شکیل رشید ( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
کیا ماب لنچنگ کی شیطانی وبا پھر مہاراشٹر میں لوٹ رہی ہے ؟ یہ سوال گزشتہ پندرہ دنوں کے اندر ماب لنچنگ کے دو المناک واقعات کی بنا پر اٹھ رہا ہے ۔ ویسے سچ تو یہی ہے کہ ماب لنچنگ کی شروعات مہاراشٹر سے ہی ہوئی تھی ۔ نریندر مودی کے وزیراعظم بننے اور ’ سب کا ساتھ ، سب کا وکاس ‘ کا نعرہ لگانے کے فوراً ہی بعد پونہ میں محسن شیخ نامی ایک نوجوان انجنیئر کو ’ ہندو سینا ‘ کے شرپسندوں نے پیٹ پیٹ کر جان سے مار دیا تھا ، محسن شیخ عشاء کی نماز پڑھ کر واپس ہو رہا تھا ، تب اُس پر حملہ کیا گیا تھا ۔ محسن شیخ کی جان گئی ، اس کے اہلِ خانہ شدید صدمہ سے دوچار ہوئے ، لیکن محسن شیخ ماب لنچنگ کے تمام ملزمین بری ہو چکے ہیں ۔ محسن شیخ کی ماب لنچنگ کے بعد بھی مہاراشٹر میں لنچنگ کے واقعات ہوئے ہیں ، لیکن اتنے بڑے پیمانے پر نہیں ، جتنے بڑے پیمانے پر اترپردیش ، مدھیہ پردیش اور راجستھان وغیرہ کے علاقوں میں ہوئے تھے ۔ اگر ماب لنچنگ کے واقعات پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ۹۰ فیصد واقعات گائے پر اٹھے تنازعے کو لے کر ہوئے ہیں ، اور مارے جانے والوں کی اکثریت مسلم ہے ، اس کے بعد دلت آتے ہیں ۔ جیسا کہ کہا گیا ہے ایسے واقعات مہاراشٹر میں بھی پیش آئے ہیں ، لیکن دوسری ریاستوں کے مقابلے کم تعداد میں ، لیکن تشویش ناک امر یہ ہے کہ دو ہفتوں کے اندر مہاراشٹر میں گائے کے نام پر ماب لنچنگ کے دو واقعات پیش آئے ہیں ، ان میں دو نوجوان اپنی جان سے گئے ہیں ۔ دونوں ہی وارداتیں ناسک کی ہیں ، دونوں ہی میں مارے جانے والے نوجوان ممبئی اور تھانہ کے تھے ۔ ایک واقعہ ۱۳ - ۱۴ ،جون کے درمیان کا ہے ، اور دوسرا واقعہ ۲۴ ، جون کا ہے ۔ پہلے واقعے میں بجرنگ دل کے بے قابو انتہا پسند عناصر نے ، گئو رکشھا کے نام پر ایک ۲۳ سالہ نوجوان لقمان انصاری کی پیٹ پیٹ کر جان لے لی تھی ، اور اس کی لاش ایک گھاٹی میں پھینک دی تھی ۔ یہ نوجوان تھانہ ضلع میں واقع پڑگھا کا رہنے والا تھا ۔ اس کے ساتھ دو نوجوان اور تھے جو کسی طرح اپنی جان بچانے میں کامیاب رہے تھے ۔ یہ ایک ٹیمپو کے ذریعے جانور لا رہے تھے ، لیکن ان کی گاڑی روکی گئی اور پہلے ان سے روپیے مانگے گئے ، جب انھوں نے کہا کہ ان کے پاس روپیے نہیں ہیں تو ان کی پِٹائی شروع کر دی گئی ۔ جو اطلاعات ملی ہیں اُن کے مطابق لوہے کی سلاخوں اور لاٹھی ڈنڈوں سے انہیں مارا پیٹا گیا ، شرپسند عناصر لقمان انصاری کو مارتے رہے ، جب وہ بے ہوش ہو گیا تب اس پر لاٹھی ڈنڈے برسانے بند کیے گئے ۔ ایک اطلاع کے مطابق زخمی لقمان انصاری کو مردہ سمجھ کر پہاڑی گھاٹی میں پھینک دیا گیا تھا ، حالانکہ بجرنگ دل کے جو شرپسند گرفتار کیے گئے ہیں ان کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ خود گھاٹی میں جا گرا تھا ، جس کی وجہ سے اس کی موت ہوگئی ، لیکن پولیس ملزمین کی یہ بات قبول کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ اور یہ دوسرا واقعہ بھی ناسک کے ہی علاقے میں پیش آیا ہے ۔ تازہ معاملے میں کرلا علاقہ کے دو نوجوان اپنی گاڑی میں گوشت لا رہے تھے ، انہیں بجرنگ دل کے لوگوں نے پکڑا اور بغیر کسی پوچھ تاچھ کے ان کی پٹائی شروع کر دی ۔ بےتحاشہ پٹائی کے سبب دونوں نوجوان عفان عبدالمجید اور ناصر غلام حسین شدید زخمی ہوگئے ، عفان نے اسپتال میں دم توڑ دیا اور ناصر کی حالت تشویش ناک بنی ہوئی ہے ۔ یہ دونوں ہی گوشت کے بیوپاری تھے ، ان کا گوشت کے غیرقانونی کاروبار سے کچھ لینا دینا نہیں تھا ۔ لیکن جس طرح پہلو خان ، رکبر خان ، تبریز انصاری اور محمد اخلاق کو گائے کے بہانے جان سے مار دیا گیا تھا اسی طرح ان دونوں کو بھی گئو کشی اور گئو ماتا کا مجرم مان کر پیٹا گیا ، اور ایک کی جان لے لی گئی ۔ یہ دونوں ہی وارداتیں مہاراشٹر کے لیے تشویش ناک ہیں ، کیونکہ یہ ریاست پہلے ہی سے بارود کے ڈھیر پر بیٹھی ہوئی ہے ۔ کولہاپور سے لے کر اورنگ آباد تک کئی اضلاع میں پہلے ہی سے اورنگ زیب اور ٹیپو سلطان کے نام پر فرقہ وارانہ تناؤ پھیلانے کی کوششیں جاری ہیں ۔ جگہ جگہ ’ سکل ہندو سماج ‘ کی ریلیوں سے کشیدگی کا ماحول ہے ، اور حالات کو مزید کشیدہ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ۔ ماب لنچنگ کی یہ وارداتیں فرقہ وارانہ کشیدگی میں بھی اور مختلف فرقوں کے درمیان پہلے سے حائل دراڑ کو وسیع کرنے میں بھی گھناؤنا کردار ادا کر سکتی ہیں ۔ عیدالاضحی کے موقعے پر یہ کشیدگی حالات کو مزید ابتر کر سکتی ہے ، کیونکہ یہ تہوار ہی قربانی کا ہے۔ شرپسند قربانی کے فریضے میں روکاؤٹ ڈالنے کی کوشش کر سکتے ہیں ، اس سے تناؤ پھیل سکتا ہے ۔ کرلا کے نوجوانوں کی ماب لنچنگ کی واردات سے کرلا کے علاقے میں غم و غصے کی لہر تھی ، لیکن لوگوں نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا ۔ اورایسے موقعہ پر صبر ضروری بھی ہے ، کوئی ناخوشگوار بات سارے شہر بلکہ ساری ریاست کے حالات کو کشیدہ کر سکتی ہے ، اور تشدد پھوٹ سکتا ہے ، جو سب کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے ۔ اس تعلق سے ’ فیڈریشن آف مہاراشٹر مسلمس ‘ نے ،جو ریاست کی تمام بڑی جماعتوں اور اہم شخصیات پر مشتمل افراد کا فیڈریشن ہے ہجومی تشدد کے دونوں واقعات پر انتہائی غم وغصہ کا اظہار کیا ہے ۔ اور ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ و وزیر داخلہ دیویندر فڈنویس سے ای میل کے ذریعے خط بھیج کرمطالبہ کیاہے کہ وہ سماج دشمن عناصر کو سختی کے ساتھ روکیں ۔ یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ دونوں واقعات کے خاطیوں کو گرفتار کیا جائے ، فاسٹ ٹریک عدالت میں مقدمہ چلاکر خاطیوں کو سخت سے سخت سزا دی جائے ، اور مرنے والوں کے ورثا کو 25 ، 25 لاکھ کا معاوضہ اور سرکاری نوکری دی جائے ۔ حکومت کو اِن مطالبات پر توجہ دینی چاہیے ۔ اور پولیس انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ ماب لنچنگ کے واقعات پر قابو پانے کے لیے کوئی منظم لائحۂ عمل بنائے اور جو قصوروار ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی کرے ۔ بجرنگ دل کے شرپسندیوں پر روک لگانا ضروری ہے ، اس کے لیے خصوصی انٹظام کیا جانا چاہیے ۔ عید قرباں پر قربانی اور نمازیں سکون سے ادا کی جا سکیں اس کے لیے پولیس کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے ۔ امن و امان کی برقراری کے لیے ممبئی کے پولیس کمشنر وویک پھنسالکر نے خصوصی اپیل کی ہے ، اس اپیل پر سب کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ سب ہی کو چاہیے کہ ، عیدالاضحیٰ کے تہوار کو خوشگوار اور پرامن بنانے کے لیے صبر اور ضبط سے کام لیں ، ہر طرح کی افواہ سے بچیں ۔
__________
عالمی افسانہ محفل ٢٠٢٣
افسانہ :39
صـــــادق اســــــــد،مالیگاؤں ،انڈیا
۔۔۔۔۔ کوڑادان ۔۔۔۔۔
وہ دائرہ جس سے روشنی پھوٹ رہی تھی، ڈھلکتا ہوا ایک سمت اترتا چلا گیا، اب اس کی روشنی میں نمی تیزی سے آنے لگی تھی، وہ کچھ سرخ رہا اور پھر کسے جزیرے پر اتر گیا
کچھ دیر ملگجے کا پڑاؤ رہا، اور پھر ملگجا رات میں پیوستہ ہو گیا،
اندھیرا بڑھا تو ایک سائے کے رینگنے سے زمین پر بکھری خشک جھاڑیوں سے چَر چَر کی آواز آنے لگی سایا شہر کی طرف تیزی سے بڑھ رہا تھا،
ستارے آسمان میں روشن ہوگئےـ ایک بڑا ستارہ پہلے ہی نکل آیا، شاید وہ بہت قریب ہونے کی وجہ سے بڑا نظر آرہا تھا، پھر اسی کانٹے دار جھاڑیوں سے دو بچے دبے پاؤں نکلے ـ........ ہوا آہستہ آہستہ چل رہی تھی ، وہ جھاڑیوں سے تھوڑا سا ہٹ کر کھلے آسمان کے نیچے، صاف جگہ دیکھ کر ایک نے اپنی چادر بچھائی، چادر زمین پر پڑتے ہی دوسرا بچہ جلدی سے بیٹھ گیا، جس نے چادر بچھائی تھی وہ بڑا تھا، اور پھر دوسری چادر کی تکیہ بناتے ہوئے بولا،
"دھیان سے گننا کل کی طرح غلط نہ گننا ورنہ آج بھی بھوکے رہنا پڑے گا،"چھوٹا جو سات سال کا تھا، نہایت کمزور لگ رہا تھا، آہستہ سے کہا،" بھوک کی وجہ سے آنکھیں ستاروں پر نہیں ٹکتی، بھائی"........
"سچ ہے لیکن تم کو پتہ ہے نا کہ بابا نے کیا کہا تھا، اگر ہم ستاروں کو غلط گنیگے، تو اُن کو کہیں سے بھی کچھ کھانے کو نہیں ملے گا اور ہمیں پھر بھوکا ہی رہنا پڑے گا" اس نے چھوٹے کو سمجھاتے ہوئے بولا، چھوٹے بھائی نے بڑی عاجزی سے بڑے کو دیکھتے ہوئے کہا، "بھائی اس بار بابا سے کہہ دینا کہ میں نے بھی ستارے صحیح گِنے ہیں ـ "پہلا تھوڑا چپ رہا پھر کہا،" کہہ دوں گا،.... لیکن بابا کو پتہ ہے آسمان میں کتنے تارے ہیں، اتنا ہی نہیں ان کو تو سارے ستاروں کے نام بھی پتہ ہے، ہو سکتا ہے ہمارا جھوٹ پکڑا جائے" ۔اس ملک کی ہوا بچوں کی زبان نہیں جانتی تھی اگر جانتی تو تھوڑی دیر کے لئے رک جاتی ـ
دوسرے نے کچھ نہ کہتے ہوئے، آسمان کی طرف دیکھنے لگا.......... بچے ستارے گننے لگے.......... چھوٹا بچہ بھول جاتا پھر سے شروع کرتا،............. پھر کوشش کرتا، یہی سلسلہ چلتا رہا، جب رات دوسرے پہر میں داخل ہونے لگی، توکسی کے تیز چلنے سے قدموں کی چاپ سنائی دی، بچے ٹھٹکےـ تھوڑا سا کروٹ ہوئے، اور اس سمت دیکھنے لگے، جدھر سے آواز آرہی تھی، وہ تیزی سے بچوں کی طرف ہی آرہا تھا، جب اندھیرے میں آنے والا شخص قریب ہوا تو لیٹے ہوئے بچے اٹھ گئے ،........... اس نے آتے ہی بچوں سے کچھ کہا، اور بیٹھتے ہی پلاسٹک کی تھیلی سے کچھ نکالنے لگا، چھوٹا بچہ جلدی سے دوسری تھیلی میں ہاتھ ڈال کر کچھ نکالا، اور بغیر دیکھے ہی کھانے لگا ـ رات اور ہوا دونوں چپ چاپ آگے بڑھتے رہے ..........
