شکیل رشید
(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
کیا مغل فرمانروا اورنگ زیب عالمگیر اور مجاہدِ آزادی ٹیپو سلطان کے نام پر مہاراشٹر کو جلانے کی تیاری کی جا رہی ہے ؟
یوں تو مہاراشٹر میں مہاوکاس اگھاڑی کی سرکار کے گرنے کے بعد ، اور ایکناتھ شندے و دیویندر فڈنویس کی سرکار بننے کے بعد ہی سے فرقہ وارانہ واقعات کی شروعات ہو گئی تھی ، لیکن گزشتہ چار مہینے سے ’ فرقہ وارانہ اُبال ‘ میں مزید تیزی آئی ہے ، شرپسند کبھی مندر ، تو کبھی مسجد ، لاؤڈاسپیکر ، لوجہاد ، لینڈ جہاد ، تبدیلیٔ مذہب تو کبھی سوشل میڈیا کی پوسٹوں کے بہانے تشدد کے بہانے ڈھونڈتے رہے ہیں ، مگر اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ سِول سوسائٹی اور پولیس نے اب تک کسی نہ کسی طرح حالات کو قابو میں رکھا ہے ، لیکن اب ’ اُبال ‘ قابو سے باہر ہو رہا ہے ، اور اندیشہ ہے کہ ، فرقہ وارانہ تناؤ کے یہ چھوٹے چھوٹے واقعات بڑے پیمانے کے فسادات میں نہ تبدیل ہو جائیں ۔ ابھی ابھی ، یہی تین سے چار روز کے اندر ، کولہا پور اور بیڑ میں آشٹی کا علاقہ فرقہ وارانہ تشدد کی زد میں آئے ہیں ، ان مقامات پر تناؤ بنا ہوا ہے اور پولیس حساس مقامات پر ڈیرہ ڈالے ہوئے ہے ۔ مارچ سے لے کر جون کے رواں مہینے تک اورنگ آباد ، اکولہ ، شیوگاؤں ، احمدنگر ، جلگاؤں ، سنگمنیر ، ممبئی ، کولہاپور ، بیڑ اور ناسک کے علاقے بارہ دفعہ فرقہ وارانہ تشدد سے سلگے ہیں ، جان و مال کا نقصان ہوا ہے ، لوگ زخمی ہوئے ہیں ، اورایک خوف کا ماحول ہر جگہ بنا ہوا ہے ۔ سالِ رواں کے مارچ مہینے کی ۲۴ ، تاریخ کو کولہاپور سے ، جہاں پہلے ہی سے ایک ہندو لڑکی کے ایک مسلم نوجوان کے ساتھ بھاگ جانے کی واردات سے تناؤ پھیلا ہوا تھا ، اورنگ زیب عالمگیر کے نام سے فرقہ وارانہ کشیدگی کی شروعات ہوئی تھی ۔ دو مسلم نوجوانوں ، ۱۹ سالہ محمد مومن اور ۲۳ سالہ فیضان سوداگر ، نے اپنے ’ واٹس ایپ ‘ پر اورنگ زیب کی تعریف میں چند جملے لکھے تھے ، اور شہر اورنگ آباد کے نام کو تبدیل کرکے سمبھا جی نگر کرنے پر اعتراض جتایا تھا ، نتیجتاً کٹر وادی ہندو تنظیموں میں غصے کی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے دودن کے بند کا اعلان کر دیا ۔ جن مسلم نوجوانوں نے ’ واٹس ایپ ‘ پر اورنگ زیب کی تعریف کی تھی ، پولیس نے اُن میں سے ایک محمد مومن کو حراست میں لے لیا ، فیضان روپوش ہوگیا ، اور سَاودرے نامی گاؤں میں ، جہاں مومن اپنے گھر والوں کے ساتھ رہتا تھا ، کشیدگی کو دیکھتے ہوئے ، پورے گھرانے کو چند دنوں کے لیے گھر چھوڑ کر کہیں اور بھیج دیا گیا ۔ اب مومن پولیس حراست سے چھوٹ کر گھر آچکا ہے اور فیضان کو ضمانت مل گئی ہے نیز گاؤں چھوڑ کر جانے والا گھرانہ بھی گاؤں واپس لوٹ آیا ہے ، لیکن اس واقعے کے بعد سے کولہا پور میں تناؤ بنا ہوا تھا جو پھر ۸ ، جون کو پھوٹ پڑا ۔ اب فرقہ وارانہ کشیدگی پوری ریاست میں آہستہ آہستہ پھیل گئی ہے ، اور جگہ جگہ فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات شروع ہوگئے ہیں ۔
