مودی کی مسلم و اقلیت پالیسی نشانہ بنی
شکیل رشید ( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
ہمارے وزیراعظم نریندر مودی ، جب فرانس میں ’ بیسٹل ڈے پریڈ ‘ میں حصہ لے رہے ، اور فرانس کے سب سے بڑے اعزاز ’ گرینڈ کراس آف لیجن آف آنر ‘ سے نوازے اور رفائل طیاروں کی خریداری کی ڈیل فائنل کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر دفاعی معاہدے کر رہے تھے ، تب یوروپی یونین میں منی پور کے تشدد کے خلاف آواز اٹھائی جا رہی تھی ۔ یوروپی یونین نے پی ایم مودی پر الزام لگایا ہے کہ وہ ’ ہندو اکثریت پسندی کو فروغ دے رہے ہیں ۔‘ یوروپی یونین کے ۲۷ ملکوں میں سے ایک فرانس بھی ہے ، پی ایم مودی جس کے مہمانِ اعزازی تھے ۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ فرانس کے صدر امینوئل میکرون سے گاڑھی چھننے کے باوجود پی ایم مودی یوروپی یونین کی سخت تنقید سے نہیں بچ سکے ۔ یونین نے ایک قرارداد منظور کر کے منی پور میں ہندو اکثریت پسندی کو فروغ دینے والی سیاسی اور تفرقہ انگیز پالیسیوں کے خلاف سخت تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ گویا یہ کہ یونین نےمودی سرکار کی پالیسیوں کو ’ کٹگھڑے ‘ میں لا کر کھڑا کر دیا ہے ۔ یوروپی یونین کی سخت تنقید ، ہندوستان کے لیے اس وجہ سے باعثِ تشویش ہے کہ یہ تنقید ایک ایسے موقعہ پر کی گئی جب مودی فرانس کے دورے پر تھے ۔ ویسے اِن دنوں بیرون ممالک میں ، پی ایم مودی کو اپنی ’ سخت گیر ہندو توادی فکر ‘ اور ’ اقلیت مخالف پالیسیوں ‘ کے سبب مسلسل احتجاجات اور نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ آسٹریلیا میں بھی ان کے دورے کے موقعے پر احتجاجات ہوئے ، مظاہرے کیے گئے تھے ، اور امریکہ کے دورے پر بھی انہیں بڑے پیمانے پر مظاہروں اور نکتہ چینیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ یہ مظاہرے ، احتجاجات اور نکتہ چینیاں اس لیے تشویش ناک ہیں کہ ان کی وجہ سے ہندوستان کی جمہوریت سوالوں کے گھیرے میں آ گئی ہے ۔ ہندوستان میں یہ پرچار کرنے والے ، کہ پی ایم مودی کا فرانس کا دورہ کامیاب تھا ، سارا سچ سامنے نہیں لا رہے ہیں ۔ فرانس کے اخبارات پی ایم مودی کے خلاف تنقید سے بھرے ہوئے تھے ۔ آسٹریلیا اور امریکہ کے دورے پر جس طرح ، اقلیتوں اور مسلمانوں کے خلاف ، بی جے پی کی مرکزی اور ریاستی سرکاروں کی پالیسیوں اور جبر کو اجاگر کیا گیا تھا ، اسی طرح فرانس میں بھی بی جے پی کی سرکاروں کے جبر کو اجاگر کیا گیا ، اور مرکزی سرکار کی بےحسی پر سخت تنقید کی گئی ۔ یہاں ہم تین اخباروں کے حوالے سے بات کریں گے ، ایک اخبار ہے ’ لا موند ‘ جسے فرانس کا سب سے بڑا روزنامہ کہا جا سکتا ہے ، دوسرا اخبار ہے ’ میڈیا پارٹ ‘ ، اور تیسرا اخبار ہے ’ لبریشن ۔‘
