مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
پوری دنیا میں عموماً اور ہندوستان میں خصوصاً بہت ساری فصلیں اور اناج ہمارے کھیتوں سے رخصت ہوچکے یا ہوتے جارہے ہیں ، عجیب وغریب با ت یہ ہے کہ جانوروں کی بعض نسلوں کے ختم ہونے کی فکر سرکار کو زیادہ ہے اور جن جانوروں کی نسلیں ہندوستان سے نایاب ہورہی ہیں انہیں موٹی قیمت اور بڑے خرچ پر ہندوستان لاکر چڑیا خانے میں رکھا جارہا ہے اور مرکزی حکومت اس کا فخریہ ذکربھی کرتی ہے، مثال کے طور پر چیتا کا ذکر کیا جا سکتا ہے ، جس کے باہر ملک سے لانے پر سوشل اور الکٹرونک میڈیا نے زمین وآسمان کے قلابے ملا دیے اور خوب واہ واہی ہوئی۔
جانوروں کی نسلوں کی جس قدر حفاظت کی فکر حکومت کو ہے ویسی فکر نایاب ہورہی فصلوں، غلوں اور اناج کے سلسلے میں نہیں کی جا رہی ہے۔ اناج کی بہت ساری قسمیں جو غذائیت سے بھرپور تھیں اور صحت کے لئے انتہائی مفیدتھیں ہماری نئی نسلوں نے ان کا نام تک نہیں سنا ہے، جیسے جوار ، باجرہ ، ساما ، کونی، کودو، مڑوا، رام دانا ، کنگنی، الوا(شکرقند) سُتھنی، کٹکی وغیرہ۔ آج کسان اس کو اگانے سے اس لئے بیزار ہے کہ ہماری تھالی سے یہ اناج غائب ہوگئے ہیں۔اناج کا استعمال نہ ہوتو اس کے دام بازار میں نہیں ملتے، کھانے میں ان کی افادیت اور غذائیت جتنی ہو، یہ موٹے اناج کہے جاتے ہیںاور دسترخوان پر مہمانوں کے سامنے اسے پیش نہیںکیا جاتا ہے ۔ اس کے باوجود ہندوستان جیسے ملک میں جہاں کی آبادی اب چین سے زیادہ ہو گئی ہے ان فصلوں کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔
یہ حالات ایسے ہی نہیں پیدا ہوئے ،۱۹۶۰ کی دہائی میں سبز انقلاب کے نام پر ہندوستان کے روایتی کھانے کو غائب کر کے گیہوں چاول اور مکئی کی کھیتی کو بڑھاوا دیاگیا اور دوسری فصلوں کے مقابلے اس کی قیمت مارکیٹ میں زیادہ مقرر ہوئی، کسان پورے طور پر اس طرف راغب ہوگئے اور دھیرے دھیرے موٹے اناج کا اگانا بند کر دیا۔
ابھی بھی سرکار کی توجہ ان فصلوں کے واپس لانے کی طرف نہیں ہے، زرعی سائنسدانوں کے متوجہ کرنے سے تھوڑا سااحساس جاگا ہے، یہ احساس اندرون ملک کے لیے نہیں ، عالمی برادری کے لیے ہے ، اسی لیے موٹے اناج کے استعمال اور اس کی پیدارار کو بڑھانے کے لیے ہندوستانی حکومت نے اقوام متحدہ کو ایک تجویز بھیجی تھی ، اقوام متحدہ نے اس تجویز کو منظور کرکے ۲۰۲۳ء کو ’’عالمی موٹا اناج سال‘‘ قرار دیا ہے۔ وزیر خزانہ نرملاسیتارمن نے اپنے بجٹ میں جو فروری میں پیش کیا گیا تھا اور جس میں وزیر خزانہ نے موٹے اناج کی اہمیت اور ہندوستان کے روایتی کھانے کو پوری دنیا میں متعارف کرانے کے لیے ’’شری انن یوجنا ‘‘ شروع کرنے کا وعدہ کیا تھا یہ وعدہ اب تک وعدہ کی منزل سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔
موٹے اناج کی فصل اگانے میں محنت بھی کم پڑتی ہے، پانی کا استعمال بھی گیہوں وغیرہ کی طرح نہیں ہوتا ، اور اس میں کیمیاوی کھاداور جراثیم کش دواؤں کے استعمال کی بھی حاجت نہیں ہوتی، فصل کاٹ کر اس کا باقی حصہ جانور کے چارے کے طور پر استعمال کر لیا جاتا ہے ، ان کوجلانے کی ضرورت نہیں ہوتی ، جس کی وجہ سے فضائی آلودگی نہیں پیدا ہوتی اور اس کا خطرہ بھی باقی نہیں رہتا۔ کورونا کے بعد یہ اناج جسم کی دفاعی قوت کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کئے جاتے رہے اور اس طرح ان فصلوں کی اہمیت کسی درجہ میں سامنے آئی ۔
ملک کی زرعی یونیورسیٹیوں میں موٹے اناج پر تحقیق کا کام چل رہا ہے، جن ریاستوں نے اس کی اہمیت کو سمجھ لیا ہے وہاں ان کی کھیتی بڑے پیمانے پر ہونے لگی ہے، کرناٹک ، راجستھان ، گجرات ، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹرا میں ان فصلوں پر توجہ دی جارہی ہے لیکن شمالی ہندوستان بشمول بہارمیں ابھی کام شروع نہیںہوا ہے، حالانکہ موٹے اناج میں کلشیم، آئرن ، جنک ، فاسفورس، مینگنی شیم ، پوٹاشیم، فائبر، وٹامن ، کیروٹن، لیسی تھین وغیرہ کی موجودگی کی وجہ سے امراض قلب شوگر، تنفس وغیرہ میں راحت ہوتی ہے، تھائرائٹ ، یورک ایسیڈ ،کڈنی، لیورکے امراض بھی ان موٹے اناج کے استعمال سے قابو میں رہتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سلسلے میں عوامی سطح پر بیداری لائی جائے اور اس بیداری کو عملی رنگ وروپ دینے کے لئے سرکار اور حکومت کا تعاون ملے،بازار میں ان فصلوں کی مناسب قیمت سرکار مقرر کرے، ورنہ جس طرح جانوروں کی بعض نسلیں ختم ہوگئیں ان فصلوں کا بھی نام ونشان مٹ جائے گا اور آنے والی نسل جانے گی ہی نہیں کہ کبھی یہ اناج ہماری تھالی کی رونق ہوا کرتے تھے۔