کولہاپور کے مذکورہ واقعہ کے چار دن بعد ۳۰ مارچ کو ، جلگاؤں میں ایک مسجد کے سامنے ڈی جے بجانے پر تو تو میں میں جھڑپ میں بدل گئی ۔ ۳۱ ، مارچ کو ، رام نومی کے دِن عروس البلاد ممبئی میں مالونی ، ملاڈ کے علاقہ میں رام نومی کا جلوس نکالا گیا ، اور مسجد کے سامنے جلوس کو روک کر شرپسندی کی گئی ۔ پولیس نے مقدمات درج کیے ، لیکن پولیس پر یکطرفہ کارروائی کا الزام ہے ۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی کہ ’ ہندو سکّل سماج ‘ کے جھنڈے تلے ریاست بھر میں نکلنے والے ’ ہندو جن آکروش مورچہ ‘ کی ریلیوں میں مسلمانوں کو کھلے عام دھمکیاں دی جا رہی تھیں ، لوجہاد اور لینڈ جہاد کے نام پر نفرت پھیلائی جا رہی تھی ۔ ان ریلیوں نے ہر جگہ جلتی پر تیل کا کام کیا ۔ ممبئی میں بھی یہ ریلیاں نکلی تھیں ، اور ان کے ذریعے جو زہر پھیلایا گیا تھا ، مالونی ، ملاڈ میں اس کا اثر دیکھنے کو ملا ۔ رام نومی کے موقعہ پر اورنگ آباد اور دیگر مقامات پر بھی تشدد کے واقعات ہوئے ۔ اورنگ آباد کے کردپورہ کے علاقہ میں دس افراد زخمی ہوئے ، الزام ہے کہ شرپسندوں نے مسلمانوں کے گھروں میں گھس کر لوٹ پاٹ کی ، حالانکہ پولیس نے اس کی تردید کی ہے ، لیکن یہ الزام ہنوز لگ رہا ہے ۔ اکولہ میں ۱۳، مئی کو فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا ، معاملہ سوشل میڈیا کے ذریعے پیغمبر اسلام ﷺ کی توہین کا تھا ۔ کرن ساہو نامی ایک کٹّروادی نے کشیدگی کو ہوا دینے میں بنیادی کردار ادا کیا ، یہ شخص ’ چھتر پتی ساہو سینا ‘ نام کی ایک تنظیم کا سربراہ ہے ۔ اکولہ میں تشدد کے دوران ولاس گائیکواڑ نام کا ایک دلت نوجوان مارا گیا ، یہ اپنے گھر کا واحد کمانے والا تھا ۔ ایک دن بعد ۱۴ ، مئی کو احمدنگر میں چھترپتی سمبھا جی مہاراج جینتی کے موقعہ پر کشیدگی پھیلی ، وہاں کے شیوگاؤں کے علاقہ میں جھڑپیں ہوئیں اور لوگوں کو مالی نقصانات اٹھانا پڑے ، اسی روز ناسک میں بھی فرقہ وارانہ کشیدگی اور تشدد کی واردات ہوئی ۔ ترمباکیشور کا ایک مندر ہے ، یہ شور اٹھا کہ اس مندر میں بڑی تعداد میں مسلمان زبردستی گھس رہے ہیں ۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ ایک قدیم ریت ہے ۔ ایک بار پھر ۴ ، جون کو ، احمدنگر اس وقت لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا جب یہ خبر اڑی کہ دم باڑہ ہزاری بابا درگاہ کے عرس میں لوگ اورنگ زیب کے پوسٹر لیے ہوئے ہیں ۔ دو کی گرفتاری عمل میں آئی ۔ لیکن احمدنگر میں حالات کشیدہ ہی رہے ، دو دن بعد ۶ ،جون کو ’ سکّل ہندو سماج ‘ کا ایک مورچہ احمدنگر کے سنگمنیر میں نکالا گیا اور جم کر توڑ پھوڑ کی گئی ۔ یہ مورچہ دونوں فرقوں سے تعلق رکھنے والے دو افراد کے درمیان ٹریفک معاملہ میں ہوئی تکرار کے خلاف نکالا گیا تھا ۔ جون کی ۷ تاریخ کو کولہا پور میں اورنگ زیب عالمگیر اور شہید ٹیپو سلطان کی واٹس ایپ پر تعریف کرنے کے نتیجہ میں تشدد ہوا ، دوکانیں لوٹ لی گئیں ، اور ان نوجوانوں کو ، جن پر اورنگ زیب عالمگیر اور ٹیپو سلطان کی تعریف کرنے کا الزام تھا مارا پیٹا گیا ، پولیس نے دونوں طرف کے لوگوں پر مقدمات قائم کر دیے ، اور ۳۶ لوگوں کو گرفتار کر لیا ۔ اورنگ زیب کے مبینہ پوسٹر لے کر چلنے کا ایک معاملہ ۸ ، جون کو احمدنگر میں پیش آیا ، اور ۹ ، جون کو آشٹی میں ایک ۱۴ سالہ نوجوان نے سوشل میڈیا پر اورنگ زیب کی تعریف کر دی تو اس پر ہنگامہ ہوگیا ۔
