ہرصاحبِ ایمان کے دل میں جس طرح اﷲ کے رسول ﷺ کی عظمت و محبت ہوتی ہے اسی طرح آپ ؐکے اہلِ بیت (ازواجِ مطہرات ، بناتِ طیبات و ذریتِ طیبہ)کے لئے بھی عظمت و محبت کے جذبات ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ خود جناب ِ رسول اللہ ﷺ کو اپنے اہلِ خانہ سے بے پناہ الفت و محبت تھی۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کی بیویوں میں سے کسی پر ایسا رشک نہیں آیا جیسا کہ خدیجہ پر آیا، حالانکہ میں نے ان کو دیکھا نہیں، لیکن آپﷺ ان کو بہت یاد کرتے اور بکثرت ان کا ذکرفرماتے،کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ آپ بکری ذبح فرماتے ، پھر اس کے اعضاء کے الگ الگ ٹکڑے کرتے پھر وہ ٹکڑے خدیجہ سے محبت رکھنے والیوں کے یہاں بھیجتے تو میں کسی وقت کہہ دیتی: دنیا میں بس خدیجہ ہی ایک عورت تھیں،اور آپ فرماتے کہ وہ ایسی تھیں ، ایسی تھیں اور ان سے میری اولاد ہوئی۔ (بخاری و مسلم) اسی طرح تمام ازواجِ مطہرات میں حضرت عائشہ ؓ سے آپ کو سب سے زیاد ہ محبت تھی، آ پ نے اپنی زندگی کاآخری ہفتہ حضرت عائشہؓ کے مکان میں گذارا۔اپنی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ سے آپؐ کی بے پناہ محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب آپ سفر پر روانہ ہوتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہؓ سے ملاقات کرتے اور لوٹنے پر سب سے پہلے ان سے ملتے۔ایک موقع پراپنی اس محبت کااظہار کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا : ’’ فاطمہ تو میرے جگرکاٹکڑا ہے۔‘‘ ایسی ہی چاہت آپ کوحضرت فاطمہ ؓ کے دونوں بیٹوں ( حضرت حسن ؓوحسین ؓ)سے بھی تھی ۔شفقت کا یہ عالم تھاکہ دونوں بھائی حالتِ نمازمیں آپ کی کمر مبارک پر چڑھ جاتے ، کبھی دونوں پیروں کے درمیان میں سے گزر جاتے اورآپ ان کا نمازمیں بھی خیال فرماتے اور جب تک وہ کمر پر چڑھے رہتے آپ سجدے سے سر نہ اٹھاتے، ان کا بوسہ لیتے اور انہیں سونگھتے اور فرماتے : ’’ تم اﷲ کی عطا کردہ خوشبو ہو‘‘۔(ترمذی)صحابۂ کرام علیہم الرضوان بھی اہل بیت کی بے پناہ تعظیم کرتے،چنانچہ حضرت عمر فاروق ؓ نے اپنے زمانۂ خلافت میں حضراتِ حسنین ؓ کا وظیفہ اہلِ بدر کے وظائف کے برابر پانچ پانچ ہزارمقرر فرمایا۔حضرت ابن عمرؓسے کسی عراقی نے مسئلہ پوچھا کہ محرِم اگر مکھی مار دے توکیا کفار ہ ہے؟حضرت ابن عمرؓ نے بڑی ناگواری سے جواب دیا کہ ’’ عراق والے مکھی کے قتل کا مسئلہ پوچھتے ہیں اورنواسۂ رسول اللہ ﷺ کوانہوں نے خون میں نہلا دیا۔‘‘
