پیش لفظ
آصف سبحانی کے اس مجموعہ طنز و مزاح کو پڑھتے وقت کسی ایسی ریل گاڑی میں بیٹھ کر سفر کرنے کا احساس ہوتا ہے جو پہاڑوں جنگوں اور میدانوں کی بجائے جلسہ گاہوں، ادبی انجمنوں حجاموں کی دکانوں، عوام و خواص کی نفسیات، مچھروں کی حسیات اور عادات و اطوار کے بیچ میں سے گزرتی ہے اور طنز و مزاح کی پے در پے سیٹیاں بجاتی ہے۔ طنز و مزاح کا فن در اصل اتنا کٹھن اور بدن چور ہوتا ہے کہ ہر ایک کی دسترس میں نہیں آتا۔ اور جس کی دسترس میں آجاتا ہے وہ کچھ ہی دنوں میں یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ " کیا بات ہے؟ لوگ مجھے یوں گھور گھور کر کیوں دیکھنے لگے ہیں اور کچھ لوگ تو دانت بھی پینے لگے میں نہیں میرے قلم سے کوئی خطا تو نہیں ہو گئی ؟ لگتا ہے کہ اب خیریت نہیں ! یہی وجہ ہے کہ بے شمار فن کاروں کی بھیڑ میں کوئی طنز و مزاح کی طرف رخ نہیں کرتا کیونکہ یہ بہت ہی کٹھن ہے ڈگر پھٹ کی "
آصف سجانی چونکہ کافی خوش گفتار، خوش مزاج ، خوش مذاق اور اپنی جگہ خوش نویس بھی ہیں، اسلئے انشاء پردازی اور شوخی و ظرافت کے جلوس ان کے اندر طرح طرح کے رنگ بھرتے ہیں جس کے باعث وہ
روز مرہ کے حالات و واقعات کو ذرا الگ زاویہ نگاہ سے دیکھ کر تحریر کرتے ہیں اور مزید کئی اور خوبیوں کے مالک ہیں یعنی ظ - انصاری کی زبان میں انہوں نے اپنے اندر کانی مال پانی جمع کر رکھا ہے۔ اور ابن صفی کی کی زبان میں ان کے یہاں کیا یلایلیاں ہی یلایلیاں نظر آتی ہیں ۔ اور ان کی تحریر میں اوپر سے سادگی و پرُ کاری اور اندر سے اور اندر سے ایک یوں ہے کہ بقول غالب
" عبارت کیا، اشارت کیا ، ادا کیا"
اس مقام پر راقم یہ سوچنے پر مجبورہوگیا ہے کہ جب اس شخصیت میں اتنی ساری خوبیاں سمٹ آئی ہیں تو خطابات کی ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کی طرف سے آصف کو نواب آصف الدولہ کا خطاب اب تک تفویض ہو جانا چاہیے تھا مگر چونکہ حکومت نے دھما کو اشیاء اپنے پاس رکھنے اور اسے سپلائی کرنے پر کوئی کڑی پابندی لگا بھی ہے اس لئے انہیں خطابات سے دانستہ محروم کر دیا گیا ہے تا کہ ذخیرہ پر کوئی آنچ نہ آئے یعنی
چھا پہ وغیر ہ نہ پڑے۔
آصف نے اس مجموعہ کا نام "صدارت تمہاری مصیبت ہماری قائم کیا ہے ۔ صدارت بذات خود اتنا ستم ظریف اور اور عجیب و غریب عہدہ ہے کہ دوسروں کو تو بآسانی مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ مگر کوئی یہ نہیں جانتا کہ ہر صدر اپنے عہدے سے ہٹائے جانے کے خوف سے خود کتنی مصیبت میں مبتلا رہتا ہے۔ چاہے وہ صدر امریکه او یا صد ر امریکہ ہو یا صدر زنده دلان ِ ادب !