پیٹ کا تندور سرد پڑا تو سُکڑے ہوئے چہرے کِھل اٹھے ـ ـ ـ ـ ـ
بجھا دماغ روشن ہو گیا، چھوٹا بچہ اس آ نے والے شخص کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا،
"بابا اور کب تک ہم یہاں چھپے رہیں گے"؟
اس شخص نے ایک آہ بھری اور کہا "جب تک تم کو ستاروں کی تعداد اور ان کے نام کا علم نہیں ہوجاتا،" اور پھر چپ ہوگیا، چند لمحے وہاں بیٹھا رہا اور اٹھ کر جھاڑیوں کی طرف چل پڑا، بچے بھی اٹھے اور چادروں کو سمیٹ کر جھاڑیوں میں چلے گئے ـ
جہاں یہ لوگ ٹھہرے تھے اس کے ایک سمت سمندر کا ایک کونا تھا جس سے لگ کر پہاڑ تھا پہاڑ کی ڈھلان سے کانٹے دار جھاڑیوں کا سلسلہ شروع ہوتا تھا، اور دائیں طرف ایک سرحدی جنگل میں تبدیل ہوجاتا تھا، اور دوسری طرف شہر تھا ـ اندر جھاڑیاں کاٹ کر جگہ صاف کی گئی تھی، ، اور کٹی ہوئی جھاڑیوں کو چھت، اور جھاڑیوں کو جھاڑیوں سے باندھ کر اس طرح بنایا گیا تھا، کہ دن کے وقت سورج کی روشنی بھی اندر نہیں جا سکتی تھی ـ اور نچلے حصے میں ایک چھوٹا سا کواڑ تھا جیسے ہٹاکر وہ اندر جاتے تھے ـ
بچے وہاں جاکر سونے کی کوشش کرنے لگے،
کواڑ ابھی بند نہیں کیا گیا تھا، جس سے ہوا کے جھونکے جو اب سرد ہوچکے تھے آنے لگے،
وہ شخص بچوں کو دیکھنے لگا، جو دوسری چادر کو اوڑھ رہے تھے، اسے یہ خیال آیا، جب وہ اس چھوٹے بچے کی عمر کا تھا، یا شاید اس سے چھوٹا........ تو اس کے ماں باپ، ملک کی خانہ جنگی سے پریشان ہو کر، سمندر کے راستے سے پڑوسی ملک کے جنگلوں میں پناہ کی تلاش میں بھٹکتے رہے،....... تھکان سے پاؤں بوجھل ہو چکے تھے ، وہ چلتے رہے اور چلتے چلتے شام ہو گئی، بے خودی میں ایک طرف نظر گئی، تو اس کے باپ کو جنگلی سوروں کا بنایا ہوا گڑھا نظر آیاـ اس نے کچھ سوچا اور اس کے قریب جا کر اپنے سامان کو نیچے رکھ کر گڑھے میں جھانکنے لگا، پھر ایک عجیب سی آواز نکالی، پھر بھی گھڑھے میں کوئی حرکت دکھائی نہیں دی، ادھر ادھر خشک لکڑیاں پڑی تھیں، وہ ایک لکڑی اٹھا لایا، اور اس گھڑھے میں اتر گیا، گھڑھا تین لوگوں کے لئے ناکافی تھا، اس کا باپ اسی لکڑی سے مٹی کریدنے لگا، نرم مٹی ہونے کے سبب کچھ ہی دیر میں گھڑھا پھیل گیا، اس کی ماں آس پاس سے لکڑیاں جمع کرکے لے آئی، اور لکڑیوں سے اس گھڑھے کے سِرے کو بند کر دیا گیا،
اب بھی وہ جگہ ان تینوں کے لئے ناکافی تھی، پھر بھی وہ ایک دوسرے سے ایسے لپٹے ہوئے تھے، جیسے سور...........
ان کے پاس بریڈ کے کچھ پاکٹ تھے، اس کی ماں نے ایک پاکٹ سے دو بریڈ نکال کراس کو دئیے اس نے اپنے ہاتھ میں لگی مٹی کو اپنے کپڑوں سے صاف کیا اور بریڈ لے کر کھانے لگا۔
مسافتوں نے ان کے جسموں کو اتنا تھکا دیا تھا کہ کچھ ہی دیر میں وہ جس زندگی کے لئے ایک ملک کی سرحد پار کر آئے تھے، اسی سے بے پروا ہو گئے ۔ آدھی رات کے بعد جب اس کے باپ کی آنکھ کھلی تو وہ ان باریک باریک لکڑیوں سے دیکھنے لگا، آسمان صاف تھا، آدھے سے ذرا سا زیادہ چاند پوری روشنی دے رہا تھا۔
بہت دور سے ہلکی سائرن کی آواز فضا میں گونجی ـ وہ دُبکا پڑا رہا ـ پھر کچھ دیر بعد وہ وہاں سے اٹھا، اور گھڑھے سے سر نکال کر ہر سمت گہری نظروں سے دیکھنے لگا،
جب اس نے محسوس کیا کہ چاروں طرف خاموشی طاری ہے تو باہر نکل آیا، اور شہر کی طرف دیکھنے لگا،
اپنے اکڑے ہوئے پیروں کو سیدھا کرنے کی غرض سے وہ شہر کی طرف چلنے لگا، دور دور پر پیڑ تھے، چاند کی روشنی کے سبب وہ ان پیڑوں کی پھیلی ہوئی سیاہی میں چلتا رہا وہ کبھی کبھی پیڑوں کے پیچھے ہوجاتا، اور جائزہ لینے لگتا۔
وہ چلتے ہوئے بہت دور نکل آیا تھا، اسے ایک سمت جلتی ہوئی لائٹیں نظر آئیں،
اس کا خیال تھا کہ ادھر بھی فوج کے دستے ہوں گے، لیکن........