روزنامہ ’ لاموند ‘ نے ۱۳ ، جولائی کے روز ادارتی صفحہ پر ایک ’ اوپ - ایڈ ‘ شائع کیا ہے جس میں پی ایم مودی پر یہ الزام لگاتے ہوئے کہ ، وہ دہائیوں سے ریاستی تشدد کو پروان چڑھاتے آئے ہیں ، انہیں ’ بیسٹل ڈے پریڈ ‘ میں شریک ہونے کی دعوت دینے پر سخت نکتہ چینی کی ہے ۔ اخبار کے مطابق مودی کا ’ انسانی حقوق ‘ کا ریکارڈ خراب ہے ، اور ’’ کیا ہم اس حقیقت کو نظر انداز کر سکتے ہیں کہ مودی کی قیادت میں بھارت ایک سنگین بحران سے گزر رہا ہے ، جہاں انسانی حقوق کے کارکنوں ، این جی اوز اور صحافیوں پر حملوں میں اضافہ ہو رہا ہے؟ مگر ، امینوئل میکرون اور ان کے سفارتی کور نے اپنا فیصلہ کر لیا ہے ۔ دونوں لیڈروں کے درمیان گٹھ جوڑ واضح ہے ۔‘‘ جیسا کہ آسٹریلیا اور امریکہ کے دورے پر ہوا ، ویسے ہی فرانس میں بھی گجرات ۲۰۰۲ ء کے مسلم کش فسادات کی بات اٹھی ۔ مذکورہ ’ اوپ - ایڈ ‘ کے مطابق ، ’’ مودی ، آج کے بین الاقوامی سطح پر مشہور لیڈر ، بہر حال ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے دہائیوں سے ریاستی سرپرستی میں تشدد کو فروغ دیا ہے ۔‘‘ آگے پی ایم پر گجرات فسادات میں ملوث ہونے کا الزام عاید کیا گیا ، جس میں اخبار کے مطابق ، ’’ تقریباً دو ہزارافراد ہلاک ہوئے تھے ۔‘‘ آگے لکھا گیا ہے ، ’’ جنسی اقلیتوں اور نچلی ذاتوں سمیت دیگر اقلیتوں کی طرح ، ہندوستانی مسلمان بی جے پی کی زیر قیادت حکومت کی حمایت سے ہندو قوم پرستوں کے مسلسل حملوں کی زد میں ہیں ۔ پرتشدد ، مسلح ہجوم باقاعدگی سے مسلمانوں پر حملے کرتے ہیں اور کھلم کھلا مسلم خواتین کی عصمت دری کی بات کرتے ہیں ۔‘‘ اخبار ’ میڈیا پارٹ ‘ نے پی ایم مودی کے دورے کے موقعے پر رفائل دفاعی سودے میں مبینہ بدعنوانی کا معاملہ اٹھایا ہے ، جس کی فرانس میں تحقیقات کی جا رہی ہے ۔ اخبار نے یہ انکشاف کیا ہے کہ جب رفائل سودا ہوا تھا ، تب آج کے صدر ِ فرانس میکرون اکنامی منسٹر تھے ، اور مائیکل ساپن فائنانس منسٹر تھے اور یہ رفائل سودے میں پیش پیش تھے ۔ رفائل معاملہ اِن دنوں ہندوستان میں بھی گرم ہے ، کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے پی ایم کے دورۂ فرانس کے تناظر میں اپنے ایک ٹوئٹ میں مودی کو نشانہ بنایا ہے ۔ راہل نے لکھا ہے کہ ’’ منی پور جَل رہا ہے ۔ یورپین یونین کی پارلیمنٹ میں ہندوستان کے داخلی معاملے پر بحث ہو رہی ہے ۔ پی ایم نے دونوں معاملے پر ایک لفظ نہیں کہا ہے ۔ دریں اثنا رافائل نے انہں بیسٹل ڈے پریڈ کا ٹکٹ دلو دیا ہے ۔‘‘ راہل گاندھی کے ٹوئٹ کا جواب اسمرتی ایرانی نے دیا ہے ، لیکن ان کا جواب خالص راہل کی ذات پر حملہ ہے ۔ بہرحال رفائل معاملہ ایک بار پھر سامنے آ گیا ہے ، اور لوک سبھا الیکشن کے سال میں ایسا لگ رہا ہے کہ یہ معاملہ جلدی سرد ہونے والا نہیں ہے ۔ یہاں یہ جاننا اہم ہوگا کہ میکرون بھی ایک دائیں بازو کے شدت پسند سیاست داں کے طور پر جانے جاتے ہیں ، اور ان کے دورِ صدارت میں اقلیتوں کے خلاف ، بشمول مسلم اقلیت کئی تشویش ناک کارروائیاں کی گئی ہیں ، اسی لیے ان کی اور مودی کی ’ دوستی ‘ کو ایک ہی طرح کی سوچ رکھنے والی شخصیات کی سوچ مانا جا رہا ہے ۔ میکرون پر اسی لیے مودی کو مدعو کرنے پر تنقید بھی کی گئی ہے ۔ ’ میڈیا پارٹ ‘ نے اپنے ایک مضمون میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ فرانس میں رہ رہے ہندوستانی ، نریندر مودی کے دورۂ فرانس سے ناراض ہیں ، ان کا یہ ماننا ہے کہ ہندوستان اپنے تمام شہریوں کا احترام کرنے والا ملک ہے ، اس لیے یہ دورہ ہندوستان کے محافظوں کے منہ پر میکرون کا طمانچہ ہے ۔ اخبار ’ لبریشن ‘ نے پی ایم مودی کے خلاف ایک دو نہیں پورے چار مضمون شائع کیے اور انہیں اور ان کی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ۔ سرکاری نیوز نیٹ ورک ’ فرانس - 24 ‘ میں بھی نکتہ چینی کی گئی ، اس نے میکرون کو بطور خاص نشانہ بنایا ، بالخصوص ایک ۱۷ ، سالہ مسلم لڑکے کو قریب سے گولی مار کر ہلاک کر دینے کے تناظر میں ۔ کئی سیاست داں اور دانشور پی ایم مودی کے دورے کی پہلے سے مخالفت کر رہے تھے ۔ فرانس میں حزب اختلاف کی بنیاد پرست ، بائیں بازو کی ’ فرانس اَن بَووڈ پارٹی ‘ کے سربراہ جین لوک میلینچون نے گزشتہ ماہ ٹویٹ کیا تھا ، ’’ ہندوستان ایک دوست ہے ، لیکن وزیر اعظم نریندر مودی کٹر قوم پرست اور مسلمانوں کے متشدد مخالف ہیں ۔ ان کا ۱۴ ، جولائی کو خیرمقدم نہیں کیا جاسکتا جو آزادی ، مساوات اور بھائی چارے کا تہوار ہے ، یہ سب وہ ناپسند کرتے ہیں ۔‘‘ فرانس کی ’ گرین پارٹی ‘ کی سربراہ مرین ٹونڈیلیئر نے ’ لبریشن ‘ کے لیے لکھے اپنے ایک مضمون میں پی ایم مودی کو مدعو کرنے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’’ سخت سیاسی غلطی ‘‘ قرار دیا تھا ۔ مذکورہ مضمون میں مزید لکھا تھا ، ’’ یہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ نریندر مودی کے ۲۰۱۴ ء میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ، ہندوستان ، جسے عام طور پر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے ، انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے معاملے میں مسلسل پیچھڑ رہا ہے ۔‘‘ اتنا ہی نہیں فرانس میں ، جہاں ہندوستان کے خلاف مظاہرے نادر ہیں ، کچھ لوگوں کی طرف سے بینر اور پوسٹر بنائے گئے جن پر تحریر تھا ، ’’ مسٹر مودی آج نہیں ، بیسٹل ڈے آزادی کا دن ہے ‘ ۔