—از : شمس الضحٰی اسرائیل
ندا فاروقی ،ایک شاعر، ایک صحافی اور ایک بہت ہی بہترین شخصیت
ندا فاروقی.... نام و نمود، صلہ و ستائش سے پرے مقصد کی تکمیل میں منہمک رہنے والا ایک ایسا انسان جو اپنے شعروں پر واواہی بٹورنے سے کہیں زیادہ اس کا ایک شعر کسی کیلئے حاصلِ زندگی بن جائے اس جستجو میں وہ تین دہائیوں سے حرفِ گمشدہ کی دریافت اور بازیافت میں الفاظ کے جزیروں میں ڈوبتا اور ابھرتا رہا. اور اسی ڈوبنے اور ابھرنے کے عمل نے ندا فاروقی کے اندر کا شاعر حصارِ ذات سے باہر آیا تو حرف گمشدہ کی تخلیق کا مقصد بنا
میری ہستی کو سمجھنا کوئی آسان نہیں
تیری پرواز تری سوچ سے باہر میں ہوں
شہر عزیز کے مقامی ادب 90 کی دہائی میں نئے نوجوان شعراء کی ایک اچھی خاصی تعداد ابھری. نیا جوش، نئی امنگ، نئی سوچ و فکر اور نئی آوازوں نے مقامی ادب کے مشاعروں اور نشستوں میں اپنے قدم جمانے شروع کئے. ان ہی نئے شعرا کی بھیڑ میں تحت اللفظ کا ایک شاعر ندا فاروقی بھی تھا. حرف گمشدہ ندا فاروقی کی 30 برسوں کی محنت اور اس فن میں عرق ریزی کا ثمرہ ہے. حرفِ گمشدہ... اچھے شعروں پر مشتمل غزلوں کا ایک ایسا گلدستہ ہے جس میں رنگ برنگ کے صدہارنگ گلوں کو سلیقے سے سجا دیا گیا ہے
حرفِ گمشدہ.... اچھی شاعری پڑھنے اور سننے والوں کیلئے ایک ادبی صحیفہ ہے جو آسمان سے نہیں ایک شاعر حقیقی کے ذہن سے اتر کر صفحہ قرطاس پر نکھرا ہے.
حرفِ گمشدہ ایک تحفہ ہے اچھی شاعری پسند کرنے والوں کیلئے، ایک بہترین سوغات ہے اپنی لائبریری کی زینت بڑھانے کے لئے.
حرف گمشدہ معروف شاعر ندا فاروقی کا اولین شعری مجموعہ ہے. ندا فاروقی کی تیس برسوں کی عرق ریزی سے سر سبز گلدستہ اب اچھے اور با سلیقہ قارئین کے ہاتھوں کی زینت بن رہا ہے.
مورخہ 27 مارچ بروز جمعرات شب میں 9:30 بجے اسکس لائبریری دوسرا منزلہ "ہارون بی اے ہال" میں احباب علم و دانش، جلیسان فکر وفن، عزیزانِ نقد و نظر کی موجودگی میں حرفِ گمشدہ کا اجراء عمل میں آئے گا. جس مشاعرہ میں مقامی و بیرونی شعراء اپنا کلام پیش فرمائیں گے. آپ سے گزارش ہے کہ اس تقریبِ اجراء میں نہ صرف شرکت فرمائیں بلکہ ایک کتاب اعزازی قیمت میں خرید کر خود زندہ قوم اور زندہ زبان و ادب کا ایک اٹوٹ حصہ بنیں
________
مزدور اور کارل مارکس
تحریر: غلام مصطفٰی ( جی۔ایم )
ابھی تک میں نے نامور اشخاص کا مطالعہ اتنی گہرائی سے نہیں کیا جتنا کرنا چاہیے
لیکن میں نے پڑھا ہے کہ
کارل مارکس، فرائیڈ، نطشے، کانٹ اور ڈراون: جدید دنیا اِن پانچ ستونوں پر ہی کھڑی ہے۔
ان پانچ ستوں میں ایک کارل مارکس ہے جن کو بابائے شوشلزم بھی کہا جاتا ہے ۔وہ ایک فلاسفر ، ماہر سیاسیات اور اقتصادیات تھے۔
کارل مارکس 5 مئی 1818 کو جرمنی کے شہر ٹرائر میں پیدا ہوئے اور 14 مارچ 1883ء کو لندن میں انتقال ہوئے.