اسے یاد آیا جب وہ جوان تھا، تب اس کے باپ نے کہا تھا، بیٹا ملک میں بے ایمانی، اور رشوت خوری جب عام ہوجاتی ہے، تو افسران ذمہ داریوں سے لاپروا ہوجاتے ہیں، اور انصاف کا پلڑا ایک طرف جھک جاتا ہے۔
وہ لوٹ آیا اور دن ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ اور پھر اسی گھڑھے میں اتر کر پہلے کی طرح دبک کر بیٹھ گیا۔ انتظار کی رات طویل ہوتی گئی،
اور اس کی آنکھ بند ہوگئی، جب آنکھ کھلی تو دیکھا، اس کی بیوی اور بچے بریڈ کھا رہے تھے، وہ جلدی سے گھڑھے سے سر نکال کر دیکھنے لگا، سورج سر پر چڑھ آیا تھا، باہر رات جیسا سناٹا چھایا ہوا تھا اس نے بیوی سے کہا "جلدی اٹھو ہمیں شہر کی طرف جانا ہے" اور گھڑھے سے باہر نکل آیا، وہ دونوں بھی اپنے سامان کے ساتھ نکل آئے، اور کچھ پل میں اس کے پیچھے چلنے لگے،
ان کا ہر قدم نا آشنا شہر کی طرف بڑھ رہا تھا۔ دھوپ ڈھلنے لگی تو وہ، اس گاؤں سے نکل چکے تھے، جس کی لائٹیں رات میں نظر آئی تھیں،
وہ چلتے رہے،
انھیں ایک پکی سڑک نظر آئی ، جو تھوڑی دور پر گاؤں کی طرف مڑ جاتی تھی،وہ اس بڑی سڑک پر چلنے لگے، تھوڑے تھوڑے وقفے سے بائک، یا کبھی کوئی کار سوار گاؤں کی گلیوں میں گم ہو جاتا،
وہ چلتے رہے،
اسی سڑک پر ایک چیک پوسٹ نظر آیا،
جہاں چند پولس والے تعینات تھے، خوف سے اس کے باپ کے ماتھے پر بل پڑ گئے، وہ تھوڑا سا دھیرے چلنے لگا ، اس کے پیچھے وہ دونوں بھی سڑک پر چلتے ہوئے زمین پر اس طرح دیکھتے جیسے کچھ تلاش کر رہے ہوں، ایک کار چیک پوسٹ سے نکلی، اور کنارے ہوتے ہوئے، اس میں سے کسی نے آواز دی، اس کا باپ اس ملک کی زبان جانتا تھا، وہ دوڑا، اور کار کے پاس جا کر رک گیا، اس میں سے ایک ہاتھ نکلا، جو پلاسٹک کی تھیلی اس کی طرف اچھال کر فوراً کار کے اندر چلا گیا، کار اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئی، چیک پوسٹ پر کچھ افسر کار والے کو دیکھ رہے تھے، شاید افسران سمجھے ہوں گے یہ بھکاری یا نشیڑی ہیں۔
اس کے باپ نے تھیلی میں رکھے ہوئے پھل کو نکال کر ایک پھل اس کی ماں کو دیا،
اور ایک اپنے دانتوں سے کاٹتے ہوئے آگے بڑھا، وہ افسروں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے بچے کو پھل کا ایک ٹکڑا دے کر ، اس طرف سے نکلنے لگا، جدھر سے پیدل جاتےتھے،
ابھی اس راستے سے وہ نکل بھی نہیں پائے تھے کہ ایک وردی والے نے آواز دی،
وہ چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگا، اس افسر نے اسے ہاتھ کے اشارے سے اپنی طرف بلایا، سڑک بہت چوڑی تھی ۔ افسروں کا کیبن درمیان میں تھا۔ خوف سے اس کی سانسیں پھولنے لگیں، اس نے اپنے بیٹے کی طرف ایک نظر دیکھا، اور افسر کی طرف چل پڑا ، افسر نے پھر اس سے کچھ کہا، شاید وہ جلدی آنے کو کہہ رہا تھا، اسی لئے یہ دوڑ کر اس کی طرف گیا، افسر نے ایک طرف ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے،
بڑبڑایا، اس کے میلے لباس اور گندے بدن کو دیکھ کر منہ بسورا، اور پیچھے ہٹ گیا،
یہ وہاں پر کچھ کھانے اور پانی کی بوتل پر ایسے جھپٹا جیسے کئی روز کا بھوکا ہو، وہ جلدی جلدی ان چیزوں کو سمیٹا، اور دوڑ کر اپنی بیوی بچے کے پاس آتے ہی ایک لمبا سانس کھینچا، اور شہر کی طرف بڑھ گیا۔ دن ڈھلنے لگا،
وہ چلتے رہے، رات نے اپنا دامن پھیلا دیا، اور جب ستارے زمین کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگے تو یہ، ایک شہر کے حدود میں داخل ہو چکے تھے ـ سڑک کے دونوں طرف دکان اور مکان بنے ہوئے تھے، کچھ دکانیں بند تھیں، اور کچھ کھلی۔ وہ تھوڑی دور چلے اور ایک جگہ رک گئے ـ اب وہ جہاں تھے، وہاں سے صاف دکھائی دے رہا تھا، ایک سمت بہت پرانا پیدل پل کا راستہ ختم ہوتا تھا، جس کے نیچے کچھ لوگ نشہ کر رہے تھےـ سڑک سیدھی تھی، پل دائیں سے بائیں کی طرف جاتا تھا، تھوڑا اور آگے سڑکیں چار جانب نکلتی تھیں، وہ لوگ جس سمت فٹ پاتھ کی منڈیر پر بیٹھے تھے وہیں، سے ایک لمبی دیوار دور تک کھنچی ہوئی تھی۔
دیوار کے اس پار شاید سرکاری دفتر ہو، دیوار سے لگ کر دوسرے لوگ بھی نشے میں دھت پڑے ہوئے تھے، سڑک کے اس طرف کچھ خالی زمین تھی، جہاں پلاسٹک کے خیموں میں اب بھی کچھ لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف نظر آرہے تھے ۔ پولس کی گاڑی آتی اور سائرن بجاتی ہوئی نکل جاتی، اِس سے اِس ملک کا نظام ان کے سمجھ میں آنے لگا تھا، وہ لوگ کچھ دیر بیٹھے رہے، اور وہِیں پر ایک چادر ڈال کر سونے کی کوشش کرنے لگے، قریب کی دکانیں بند ہونے لگیں، تو رات اور کالی ہوگئی، اس کا باپ کسی بھی آہٹ سے اٹھ بیٹھتا، اس کی ماں اور وہ گہری نیند سو رہے تھے،
صبح سورج نکلنے سے پہلے یہ لوگ اٹھے، اس کی ماں نے اپنے بیگ سے بریڈ اور پچھلے دن کا پھل نکالا جو بہت نرم ہو چکا تھا،
اسی وقت سامنے کی سمت سے ایک لڑکی جو اس کے عمر کی تھی، آئی، اور اشارے سے کھانا مانگنے لگی، اس کے باپ نے اس چھوٹی سی بچی کو غور سے دیکھا، اور اسے اپنے پاس بلا کر بٹھایا، اپنے بریڈ اس کو دئیے اور اس سے باتیں کرنے لگا، اس لڑکی نے بتایا کہ اس کی ماں نشے کی وجہ سے کچھ دن پہلے مر گئی اس کے باپ کا کوئی پتہ نہیں،
اس نے اس بچی سے پوچھا،
