‘ ۔ اقبال ؔ نظریۂ پاکستان کے بانی نہیں تھے ، انہوں نے الہ آباد کے اپنے خطبے میں ہندوستانی آئین کے اندر ہی مسلمانوں کو ان کے حقوق دینے کی بات کی تھی ۔ وہ قیامِ پاکستان سے سات برس پہلے ہی خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے ۔ اور جب تک جیے ایک محب وطن کی طرح جیے ۔ ان کی نظمیں وطن کی محبت سے بھی ، اور بھائی چارہ و گنگا جمنی تہذیب کے پرچار سے بھی ، بھری ہوئی ہیں ۔ ان پر دوقومی نظریے کے الزام کو درست نہیں کہا جاسکتا ، یہ تو ساورکر کا نظریہ تھا ، جس پر آج کی سیاست چل رہی ہے ۔ حکومت سے ، چاہے وہ سُنے یا نہ سُنے ، یہ درخواست ہے کہ وہ کسی ادیب ، شاعر یا دانشور کو اپنی سیاست اور نفرت کی بھینٹ نہ چڑھائے ۔
monday 12 july 2021 ke daily MUMBAI URDU NEWS mein shaye story.........
مجھے جھوٹ پر مبنی اور فرسودہ ادب سے نفرت ہے
برصغیر میں مالیگاؤں ، احمد نعیم اور’ موت ڈاٹ کام ‘کےہیں چرچے
آپ کی بات: فرحان حنیف وارثی
’ موت‘ احمد نعیم کا پسندیدہ موضوع ہے۔اسی لیے انھیں خالد جاوید کا ناول ’ موت کی کتاب‘ بے حد پسند ہے۔میں نے اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ کسی کو موت سے اس قدر والہانہ عشق کرتے دیکھا ہے،ورنہ عموماً لوگ باگ موت سے خائف رہتے ہیں اور زندگی کی تسبیح پڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔جدید افسانہ نگار،شاعر ،بلاگر اور مائیکروفکشن کے دلدادہ احمد نعیم کا تعلق پاورلوم کے شہر مالیگاؤں سے ہے اور وہ خود بھی پاورلوم مزدور ہیں۔انھیں اس محنت شاقہ کے عوض جو محنتانہ ملتا ہے،اس میں سے کچھ رقم نکال کر وہ اپنی من پسند کتاب کی خریداری کرتے ہیں ،اور اگر کتاب کی قیمت ان کی بساط سے باہر ہوتی ہے ،تو وہ دکاندار کوراضی کر کےکتاب حاصل کر لیتے ہیں اور قسطوں میں پیسے ادا کرتے ہیں۔انھوں نے اسی طرح ابھی حال ہی میں سٹی بُک ڈپو سے رفاقت حیات کا مقبول ناول ’ میرواہ کی راتیں ‘ خرید ا ہے،اور ناول کی قیمت کا معمولی حصہ ادا کیاہے۔ادب کے تئیں ان کا یہ جنون قابل ستائش ہے۔
احمد نعیم پچھلے دنوں اپنی نظم ’ ماچس ‘ کےحوالے سے خبروں کی زینت بنے تھے ۔اس نظم کا عربی اور انگلش سمیت کئی عالمی زبانوں میں ترجمہ ہوا تھاجس سے احمد نعیم اور ان کی وجہ سے مالیگاؤں کا نام روشن ہوا تھا۔اس بار وہ اپنے بلاگ اسپاٹ ’ موت ڈاٹ کام مالیگاؤں ‘ کے سبب لوگوں کی توجہ کا مرکز بننے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اگر کوئی یہ دعویٰ کرے تو بھی مبالغہ نہیں ہوگا کہ ان دنوں مالیگاؤں برصغیر میں ان کے کارناموں کے سبب پہچانا جا رہا ہے۔