کہتے ہیں کہ جس طرح نیوٹن نے ایک سوال پوچھ کر ( """"سیب زمین پرہی کیوں گرتا ہے"""") علم فلکیات کے بہت سارے رازوں کا حل دریافت کیا مثلاً کشش ثقل ، حرکت کے مساوات ، نیوٹن کے تین قوانین وغیر ہ
بالکل اسی طرح کارل مارکس نے ایک سوال
("""""""تمام انسان تو ایک جیسے ہیں لیکن وہ طبقات میں بٹے ہوئے کیوں ہیں جیسے کہ کوئی امیر ہے تو کوئی غریب اور کوئی مڈل کلاس وغیرہ""""")
پوچھ کر معاشراتی نظام اور اقتصادی نظام میں ایک انقلاب برپاہ کیا اور ان نظام کے خلاف بہتر حل تجویز کیے۔
کارل مارکس لکھتا ہے کہ: سرمایہ دار نہ صرف ہمیں جسمانی، معاشی و معاشرتی طور پر مفلوج کرتا ہے بلکہ وہ ہمیں سب سے زیادہ ذہنی طور پر مفلوج کرتا ہے تاکہ ہم اس کی اتھارٹی کو چیلنج نہ کر سکیں۔۔۔وہ نظام تعلیم پر اس قدر چھایا رہتا ہے کہ اول تو غریب طبقہ تعلیم سے محروم ہی رہتے ہیں،بالفرض اگر تعلیم ملے بھی تو سرمایہ دار اپنی مرضی کا نصاب مرتب کرواتے ہیں جس میں ہمیں سرمایہ دار کا استحصال بالکل بجا لگتا ہے۔
کارل مارکس مختلف جگہوں پر کہتے ہیں کہ
Who will educate the educators..
تعلیم یافتہ کو پھر کون تعلیم دے.؟ ...(کارل مارکس)
"وقت، انسانی نشوونما کا میدان عمل ہے_" (کارل مارکس)
"اگر ہم زندگی میں وہ راستہ اپنائیں جس کا مقصد نسل انسانی کی بقاء ہو تو دنیا کا کوئی بوجھ ہمیں جھکا نہیں سکتا_"( کارل مارکس)
"ایک طبقاتی معاشرے میں غیر جانبداری دراصل منافقت کا دوسرا نام ہے_"( کارل مارکس)
زندگی کا اصل مقصد کائنات کا اصل شعور حاصل کر کے بے سہارا انسانوں کی زندگی میں حوصلہ پیدا کرنا اور مرجھائے ہوئے چہروں پر مسکراہٹ لانا ہے..!!!!_
(کارل مارکس)
کارل مارکس نے ایک جگہ پر فلاسفروں پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ
"""" فلسفیوں نے صرف اور صرف دنیا کے مختلف تشریحات کی ہیں۔لیکن اصل بات اِسے تبدیل کرنے کی ہے۔""""
مارکس کے مطابق دنیا میں دو طرح کے انسان ہیں
ظالم اور مظلوم, آقا اور غلام, آجر اور اجیر, جاگیردار اور مزارعہ, سرمایہ دار اور مزدور اور ظلم استحصال اور لوٹ مار کرنے والا تو انسان ہی نہیں ہو سکتا۔
کارل مارکس نے دنیا کو دو نعرے دیے
""'دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ.""
دوسرا اس نے کہا کہ
""""یہ کائنات وجود میں آچکی سو آچکی..اس کے وجود میں آنے کے طریقوں پر لڑنے کی بجائے اس کائنات کو چلانا اور بہتر کرنا زیادہ اہم ہے."""۔
کارل مارکس سرمایہ داروں کے بارے میں لکھتے ہیں
""'""سرمایہ دار کا کوئی مذہب، اخلاق اور نظریہ نہیں !