"پھر تم کو کھانے کہاں سے ملتا ہے" تو اس نے کہا،
"روز دکانوں سے مانگ کر کھا لیتی ہوں، یا چوپال پر جو پیسے ملتے ہیں اس سے کچھ خرید لیتی ہوں ،"
اس کے باپ نے سوچا، بچی سے اور کچھ پوچھا جائے ، وہ اس سے ہر ضروری بات پوچھتا رہا، اور بچی مسکراتے ہوئے، ہر بات کا جواب دیتی رہی، اس بچی نے سوال کیا، " آپ کہاں سے آئے ہیں" وہ چپ رہا پھر کہا،" گھر کرائے کا تھا، جاب نہیں تھی اس لئے گھر خالی کرنا پڑا"
اس نے فوراً دوسرا سوال کیا،
"اور سامان نہیں آپ کے پاس"
اب اس نے مختصر جواب دیا
"نہیں"
بچی نے بڑی انکساری سے کہا
"آپ کے پاس گھر نہیں، اگر آپ کو برا نہ لگے تو آپ میری جھوپڑی میں رہ سکتے ہیں، ادھر زیادہ نشیڑی رہتے ہیں، آپ کو تکلیف ہو سکتی ہے"
وہ پیار سے بچی کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا ،
اور پھر کہا،
" ضرور ، لیکن جب ہمیں گھر مل جائے گا تو تم ہمارے ساتھ ہمارے گھر میں رہنا، ہماری بیٹی بن کر"
" ٹھیک ہے" کہتے ہوئے بچی ایسے مسکرائی کہ اس کے سارے دانت نظر آنے لگے۔.......... وہ اٹھے اور اس خیمے کی طرف چل پڑے ۔ اور پھر اُس خیمے میں رہتے ہوئے، آہستہ آہستہ وہ بھی اس ملک کی زبان سیکھنے لگا
دن گزر نے لگے، اس کا باپ دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے لگا۔ اک روز جب کھانے کو کچھ نہ رہا تو اس نے بچوں سے کہا،" میں کھانا لانے جارہا ہوں، لیکن تم کو آسمان کے ستارے گننا ہوگا، اگر تم ستاروں کو غلط گنو گے تو یاد رکھنا کل تک کھانا نہیں ملے گا " بچے بڑی دیر تک اسے دیکھتے رہے،
اور گھر سے نکل کر شہر کے وسط میں چلا گیا، جہاں کوڑا دان میں لوگوں کے پھینکے ہوئے کھانے جمع کر کے لا سکے اور ادھر کسی کو پتہ بھی نہ ہو، اور تو اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ بچے بھیک مانگے، وہ اکثر صبح اٹھ کر کام کی تلاش میں نکل جاتا.........
گاہے گاہے دوسرے شہروں سے کرپشن کے خلاف احتجاج کی خبریں آتی رہتیں،
کچھ مہینے ہی گزرے ہوں گے کہ ملک کے تمام شہروں کے ساتھ
اس شہر کے لوگوں نے بھی احتجاج کرتے ہوئے، کچھ سرکاری دفتروں پر پتھر پھینکنےلگے، بھیڑ کا دوسرا حصہ آگ لگانے لگا، ہجوم کی پتھر بازی سے کچھ سرکاری افسران زخمی ہوئے، تو
پولیس والوں نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لئے لاٹھی چارج کے بعد آنسو گیس کے گولے داغنے شروع کر دیئے، اور جو ہاتھ آتا اسے ڈٹین کر لیتے، شہر بھر میں سخت کرفیو نافذ کردیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔
کرفیو کے دوران بھی آتش زنی کے واقعات ہوتے رہے،
کرفیو طویل ہوتا گیا،
اور ایک صبح ان لوگوں کے پاس کھانے کو کچھ نہ رہا، تو پیٹ کے تندور کو پانی سے سرد کر لیتے ۔ لیکن کچھ ہی گھنٹے بعد پھر بھوک دستک دینے لگتی ، وقت، لمحہ لمحہ ٹوٹتا رہا،
سورج ڈوب گیا، رات تھوڑی سی آگے بڑھی، دونوں بچے خیمے کے ایک کونے میں کروٹیں بدلتے رہے، جب اس کے باپ نے محسوس کیا کہ بچے بھوک کی وجہ سے سو نہیں پا رہے ہیں، تو اس نے
اس کی ماں سے کہا " تم بچوں کو کسی طرح بہلاؤ میں کچھ کھانے کو لے کر آتا ہوں ہوں"
اس کی ماں جلدی سے بول پڑی " میں بھی ساتھ چلتی ہوں" پھر سمجھاتے ہوئے کہنے لگی
"ہم دونوں تھوڑا زیادہ کھانا لا سکتے ہیں، تاکہ دوچار دِن گزر جائیں" ، وہ یہ سن کر خاموش رہا، اور خیمے کے باہر نکل گیا،
آس پاس جو تھوڑی تھوڑی دور پر خیمے تھے، ان میں بہت سے لوگ نشے میں دھت پڑھے ہوئے تھے، سڑک سنسان تھی، آسمان میں ستارے ٹمٹما رہے تھے، اس کی بیوی پلاسٹک کی تھیلی کو موڑتے ہوئے خیمے سے نکل آئی،
وہ آسمان کے ستاروں کو دیکھتا رہا، پھر خیمے میں آیا، اس نے اپنے باپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا " بابا ہمیں آج پھر ستارے گننے ہوں گے" اور جواب کا انتظار کرنے لگا، وہ مسکراتے ہوئے بولا، ہاں بچو! یہ عمل میرے بابا نے مجھے بتایا تھا، جو وہ اپنے باباسے سیکھے تھے، اس عمل کو بڑی توجہ سے کرنا نہیں تو کھانا نہیں ملے گا "
بچے اسے غور سے دیکھتے رہے، وہ اٹھا، اور اسی طرف چل پڑا،
اس کے پیچھے اس کی بیوی چلتی رہی، وہ جہاں بھی کوڑا دان دیکھتے، اس میں کھانا تلاش کرنے لگتے۔۔۔۔۔
بچے اٹھے اور خیمے کے پچھلے حصے میں کُھلی جگہ پر ایک چادر ڈال کر لیٹ گئے اور ستارے گننے لگے، بچے ستارے گننے لگے، تو بھوک کا احساس کم ہوگیا ۔
وہ دونوں چلتے رہے، سائرن کی آواز بار بار فضا میں گونجتی رہی، وہ ادھر ادھر دیکھتے اور کوڑا دان کی طرف بڑھ جاتے، ایک چوپال پر کسی گاڑی کے جلنے سے آگ اوپر کو اٹھ رہی تھی، اس کے اطراف میں چند پولس والے نظر آرہے تھے، ان سے کچھ دور شور اٹھ رہا تھا، وہ دوسری گلی میں مڑ گئے، کوڑا دان سے جو بھی ملتا اسے جمع کرتے رہے، اچانک ایک طرف سے ایک بھیڑ کے پیچھے پولیس والے دوڑتے ہوئے آئے ، ان کے پاس سیاہ لاٹھی تھی ، اس کی ماں خود سے زیادہ کوڑا دان سے ملے ہوئے کھانے کو سنبھال رہی تھی، اس کا باپ بھیڑ کے ساتھ بھاگا، اور اسکی ماں ایک دوسری طرف دوڑی، بھیڑ سے کئی لوگوں کو پکڑ لیا گیا، اس کی ماں دوسری جانب سے سڑک پر آئی اور دیکھنے لگی، جلتی ہوئی کار کی روشنی میں دکھائی دیا کہ اس کے باپ کو بھی کھینچ کر پولیس وین میں ڈالا جارہا تھا، اس ملک کی ہوا اس کی مجبوری، بے بسی کو تکتی رہی، وہ اکیلی بھیگی پلکوں کے ساتھ اپنے ٹھکانے کی طرف چل پڑی۔۔۔۔۔