‘‘ تو یہ تھا پی ایم مودی کے دورۂ فرانس کا کچا چٹھا ۔ ایک جانب ہندوستان کو ’ وشو گرو ‘ کہا جا رہا ہے ۔ مودی کو ساری دنیا کا ’ باس ‘ بتایا جا رہا ہے ، اور دوسری طرف ہندوستان کی شدت پسندی پر اُنگلیاں اٹھ رہی ہیں ، ہندو انتہا پسند تنظیموں کی شرانگیزیوں پر سوال اٹھ رہے ہیں ، اور مودی کو ان سب کا سرپرست کہا جا رہا ہے ۔ مودی کا یہ دورہ ہندوستان کی ساکھ کی بہتری کے لیے کیا کر سکا ، اس سوال کا جواب تو ماہرین ہی دیں گے ، لیکن اتنی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ اس دورے سے ہندوستان کی جمہوریت کی بگڑتی صورتِ حال پر دنیا کی توجہ ایک بار پھر مبذول ہوئی ہے ، اور رفائل کا جِن پھر بوتل سے باہر آ گیا ہے ۔
نیر مسعود کا افسانہ"جانوس"
کچھ برس گزر چکے ہیں ۔ منیر احمد فردوس نے نیر مسعود کے ایک افسانے "جانوس" کی بابت میرے خیالات جاننا چاہے تھے۔ وہ میں نے انہیں ایک خط کی صورت لکھ بھیجے تھے ۔ آج اتفاقا وہ تحریر ان باکس میں نظر آئی تو لگا اسے آپ سب کی نذر کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں بلکہ یہ اچھا ہوگا کہ کوئی دوست اس افسانے کی بابت مزید کچھ کہنا چاہے تو کہہ دے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیارے دوست منیر احمد فردوس
آداب
آپ کے اس رابطہ کے لیے بہت شکریہ۔ معذرت کہ تمام رابطوں سے کٹ کر اورنور پور تھل میں جاکر کچھ دن گزارنے کے دوران آپ کے پیغامات آتے رہے مگر میں فوری جواب نہ دے پایا۔ آپ نے نئیر مسعود کے افسانے "جانوس" کے کردار کے بارے پوچھا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ کسی فورم میں اس پر گفتگو ہوئی ۔ آپ کا سوال اس پہلو سے تشنہ ہے کہ آپ نے بتایا ہی نہیں وہاں کیا گفتگو رہی اور"جانوس" کی بابت کیا کہا گیا اور کن بنیادوں پر۔ اگر آپ وہ بھی درج کر دیتے تو میں ان پہلوؤں کو دھیان میں رکھ کر بات آگے بڑھاتا۔خیر میں اپنے تئیں اس کردار کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں:
1۔ نئیر مسعود کے افسانوں کے مجموعے"عطر کافور" میں شامل یہ افسانہ جب میں نے پہلی بار پڑھا تھا تو اپنے نام سے ہی اس نے چونکایا ضرور تھا مگر میں نے اسے حقیقی کردار کے طور پر لیا تھا اور شاید یہی میری غلطی تھی۔ میرا دھیان بہت بعد میں اس افسانے سے پہلے دیے گئے دو اقوال کی طرف گیا تھا۔ ان میں سے ایک قول طالب علی خان عیشی کا بزبان فارسی ہے"خِرمنے بود مرا،سوختم،اگنون چہ کنم"جب کہ دوسرا قول خورخے لوئیس بورخیس کا انگریزی میں ہے جس کا مطلب ہے، بدقسمتی سے یہ دنیا حقیقی ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ یہ افسانہ اس خرمنے بود مرا سوختم کے حوالے سے ایک قرض کی ادائی کا تخلیقی حیلہ ہے اور ایسے زمانے میں لکھا گیا ہے جو بدقسمتی سے حقیقی ہے۔
