نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ
مؤمن کی زندگی کا اختتام موت پر ہوتاہے جو اصلاً عالم برزخ ہوکر عالم آخرت تک پہونچنے کا دروازہ ہے، فرمان نبوی کے مطابق موت ایک پُل ہے جو محبوب کو محبوب سے ملادیتاہے، یہ ایک تحفہ ہے جسے اللہ کی جانب سے اللہ کے فرشتے بندۂ مومن کے پاس لے کر آتے ہیں، اور روح کو قفسِ عنصری سے لیکر چلتے بنتے ہیں،اس دروازے میں داخل ہونے اور پُل سے گذرنے کے بعد ایک ایسی زندگی کا آغاز ہوتاہے جو کبھی ختم نہیں ہونے والی ہے، اس لئے کہاگیاہے کہ انسان ازلی تو نہیں ابدی ہے،عہدِالستُ سے گذرنے کے بعد کسی نہ کسی حیثیت سے وہ ہمیشہ باقی رہتاہے، اس ہمیشگی کی زندگی کی بہتری کا مدار دنیوی اعمال پر ہے، اس لئے دنیا کو آخرت کی کھیتی کہاگیاہے،اس کھیتی میں حسنِ عمل،پختہ ایمان ،حقوق اللہ وحقوق العباد کی ادائیگی کے بعد ہی اچھی فصل لہلہاتی ہے اور بالآخر انسان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ میں اپنا ٹھکانہ بنانے میں کامیاب ہوجاتاہے۔
لیکن دنیا کی چکاچوند اور عیش وآرام کی زندگی اس راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے اورانسان خواہی نخواہی شیطان کے مکروفریب کا شکار ہوکر آخرت کے اعتبار سے ناکام ہوجاتاہے، اسی لئے صوفیاء نے فکرِ آخرت اور حیات بعد الممات کے مراقبہ پر زور دیاہے،کیوں کہ اس کی وجہ سے انسان شیطانی مکر سے بچ جاتاہے، اورآخرت میں کامیاب ہوجاتاہے، یہ وہ دولت ہے جو ہرکسی کے حصہ میں نہیں آتی۔
حضرت مولانامفتی ظفیرالدین مفتاحی(آمد:7؍مارچ 1926ء رفت: 31؍ مارچ 2011ء) بن منشی شمس الدین کو اللہ رب العزت نے فکرِآخرت کی دولت سے نوزا تھا اوراس دولت نے ان کی زندگی کو تقویٰ کی دولت سے مالامال کردیا تھا، تقویٰ کے اثرات ان کی زندگی ،بودوباش،علمی مشغلے، تدریس وتصنیف اورتبلیغ دین میں کھلی آنکھوں سے دیکھے جاسکتے ہیں، ان کی مثال اس پھلدار درخت کی طر ح تھی جو پھلوں کے بوجھ پر اکڑتا نہیں ،جھک جاتاہے،ان کی علمی فتوحات ،فقہی بصیرت نے ان کے اندر تواضع وانکساری پیدا کردیاتھا، اللہ کی بڑائی کے تصورنے ان کے اندر سے دوسری ساری بَڑائی کاخیال نکال دیاتھا، اس کی وجہ سے کسی بڑے کے سامنے زندگی بھروہ سجدہ ریز نہیں ہوئے۔یہی ایک مومن کی شان ہے، سجدہ صرف اس خدا ئے برتر کو زیباہے ،عہدے، جاہ ومنصب کا احترام تو وہ کرتے تھے لیکن بچھ جانے کا مزاج ان کا کسی دور میں نہیں رہا، فکرآخرت نے انہیں ظاہری بنائو سنوارسے بھی بڑی حد تک بے نیاز کردیاتھا، صفائی ستھرائی ان کے مزاج کا حصہ تھا، لیکن آج کی اصطلاح میں جسے بننا سنورنا کہتے ہیں اس سے وہ کوسوں دور تھے، یہ صفت ان کے اندر ان کے ناموراستاذ حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمیؒ کی صحبت سے پیدا ہوئی تھی، جو عالمی شہرت یافتہ محدث اور اسماء رجال کے بڑے ماہر تھے، اورمئو کے لوگ ان کی علمی عبقریت وعظمت کے اعتبار سے انہیں ’’بڑے مولاناؒ ‘‘کہاکرتے تھے، لیکن کتابوں کے درمیان سادگی کے ساتھ ان کی زندگی گذرتی تھی، حضرت مولانا مفتی ظفیرالدین مفتاحی نے علم وصلاح کے ساتھ یہ صفت بھی ان کی اپنے اندر جذب کرلیاتھا،ان کا خیال تھاکہ خوبصورتی ان کپڑوں سے نہیں ہے جو انسان زیب تن کرتاہے ،اصل خوبصورتی علم وادب کی خوبصورتی ہے۔عربی کا مشہور شعر ہے ؎
لیس الجمال باثوب تزیننا