بلکہ اسکا صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے اور وہ ہے لوٹ کھسوٹ اور استحصال ۔"""""
کارل مارکس نے محنت کشوں کیلیے کہا کہ
"دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہوجاؤ
تمہارے پاس کھونے کو صرف زنجیریں ہیں
اور پانے کو سارا جہاں پڑا ہے"
میں سب محکوم اقوام کو کارل مارکس کی جنم دن پر مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ آج ہی کی دن محکوم اقواموں کا اور استحصال زدہ اور غریبوں مزدوروں کسانوں کے غم خوار آج ہی کے دن پیدا ہوئے تھے۔
__________
🔥ایٹم بم کا رقص 🔥
🎶بورس وِیان 🎵🩸 فرانسیسی ادب سے ایک نظم 🩸
ترجمہ :- 🎻شاہ زماں حق (شعبہ اردو، اِنا لکو، پیرس)
🔴انتخاب و ٹائپنگ :- ⚫احمد نعیم
میرے ماموں
ایک مشہور مستری
بناتے تھے شوقیہ
ایٹم بم
بِنا کچھ سیکھے ہوئے
وہ تھے بڑے عقلمند
خود کو کرلیتے
تمام دن کارخانے میں
تاکہ اپنے
تجربوں کو علمی جامہ پہنا سکیں
شام کو جب
وہ گھر واپس آتے
ہماری بےتابی دیکھ کر تمام باتوں کا خلاصہ ہم سے بیان کرتے -
میرے بچو! یقین کرو
ایٹم بم بنانا
بائیں ہاتھ کا کھیل ہے
یہ جو ڈیٹونیٹر ہے
یہ تو چند منٹوں کی بات ہے
اور ہائیڈروجن بم
اُس میں بھی نہیں پیچیدگی
لیکن ایک چیز ہے
جس نے مجھے پریشان کر رکھا ہے
میرے بم َ کے پھٹنے کا دائرہ ہے محض ساڑھے تین میٹر
کچھ تو ہے گڑبڑ ہے
مجھے فوراً جانا ہے واپس کارخانے میں
انہوں نے ان تھک
کام کیا
کئی دنوں تک بہت ہی لگن کے ساتھ
بم َ کو بہتر بنایا
جب وہ کھانے پر بیٹھتے
ہمارے ساتھ تو نگل جاتے
ایک ہی گھونٹ میں اپنے نو ڈلز کا سُوپ
آنکھیں لال ہوجاتیں ہم خوف سے چُپ رہتے
پھر ایک شام کھانے کے دوران
مامُوں آہ بھر کر بولے
جیسے جیسے بوُڑھا ہو رہا ہوں
یوں لگتا ہے
میرا دماغ کام کرنا چھوڑ رہا ہے
اگر صاف صاف کہا جائے تو
میرا دماغ دماغ نہیں رہا دہی بن گیا ہے
اب تو مہینوں اور سالوں سے میں کوشش میں لگا ہوں کہ
اپنے بمَ کے دائرے کو بڑھاؤں لیکن ایک بات کا میں نے خیال نہیں کیا
جو بات ہے سب سے اہم
وہ ہے جگہ جہاں گرتا ہے بم َ
کچھ تو گڑ بڑ ہے
مجھے فوراً جانا ہے
واپس اپنے کارخانے میں
جب نتائج کے آثار نظر آنے لگے
تو دنیا کے بڑے بڑے حکُمراں
ماموں کے گھر چکر لگانے لگے
اُن سبھی کا ماموں نے استقبال کیا
اور معذرت بھی کی کہ کشادہ نہ تھا اُن
کا تہ خانہ
جیسے ہی تمام حکُمراں
اُس میں داخل ہوئے
ماموں بولے عقلمندی اِسی میں ہے کہ
اپنی حفاظت کے واسطہ
تُم سب ہوجاؤ تہ خانے میں مقَُفَّل
پھر جو بمَ کا ہوا دھماکہ
حکمرانوں میں سے کوئی بھی زندہ نہ بچ سکا
اس نتیجے کے سامنے
ماموں بالکل نہ گھبرائے
خود کو بیوقوف ظاہر کیا
جب اُن پر مقدمہ چلا
تب ججوں کے سامنے
لڑکھڑاتی زبان میں بولے
"محترم حضرات،!! یہ بڑا بدقسمتی حادثہ ہے لیکن خدا کی قسم
میں پورے ہوش و حواس میں
عرض کرتا ہوں کہ
اِن خبطیوں کو نیست و نابود کرکے
مجھے پورا یقین ہے میں نے فرانس کی خدمت کی
سبھی جج تھے پریشان
نتیجتاً، ماموں کو سزا سنائی گئی
پھر انہیں دی گئی عام معافی
اور پورےملک نے
جو اُن کا ممنون تھا
اُن کا فوری انتخاب کیا
بطور صدر وطن!!