2۔ ایک سے زیادہ بار پڑھنے اور اس افسانے کے نام پر غور کرنے سے کھلا کہ اسے ایک اور طرح بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ "جانوس"اس افسانے کے ایک کردار کا نام ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ ایسے نام کا اُس وسیب میں رواج نہیں تھاجہاں سے یہ کردار اٹھایا گیا ہے۔ یہ ہندی نام ہے نہ اردو کا۔ یہ عربی اور فارسی سے لے کر مقامی لوگوں میں رواج پانے والا نام بھی نہیں ہے ۔"جانوس" رومن میتھالوجی میں ایک دیوتا تھا۔ مقامی دیوتا ہوتا تو شاید میں اس طرح نہ سوچنا جیسے اب سوچ رہا ہوں۔ یونانیوں کے اس دیوتا کے دوچہرے ہوتے ہیں ایک پیچھے کی طرف دیکھتا ہے اور دوسرا سامنے یعنی مستقبل میں ۔ اب اگر آپ اس حد تک متفق ہو جاتے ہیں کہ ایسا نام مقامی افراد کا نہیں ہو سکتا تھا اور نئیر مسعود نے اپنے افسانے میں ایک کردار کا نام جان بوجھ کر رکھ دیا تھا تو مجھے اپنی بات کہنے میں سہولت ہوگی۔
3۔ افسانے میں یہ کردار بہت ڈرامائی انداز میں داخل ہوتا ہے۔آندھی ہے، فضا میں ہلکی سی سنسناہٹ ہے،اور ڈاکٹر صاحب ہیں جو گھر میں آرام فرما رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اس افسانے میں راوی بھی ہیں اور اس کا مرکزی کردار بھی۔ ڈاکٹر صاحب پہلو بدل رہے ہیں اور انہیں نیند نہیں آرہی۔ان کا منھ چوتھی کروٹ پر مشرقی دروازے کی طرف ہو جاتا ہے جہاں دروازے کے باہر کھلے آسمان تلےاُن کا کتا بت بنا کھڑا ہے۔محافظ کتے کو چوکس پاکر ڈاکٹر کی آنکھوں پر نیند کی پہلی باریک جھلی سی منڈھ جاتی ہے اور ڈاکٹر صاحب کے خیالات بے ربط ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہ بے ربطی مہملیت تک پہنچ جاتی ہے۔ اب یہاں میں عین مین افسانے سے مقتبس کرتا ہوں:
" اور یہ مہمل خیال بھی مجھے اپنے ذہن کے اندھیرے میں ڈوبتے معلوم ہو رہے تھے، اس وقت مجھ کو آندھی کی آواز بہت قریب سنائی دی۔"
لہذا میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بعد جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے وہ دراصل ڈاکٹر صاحب کے ذہن کے اندھیرے میں ہوتا ہے۔
4۔ اچھا، کچھ اور آگے چلیں اور افسانہ وہاں تک پڑھتے جائیں جہاں کتابھونکتے ہوئے زینے اترتا ہے ۔ اس دوران کتے کا بھونکناغرانا اور ہونکنا ، ہوا کا تیز شور، دروازے کے اوپر والے روشن دان کا کھلنا، سوکھے پتوں کا روشن دان کے اندر داخل ہو کر کمرے کی جنوبی دیوار سے ٹکرانا اور ان کی کھڑکھڑاہٹ یہ سب مل کر ایک خواب کی سی کیفیت پیدا کر تے ہیں۔