ان الجمال جمال العلم والادب
حضرت مفتی ظفیرالدین کے دل میں بزرگوں کی صحبت سے فکرآخرت کی آگ لگی گئی تھی، انہیں بیعت کی سعادت شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ اوران کے بعد حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب سے حاصل تھی،خلافت واجازت مولانا فضل اللہ جیلانیؒ اورحضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ نے بخشی تھی۔اس لئے ان کی تحریر وتقریر میں اس کا عکس صاف طورپر دکھائی دیتاتھا، ان کی تقریروں میں اصلاحِ حال اورفکرِآخرت کے حوالے سے دردمندی جھلکتی نہیں، چھلکتی تھی، ان کے کالبدخاکی میں جو تڑپتا ہوا دل تھا، اس کی تڑپ اور کسک سامعین محسوس کرتے تھے، یہ تڑپ اور بے چینی، مخلوق کو خالق سے قریب کرنے کا یہ جذبہ ان کے اورادواذکار ،باجماعت تکبیر اولیٰ کے ساتھ صف اول میں نماز کی پابندی ،تلاوت قرآن کے اہتمام اور تہجد وغیرہ کے معمولات کی پابندی کی وجہ سے پائے جاتے تھے ،وہ فنا فی اللہ ہوگئے تھے اوراس مقام پر پہونچ کر وہ اللہ کے ہوگئے تھے اوراللہ ان کا ہوگیا تھا، اب ان کے اعضاء وجوارح سے جن اعمال کا صدور ہوتا وہ مرضیات الہی ،احکام خداوندی اور طریقۂ نبوی کے مطابق ہوا کرتاتھا، یہ وہ مقام ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ اللہ بندے کا ہاتھ بن جاتاہے، جس سے وہ کام کرتاہے، اللہ بندے کی آنکھیں بن جاتاہے جس سے وہ دیکھتاہے، اللہ بندہ کا پائوں بن جاتاہے جس سے وہ چلتاہے، یہ مرضیات الہی پر چلنے کی تفہیم وتعبیر ہے ،اسے وحدۃ الوجود کے عقیدہ سے جوڑکر نہیں دیکھنا چاہئے، حضرت مولانا مفتی سعیداحمد پالن پوریؒ نے حضرت مفتی صاحب کے بارے میں لکھاہے:
’’وسعت علم، اصابت رائے، خلوص، للہییت،دینی وملی فکرمندی، جہد مسلسل اورقلم کی تیزگامی میں بے مثال تھے، سادگی اور عزلت نشینی کے عادی تھے‘‘(حیات ظفیر31۔32)
مولانا مفتی ظفیرالدین صاحبؒ اپنے کام سے کام رکھنے والے انسان تھے، انہیں لابی نہیں آتی تھی اوران کی اپنی اتنی مضبوط صلاحیت تھی کہ وہ دوسروں کو گراکر آگے بڑھنے کے قائل نہیں تھے، جیساآج کل ہمارے عہد میں رواج ہے کہ جب تک دوسرے کی برائی نہ کرو، سامنے والے کے قد کو مختلف عیوب لگا کر چھوٹا نہ دکھائو، تب تک اگلے کا قد بڑا ہوتاہی نہیں ہے، کئی لوگ توآپ کو روند کر آگے بڑھنے سے بھی گریز نہیں کرتے، ان کا مقصد صرف اپنی ناموری ہوتی ہے، چاہے اس کے لئے تمام شرعی حدود وقیود کو توڑنا ہی کیوں نہ پڑے، ایسے لوگوں میں کسی بڑی لکیر کے سامنے اس سے بڑی لکیر کھینچنے کی صلاحیت تو ہوتی نہیں، البتہ وہ سامنے کی لکیر کے بعض حصے کو مٹاکر اپنی لکیر بڑی دکھادیتے ہیں۔
حضرت مفتی ظفیرالدین صاحبؒ کو یہ طریقہ نہیں آتاتھا،آتا بھی تو وہ اس کو بَرت نہیں سکتے تھے، کیوں کہ فکر آخرت ان کودامن گیر ہوجاتی، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب حضرت مولانا مفتی ظفیرالدین صاحب مفتاحی کو کتب خانہ کی ترتیب جدید کا کام سونپا گیا تو عام خیال یہی تھاکہ انہیں یہ کام پہلے سے کام کررہے ناظم کتب خانہ کو سائڈ کرنے کے لئے سونپا گیا ہے، کیونکہ ناظم کتب خانہ کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ قاری محمد طیب صاحبؒ کے خلاف جو لوگ جو کچھ بھی کرتے ہیں اس میں اصل دماغ مولانا موصوف کا ہی کام کرتاہے،لیکن مفتی ظفیرالدین صاحب ؒنے اپنے طرز عمل ،رویے اور مخلصانہ جدوجہد کے ذریعہ جلدہی لوگوں کی غلط فہمیاں دور کردیں اور ناظم کتب خانہ کا شمار بھی مفتی صاحب کے مداحوں میں ہونے گا۔
