5. لازمی یکساں سول کوڈ ایک خاص شناخت کو سب لوگوں پر بالکلیہ طور پرتھوپنے کا سبب بنے گا۔ایک ایسے ملک میں جہاں کے باشندے بے شمار شناخت رکھتے ہیں، یہ ہرگز مناسب نہیں ہے ۔
6. یکساں سول کوڈ ہندوستان کے آئین کے بنیادی حقوق کے باب کے تحت محفوظ ثقافتی حقوق کو بھی شدید متاثر کرے گا۔
7. لازمی یکساں کوڈ ، قانونی تکثیریت کے پسندیدہ اصول کے خلاف ہے۔ عالمی سطح پر متوازی قانونی اساس ، جیسا کہ آج ہمارے ملک میں موجود ہے، ان کے سانچے بن گئے ہیں۔ یکساں سول کوڈ ہمارے ملک کو اجتماعیت اور رواداری سے کئی قدم پیچھے لے جائے گا۔
8. مسلم پرسنل لا (شریعت) کے تحت پورے خاندان کی کفالت کا بوجھ شوہر/والد پر عائد ہوتا ہے ۔ 'مساوات' کی سخت تشریح پر مبنی ضابطہ کا مطلب یہ ہوگا کہ نفقہ کا بوجھ بیوی/ماں بھی یکساں طور پر عائد ہوگا۔
9. مسلم پرسنل لا (شریعت) کے تحت، خاتون کی تمام آمدنی/کمائی اور جائیداد پر شوہر یا بچوں کی طرف سے کسی حق کا کوئی دعویٰ قبول نہیں ہے، چاہے وہ نکاح کی مدت میں ہو یا طلاق کے بعد۔ 'مساوات' کی سخت تشریح پر مبنی ضابطہ کا مطلب یہ ہو گا کہ عورت اپنی جائیداد پر مکمل حق سے محروم ہوجائے گی۔
10.مسلم پرسنل لا (شریعت) کے تحت، طلاق یا شوہر کی موت کی صورت میں، بچوں کی کفالت کا بوجھ باپ (طلاق دہند ہ شوہر)، دادا، چچا یا بیٹا پر عائد ہوتا ہے جب تک کہ بچے بالغ نہ ہو جائیں۔ایسی حالت میں بھی عورت (بیوہ یا مطلقہ) کی جائیداد محفوظ رہتی ہے اور اس کے بچوں کا کوئی حصہ یا حق نہیں بنتا۔ 'مساوات' کی سخت تشریح پر مبنی ضابطہ کا مطلب ایک ایسے نظام کی تخلیق ہو گی جہاں ایک طلاق یافتہ یا بیوہ عورت کو کفالت کا بوجھ بھی اٹھانا ہوگا۔
11. مسلم پرسنل لا (شریعت) کے تحت، عورت کو اس کی عدت کے دوران نفقہ ملتا ہے۔ سیکشن 125 سی آر پی سی کے مطابق، ایک عورت اس طرح کے نفقے کی اہل ہے جب تک کہ وہ دوبارہ شادی نہیں کر لیتی۔ ہماری عدالتوں نے حال ہی میں رائے دی ہے کہ ملازمت کرنے والی مطلقہ عورت بھی اپنے شوہر سے نفقہ مانگ سکتی ہے۔ 'مساوات' کی سخت تشریح پر مبنی ضابطہ کا مطلب یہ ہوگا کہ یا تو خواتین اپنے شوہروں کے ذریعہ اس نفقہ کے حق سےمحروم ہوجائے گی یا سماجی و معاشی طور پر کمزور خواتین پر نفقہ کا بوجھ عائد ہو جائے گا ۔
12.مسلم پرسنل لا (شریعت) کے تحت، مرد شادی کے وقت مہر ادا کرتا ہے۔ 'مساوات' کی سخت تشریح پر مبنی ضابطہ کا مطلب یا تو یہ ہوگا کہ خواتین اپنے مہر کو ترک کردے یا عورتوں کو بھی مہر ادا کرنے پر مجبور کیا جائے۔ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ مہر کے قانون میں تبدیلی مسلم شادی کے معاہدہ کی نوعیت کو بھی متاثر کرے گی۔
13.شریعت کا وراثت قانون اصلی برابری اور عدل کے اصولوں پر مبنی ہے نہ کہ محدود معنی میں مساوات کے اصولوں پر۔ یعنی چونکہ مسلمان مردوں کو خاندان کی دیکھ بھال کی مالی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں، اس لیے جائیداد میں ان کے حقوق ان کی بڑی مالی ذمہ داریوں کے لحاظ سے زیادہ رکھے گئے ہیں۔
14.مسلم پرسنل لا کے تحت کوئی شخص اپنی جائیداد ،وصیت کے ذریعے قانونی وارثوں میں سے کسی کے حق میں منتقل نہیں کر سکتا چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ نیز وصیت جائیداد کی ایک تہائی سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ کوڈیفائیڈ ہندو قانون کے تحت، اپنے بیٹوں کے حق میں پوری جائیداد کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے — جو کمزور ہندو خواتین کو محروم کرنے کی وجہ بنتی ہے ۔