ایسا لگتا ہے کہ سیاست میں ’آیا رام، گیا رام‘ کہاوت کو مہاراشٹر کی نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) نے ایک نئی شکل دے دی ہے۔ اس کہاوت کا ہندوستانی سیاست میں پہلی بار استعمال 1960 کی دہائی میں اس وقت ہوا تھا جب ہریانہ کے ’رام‘ نامی رکن اسمبلی نے ایک ہی دن میں تین بار پارٹی بدلی تھی۔ اس کے بعد 1980 کی دہائی میں ’دَل بدل مخالف قانون‘ پاس کیا گیا تاکہ ’آیا رام، گیا رام‘ پر روک لگ سکے۔
اس قانون کے آنے کے بعد کسی بھی رکن اسمبلی یا اراکین اسمبلی کو پارٹی سے الگ ہو کر کسی دیگر پارٹی میں شامل ہونے یا ضم ہونے کے لیے اپنی پارٹی کے دو تہائی اراکین اسمبلی کی حمایت چاہیے ہوگی۔ جبکہ کسی ایک رکن اسمبلی کو اگر پارٹی کو ’دل بدل‘ کرنا ہے تو اسے اپنی سیٹ سے استعفیٰ دینا ہوگا جہاں سے وہ اپنی اصل پارٹی کے انتخابی نشان پر انتخاب جیت کر آیا تھا، اور اسے دوبارہ انتخاب لڑنا ہوگا۔ دوبارہ انتخاب جیتنے کو لے کر بیشتر پراعتماد نہیں ہوتے ہیں، ایسے میں اکثر وہ اپنی پارٹی کے اراکین اسمبلی کی تعداد کی بنیاد پر دَل بدل کرتے ہیں