مفتی ظفیرالدین مفتاحیؒ کے مزاج میں اعتدال اور توازن تھا ،خوشامدپسندی اور چاپلوسی کا مزاج انہوں نے پایا نہیں تھا، ان کی اس صفت خاص نے مفتی صاحب کو عوام وخواص میں مقبول بنارکھاتھا، وہ طلبہ کی حوصلہ افزائی میں طاق تھے، اورحق بات بے باکی اورسلیقہ سے کہنا جانتے تھے، وہ خاموش رہنا پسند کرتے تھے، لیکن بولتے تو حق بات بولتے، البتہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے تھے اور اس پر عمل پیرا بھی تھے کہ تمام حق بات کا کہنا شرعی فریضہ نہیں ہے، ورنہ آدمی سرمد ومنصور بن کر رہ جائے گا، ان کی مضبوط اور سوچی سمجھی رائے تھی کہ جب بولاجائے تو حق بولاجائے، بقول ان کے صاحب زادہ ڈاکٹر ابوبکر عباد اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو دہلی یونیور سیٹی ’’ابوجان سچی اورصحیح بات کہنے میں بے باک ہی نہیں کافی حد تک بے احتیاط تھے، ممکن ہے یہ سادگی صاف گوئی اس بے خوفی کی زائیدہ ہو جوان کی شخصیت کا لازمی حصہ تھے(میرے ابوجان حیات ظفیر63)
مفتی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے صبر وشکر کی دولت سے بھی مالامال کیا تھا، انقلاب دارالعلوم کے موقع سے ان کی تصنیفات وتالیفات کے کئی مسودے کتابوں کی پلیٹیں ان کے کمرے سے غائب کردی گئیں، یہ ان کی زندگی کا بڑا سانحہ تھا، قاری محمد طیب ؒ سے قلبی تعلق کی وجہ سے سقوط اہتمام اور انقلاب کا معاملہ حضرت مفتی صاحب کے لئے کم جاں گسل نہیں تھا کہ اس علمی سرمایہ کے ضیاع نے انہیں اندر سے توڑ کر رکھ دیا، میں بھی اس زمانہ میں دارالعلوم دیوبند کا طالب علم تھا، میں نے بعض مسودات مال غنیمت پر قبضہ کرنے والوں سے حاصل کرکے محاسبی میں جمع کردیا تھا، بعض کتابوں کی پلیٹیں بھی برآمد کرکے امانتاً وہاں ڈال دی تھیں کہ حضرت تک پہونچ جائے، لیکن تقدیر میں یہی لکھاتھاکہ وہ ان تک نہ پہونچے، سو نہیں پہونچا، حضرت مفتی صاحب کو اس کا غم والم پوری زندگی رہا، لیکن اللہ رب العزت نے صبروثبات کی جو دولت انہیں عطا کی تھی اس نے انہیں حوصلہ بخشنا اور مشکل حالات میں زندگی گذارنے والے بہتوں کے لئے وہ نمونۂ عمل بن گئے اور ہم جیسے چھوٹوں کو یہ درس دے گئے کہ حالات موافق ہوں تو شکر کرو اور سازگار نہ ہوں تو صبر کو نصب العین بنا لو، یہ لکھناجتنا آسان ہے عملی زندگی میں اسے برتنا اسی قدر مشکل اور دشوار ہے، مفتی صاحب کو اس علمی خزینے کی گم شدگی کا افسوس تو زندگی بھر رہا اورجب بھی اس حادثہ کی یادآتی دل خون کے آنسو روتا، لیکن مجال ہے کہ صبرو ثبات کے قدموں میں کوئی تزلزل اور راضی برضاء الہی کے ریشمی تار پر کوئی بل آیاہو۔
مفتی صاحب کو امارتِ شرعیہ اور اکابر امارتِ شرعیہ سے فطری انسیت تھی، حضرت امیر شریعت رابع مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی ان پر بڑا اعتماد کرتے تھے، امیر شریعت سابع حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی ؒکو وہ ہمیشہ ’’پیر جی ‘‘کہہ کر مخاطب کرتے تھے ،امارت شرعیہ کو علمی وفکری انداز میں اہل علم کے درمیان مقبول کرنے میں بانیٔ امارت شرعیہ حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ،نائب