بچے اسے دیکھ کر بیٹھ گئے ، اس نے چپ چاپ جو بھی ملا تھا بچوں کو دے دیا، اور خیمے میں جا کر دبی آواز سے رونے لگی،
بچے کھا چکے اور جتنا بچا تھا ، خیمے میں ایک سمت رکھ کر بستر پر لیٹ گئے، کچھ دیر بعد اس نے سر اٹھایا اور اپنی ماں کی سمت دیکھتے ہوئے سوال کیا" ماں! بابا نہیں آئے ،"
اس کی ماں جو ایک دوسرے کونے میں منھ چھپائے رو رہی تھی، اپنے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے بولی، " وہ کسی وجہ سے کہیں رہ گئے ہوں گے، صبح تک آجائیں گے " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ چپ رہا، رات آدھی گزر چکی تھی، اس نے سر کو تکئے پر رکھا، اور پلکیں بند کرلیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دن میں تھوڑی تھوڑی دیر کے لئے کرفیو میں چھوٹ دی جاتی رہی، دھیرے دھیرے حالات معمول پر آنے لگے،
شام اور صبح ہوتی رہی،
اس کا باپ نہیں آیا، جب کرفیو پورے دن کا کھلنے لگا تو اس کی ماں صبح اٹھ کر وہاں چلی جاتی جہاں سے مزدوروں کو ایک، دو دن، یا اس سے زیادہ کے لئے مزدوری پر لے جایا جاتا تھا، جب کام نہ ملتا تو وہ کسی چوراہے پر ایک کپڑا بچھا کر بیٹھ جاتی، بچے ادھر آس پاس کی جھگیوں میں رہنے والے بچوں کے ساتھ کھیلتے، یا قریب ہی پیدل پل پر دن گزار دیتے ۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت کے سمندر میں زندگی کی کشتی آگے بڑھتی رہی کبھی کبھی موجوں کے تھپیڑوں سے کشتی ڈگماتی اور پھر چلنے لگتی،
ایک روز شام ہوتے ہوتے جب وہ چوپال پر بیٹھی بھیگ مانگ رہی تھی، تو سینے میں درد اٹھا، اس نے چھاتی پر ہاتھ رکھا، اور تھوڑا سا دباتے ہوئے اٹھنے لگی، وہ سیدھی بھی نہیں ہو پائی تھی کہ زمین پر گر پڑی، کچھ دیر پڑی رہی پھر بھیڑ جمع ہونے لگی، لوگ آپس میں بڑبڑاتے، "بھکارن ہے مرگئی شاید" ہر کوئی لاش کو غور سے دیکھتا ۔ کوئی یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ جاتا، کہ "نشہ کرتی ہوگی مرگئی" کچھ ترس کھاتے اور کچھ منھ بگاڑ کر آگے بڑھ جاتے، کچھ ہٹتے تو کچھ دوسرے آجاتے ۔ بچے پل پر کھیلتے رہے ، پولیس وین آئی، پولیس والے گاڑی سے اتر آئے، بھیڑ نے راستہ دیا، وہ لاش دیکھنے لگے، ایک افسر، بھیڑ میں کھڑے لوگوں سے بات کرنے لگا۔۔۔۔
لمحے بیتے، ایمبولینس آئی اور لاش کو اٹھا کر چل پڑی۔۔۔۔۔۔۔۔ سورج ڈوب گیا، اندھیرا ہوا، تو بچے اپنے اپنے ٹھکانے کی طرف چل پڑے، وہ دونوں بھی اپنے خیمے میں آئے، اس نے دیکھا اس کی ماں نہیں ہے، وہ خیمے سے باہر آیا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا، اس کی ماں کہیں نظر نہیں آئی، وہ اسے تلاش کرتا ہوا سڑک پر آیا، اس کے پیچھے وہ بھی آئی، دونوں ادھر دیکھنے لگے ، جدھر سے انھیں آنے کی امید تھی، جب نظر نہ آئی تو وہ آگے چلنے لگا، اس کے پیچھے وہ بھی چلتی رہی، وہ اگلے نکڑ سے پہلے واپس ہوگئے، چلتے چلتے اس کی آنکھیں بھر آئیں، اور خیمے تک آتے آتے، وہ سسکنے لگا، لڑکی بھی اسے روتا دیکھ کر رونے لگی، اس رات وہ دونوں روتے روتے سو گئے، صبح اس کی آنکھ کھلی تو وہ پہلے اپنی ماں کو دیکھا جدھر وہ سوتی تھی، وہ جگہ خالی پڑی تھی، پھر لڑکی کو دیکھا جو سو رہی تھی، اس کی آنکھیں بھیگنے لگیں، تو وہ باہر آگیا ۔۔ ۔ ۔۔۔ آسمان پر سورج ابر میں تھا، وہ آگے بڑھا، اور پل پر جاکر بیٹھ گیا، کچھ دیر دور دور تک ماں کو دیکھتارہا، پھر اپنی ٹانگوں پر سر رکھ کر رونے لگا، روتے روتے بھوک کا احساس ہوا تو خیمے کی طرف چل پڑا، اندر آیا تو لڑکی جاگ چکی تھی، لڑکی نے پوچھا ماں آئی، اس نے نفی میں سر ہلایا، دونوں نے جو پچھلے دنوں کا بچا ہوا کھانا تھا، اسے پیٹ میں ڈالا، اور خیمے کا پردہ گرا کر، نکل پڑے، دونوں بھیک مانگتے، اور ساتھ میں ماں کو تلاش کرتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دن گزرتے رہے، وہ اکثر اپنے ماں باپ کو یاد کرتا اور رو پڑتا ، دن سالوں میں بدلے تو دونوں سمجھ دار ہوگئے، اب اس نے بھیگ مانگنا چھوڑ دیا تھا،
ایک ہوٹل میں کام کرنے لگا تھا، وہ بچے جو بچپن میں ان دونوں کے ساتھ کھیلا کرتے تھے، وہ نشہ کرنے لگے تھے، ان کے ساتھ لڑکی بھی نشہ کرنے لگی تھی،
اسے ہوٹل سے کھانا اور پیسے مل جاتے تھے ، دونوں ساتھ کھاتے،وہ ان پیسوں سے کچھ پیسے لڑکی کو دیتا، لڑکی انھیں پیسوں سے کبھی افیم تو کبھی چرس خرید لیتی، دونوں اب بھی ساتھ سوتے تھے، اور جب جی چاہتا ایک دوسرے میں گتھم گتھا ہوجاتے، اِسی طرح وہ دو بچوں کا باپ بن گیا،
چھوٹا تقریباً پانچ سال کا تھا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کے بچوں کی ماں نشے میں دھت سڑک کنارے پڑی ہے، وہ دوڑتا ہوا آیا، اسے اٹھا کر خیمے کی طرف لے جانے لگا، تو ایک نشیڑی نے کہا، "اس نے خون کی الٹیاں بھی کی ہیں، ہسپتال لے جاؤ"
اس نے اس نشیڑی کو دیکھا، جسے وہ جانتا تھا،
وہ آگے بڑھا اور پھر، چار راستے کی طرف چلنے لگا، جہاں سے ٹیکسی آسانی سے مل سکتی تھی، جب وہ ہسپتال پہنچا تو ڈاکٹر نے بتایا، کہ وہ مر چکی ہے...............
