شکیل رشید ( ایڈیٹر، ممبئی اردو نیوز)
کب تک کسی عیب کو دور کرنے کے لیے حادثوں کا انتظار کیا جاتا رہے گا ؟ اگر سنیچر یکم جولائی کو ۷۰۱ کلو میڑ طویل ممبئی - ناگپور سمرودھی مہامارگ ایکسپریس وے پر ، بلڈھانہ کے قریب ایک مسافر بس کے جلنے اور ۲۶ افراد کے بھسم ہوجانے کا سانحہ نہ پیش آیا ہوتا تو لوگ ہنوز اس خطرناک ایکسپریس وے کے عیوب سے آنکھیں موندے رہتے ، اور مرتے رہتے ۔ مر تو اب بھی رہے ہیں کیونکہ حکمرانوں کی آنکھیں کھلی نہیں ہیں ، انہوں نے مرنے والوں کے لواحقین کے لیے معاوضے کا اعلان کر کے گویا اپنا فرض ادا کر دیا ہے ۔ ویسےبلڈھانہ سانحہ کے بعد ایکسپریس وے کے سلسلے میں یہ اعلان کیا تو گیا ہے کہ اس پر حفاظتی نظام کو بہتر بنایا جائے گا اور گاڑیاں چلانے والوں کو جو دشواریاں پیش آ رہی ہیں ، انہیں دور کیا جائے گا ، لیکن اس اعلان پر عمل کب ہوگا اس کا کسی کو کوئی اندازہ نہیں ہے ۔ ریاستی حکومت پہلے بھی کہہ رہی تھی اور بلڈھانہ سانحہ کے بعد بھی کہا ہے کہ حادثے جو ہوئے ہیں ان میں سے زیادہ تر یا تو انسانی غلطی کا نتیجہ ہیں یا گاڑیوں کی خامیاں حادثات کا سبب بنی ہیں ۔ ایکسپریس وے پر سڑک حادثے میں ۲۲ ، دسمبر ۲۰۲۲ء سے لے کر ۵ ، جولائی تک مرنے والوں کی تعداد ۹۲ ہو چکی ہے ، اِن میں وہ ۲۶ مہلوکین بھی شامل ہیں جن کی ، سنیچر یکم جولائی کو ، ناگپور سے پونہ جانے والی بس کے ڈیوائیڈر سے ٹکرانے کے بعد جَل کر موت ہو گئی تھی ۔ ایک دن بعد ، صابو صدیق انجنیرینگ کالج کے ایچ او ڈی جاوید اختر ، ان کی اہلیہ شمیم بیگم اور جواں سال بیٹے ارقم کے نام بھی مرنے والوں میں شامل ہو گئے ہیں ، ان کی کار بھی اسی ایکسپریس وے پر ڈیوائیڈر سے ٹکرائی تھی ، اس کے ایک دن بعد ایک حادثہ مزید ہوا ، اور ایک جان گئی ۔ اس ایکسپریس وے پر اب تک ایک رپورٹ کے مطابق ۴۱ المناک حادثے ہو چکے ہیں ، ویسے غیر سرکاری طور پر حادثات کی تعداد کہیں زیادہ بتائی جا رہی ہے ، ادھو ٹھاکرے مرنے والوں کی تعداد تین سو بتا رہے ہیں ۔ زیادہ تر حادثے ڈیوائیڈر سے گاڑیوں کے ٹکرانے کے نتیجے میں گھٹے ہیں ، گویا کہ ڈیوائیڈر حادثات کا بنیادی سبب ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سمرودھی ایکسپریس وے پر حادثات کی وجوہ پر فوری طور پر توجہ نہیں دی گئی ، اور جو بھی خامیاں ہیں انہیں دور نہیں کیا گیا اور حفاظتی نظام کو بہتر نہیں کیا گیا ، تو حادثات کی تعداد بڑھے گی ، اور مرنے والوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوگا ۔ حالانکہ اس ایکسپریس وے پر مسلسل حادثات کے سبب پہلے ہی سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا تھا ، اور عام لوگوں کے ساتھ اپوزیشن کے سیاست دانوں نے بھی تنقید اور نکتہ چینی کر کے حکومت کی توجہ اس ایکسپریس وے کے خطرات کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی تھی ، لیکن ایک تو یہ آوازیں دبی دبی تھیں ، دوسرے حکومت اِن آوازوں کو ایک کان سے سُن کر دوسرے کان سے اڑاتی رہی ۔ یہ ایکسپریس وے اپنے افتتاح سے ہی تنازعات میں گھرا رہا ہے ، اس کی تعمیر پر ۵۵ ہزار کروڑ روپیے کی لاگت آئی ہے ، اور اس کو بنائے جانے کے دوران تقریباً ۳۸ ہزار درختوں کو کاٹا گیا ہے ، اسے ماحولیات کے حوالے سے انتہائی نقصان دہ بتایا گیا ہے ۔ ایکسپریس وے کی تعمیر کے دوران چھ اضلاع کے کسانوں نے اراضیوں کی تحویل کے خلاف زبردست احتجاج کیا تھا ، لیکن دیویندر فڈنویس کی اس وقت کی حکومت نے کسانوں کے احتجاج پر کان نہیں دھرے تھے ۔ ایک الزام یہ ہے کہ ایکسپریس وے کی مکمل تکمیل کا انتظار کیے بغیر اس کا افتتاح کر دیا گیا ، لہذا حفاظتی نظام پر توجہ مرکوز نہیں ہو پائی ۔ اس ایکسپریس وے کی لاگت بھی نکتہ چینی اور تنقید کی زد میں رہی ہے ۔ لیکن سب سے بڑا مسٔلہ اس پر ہونے والے حادثات ہیں ۔ یہ موت کا ایکسپریس وے بن گیا ہے ۔ بلڈھانہ سانحہ کے بعد سابق وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے اور این سی پی سربراہ شردپوار نے شندے - فڈنویس حکومت پر لاپروائی کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ حکومت ایکسپریس وے کے ناقص حفاظتی نظام کو نظرانداز کر رہی ہے ۔ وسویسوریا نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ( وی این آئی ٹی ) کے پروفیسروں اور طالب علموں پر مشتمل ایک ٹیم نے ایکسپریس وے پر حادثات کی وجوہ جاننے کے لیے ایک سروے کیا تھا ، جس میں چار بنیادی باتیں سامنے آئی تھیں ؛ ایک ’ انسانی غلطیاں اور ٹائروں کا پھٹنا ‘ ، دوسری ’ لینوں کو تبدیل کرنا ‘ یعنی ایک لین سے دوسری اور تیسری لین پر جانا ، تیسری ’ ایک ہی نوعیت کی ڈرائیونگ ‘ ، اور چوتھی ’ جانوروں کی کراسنگ ‘ ۔ سروے ٹیم کے مطابق سیدھی سٹرک پر تیز رفتاری سے گاڑیاں چلتی ہیں اور ٹائر گرم ہوکر پھول جاتے ہیں ، اور اس کی وجہ سے پھٹ جاتے ہیں اور ڈیوائیڈر سے سے گاڑیاں ٹکرا جاتی ہیں ۔ چونکہ سڑک پر ڈرائیونگ ایک ہی نوعیت سے کرنا ہوتی ہے اس لیے ڈرائیوروں پر غنودگی طاری ہو جاتی ہے اور حادثے ہو جاتے ہیں ۔ جانوروں کی کراسنگ بھی حادثات کا سبب بنتی ہے ۔ سروے ٹیم نے حفاظتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے کئی اہم مشورے دیے ہیں جیسے یہ کہ جگہ جگہ ٹائروں کو ٹھنڈا کرنے کا انتظام کیا جائے اور جانوروں کو سڑک کراسنگ سے روکنے کے لیے کوئی نظام بنایا جائے ۔ اس بات پر بھی سروے ٹیم نے توجہ دلائی کہ۱۲۰ کی رفتار بھی حادثات کا سبب بن رہی ہے ، اتنی رفتار سے چلنے والی گاڑیوں کو اچانک گاڑیاں روکنے کا موقعہ نہیں مل پاتا اور حادثے ہو جاتے ہیں ۔ ٹیم نے سروے کے دوران مزید کئی نکات پر توجہ دی مثلاً کیا سڑکوں کے سائن بورڈ نظر نہیں آتے ؟ کیا سڑک ڈرائیوروں کو مکمل طور پر دکھائی نہیں دیتی ؟ وغیرہ ۔ یہ ایکسپریس وے فوری طور پر حکومت اور ماہرین کی توجہ چاہتی ہے تاکہ اسے ایک محفوظ ایکسپریس وے میں تبدیل کیا جا سکے ۔ حفاظتی نظام کو بہتر کیا جائے ، رفتار کی حد کم کی جائے اور ٹائروں کو ٹھنڈا کرنے کا انتظام کیا جائے ، تاکہ انسانی جانیں بچ سکیں ۔