بلاگ اسپاٹ کا نام ’ موت ڈاٹ کام ‘ رکھنے کا جواز پیش کرتے ہوئے انھوں نے کہا:’ موت کا مفہوم ہی زندگی ہے ۔اگر موت کا وجود نہیں ہوتا تو زندگی کی اتنی قدر نہیں ہوتی۔ایک سال پہلے میں ،منصور اکبر اور چند دوست جمع ہوئے تھے۔ اس محفل میں طے کیا گیا تھا کہ جب کبھی ویب سائٹ یا بلاگ اسپاٹ کا آغاز کیا جائے گا تو اس کا نام ’ موت ڈاٹ کام ‘ رکھا جائے گا۔اس وقت میں خالد جاوید کا ناول ’ موت کی کتاب ‘ کا مطالعہ کر رہا تھا اور میں جہاں بھی جاتا تھا ،میرے بغل میں یہ ناول دباہوتا تھا۔اس ناول نے مجھ پر سحر طاری کر رکھا تھا ۔میں نے ان دنوں موت پر کئی کہانیاں لکھی تھیں۔‘
انھوں نے لفظ موت میں دلچسپی کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا:’مجھے زندگی سے کوئی اُنس نہیں ہے۔کیونکہ زندگی میں پل پل مرنا پڑتا ہے اور میرا ماننا ہے کہ حساس آدمی منافقت اوڑھ کر نہیں جی سکتا ہے۔ بھیونڈی کے فرقہ وارانہ فساد کے موقع پرعلی میاں ندوی صاحب نے تاریخی تقریر کی تھی جو پڑھنے جیسی ہے۔میں نےفیس بک کے اپنے وال پر اس تقریر کا ایک اقتباس لگایا تو کسی نے شکایت کردی اور میرا فیس بُک اکاؤنٹ تین روز کے لئے بلاک کر دیا گیا ،اور ایسا دوسری مرتبہ ہوا ہے۔ وہ اقتباس یہ ہے :’’ اب آپ ہی بتائیں کہ کسی ملک میں مسلمان ایک ہزار برس سے ہوں اور وہ مسلمان نہ اپنا تعارف کر سکیں ، نہ ان کو متاثر کر سکیں تو بتائیے یہ کوتاہی ہے یا نہیں ؟؟؟‘‘۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میں اپنے خیالات کا اظہار کہاں کروں؟ میں گھٹن محسوس کر رہا ہوں۔اب بولنے،لکھنے اور جینے کی آزادی سلب کی جا رہی ہے اور اس ظلم میں کوئی ایک مذہب یا فرقے کےعناصر شامل نہیں ہیں ،بلکہ ہر مذہب اور ہر فرقے میں ایسے افراد موجود ہیں ، اور انھیں قوت حاصل ہے۔‘
مذکورہ بلاگ اسپاٹ کے قیام کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے انھوں نے بتایا:’ میں نے اول درجے کا ادب ،اور اچھا اور سچا متن، قاری تک پہنچانے کی نیت سے ’ موت ڈاٹ کام ‘ کا قیام کیا ہے۔مجھے جھوٹ پر مبنی اور فرسودہ ادب سے حد درجا نفرت ہے۔میری تعلیم ضرور کم ہے لیکن مطالعہ وسیع ہے۔آج ادب میں بھی تنگ نظری کا دور دورہ ہے اور بیشتر لکھاری آئینہ دیکھنے اور دکھانے سے بچ رہے ہیں۔میری کوشش ہے کہ قاری کے روبرو اپنے بلاگ اسپاٹ کے توسط سے اچھا اور سچا ادب پیش کروں۔حقیقت پر مبنی متنازعہ نگارشات سامنے لاؤں جسے ممنوع قرار دے کر چھپادیا گیا ہے۔جنس کی لذت میں سب کو دلچسپی ہے مگر آج جنس کو زہریلا بنا دیا گیا ہے۔دوہری زندگی جینے کا چلن پنپ رہا ہے۔