لاش کو واپس لایا گیا۔
جب اس بات کا پتہ ہوٹل مالک کو ہوا تو وہ دوسرے کام کرنے والوں کے ساتھ وہاں آیا، اور انھیں لوگوں کے کہنے پر، ان جھگیوں اور نشیڑیوں کے خیمے سے یہ پہلی لاش تھی جسے اہتمام کے ساتھ، دفنا گیا تھا، بچے چھوٹے ہونے کے سبب اس کی ذمہ داری بڑھ گئی تھی،
وہ صبح جلدی اٹھ جاتا، اور بچوں کو کھلانے کے بعد کام کے لئے روانہ ہوجاتا، باپ کے آنے تک بڑا بھائی جو سات سال کا تھا، اسے ادھر ادھر لے کر پھرتا رہتا،
بچوں کی محبت نے ماں باپ اور اس لڑکی کی یادوں کو پھیکا کر دیا تھا،
بڑا بھائی نو سال کا ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک رات فوج کے الگ الگ دستوں نے ملک کے بڑے بڑے لیڈروں کو نظر بند کردیا تھا، صبح جب لوگوں کو فوجی بغاوت کا علم ہوا تو لوگ اپنے گھروں سے نکل کر، سڑکوں پر آ گئے ، دکانیں، کاروبار بند رہے، ملک کی راجدھانی نَعروں سے گونج اٹھی ، ملک کے کونے کونے میں فوجیوں کے خلاف نعرے لگنے لگے،
سڑک پر شور سن کر وہ بھی خیمے سے نکل آیا، کچھ دیر بھیڑ کا حصہ رہا،
پھر واپس خیمے کی طرف جانے لگا،
راستہ چلتے وقت اس کے کانوں میں ایک آواز آئی،
"یہ لڑائی بہت لمبی چلے گی "
وہ چلتا رہا اور بھی آوازیں اس کی کانوں تک آتی رہیں، وہ خیمے میں آکر ایک جگہ بیٹھ گیا ، بچے ایک دوسرے کے ساتھ کھیل رہے تھے ۔
دوپہر ہوتے ہوتے خبر آئی کہ راجدھانی میں فوجیوں کی گولیوں سے کئی لوگ مارے گئے ہیں، نوجوان غصے سے پولیس تھانوں کو آگ لگانے لگے، اور ایک ہجوم راجدھانی کی طرف نکل پڑا، فوجیوں نے ہوائی فائرنگ جاری رکھی، کبھی کبھی کوئی کسی گولی کی زد میں آجاتا، گولیوں سے مرنے والوں کے رشتے دار احباب فوج پر حملے کرتے، لڑائی بڑھتی جارہی تھی ۔۔۔۔۔
وہ اپنے خیمے میں بچوں کو چھوڑ کر ہوٹل تک جاتا، اور واپس آکر بچوں کے ساتھ وقت گزارنے لگتا،
دن ہفتے میں بدل گئے، وہ آج پھر ہوٹل کی طرف جا رہا تھا، تو راستے میں اسے ایک دوسرا شخص جو اسی ہوٹل میں کام کرتا تھا، مل گیا، اس نے بتایا کہ
آج رات اپنی فیملی کے ساتھ پڑوسی ملک کی طرف کونچ کرنے والا ہے،
باتوں باتوں میں اس نے بھی ساتھ چلنے کی خواہش ظاہر کی، اُس نے کہا، میں تمھیں ایجنٹ سے ملوا دوں گا،
شام کو ایجنٹ سے ملاقات کے بعد سارے معاملات طے ہو گئے، وہ ضروری سامان اکٹھا کرنے لگا، رات کو ایک خاص جگہ پر جانا تھا، جہاں سے اسے ایجنٹ کی رہنمائی میں سرحد پار کرنا تھا ۔۔۔۔ وہ اپنے بچوں کو لے کر وقت سے پہلے پہنچ گیا، وہ شخص بھی اپنے پریوار کے ساتھ آیا،
وہ ایجنٹ کی رہنمائی میں سمندر کے کنارے پہنچے، وہاں اور بھی لوگ جمع تھے، کشتی تیار کھڑی تھی،
جس نے ایجنٹ سے ملوایا تھا، اسے اور اس کے پریوار کو دوسری کشتی میں بٹھایا گیا ، اور یہ اپنے بچوں کے ساتھ الگ........... کشتی پانی پر تیرنے لگی،
وہ کشتی آگے تھی، اور دورانِ مسافت اور آگے ہوگئی ۔۔۔۔۔کچھ دنوں بعد جب پہلی کشتی دوسرے ملک کے ساحل پر ٹھہری، تو اس ملک کی فوج کے جوان جو وہاں موجود تھے، انھیں پکڑنے لگے ، دوسری کشتی جو ساحل سے دور تھی، اس کے ملاح نے کشتی کا رخ موڑ لیا، اور آگے جہاں ایک طرف خار دار جھاڑیاں تھیں، اور اس سے تھوا آگے پہاڑی سلسلہ شروع ہو جا تا تھا۔۔۔۔۔
کشتی جھاڑیوں کے قریب روک دی گئی، ڈرے ہوئے مسافر جلدی جلدی کشتی سے اترے، اور شہر کی طرف چل پڑے، اس نے بھی اپنے بچوں کو اتارا، تھوڑی دور، ان کے ساتھ چلا، پھر سوچنے لگا، اتنے لوگوں کے ساتھ چلنے سے خطرہ ہے، اور مخالف سمت چلنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔***
سوچتے سوچتے اب اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں، ہلکا ہلکا اجالا ہو نے لگا تھا، سرد ہوا کے جھونکے کواڑ سے آرہے تھے، اس نے کواڑ بند کِیا اور وہِیں، لیٹ گیا۔
دن گزر گیا، رات ہوئی تو اندھیرے میں وہ اپنا رزق تلاش کرنے کے لئے شہر کے کوڑا دان کی طرف چل پڑا،
بچے ستارے گننے میں مصروف ہوگئے ــ
پولیس کی گشتی گاڑیوں کے سائرن کی آواز بار بار اس کی سماعت سے ٹکراتی اور وہ اس طرف دیکھنے لگتا،