5۔اس منظر نامے میں ایک گھٹی گھٹی سی آواز داخل ہوتی ہے اور تیز ہوتی چلی جاتی ہے۔ڈاکٹر صاحب بستر سے کود پڑتے ہیں اور افسانے کے متن کے مطابق وہ بھی زینہ اترتے ہیں۔نیچے برآمدے میں پہنچ کر کتے کو آوازدیتے ہیں۔ پھاٹک سامنے ہے ۔پھاٹک کے باہر فضا بہت روشن ہے کہ سامنے والی کوٹھی کے احاطے کا روشن بلب تیز دودھیا روشنی پھینک رہا ہے جس سے پھاٹک کی سلاخوں کے سائے لمبے ہوکر برآمدے کی سیڑھیوں تک پہنچ رہے ہیں۔ کتا مسلسل بھونک رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب بر آمدے اور پھاٹک کےدرمیان رک کرپکارتے ہیں کہ باہر کون ہے؟۔ باہر کوئی ہوتا تو جواب بھی آتا۔
6۔ جو باہر نہیں تھا پہلےاُس کا سایہ دودھیا روشنی اور پھاٹک کی سلاخوں کے دھاریوں سے نمودار ہوتا ہے۔ یہی وہ کردار ہے جسے افسانے کے سارے متن میں نووارد اور آخر میں "جانوس" کہہ کر پکارا گیا ہے۔ جانوس کا لفظ افسانے کا نام ہوا ہے یا بالکل آخری سطر میں اور وہ بھی یوں:
"پھر بھی جانوس، تم نے انتظار نہیں کیا"میں نے کہا اور سو گیا۔"
جی، یہی سب ہے کہ میرا دھیان اس جانوس کی طرف گیا جو وقت کا ایسا ایسادیوتا تھا جس کے دوچہرے تھے؛ ایک ماضی کی طرف اور دوسرا مستقبل کی جانب۔ وہ دیوتا لمحہ موجود میں جس زمین پر کھڑا ہے، ڈاکٹر صاحب اس کی بابت پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ وہ "مہمل خیال" کی زمین تھی۔ ایسی زمین جو ان کے ذہن کے اندھیرے میں کہیں ڈوب چکی تھی ۔
7۔افسانے میں "جانوس" کو بہت خستہ حال دکھایا گیا ہے تاہم "جانوس" کی بتائی ہوئی کہانی یہ بھید کھول رہی ہے کہ وہ ہمیشہ سے ایسا نہ تھا۔لکھنو کی وہ تہذیب جسے دیکھتے ہی دیکھتے زوال آگیا تھا ہمیشہ سے نئیر مسعود کا محبوب موضوع رہی ہے یہی تہذیبی زوال "جانوس" جیسا کردار تخلیق کرنے کا سبب بنا ۔ماضی جو کبھی شاندار تھا وہ اس کردار کے اجداد کا بھی ماضی ہے۔افسانہ بتاتا ہے کہ اس کردار کے والد کا انتقال نواب سہراب کی حویلی میں ہوا تھاجوکسی تاجر منظور شاہ کی ملکیت ہو گئی تھی۔ نواب سہراب کوئی اور نہیں اسی جانوس کا باپ تھا۔ پھر یوں ہوا کہ اس کے باپ کا وقت بگڑ گیا تھا۔ نئیر مسعود نے اسی بگڑے ہوئے وقت کی کہانی کہی ہے۔
8۔آندھی کا شور، اس کردار کی حرکات، ڈاکٹر صاحب کا رد عمل، نووارد کے سائے کا برآمدے سے غائب ہونا اور دھماکے سے اس کا زمین پر گرنا وغیرہ اگر ایک طرف کردار کے حقیقی ہونے کا یقین دلارہے ہیں تو دوسری طرف ایک خوابناک فضا بھی بنا رہے ہیں جس میں سوفے پر پڑے بے حس و حرکت کردار کے داہنے ہاتھ کی مٹھی سے مٹی کا نکل کر جوٹ کی چٹائی پر گرنا بھی ہے۔افسانے کی یہ سطور بھی غور طلب ہیں:
"میں کچھ دیرخاموش کھڑا رہا۔ پھر اوپر آگیا۔ اپنے کمرے میں پہنچ کرمیں نے سوچنے کی کوشش کی کہ مجھے کیا کرناہے۔ میں نے اپنے بستر پربیٹھ کر تکیے سے ٹیک لگالی اور ذہن پر زور دینے لگا۔ مجھے چپلیں اپنے پیروں سے نکلتی محسوس ہوئیں۔"