امیر شریعت ثانی مولانا عبدالصمد رحمانیؒ کے بعد تیسرا بڑا نام حضرت مولانا مفتی ظفیرالدین مفتاحیؒ کا ہے،’’ امات شرعیہ کتاب وسنت کی روشنی میں‘‘ اور’’ امارت شرعیہ دینی جدوجہد کا روشن باب‘‘نامی کتاب کا شمار امارت شرعیہ پر کام کرنے والوں کے لئے حوالہ جاتی کتب میں ہوتاہے، آخر الذکر کو تاحال مرتب کرنے کی ذمہ داری حضرت امیر شریعت سابعؒ نے میرے ذمہ کی تھی، کام میں پھیلائو او روقت میں تنگی داماں کی شکایت کی وجہ سے کام ابھی مکمل نہیں ہوسکاہے، دعا کی ضرورت ہے کہ یہ کام میرے ہاتھوں انجام پاجائے یہ حضرت امیر شریعت سابع ؒکی خواہش کی تکمیل بھی ہوگئی اور حضرت مفتی صاحبؒ کی کتاب کا تکملہ بھی۔
لیکن میرے نام یہ قرعہ فال بعد میں نکلا،پہلے ہم لوگوں نے یہ کوشش کی حضرت مفتی صاحب ہی عمر کی آخری منزل میں اس کام کو کردیں، چنانچہ امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحبؒ کی گذارش پر وہ امارت شرعیہ تشریف لائے، قیام دفتر میں واقع حضرت امیر شریعت کے حجرے میں ہوا،ہم لوگوں نے بار بار یہ گذارش کی کہ آپ املاکرادیں،ہم لوگ لکھ لیں گے، لیکن اس وقت ان کا حافظہ جواب دے رہاتھا اور فکرِ آخرت کا غلبہ اس قدر تھاکہ ذکرِ آخرت اوراپنی مغفرت کے علاوہ کوئی دوسری بات زبان پر آہی نہیں رہی تھی، شام میں بعد نماز مغرب ہم لوگوں نے تجویز رکھی کہ المعہدالعالی کے طلبہ کو فتاویٰ نویسی کے حوالے سے کچھ نصیحت کردیں ،اصرار پر تشریف لے گئے، طلبہ کے سامنے کرسی پر فروکش ہوئے، اور اپنی بات شروع کی، میر احافظہ اگر خطا نہ کررہاہوتو انہوں نے کہاکہ طلبۂ عزیز ہم آپ کے پاس کیوں آئے ہیں؟ جانتے ہیں، میں اس لئے آیاکہ آپ میرے لئے مغفرت کی دعا کردیں ، پھر خود کلامی کے انداز میں فرمایا کہ میری مغفرت ہوجائے گی نا، گلو گیر ہوگئے اور پھر خود ہی فرمایاکہ میرے اتنے شاگرد ہیں وہ سب مغفرت کی دعا کریں گے تو یقینا اللہ معاف کردے گا، بس اتنا کہہ کر خاموش ہوگئے، ہم لوگوں نے لڑکوں کو ابھاراکہ سوالات کرو، جن کا حافظہ جواب دے رہاہو ان کے تحت الشعور سے باتوں کے نکلوانے کا یہی طریقہ ان دنوں مروج ہے، چنانچہ ایک لڑکے نے سوال کردیاکہ جدوجہد آزادی میں آپ کی کیا خدمات رہی ہیں، ذرا ہمیں بھی بتائیں، کہنے لگے، اس سے ہماری یاآپ کی آخرت کا کیاتعلق ہے؟ کہہ کر خاموش ہوگئے، لہجہ میں خفگی کا عنصر شامل تھا، ہم لوگ سمجھ گئے کہ اب اللہ کے یہاں جانے کی فکر کا غلبہ ہے، بقیہ باتیں ذہین میں سماہی نہیں رہی ہیں،چنانچہ ہم لوگ مفتی صاحب کی مختصر دعاکے بعد امارت شرعیہ آگئے، غالباً یہاں ایک دو روز قیام کیا ، اس پیرانہ سالی کے باوجود مجھ سے جو انہیں محبت تھی، اس کے پیش نظر میری درخواست پرانہوں نے میری کتاب’’ نئے مسائل کے شرعی احکام‘‘ کا پیش لفظ لکھا اور بہت اچھا لکھا، یہ پیش لفظ شامل کتاب ہے، میری ایک اور کتاب غالباً نقد معتبر پر بھی ان کی تحریر موجود ہے؛ جو اصلاً اسی سفر کی یادگار ہے۔
لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم کے مصداق یہ قصۂ پارینہ طویل ہوگیا، اللہ تعالیٰ حضرت کی مغفرت فرمائے اور ان کے علمی فیوض سے ہم سب کو بہرہ ور کرے اوران کے اوصاف وکمالات ،اطوار واقدار کو اپناکر ہم بھی کچھ کر پائیں ،اس دعاپر اپنی بات ختم کرتاہوں، آمین صلی اللہ علی النبی الکریم وعلیٰ الہ وصحبہ اجمعین۔