حضراتِ حسنین ؓبہت ہی عبادت گذار تھے۔ دونوںحضرات نے بار بار مدینہ سے مکے تک پیدل سفر کر کے حج کیا۔ اﷲ کے راستے میں کثر ت سے مال خرچ کرتے تھے، جودوسخا ماں باپ اورناناجان سے وراثت میں ملی تھی، ایمان و عقیدے کی پختگی ،عبادت و ریاضت میں مجاہدہ، سنتوںکا اہتمام، اعلی ٰ درجے کا تقویٰ و طہارت، حیا و پاکدامنی اور بلند اخلاق و کردار اہلِ بیت کی خصوصی صفات تھیں۔امام الانبیاء ْﷺ سے قرابت اور شرف صحابیت سے متصف ہونے کے باوجوداہلِ بیت دین پر پوری پختگی کے ساتھ قائم تھے۔ اﷲ کا دین انہیں سب سے زیاد ہ عزیز تھا، اور اس میں کسی طرح کی کمی بیشی سب سے زیادہ نا پسند !حضرت علی ؓ نے ایک شخص کو عیدگاہ میںنمازِ عید سے پہلے نفل پڑھتے ہوئے دیکھا تواسے روک دیا، وہ کہنے لگا :’’اے علی ! مجھے امید ہے کہ نماز پڑھنے پر خدا مجھے عذاب نہیں دے گا۔ ‘‘ حضر ت علیؓ نے فرمایا : ’’ مجھے یقین ہے کہ حضورﷺ نے جو کام نہیں کیا اس کے کرنے پر خداتمہیں ثواب بھی نہیں دے گا۔‘‘
اہلِ بیت او ر تمام صحابۂ کرام دین پرمضبوطی سے قائم تھے۔ان کے پیش نظر ہمیشہ یہ با ت رہتی تھی کہ اﷲ نے دین کو مکمل کر دیا ہے اب کسی مخلوق کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس میں کمی بیشی کرے۔یہی وجہ ہے کہ وہ بدعت سے سخت نفرت کرتے تھے ۔رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشادِ گرامی ان کے ذہنوں میں ہمیشہ تازہ رہتا تھا کہ ، جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات پیدا کی ،جس کا اس دین سے کچھ بھی تعلق نہ ہو، تو وہ شخص مردود ہے اور اس کا عمل بھی۔حضر ت حسین ؓ نے بھی میدانِ کربلا میں جو شہادت پیش کی وہ دراصل ان کے نانا جان جنابِ رسول اللہ ﷺ کے لائے ہوئے دین سے دوری اوراس میں کمی بیشی کے خلاف تھی۔ حضرت حسین ؓ چاہتے تھے کہ خلافت اسی نہج پر باقی رہے جس نہج پر خلفائے راشدین نے اسے چھوڑا تھا، لیکن یزید کا فسق و فجور اس راہ میں رکاوٹ تھا،جس کے خلاف حضرت حسین ؓ نے قتال کرتے ہوئے اپنے اہلِ خانہ اور جانثار ساتھیوں سمیت جام شہادت نوش فرمایا: افسوس آج مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت نے حضرت حسین ؓ کی اس درد ناک شہادت کے مقصد کو یاتو جانا ہی نہیں یا پھر جانتے ہوئے بھی اسے فراموش کر دیا اور بغیر کسی تحقیق کے اسلام دشمن طاقتوں (دشمنانِ صحابہ ؓ) کی ایجاد کردہ چیزوں اور بدعات وخرافات کو قبول کر لیا اور انہی بے بنیادچیزوں کو اپنی نجات کے لئے کافی سمجھنے لگے، نتیجے میں نماز روزہ،داڑھی،رزق حلال ، حقوق اللہ اورحقوق العبادکی ادائیگی جیسے بنیادی احکام اورسنتیں ان کی زندگیوں سے نکل گئیں۔شاعر نے بڑے ہی اچھے اندازمیں شہادت حسین ؓ کے پیغام کو پیش کیا ہے۔ ع
اے کربلا کی خاک اس احسان کو نہ بھول
تڑپی ہے تجھ پہ نعشِ جگر گوشہ ٔ بتول
کرتی رہے گی پیش شہادت حسین کی
آزادیٔ حیات کا یہ سرمدی اُصول
چڑھ جائے کٹ کے سر تِرا نیز ے کی نوک پر
لیکن تو فاسقو ں کی اطاعت نہ کر قبول