وہ ایک کوڑا دان میں جھکا ہوا تھا، تبھی ایک بڑی گاڑی سنسناتی ہوئی آئی، وہ چونک کر دیکھنے لگا، وہ رفتار سے گزر گئی، اس نے اطمینان کا سانس لیا، وہ دوسرے کوڑا دان کی طرف بڑھا، جس سمت بڑی گاڑی گئی تھی، ادھر سے ایک چھوٹی وین سائرن بجاتی ہوئی،اسپیڈ سے آئی، اور اس کے بہت قریب رک گئی، وہ سوچنے لگا کہ بھاگ جائے، لیکن اسے اپنے پاؤں بھاری معلوم ہونے لگے، دو پولیس اہلکار گاڑی سے اتر آئے، وہ اپنی جگہ پر کھڑا کانپنے لگا،
ایک پولیس والے نے تھوڑی دور سے ہی اس سے کچھ سوال کئے، وہ اس ملک کی زبان نہیں جانتا تھا، بس کانپتا رہا،
دوسرے وردی والے نے اس پر ریوالور تان دی، تو پہلا والا ہتھکڑیاں لے کر اس کی طرف بڑھا، جن ستاروں کو اس کے بچے گننے رہے تھے وہی ستارے، اس کی بے بسی کو دیکھ کر مغموم ہونے لگے تھے ۔۔۔۔۔۔
بچے آخری پہر تک ستارے گنتے رہے،
بڑے بھائی نے چھوٹے سے پوچھا، "آج پھر تم نے غلطی کی نا" چھوٹے نے جلدی سے، کہا" نہیں بھائی آج میں نے پہلی بار ستارے صحیح سے گنے ہیں" وہ اسے دیکھا، اور بولا، " صبح ہونے کو ہے اور بابا نہیں آئے" چھوٹا کچھ نہ بولا، دونوں اٹھے اور چادروں کو سمیٹ کر جھاڑیوں کی سمت چل پڑے، دو دنوں تک جب ان کا باپ نہیں آیا، تو بڑا بھائی، اندھیرا گہرا ہونے کے بعد کھانے کی تلاش میں شہر کے کوڑا دان کی طرف چل پڑا، اور چھوٹا ستارے گننے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
____:::::::::::::
غزل
سر سے پا تک دیکھنے میں وادئِ کشمیر ہے
حسن اس کا در حقیقت عشق کی تشہیر ہے
جان جاناں تیری چاہت کی یہ اک تاثیر ہے
گفتگو کرتا ہوں جس سے وہ تری تصویر ہے
آنکھ اس کی قافیہ ہے اور چہرہ ہے ردیف
اس کو مانا ہے غزل اور وہ مری تحریر ہے
نیل کی پریوں کے جیسا حسن اور اس کا شباب
وہ سراپا پھول ہے وہ حسن کی جاگیر ہے
گفتگو سے دل کو کاٹے اور جگر ٹکڑے کرے
وہ ادائے دلبری میں ریشمی شمشیر ہے
خواب میں دیکھی تھی میں نے خوبصورت کہکشاں
کہکشاں کی مثل ہے وہ خواب کی تعبیر ہے
بن گیا ہوں اس کا رانجھا میں خیالوں میں مگر
جو رقیبِ دل بنا ہے وہ اسی کی ہیر ہے
جس کی چاہت کی بدولت شاعری کا فن ملا
وہ جدا تجھ سے عطائی یہ تری تقدیر ہے
✍🏻 *عمران عطائی ممبئی*
9076645008
ایک کم عمر حسیں دوشیزہ
جس کے چہرے پہ حیاء تھی مستور
جو کہ معصوم کلی جیسی تھی
جس کو بابا نے سکھایا چلنا
جس کو بہنوں نے سکھایا جینا
جو کہ پہلو میں دبی رہتی تھی
ماں کے آنچل میں چھپی رہتی تھی
جس کے چہرے پہ تبسم نایاب
جس کی آنکھوں میں تھے حسین خواب
جو کہ غیرت تھی اپنے بھائی کی
جو کہ عزت تھی اپنے والد کی
ایک دن کھیلتی ہوئی نکلی
ایک مندر کے پاس جا پہنچی
چند درندوں نے اس کو بہلایا
اور پھر بت کدے میں جا پہنچے
شرم آتی ہے مجھ کو کہتے ہوئے
خون روتا ہوں اشک بہتے ہیں
لوٹ کر اس کی عزتِ نایاب
اس کی عصمت کو تار تار کیا
اور کتوں کو کرکے مات وہ لوگ
سر پہ پتھر اٹھا کے دے مارا
وہ کوئی نسلِ کلب تھے جیسے
جیسے خنزیر ہو کوئی ناپاک
گائے ماتا ہے ان کی کہنے کو
لیکن انساں کی کوئی قدر نہیں
گائے کٹتی ہے شور کرتے ہیں
کوئی انساں کٹے تو شور نہیں
کوئی انسانیت نہیں باقی
ایسے اہلِ ہوس بھی بستے ہیں
یاد رکھنا اے نوجواں مسلم
تونے آواز گر اٹھائی نہیں
آگ یہ گھر ترا جلائے گی
تو جو مظلوم کا نہ دے گا ساتھ
یہ بلا تیرے گھر بھی آئے گی
اب تجھے ان سے خوب لڑنا ہے
جو ترے گھر کو خاک کرتے ہیں
تیری بہنوں ڈالتے ہیں نگاہ
تیری ماؤں پہ وار کرتے ہیں
مجھ کو غمگین کر رہی تھی یہ بات
اس لئے کہہ گیا کہ ہوش میں آ
اٹھ کہ میداں بلارہا رہا ہے تجھے
کر دفاع اپنی قوم و ملت کا
پھر سیاست کو اپنی لونڈی کر
پھر حکومت کو اپنا داس بنا
پھر خلافت تجھے بلاتی ہے
پھر نئی اک نئی بساط بچھا
یہ زمین صرف تیرے رب کی ہے
اس پہ اللہ کا نظام چلا
میں نے کہنا تھا کہہ دیا اے عمر
مان لیتا ہے خیر پائے گا
اور پھر میرے خوابوں سا
اک نیا دور پھر سے آئے گا
🖊مجیب عمر انصاری