مرزا غالب قوم کے بلوقی ترک تھے ۔ انکے دادا ہندوستان آئے۔ والد ہندوستان میں ہی پیدا ہوئے۔ والدہ آگرہ کے رئیس کی صاحبزادی تھیں۔ مرزا غالب ۱۷۹۷ء میں آگرہ کے مقام : ہوئے۔ پانچ برس کے تھے کہ ان کے والد عبد اللہ خان ریاست اور میں مارے گئے۔ غالب نے آگرہ میں تعلیم پائی۔ نواب الہی بخش خال معروف کی صاحبزادی امر اؤ بیگم سے شادی ہوئی۔ غالب آگرہ کو چھوڑ کر دیلی آگئے اور پھر عمر بھر یہیں رہے۔ مرزا غالب فارسی کے عالی پایہ ادیب اور شاعر تھے ۔ اردو میں ان کی غزلوں کا دیوان اگر ہے۔ لیکن اردو کے نقاد اس کو آنکھوں پر رکھتے ہیں مرزا غالب کی شاعری پر بہ کثرت کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اور ان کے دیوان کے بے شمار ایڈیشن چھاپے جاچکے ہے ہیں۔ فارسی میں ان کی کلیات ،اردو کلام ، کے مقابلے میں خاصا ضخیم ہے۔ فلسفہ اور تصوف کی باریکیاں شعر میں نہایت دل آویزی سے بیان کرتے ہیں۔ مرزا غالب اس زمانے میں ہوئے جب ہندوستان میں مغل سلطنت آخری سانس لے رہی تھی ۔ یہاں تک کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی مرزا کے سامنے ہوئی اور انہوں نے دہلی کی تباہی کا منظر اپنے آنکھوں سے دیکھا۔ دیوان اردو اور کلیات فارسی کے علاوہ اردو معلی اور عود ہندی" کے نام سے غالب کے رقعات بھی مرتب کیے گئے جو زبان و بیان کی سادگی اور بے آنگلافی
کے اعتبار سے اب تک اردو انشا پردازوں کیلئے نمونہ ہیں۔ مرزا غالب کو کچھ خاندانی پنشن ملتی تھی۔ کچھ آمدنی دوسرے ذرائع سے بھی ہو جاتی تھی لیکن عمر بھر حاجت مند ہی رہے۔ چونکہ خاندانی رئیمیں تھے ، اس لئے خود داری سے زندگی بسر کر دی۔ آخر عمر میں زیادہ تر بیمار رہتے تھے ۔ بصارت اور سماعت قریب قریب جاتی رہی تھی۔ بہتر سال کی عمر پا کر ۱۸۲۹ء میں فوت ہو گئے۔ دہلی میں حضرت نظام الدین اولیاء کی درگاہ کے پاس مدفون ہوئے۔ بعض لوگ ایسے لوگوں کو جن کے پاس بہت روپیہ ہوتا ہے بڑا آدمی کہتے ہیں لیکن یہ بات درست نہیں بڑا آدمی بڑی دولت والا نہیں بلکہ بڑے کام والا ہوتا ہے۔ ان کے حالات بڑی بڑی کتابوں میں لکھے گئے ہیں وہ شاعر بھی تھے اور نثر نگار بھی اس لئے انہوں نے نظم و نثر میں کئی کتابیں چھوڑی ہیں یہ کتابیں فارسی میں بھی ہے اور اردو میں بھی انکی والد عزت النساء بیگم پڑھی لکھی خاتون لہذا اپنے بچوں کی تعلیم پر خاص توجہ دی تھی چوں کہ غالب بڑے بیٹے تھے اور باپ کا انتقال ہو چکا تھا۔ اس لئے غالب بہت چہیتے تھے۔