حضرت لقمان علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ جس کے اندر ادب نہیں اس کے اندر بُرائی ہی بُرائی ہے، یہ بھی عمدہ ادب ہے کہ اپنے سے بڑوں اور والدین کے سامنے اونچی آواز میں نہ کہنااور اگر غصے میں کہہ دیا ہو تو پھر غصہ جانے کے بعد پچھتاوا ہونا اور پھر معافی مانگ لینا ۔ اگر غصہ جانے کے بعد کوئی پچھتاوا اور شرمندگی محسوس نہیں ہوتی کہ ہاں! مجھ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا یا ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا تو سمجھ لیں کہ ابھی ہمارے اندر ’’ادب و احترام کی صفت پیدا نہیں ہوئی ہے۔‘‘ اور جب ہمارے اندر ہی وہ چیز نہیں ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ پھر ہم ہماری اولاد کو کیا سکھائیں گے؟
خوب ذہن نشین فرما لیں کہ ہر دو شخص ایک جیسے نہیں ہو سکتے یعنی ایک بڑا ہو اور دوسرا چھوٹا ہو تو وہ دونوں ہرگز ہرگز ایک جیسے ایک مقام کو نہیں پہنچ سکتے، دنیا انصاف اسے کہتی اور سمجھتی ہے جو برابر برابر ہو حالانکہ ’’ادب کے دائرے میں‘‘ ہر جگہ یہ پیمانہ و اصول نہیں ہوتا ۔
مثلاً : اگر 30 کلو کی کسی قسم کی بوری یا کوئی وزن ہے تو یہاں پر یہ انصاف نہیں ہے کہ باپ 15 کلو اٹھائے اور بیٹا 15 کلو بلکہ ادب کے احاطے میں یہ پیمانہ داخل ہوگا کہ بیٹے کو چاہیے کہ باپ کے منع کرنے کے بعد بھی ادباً پورا 30 کلو اٹھائے اور اگر بیٹے میں اتنی طاقت نہیں ہے تو 10 کلو باپ کو دیں اور 20 کلو خود اُٹھائے یہاں پر یہی انصاف ہے۔
مگر اگر باپ کی جگہ بھائی ہے دوست وغیرہ ہے تو پھر 15-15ہی لینا انصاف ہوگا، لہٰذا ادب کے میزان کا معاملہ اس طرح ہوتا ہے اور ادب و احترام صرف یہی نہیں ہے کہ اپنے سے بڑوں کی فرمانبرداری کر کے ہم نے ادب کا حق ادا کر دیا بلکہ ادب کے زمرے میں یہ بھی شامل ہیکہ کہ اپنے سے بڑوں کی کوئی بات ناگوار گزرے تو بھی ان کے مقام و مرتبہ کو جان کر اپنے نفس پر قابو پالے یعنی آگے سے کچھ نہ بولے، اور اپنا سر جھکا کر اپنے آپ کو کو سر تسلیم خم کر دے ۔جیسے والدین اور اولاد میں بڑے والدین ہیں، استاد اور شاگرد میں بڑے استاد ہیں، شوہر اور بیوی میں بڑا خاوند ہے۔ یہ سب چیزیں بچپن سے ہی اپنی اولاد کو سکھائی جائے تاکہ وہ بچپن سے ہی وہ اخلاق و کردار کے حامل بن جائیں جس سے انسان نیک صالح ہوتا ہے۔ بچے معصوم ہوتے ہیں بچوں سے ہر کسی کو محبت ہوتی ہے اس محبت میں انسان کا دل ہوتا ہے وہ اسے اچھے سے اچھا کھلائے پلائے پہنائے اڑُھائے گھومائے پھرائے مگر ان سب سے بہتر اور پہلے انہیں اعلیٰ و نیک تربیت دینے کی فکر ہونا چاہیے۔
یاد رہے کہ تعلیم اور تربیت میں بہت فرق ہوتا ہے، تعلیم اسے کہتے ہیں جو اسکولوں میں ملتی ہے مگر تربیت اسے کہتے ہیں جو گھر سے ملتی ہیں اور انسان نیک صالح تعلیم سے نہیں بلکہ تربیت سے بنتا ہے ورنہ دنیا میں کئی ایسے ڈاکٹر، ٹیچر، پروفیسر، انجینئر، پڑھے لکھے لوگ ہیں مگر اخلاق و کردار ویسا نہیں جس معیار کی ان کی تعلیم ہے بلکہ اللہ معاف فرمائے یہاں تک کہ بعض عالم عالمہ، حافظ حافظہ، فاضل فاضلہ اور مفتی ہو کر بھی وہ کام کر جاتے ہیں یا کرتے ہیں جو کہ آپ حضرات کے علم میں بھی ہوگا ، ( اگرچہ بندہ احقر بذات خود علماء کرام کے خدام میں سے ہے مگر حق بات لکھنے سے ہم اعراض نہیں کر سکتے، اگرچہ امت کا سرمایہ و بقاء انہیں علماء کرام کی پیروی میں میسر ہے مگر بعضِ علماء سو بھی ہوتے ہیں)
مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کے پاس تعلیم کی کمی تھی؟ نہیں؟ پھر؟
وجہ یہی ہے کہ تعلیم تو ہے مگر تربیت جیسی چیز سے وہ کورے رہ گئے جس کے ذمہ دار ان کے والدین ( سرپرست) ہیں، یہاں سے ایک قابل ذکر نقطہ نظر یہ بھی نوٹ فرما لیجیے کہ اسکولوں و مدارس کے اساتذہ کو قصور وار ٹھہرانے سے پہلے ہم والدین قصور وار ہیں جو اپنی اولادوں کی تعلیم و تربیت نہیں کر سکے، بالفرض اگر اساتذہ کمزور بھی ہے تو والدین کی خصوصی تربیت سے بچے بہتر تعلیم یافتہ و بہتر تربیت یافتہ بن سکتے ہیں مگر اگر اساتذہ اچھے ہنر مند ہو مگر والدین بچوں پر ویسی توجہ نہیں دے تو بچوں کی تعلیم و تربیت اس معیار کی ہونا بہت مشکل ہے جو قابل تعریف و رشک ہوتی ہے۔
مؤلف : انصاری عابِد حُسین غفرله
( جنرل سکریٹری مسلم اُنّتی سیوا فاونڈیشن، دُھولیہ مالیگاؤں) Mob.8446665323
تصحیح شدہ
مفتی احتشام حسین اشاعتی صاحب
(مفتی دارالافتاء والارشاد، رحمت آباد، نزد 60 فٹی روڑ، سلامت اللہ مسجد، امام و خطیب مسجد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ(حلوائی)، ناظم اعلیٰ مدرسہ اشاعت القرآن، واقع مسجد سلامت اللہ مسجد، مالیگاؤں)
مفتی حفظ الرحمن اشاعتی قاسمی صاحب
(مفتی تھانوی دارالافتاء، گلشن امين، نزد مولانا عمرین چوک، امام و خطیب مسجد بتول ابراهيم، گلشن امين، استاذ حدیث والفقہ جامعہ ابوالحسن علی ندوی، دیانہ، مالیگاؤں)