اب چونکہ بات صدر زندہ دلان ادب کی آگئی ہے تو ان کے بارے میں عرض ہے کہ مصیبت تو مصیبت ، ان کے پیچھے ایک بلا یہ بھی پڑ جاتی ہے کہ انہیں ہر وقت اس بات کا اندیشہ لگا رہتا ہے کہ ان کئے اداره زند و دالان ادب کو ڈائنامیٹ کرنے کے لئے ان کا کوئی حریف کہیں ملک میں ادارہ چڑچڑان ِادب کی داغ بیل نہ ڈال دے۔" اس بات سے ہر کوئی اچھی طرح واقف ہے کہ ادب میں ایسے فنکاروں کی تعداد ہر دور میں بہت زیادہ ہوتی ہے جو مزاجا ب چڑ چڑے ہوتے ہیں۔ لہذا اُن سے مقابلہ کرنا بھوکے شیروں کے پنجرے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف رہتا ہے۔
ہے
زیر نظر مجموعے میں کئی مضامین اس نوعیت کے ہیں جن کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آصف نے ایسے کئی پنجروں میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی ہے لیکن ان کا انداز بیان اتنا شوخ اور شائستہ ہے کہ پنجرے والے دھاڑنے کی بجائے یا تو چونک اٹھیں گے یا محفوظ ہو جائیں گے۔
یہ دور ایسا پر آشوب ہے کہ اس میں زندگی گزارنے کیلئے ہنستا مسکرانا بہت ضروری ہے ۔ اس وقت جبکہ عوام کو پیاز بہت رُلا رہی ہے اور حکومت پنجروں کے دروازے کھول دینے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔ ایسے نازک وقت میں طنز و مزاح کی فضا قائم کرنا لازمی ہے، کیونکہ حکومت نے ابھی تک ہنسانے والی پیازا گانے کا تجربہ کیا ہی نہیں ہے ۔ دراصل جس ملک میں گھاس خود بخود بہت زیادہ اگتی ہو وہاں اس اندیشہ کے تحت زراعت پر تجربہ کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی کہ تجربہ کی ذراسی خطا پر کہیں پیاز کی جگہ بھی گھاس اگنے نہ لگ جائے ۔ اور اگر ایسا ہوا تو تو ہو سکتا ہے کہ کل گھاس بازار کا بھاؤ دیکھ کر انسان اور جانور دونوں رونے لگ جائیں۔
یہ صحیح ہے کہ ہنسا بہت آسان ہے اور نقادوں کے علاوہ ہر ایک کو ہنسا آتا ہے لیکن اس میں بہت زیادہ ہوشمندی اور احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیونکہ ہر وقت ہنسے والے کو لوگ کچھ اور سمجھنے لگتے ہیں لہذا اس خیال کے تحت آصف نے جگہ جگہ طنز کا محتاط استعمال بھی کر دیا ہے کہ ہنسے والے ذرا سنبھل کر ہنسیں طنز در اصل ایک بہت ہی خوشگوار، مہذب اور شائستہ حملہ ہے ۔ جو رمزیت سے تشکیل پاتا ہے اور جس کی زد میں آنے والا نہ تو مجروح ہوتا ہے، نہ مرتا ہے اور نہ ہسپتال میں ایڈمٹ ہوتا ہے بلکہ جھینپ کر ہوش میں آجاتا ہے اور مسکرا کر سنبھل بھی جاتا ہے۔ غالبا یہی وجہ ہے کہ میدان جنگ میں طنز کا استعمال بالکل نہیں کیا جاتا۔ قارئین اس بات سے اچھی طرح سے واقف ہیں کہ ۱۹۶۰ء سے قبل اصناف ادب میں شاعری
اور افسانہ کے بعد طنز ومزاح کی حکمرانی تھی۔ پطرس بخاری ، رشید احمد صدیقی، ابراہیم جلیس، کنہیا لال کپور، کرشن چندر فکر تونسوی شفیق خواجہ، ابن انشاء ، دلیپ سنگھ، احمد جمال پاشا، یوست ناظم اور مجتبی حسین وغیرہ طنز و مزاح کے فن کو ایسے مدارج پر پہنچا دیا تھا کہ زندہ دل قارئین کی بہت بڑی تعداد اور معیاری رسائل کے مدیران ان کی تحریروں کے منتظر رہتے تھے ۔ مگر جدیدیت کے ظہور میں آنے کے بعد طنز و مزاح کو سرے سے نظر انداز کردیا گیا۔ جس کے باعث آج ادب کا منظر نامہ یوں ہو گیا ہے کہ طنز نگاری تو الگ ہے بلٹز کو سمجھنے والے یا اس سے محفوظ ہونے والے بھی محفل ادب سے یہ کہ کر اٹھتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ اے عندلیب چل کے چلے بہار کے "
تو ایسے مایوس کن اور صبر شکن وقت میں آصف سبحانی کے اس مجموعہ کا منظر عام پر آنا، بقول
غالب آمد فصلِ لالہ کاری ہے"
آصف کے یہ طنزیہ و مزاحیہ مضامین اپنے حصار میں زبان و بیان کی دلکشی کے ساتھ کہیں کہیں مل صحافت کی بجلیاں بھی چمکاتے ہیں ۔ انشائیوں کی قوس قزح بھی ابھارتے ہیں عمدہ اور معنی خیز نٹیچس دامن دل کو بھی کھنچتے ہیں اوراسلوب تحریر اتنا مسکراتا ہوا محسوس ہوتاہے کہ اگر آنکھوں کے جھروکوں سے دیکھیں تو
ہونٹوں سے بے ساختہ نکلے گا اک موج ہو اپیچاں اے میر نظر آئی" میں اس مجموعے کا خیر مقدم کرتا ہوں ۔
سلطان سبحانی ۔
🔴انتخاب و ٹائپنگ :- احمد نعیم