جی یہ اسی ڈاکٹر راوی کا بیان ہے جس کی بابت اوپر اشارہ ہو چکا کہ اس کی آنکھوں پر نیند کی جھلی سی مڑھ چکی تھی۔
9۔ اس ڈاکٹر کی آنکھ شمالی روشن دان میں سے گرتے ہوئے سوکھے پتوں کی کھڑکھڑاہٹ سے کھلتی ہے تو وہ اٹھ بیٹھتا ہے۔چپلیں پہنتا ہوا نیچے اترتا ہے۔ ڈرائنگ روم کا بند دروازہ دیکھتا ہے۔برآمدے کے کھلے ہوئے دروازے سے نیچے اترتاہے۔ سلاخوں دار پھاٹک بھی کھلا ہوا ہے وہ اسے بند کرتا ہے اور کمرے میں واپس جاکر بستر پر لیٹ جاتا ہے۔ یہ سارا عمل خواب میں نہیں ہے۔ تاہم بسترپرلیٹتے ہی اس کے خیالات بے ربط ہو جاتے ہیں ۔اب اس افسانے کی آخری سطور مقتبس کرتا ہوں جو اس سوتے جاگتےخواب سے جاکر جڑ جاتی ہیں جس کا سلسلہ بیچ میں کہیں ٹوٹ گیا تھا:
"ایک خیال میری زبان پرآیا:وہ بھی عناصر سے مرعوب نہیں تھا،پھریہ خیال طرح طرح کی مہمل مشکلیں اختیارکرنے لگا۔"پھر بھی جانوس، تم نے انتظار نہیں کیا۔"میں نےکہا اور سو گیا۔"
آپ نے اس افسانے کی جانب متوجہ کیا آپ کا بہت شکریہ
سلامت رہیں
محمد حمید شاہد
*✯ غزل ✯*
●مکمل نام: منصور اکبر
●پیدائش: 3/07/1975
●رہائش: ٢٥٥ / چونا بھٹّی ، مالیگاؤں
●پیشہ: صحافت و ٹرانسپورٹنگ
●پسندیدہ شاعر: جَون ایلیاء
ریزہ ریزہ بہار بھی، مَیں بھی !
خواہشِ زلفِ یار بھی، مَیں بھی !
لمحہ لمحہ، صدی صدی جیسے
اُف! تِرا انتظار بھی، مَیں بھی !
قصرِ جاناں سے صبح لَوٹے ہیں
حضرتِ ذی وقار بھی، مَیں بھی !
کیا زمانے کو منہ دکھائیں گے
نغمۂ داغ دار بھی، مَیں بھی !
نیل کی وادیوں سے پھر اٹھّے
کوئی شعلہ شعار بھی، مَیں بھی !
تیری آمد کے منتظر سب ہیں
موسمِ خوشگوار بھی، مَیں بھی !
🍁 *منصـــــور اکبر* 🍁
🔴انتخاب :- تنویر اشرف مالیگاؤں
نظم: شاعر اور مزدور🔴علی زیرک
بہت خون تھوکا
[مگر شاعری میں]
بہت خواب دیکھے
[مگر دوسروں کے]
اصولوں کی سل سے بندھی خواہشوں کابھی نوحہ کریدا
کتابیں لکھیں ؛ شعر ، غزلیں بہت پھیکی نظمیں
دلائل کا غوغا ، کہیں رائگانی کی زنجیر کھینچی
کہیں صرف پستان اور ناف تک ہی ہنر کی درانتی چلائی
مگر کارخانے کے اندر بندھے ریوڑوں سے
پسینے کی بدبو ، گھنے جوہڑوں سے شناسا نہیں تھا
کبھی بس کی چھت پر ٹھٹھرتے ہوئے تند جاڑے میں کھیسی کی بکل
کبھی ایک روٹی پہ دون توکل
کبھی صرف پانی کے دوگھونٹ پینا
کبھی حلق میں اک ادھڑتی طلب پر بجھے سگریٹوں سے جھڑی آگ سینا
کواڑوں کے پیچھے چھپے روگ جینا
بہت ہی کٹھن ہے
یہ شبدوں کی شوکت جو اردو کےچولہے پہ رکھے بڑے دیگچے میں
برس ہا برس سے "گڑکتی" رہی ہے
اسے میں اتاروں ، سڑک پر پساروں
بجھی آنکھ والے لرزتے لڑھکتے ہوئے ایک مزدور کو دگنی اجرت پہ رکھوں
اور اگلی صدی تک دبا کے لتاڑوں
______