سوال یہ ہے کہ یہ اچانک کیوں اورنگ زیب کے نام پر فرقہ وارانہ ہنگامے شروع ہو گئے ہیں ؟ اور ایک سوال یہ بھی ہے کہ یہ ہنگامے کولہاپور اور احمدنگر کو مرکز بنا کر کیوں کیے جا رہے ہیں ؟ اِن سوالوں کے سیدھے سے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سارے ہنگامے ، کشیدگی اور فرقہ وارانہ تشدد گندی سیاست کا حصہ ہیں ۔ جب سے ایکناتھ شندے اور دیویندر فڈنویس کی سرکار کا قیام ہوا ہے مہاراشٹر سلگ رہا ہے ۔ دو واقعات نے بھس میں چنگاری کا کام کیا ہے ، ایک تو ہے اورنگ آباد کا نام بدل کر سمبھاجی نگر رکھنا ، اور عثمان آباد کا نام بدل کر دھار شیو رکھنا ۔ ویسے ناموں کی تبدیلی ، ادھو ٹھاکرے کی سرکا ر نے جاتے جاتے کی تھی ، لیکن ادھو سرکار کے فیصلے کو روک کر اِس سرکار نے خود ناموں کی تبدیلی کا اعلان کیا ، مقصد ناموں کی تبدیلی کا سہرا اپنے سر باندھنا تھا ۔ ناموں کی تبدیلی کے خلاف مسلمانوں نے تحریک چھڑ رکھی ہے ، معاملہ عدالت تک گیا ہے ، اور فی الحال اورنگ آباد نام استعمال کرنے کی آزادی ہے ۔ ناموں کی تبدیلی کے اعلان کے بعد سے اورنگ زیب کے نام پر فرقہ پرستی کی سیاست شروع ہوئی ہے ۔ چونکہ چھترپتی شیواجی مہاراج اور شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے درمیان ایک لڑائی تھی ، سیاسی لڑائی ، اس لیے اِن دونوں کو ایک دوسرے کا حریف مانا جاتا ہے ، یہاں تک تو ٹھیک ہے ، لیکن ان دونوں کی لڑائی کو ’ دھرم یدھ ‘ بنا کر سارے معاملے کو مذہبی رنگ دے دیا گیا ہے ، اس لیے یہاں مہاراشٹر میں ، ایک طبقہ اورنگ زیب کو شیواجی کا حریف ہی نہیں ، دھرم مخالف بھی گردانتا ہے ، اور وہ اورنگ زیب کو تاریخ سے نکال باہر کرنا چاہتا ہے ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت کانگریس اور این سی پی سے لے کر بی جے پی اور شیو سینا کے دونوں گروپوں تک ، شیواجی کو نظرانداز کرنے کی جرات نہیں کرسکتی ، اس لیے شیواجی کے نام پر ہر کوئی اپنے اپنے لحاظ سے سیاست کرتا ہے ۔ اب بی جے پی اور شندے کی شیو سینا کی یہ کوشش ہے کہ وہ خود کو ادھو ٹھاکرے کی شیو سینا کے مقابلے زیادہ بڑا شیواجی بھکت ثابت کریں ۔ اور اس کا سیاسی فائدہ اٹھائیں ۔ مہاوکاس اگھاڑی ، یعنی ادھو ٹھاکرے کی شیو سینا ، کانگریس اور این سی پی کا الزام ہے کہ شندے اور فڈنویس کی حکومت اورنگ زیب کے نام پر ریاست میں فرقہ وارانہ ماحول خراب کر رہی ہے ۔ شیو سینا کے لیڈر سنجے راؤت نے تو یہ تک کہہ دیا ہے کہ کرناٹک میں بجرنگ بلی کا جادو نہیں چلا تو بی جے پی نے اورنگ زیب پر سیاست شروع کر دی ہے ۔ اور جس طرح سے حالات کشیدہ ہو رہے ہیں اُس سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اورنگ زیب کے نام پر سیاست کی جا رہی ہے ۔ ریاست کے وزیرداخلہ فڈنویس نے مذکورہ واقعات پر جو بیان دیا ہے ، اس سے یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ اورنگ زیب کے نام پر اسمبلی الیکشن میں اترنے کا مَن بنا چکے ہیں ۔ فڈنویس نے ’’ اورنگ زیب کی اولاد ‘‘ کہہ کر یہ وضح کر دیا ہے کہ وہ شرہسندوں کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے صاف صاف لفظوں میں کہا کہ ’’ اچانک یہاں اورنگ زیب کی اولادیں پیدا ہو گئی ہیں ، وہ اورنگ زیب کا اسٹیٹس لگاتی اور پوسٹر دکھاتی ہیں ۔ سوال اٹھ رہا ہے کہ یہ اورنگ زیب کی اولادیں کہاں سے آتی ہیں ؟ کون ہے پیچھے ؟ ہم اس کا پتہ لگا لیں گے ۔‘‘ فڈنویس نے یہ بھی کہا ’’ مہاراشٹر میں اورنگ زیب اور ٹیپو سلطان کی تعریف برداشت نہیں کی جائے گی ۔‘‘
فڈنویس ’ ہندتو ‘ کا خطرناک کارڈ کھیل رہے ہیں ۔ اس کارڈ نے پوری ریاست کو کشیدہ کر دیا ہے ۔ لیکن شاید فڈنویس کے پاس یہی ایک کارڈ بچا ہے کہ ان کا اور ایکناتھ شندے کا اتحاد اس ریاست کے عوام کی اکثریت نے ٹھکرا دیا ہے ، اور انہیں کئی بلدیاتی انتخابات میں اور ضمنی انتخابات میں ہار کا منھ دیکھنا پڑا ہے ۔ ٓاحمد نگر سے شیواجی کے خاندان کا تعلق ہے ، اس لیے وہاں کے حالات خراب کرنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے ۔ کولہا پور کے لوگوں نے کبھی بھی بی جے پی کو گھاس نہیں ڈالی اس لیے کوشش ہے کہ وہاں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیلے ۔ کولہاپور کی دس اسمبلی کی سیٹوں میں سے ایک پر بھی بی جے پی نہیں جیت سکی ہے ، ۲۰۲۲ء کے ضمنی الیکشن میں بھی بی جے پی کو ہار ملی ہے ، وہاں چھترپتی شاہو مہاراج کا گھرانہ ہے جو ہندو ۔ مسلم اتحاد کا علمبردار ہے ، اسی لیے شرپسندوں نے کولہاپور کو اہنی تجربہ گاہ بنایا ہے ۔ یہ سارا ہنگامہ سیاسی ہے ، لیکن کیا سیاست کے نام پر لوگوں کی جان و مال سے کھیلنا جائز ہے ؟ اس سوال کا جواب ہم سیاست دانوں کے روزانہ کے ’ کارناموں ‘ سے پا لیتے ہیں ۔ ایک سوال مزید ہے ، بھلا کوئی کیوں چھوڑ دے اورنگ زیب اور ٹیپو سلطان کا نام لینا ؟ فڈنویس ، بھاجپائی اور سنگھی تو مہاتما گاندھی کے قاتل گوڈسے کے نام کی مالا جپتے ہیں !
🔴ہندی ادب سے ایک کہانی
چمڑے کا احاطہ…. دیپک شرما ہندی سے
🔴 ترجمہ: ارجمند آرا
(تعارف: ہندی افسانہ نگار دیپک شرما لاہور میں پیدا ہوئیں۔ وہ ایک برس کی تھیں کہ بٹوارے کے بعد ان کے والدین ہجرت کرکے امرتسر جا بسے۔ پہلی کہانی ’پریت لڑی‘ میں دیپک بھلّرنام سے شائع ہوئی، جو ان کا شادی سے پہلے کا نام تھا۔ پنجاب یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم پائی اور لکھنؤ یونیورسٹی میں شعبۂ انگریزی سے وابستہ رہ کر بطور ریڈر سبکدوش ہوئیں۔ ۲۰۲۱ تک ان کی کہانیوں کے ۲۱ مجموعے شائع ہوئے۔