میں نے اب تک ناول کے اقتباسات،افسانے،شاعری،تنقید،مصوری،موسیقی اورجنس کے بارے میں مضامین اور دیگر موضوعات کو پیش کیا ہے اور اس بلاگ اسپاٹ کو خوب سے خوب تر بنانے کے لیے کوشاں ہوں۔میں نےابھی تک برصغیر کے نامور قلمکاروں مثلاً سید محمد شرف،خالد جاوید،ذکیہ مشہدی،محمد فیضان رضا،اجمل کمال،اطہر حسین، تنویر قاضی ،ابصار فاطمہ،زاہد امروز، اسفند جاوید مہر،سعید ابراہیم اور دیگرکی تحریریں اپنے بلاگ اسپاٹ کی زینت بنائی ہیں۔سوشل میڈیا پر مالیگاؤں کا کوئی بھی قلمکار اتنا فعال نہیں ہے۔کوئی اچھا لکھنے والا بھی نہیں ہے۔ایک زمانے میں ’ جواز ‘ اور سید عارف صاحب تھے ۔’توازن‘ اور عتیق احمد عتیق صاحب بھی تھے۔لکھنے والوں میںسلطان سبحانی،سجاد عزیز،مجید انور اور احمد عثمانی کے علاوہ کچھ اور بھی نام مل جائیں گے ،مگرآج نئے لکھنے والوں میں کون ہے؟یہ سوال میں اپنے آپ سے، یا دوسروں سے اکثر پوچھتا ہوں ۔نہ میرے پاس کوئی جواب ہے ، اور نہ دوسروں کے پاس۔میں مالیگاؤ ں کو برصغیر میں مقبولیت کے پائیدان پر سب سے اوپر دیکھنا چاہتا ہوں۔خلوص دل سےمحنت کر رہا ہوں ،آگے پروردگار کی مرضی۔‘
ایک غزل باذوق قارئین کی بصیرتوں و بصارتوں کے حوالے
شاہوں کے مصاحب جیت گئے، طاقت کے حواری جیت گئے
غربت کو شکست ِفاش ہوئی، دولت کے پجاری جیت گئے
ایامِ اسیری بیت گئے، حالات کے بندی خانے میں
سچائی یہاں مصلوب ہوئی ،جلسوں کے مداری جیت گئے
اس جنگل کے قانون کی بھی، بجھ پائی نہیں ہے پیاس کبھی
معصوم پرندے ہار گئے، بے رحم شکاری جیت گئے
دنیا کے تجارت خانے میں، ہر جنس گراں پامال ہوئی
ارباب ِہنر ناکام رہے، زر کے بیوپاری جیت گئے
انسانوں کی اس منڈی میں کب پیش نظر معیار رہا
جب لاکے ترازو میں رکھا,جو لوگ تھے بھاری جیت گئے
جو راہ وفا میں ان کو ہوئی،ہیں اہل جنوں اس مات پہ خوش
اور تم مغرور کہ یاروں سے، کرکے غداری جیت گئے
وہ لوگ خس و خاشاک ہوئے، پھولوں میں جو رکھنے والے تھے
زریاب مگر کچھ پتھر دل احساس سے عاری جیت گئے
شاعرہ ہاجرہ نور زریاب
راجیش ریڈی، ممبئی کی غزل پڑھیں اور سر دھنیں!!!
زندگی تو نے لہو لے کے دیا کچھ بھی نہیں
تیرے دامن میں مرے واسطے کیا کچھ بھی نہیں
آپ ان ہاتھوں کی چاہیں تو تلاشی لے لیں
میرے ہاتھوں میں لکیروں کے سوا کچھ بھی نہیں
ہم نے دیکھا ہے کئی ایسے خداؤں کو یہاں
سامنے جن کے وہ سچ مچ کا خدا کچھ بھی نہیں
یا خدا اب کے یہ کس رنگ میں آئی ہے بہار
زرد ہی زرد ہے پیڑوں پہ ہرا کچھ بھی نہیں
دل بھی اک ضد پہ اڑا ہے کسی بچے کی طرح
یا تو سب کچھ ہی اسے چاہئے یا کچھ بھی نہیں
🔴راجیش ریڈی