آمد م برسرِ مطلب:معزز قارئین !اِلحاد و بے دینی اور بدعات وخرافات سے پُر اس ماحول میں اہلِ بیت خصوصاًحضراتِ حسنین ؓکی مذکورہ بالاخوبیوں کوہمیں اپنے اندرپیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ آج اہلِ بیت سے محبت وعقیدت اورحضرت حسین ؓ کی شہادت کے نام پر ایسے بے بنیاد کاموں کو انجام دیا جا رہا ہے ،جو نہ قرآن و حدیث سے ثابت ہیں نہ شریعتِ اسلامی کے مزاج سے میل کھاتے ہیں، نہ ہمارے آقاحضورﷺ نے ان باتوں کاحکم فرمایا نہ حضرات صحابہ نے انہیں اختیار کیا، اور نہ ہی اہل بیت خصوصاً حضرت حسین ؓ کی وفات کے بعد ان کی آل و اولاد اور عزیزو اقارب نے ان کاموں کو انجام دیا،آپ ہی سونچئے کہ ان بے بنیاد اور بے جا رسومات کو انجام دینے کا کیا فائدہ ؟اﷲ نے دین اسلام کو مکمل کر دیا ہے،اب اس میں قیامت تک کسی بھی طرح کی کمی بیشی کرنا درست نہ ہوگا، ہم لوگ شریعت کے نام پر اور عشق رسول اور محبت اہل بیت کے نام پر کسی بھی کام کو انجام دینے میں حضور ﷺ کی تعلیمات اور آپ کے صحابہ کرامؓ کے طریقے کے پابند ہیں، اس لئے کہ بلا شبہ ہم سے کہیں زیادہ حضور ﷺ اور آپ کے اہل خانہ کی محبت و عظمت حضرات صحابہ کرامؓ کے دلوں میں تھی ،جس کا مقابلہ پوری امت مل کر بھی نہیں کر سکتی،لہذا ان کے طریقے اور ان کی روش سے ہٹ کر کسی بھی کام کو انجام دینا یقینابدعت اور گمراہی کہلائے گا۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کی یہ بات آب زر سے لکھنے کے قابل ہے کہ کوئی بھی عمل بارگاہ الٰہی میں اس وقت تک قابل قبول نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس میں اخلاص نہ ہو اور اسے سنت کے مطابق انجام نہ دیاجائے۔
حرف آخر: آج ان بدعات و خرافات کی نحوست نے ان میں مبتلا اکثر افراد کو سنتوں کی اتباع اور دین کی حقیقت سے دُور کر دیا ہے،اب اہلِ بیت سے عشق و محبت کے نام پر دکھلاوا اور تماشہ توخوب ہو رہا ہے، لیکن اہلِ بیت کی صفات کو اپنانے کی فکر بالکل نہیں ۔افسوس اس بات کا ہے کہ بعض مصلحین و مقررین چیخ چیخ کر عا م مسلمانوں کو محبت اہل بیت کی تلقین تو خوب کرتے ہیں لیکن شہاد ت حسین ؓ کے نام پر انجام دی جانے والی بدعات و خرافات اور کھلی ہوئی گمراہیوں پر ایک حرف بھی کہنا گوارا نہیں کرتے۔اوراگر کسی جانب سے موجودہ خرافات پر نکیر کی جائے توفوراً اس پر یزیدیت کا لیبل چسپاں کر دیاجاتاہے۔
ہر دعویٰ کسی دلیل کا محتاج ہوتا ہے۔ اگر اہلِ بیت خصوصاً حضراتِ حسنین ؓ سے کسی کو ’’سچی محبت‘‘ کا دعویٰ ہے تو’’ اس کی دلیل‘‘ ان مبارک ہستیوں کے نقوشِ قدم پر چلنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں!آئیے یہ عہد کریں کہ ہم ساری زندگی ان ہی کاموں کوانجام دیں گے جنہیں آپ ﷺ اور آپ کے صحابہ و اہل بیت نے انجام دیا ہے،ان کے علاوہ دین کے نام پر کیا جانے والا کوئی بھی عمل خواہ کتنی ہی خوبصورتی کے ساتھ انجام دیاجائے ہم اسے ہرگز قبول نہیں کریں گے،اﷲ تعالیٰ ہم سب کو دین کی حقیقت سمجھنے اور حضرت حسین ؓ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