وہ سادہ زبان اور مختصر جملے آلے کے طور پر استعمال کرتی اور چونکانے والے کڑوے سچ کمال سادگی سے پیش کرتی ہیں۔ یہی بات ان کی کہانیوں کو موثر بناتی ہے۔ کہانی ’چمڑے کا احاطہ‘ میں بچییوں کے قتل کو ایک ایسی روایت کی طرح پیش کیا ہے جو سماج کو عمومی طور پر ایک معمولی جرم کی طرح قبول ہے۔ کہانی ایک قصبے کے سادہ اور معصوم سے گھریلو ماحول میں جب اپنی پرتیں کھولتی ہے تو اس سماج کا ایک نہایت سفاک اور گھنونا روپ سامنے آتا ہے۔)
شہر کی سب سے پرانی ہائیڈ مارکٹ ہماری تھی۔ ہمارا احاطہ بہت بڑا تھا۔
ہم چمڑے کا بیوپار کرتے تھے۔
مرے ہوئے جانوروں کی کھالیں ہم خریدتے اور انہیں چمڑا بناکر بیچتے۔
ہمارا کام اچھا چلتا تھا۔
ہماری ڈیوڑھی میں دن بھر ٹھیلوں اور چھکڑوں کی آواجاہی لگی رہتی۔ کئی بار ایک ہی سمے پر ایک طرف اگر کچھ ٹھیلے ہمارے گودام میں دھول سنی کھالوں کی لدانیں اتار رہے ہوتے تو اسی وقت دوسری طرف تیار، پرت دار چمڑا ایک ساتھ چھکڑوں میں لدوایا جا رہا ہوتا۔
ڈیوڑھی کے عین اوپر ہمارا دومنزلہ مکان تھا۔ مکان کی سیڑھیاں سڑک پر اترتی تھیں اور ڈیوڑھی اور احاطے میں گھر کی عورتوں اور بچوں کا قدم رکھنا تقریباً ممنوع تھا۔ پتا کی دو پتنیاں رہیں۔
بھائی اور میں پتا کی پہلی پتنی سے تھے۔ ہماری ماں کی موت کے بعد ہی پتا نے دوسری شادی کی تھی۔
سوتیلی ماں نے تین بچے جنے لیکن ان میں سے ایک لڑکے کو چھوڑکر کوئی بھی اولاد زندہ نہ رہ سکی۔
میرا وہ سوتیلا بھائی اپنی ماں کی آنکھوں کا تارا تھا۔ وہ اس سے شدید محبت کرتی تھیں۔ مجھ سے بھی ان کا سلوک ٹھیک ٹھاک ہی تھا۔ لیکن میرا بھائی ان کو پھوٹی آنکھ نہ سہاتا تھا۔
بھائی شروع سے ہی جھگڑالو طبیعت کا رہا۔ اسے لڑائی جھگڑا اور تکرار بہت مرغوب تھی۔ ہم بچوں کے ساتھ تو وہ توتو میں میں کرتا ہی، پتا سے بھی بات بات پر تنکتا اور حجت کرتا۔ پھر پتا بھی اسے کچھ نہ کہتے۔ میں یا سوتیلا اسکول نہ جاتے یا اسکول کی پڑھائی کے لیے نہ بیٹھتے یا رات میں پتا کے پیر نہ دباتے تو پتا سے خوب گھڑکی کھانے کو ملتی، مگر بھائی کئی کئی دن اسکول سے غائب رہتا اور پتا پھر بھی بھائی کو دیکھتے ہی اپنی زبان اپنے تالو کے ساتھ چپکا لیتے۔
راز ہم پر اچانک ہی کھلا۔
بھائی نے ان دنوں کبوتر پال رکھے تھے۔ ساتویں جماعت میں وہ دو بار فیل ہو چکا تھا اور اس سال امتحان دینے کا کوئی ارادہ نہ رکھتا تھا۔
کبوتر چھت پر رہتے تھے۔
احاطے میں کھالوں کے خمیر اور مانس کے نُچے ٹکڑوں کی وجہ سے ہماری چھت پر چیلیں اور کوّے اکثر منڈلایا کرتے۔
بھائی کے کبوتر اسی لیے بکسے میں رہتے تھے۔ بکسا بہت بڑا تھا۔ اس کے ایک سرے پر الگ الگ خانوں میں کبوتر سوتے اور بکسے کے باقی پسار میں اڑان بھرتے، دانا چگتے، پانی پیتے اور ایک دوسرے کے ساتھ گٹرگوں کرتے۔
بھائی صبح اٹھتے ہی اپنی کاپی کے ساتھ کبوتروں کے پاس جا پہنچتا۔ کاپی میں کبوتروں کے نام، میعاد اور انڈوں اور بچوں کا لیکھا جوکھا رہتا۔ سوتیلا اور میں اکثر چھت پر بھائی کے پیچھے پیچھے آجاتے۔ کبوتروں کے لیے پانی لگانا ہمارے ذمے رہتا۔ بغیر کچھ بولے بھائی کبوتروں والی خالی بالٹی ہمارے ہاتھ میں تھما دیتا اور ہم نیچے ہینڈ پمپ کی طرف لپک لیتے۔ انیس سو پچاس والے اس عشرے میں جب ہم چھوٹے رہے، تو گھر میں پانی ہینڈ پمپ سے ہی لیا جاتا تھا۔
گرمی کے ان دنوں میں کبوتروں والی بالٹی ٹھنڈے پانی سے بھرنے کے لیے سوتیلا اور میں باری باری سے پہلے دوسری دو بالٹیاں بھرتے اور اس کے بعد ہی کبوتروں کا پانی چھت پر لے کر جاتے۔
’’آج کیا لکھا؟‘‘ بالٹی پکڑاتے سمے ہم بھائی کو ٹوہتے۔
’’کچھ نہیں۔‘‘ بھائی اکثر ہمیں ٹال دیتا اور ہم دل مسوس کر کبوتروں کو دور سے پلکیں جھپکے بغیر نہارتے رہتے۔
اس دن ہمارے ہاتھ سے بالٹی لیتے سمے بھائی نے بات خود چھیڑی، ’’آج یہ بڑی کبوتری بیمار ہے۔‘‘
’’دیکھیں،‘‘ سوتیلا اور میں خوشی سے اچھل پڑے۔
’’دھیان سے،‘‘ بھائی نے بیمار کبوتری میرے ہاتھ میں دے دی۔
سوتیلے کی نظر ایک ہٹے کٹے کبوتر پر جا ٹکی۔
’’کیا میں اسے ہاتھ میں لے لوں؟‘‘ سوتیلے نے بھائی سے التجا کی۔
’’یہ بہت چنچل ہے، ہاتھ سے نکل کر کبھی بھی بےقابو ہو سکتا ہے۔‘‘
’’میں بہت دھیان سے پکڑوں گا۔‘‘
بھائی کا ڈر صحیح ثابت ہوا۔
سوتیلے نے اسے ابھی اپنے ہاتھوں میں دبوچا ہی تھا کہ وہ چھوٹ کر منڈیر پر جا بیٹھا۔
بھائی اس کے پیچھے دوڑا۔
خطرے سے بے خبر کبوتر بھائی کو چڑاتا ہوا ایک منڈیر سے دوسری منڈیر پر بِچرنے لگا۔
تبھی ایک بڑی سی چیل نے کبوتر پر جھپٹنے کی کوشش کی۔
کبوتر پھرتیلا تھا۔ پوری طاقت لگا کر فرار ہو گیا۔
چیل نے تیزی سے کبوتر کا تعاقب کیا۔
بھائی نے بڑھ کر پتھر سے چیل پر بھرپور وار کیا، لیکن ذرا دیر پھڑپھڑاکر چیل نے اپنی رفتار بڑھالی۔
دیکھتے ہی دیکھتے کبوتر اور چیل ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو گئے۔
تاؤ کھاکر بھائی نے سوتیلے کو پکڑا اور اسے بے تحاشہ پیٹنے لگا۔
گھبراکر سوتیلے نے اپنی ماں کو پکارا۔
سوتیلی ماں فوراً اوپر چلی آئیں۔
سوتیلے کی یہ بری حالت ان سے دیکھی نہ گئی۔
’’اسے چھوڑ دے،‘‘ وہ چلائیں، ’’نہیں تو ابھی تیرے باپ کو بلا لوں گی۔ وہ تیرا گلا کاٹ کر تیری لاش اسی ٹنکی میں پھینک دے گا۔‘‘
’’کس ٹنکی میں؟‘‘ بھائی سوتیلے کو چھوڑکر، سوتیلی ماں کی طرف مڑ لیا۔
’’میں کیا جانوں کس ٹنکی میں؟‘‘
سوتیلی ماں کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ احاطے کے دالان کے آخری سرے پر پانی کی دو بڑی ٹنکیاں تھیں۔ ایک ٹنکی میں نئی آئی کھالیں، نمک، نوسادر اور گندھک ملے پانی میں ہفتوں پھولنے کے لیے چھوڑ دی جاتی تھیں اور دوسری ٹنکی میں خمیر اٹھی کھالوں کو کھرچنے سے پہلے دھویا جاتا تھا۔
’’بولو، بولو،‘‘ بھائی نے قہقہہ لگایا، ’’تم چپ کیوں ہو گئیں؟‘‘
’’چل اٹھ،‘‘ سوتیلی ماں نے سوتیلے کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا۔
’’میں سب جانتا ہوں،‘‘ بھائی پھر ہنسا، ’’لیکن میں کسی سے نہیں ڈرتا۔ میں نے ایک باگھنی کا دودھ پیا ہے، کسی چمگیدڑی کا نہیں…‘‘
’’تم نے چمگیدڑی کسے کہا؟‘‘ سوتیلی ماں پھر بھڑکیں۔
’’چمگیدڑی کو چمگیدڑی کہا ہے۔۔۔‘‘ بھائی نے سوتیلی ماں کی سمت میں تھوکا، ’’تمہاری ایک نہیں، دو دو بیٹیاں ٹنکی میں پھینکی گئیں، پر تمہاری رنگت ایک بار نہیں بدلی۔ میری باگھنی ماں نے جان دے دی، مگر جیتے جی کسی کو اپنی بیٹی کا گلا گھونٹنے نہیں دیا…‘‘
’’تو بھی میرے ساتھ نیچے چل،‘‘ کھسیا کر سوتیلی ماں نے میری طرف دیکھا، ’’آج میں نے ناشتے میں تم لوگوں کے لیے جلیبی منگوائی ہیں…‘‘
جلیبی مجھے بہت پسند تھیں، لیکن میں نے بیمار کبوتری پر اپنی پکڑ بڑھا دی۔
’’تم جاؤ،‘‘ سوتیلے نے اپنے آپ کو اپنی ماں کی آغوش سے چھڑا لیا، ’’ہم لوگ بعد میں آئیں گے۔‘‘
’’ٹھیک ہے،‘‘ سوتیلی ماں ٹھہری نہیں، نیچے اترتے ہوئے کہہ گئیں، ’’جلدی آ جانا۔ جلیبی ٹھنڈی ہو رہی ہیں۔‘‘
’’لڑکیوں کو ٹنکی میں کیوں پھینکا گیا؟‘‘ میں بھائی کے نزدیک — بہت نزدیک — جا کھڑا ہوا۔
’’کیونکہ وہ لڑکیاں تھیں۔‘‘
’’لڑکی ہونا کیا خراب بات ہے؟‘‘ سوتیلے نے پوچھا۔
’’پتاجی سوچتے ہیں، لڑکیوں کی ذمہ داری نبھانے میں مشکل آتی ہے۔‘‘
’’کیسی مشکل؟‘‘
’’پیسے کی مشکل۔ ان کی شادی میں بہت پیسہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔‘‘
’’پر ہمارے پاس تو بہت پیسہ ہے،” میں نے کہا۔
’’پیسہ ہے، تبھی تو اسے بچانا ضروری ہے،” بھائی ہنسا۔
’’ماں کیسے مریں؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ماں کے بارے میں میں کچھ نہ جانتا تھا۔ گھر میں ان کی کوئی تصویر بھی نہ تھی۔
’’چھوٹی لڑکی کو لے کر پتاجی نے ان سے خوب چھینا جھپٹی کی۔ انہیں بہت مارا پیٹا۔ پر وہ بہت بہادر تھیں۔ پورا زور لگا کر انہوں نے پتاجی کا مقابلہ کیا، پر پتاجی میں زیادہ زور تھا۔ انہوں نے زبردستی ماں کے منھ میں ماں کا دوپٹہ ٹھونس دیا اور ماں مر گئیں۔‘‘
’’تم نے انہیں چھڑایا نہیں؟‘‘
’’میں نے بہت کوشش کی تھی۔ پتاجی کی بانہہ پر، پیٹھ پر کئی چٹکیاں بھریں، ان کی ٹانگ پر چڑھ کر انہیں دانتوں سے کاٹا بھی، لیکن ایک زبردست گھونسا انہوں نے میرے منہ پر ایسا مارا کہ میرے دانت وہیں بیٹھ گئے…‘‘
’’پتاجی کو پولس نے نہیں پکڑا؟‘‘
’’نہیں! پولس کو کسی نے بلایا ہی نہیں۔‘‘
’’وہ کیسی تھیں؟‘‘ مجھے تجسس ہوا۔
’’انہیں موتیوں کا بہت شوق تھا۔ موتی پرو کر انہوں نے کئی مورتیں بنائیں۔ بازار سے ان کی پسند کے موتی میں ہی انہیں لاکر دیتا تھا۔‘‘
’’انہیں پنچھی بہت اچھے لگتے تھے؟‘‘ سوتیلے نے پوچھا، ’’سبھی مورتوں میں پنچھی ہی پنچھی ہیں۔‘‘
گھر کی لگ بھگ سبھی دیواروں پر مورتیں ہیں۔
’’ہاں۔ انہوں نے کئی مور، کئی طوطے اور کئی کبوتر بنائے۔ کبوتر انہیں بہت پسند تھے۔ کہتیں، کبوتر میں عقل بھی ہوتی ہے اور وفاداری بھی… کبوتروں کی کہانیاں انہیں بہت آتی تھیں…۔۔‘‘
’’میں وہ کہانیاں سنوں گا،‘‘ میں نے کہا۔
’’میں بھی،‘‘ سوتیلے نے کہا۔
’’پر انہیں چمڑے سے سخت بیر تھا۔ دن میں وہ سیکڑوں بار تھوکتیں اور کہتیں، اس موے چمڑے کی سڑاندھ تو میرے کلیجے میں آ گھسی ہے، تبھی تو میرا کلیجہ ہر وقت سڑتا رہتا ہے…‘‘
’’مجھے بھی چمڑا اچھا نہیں لگتا،‘‘ سوتیلے نے کہا۔
’’بڑا ہوکر میں احاطہ چھوڑ دوں گا،‘‘ بھائی مسکرایا، ’’دور کسی دوسرے شہر میں چلا جاؤں گا۔ وہاں جاکر موتیوں کوں کا کارخانہ لگاؤں گا…‘‘
اس دن جلیبیاں ہم تینوں میں سے کسی نے نہ کھائیں
" خمسہ بر غزلِ جون ایلیا " .
رفاقت کیا اذیت ہے ؟؟ نہیں تو!
مجھے تم سے محبت ہے ؟؟ نہیں تو!
مجھے کیا خوفِ فرقت ہے؟؟ نہیں تو!
"یہ غم کیا دل کی عادت ہے ؟ نہیں تو!
کسی سے کچھ شکایت ہے ؟ نہیں تو! "
دعا کے بِن ، کسی فریاد کے بِن ،
بدن میں رُوح کی بُنیاد کے بِن ،
بدن کی قید میں صیاد کے بِن ،
"کسی کے بِن ، کسی کی یاد کے بِن
جیے جانے کی ہمت ہے ؟؟ نہیں تو ! "
مِری وحشت سے خِلقت بھی ہے لرزاں!!
خُدا بھی ہو گیا ہے مجھ سے نالاں..
مِرے سینے میں اِک آتش ہے پنہاں!!
"کسی صورت بھی دل لگتا نہیں؟ ہاں!!
تو کچھ دن سے یہ حالت ہے؟ نہیں تو! "
نہیں ہے مجھ کو بھی کسی سے نفرت ،
ہیں سب غم جانتا ہوں رازِ قدرت ،
ہے میرے دکھ سے غافل ، وائے خِلقت!!
"تِرے اِس حال پر ہے سب کو حیرت ،
تجھے بھی اِس پہ حیرت ہے؟ نہیں تو! "
میں اپنی کر کے پھر تفسیر اُس کو ،
دِکھا دوں اُس کی میں تصویر اُس کو ،
مِلائے مجھ سے پھر تقدیر اُس کو ،
"ہے وہ اِک خوابِ بےتعبیر ، اُس کو
بھلا دینے کی نیت ہے ؟؟ نہیں تو ! "
اِک آنسو نے یہ مجھ پر رمز کھولی ،
اِک آیت میں چُھپی ہیں رمز ساری!!
سو خود میں جھانک کر یہ بات پوچھی ،
"ہم آہنگی نہیں دنیا سے تیری..
تجھے اِس پر ندامت ہے؟؟ نہیں تو! "
سبھی غم مجھ سے ہی مرقوم تھا کیا ؟؟
تو میں ہی صبر کو ملزوم تھا کیا ؟؟
میں ' آیةِ صبر ' کا مفہوم تھا کیا !؟؟
"ہوا جو کچھ یہی مقسوم تھا کیا ؟؟
یہی ساری حکایت ہے ؟؟ نہیں تو! "
دلِ مُضطر کی فریادوں سے تجھ کو ،
شبِ ہجراں کی تعبیروں سے تجھ کو ،
سکوتِ شب کی سب یادوں سے تجھ کو ،
"اذیت ناک امیدوں سے تجھ کو ،
اماں پانے کی حسرت ہے؟؟ نہیں تو! "
میں پھر یہ کہہ رہا ہوں کر کے جرات ،
مِری ہر بات میں ہوتی ہے حکمت ،
عطا کیا چیز ہے؟ کیا شے ہے محنت؟
"وہاں والوں سے ہے اِتنی محبت ،
یہاں والوں سے نفرت ہے ؟ نہیں تو! "
وہ یارو چھوڑ کر جو کیا گیا ہے ،
کلیجہ میرا منہ کو آ گیا ہے!!
یہ منظر روح کو دہلا گیا ہے!
"وہ درویشی جو تج کر آ گیا ہے !!
یہ دولت اسکی قیمت ہے؟؟ نہیں تو! "
ہُوا ماضی کے کسی باب میں گُم!
کبھی رنج و الم کی تاب میں گُم!
یہ دنیا ہے حبابِ ناب میں گُم!
"تُو رہتا ہے خیال و خواب میں گُم!
تو اِسکی وجہ فرصت ہے؟ نہیں تو! "
مجھے وحشت سے کچھ حاصل ہوا ہے؟؟
مِرا دشمن خُدا سے بھی بڑا ہے!؟؟
مِرے دل میں کبھی بھی شک رہا ہے؟؟
"سبب جو اِس جدائی کا بنا ہے!
وہ مُجھسے خُوبصورت ہے؟؟؟ نہیں تو !! "