ہندو راشٹر کے نام پر نام نہاد سیکولروں اور فرقہ پرستوں میں ملی جوڑ ؟؟؟ ۔۔۔ یا پھر ED کا ڈر !!!؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اشتیاق احمد 42
(اُدھو ٹھاکرے گروپ) اور (شرد پوار گروپ) کو مظلوم سمجھنا بے وقوفی ہے
مالیگاٶں (3جولاٸی 2023) ۔ بھارت کی آزادی کے بعد ملک کی اقلیتوں خصوصاََ مسلمانوں نے سیکولر پارٹیوں کا نہ صرف ساتھ دیا بلکہ گذشتہ چند دہاٸیٶں کے سیاسی حالات کا گہراٸی سے جاٸزہ لیا جاٸے تو ان نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو زندہ بھی مسلمانوں نے ہی رکھا ۔ بدلے میں ہزاروں فسادات ، ہزاروں بم دھماکے ، لاکھوں جانوں کا زیاں ، عبادت گاہوں کی شہادت ، سبسڈیز کی خیرات ، پارٹی میں شامل ہونے کے عوض تعمیر کے نام پر چند سکوں کی بھیک ، اپنے دور اقتدار میں شریعت میں مداخلت کے قوانین کو معلق رکھنا سمیت انگنت دھوکے مسلمانوں کو ملے ۔۔۔۔۔ بابری مسجد کی شہادت پر شیوسینا کا اظہار فخر ہو ، 6 دسمبر کو سوریہ دیوَس منانے کا اعلان ہو یا پھر راشٹروادی کانگریس کا اینٹ کے جواب میں گولی کا اعلان ہو شہر کے غیرت مند مسلمان ان باتوں کو کبھی نہیں بھول سکتے ۔۔۔۔۔۔۔۔ غیور قوم کے غیرت مند عوام یہ بھی نہیں بھول سکتے کہ ڈاٸمنڈ مل کو نذر آتش کرکے مسلمانوں کی لاش پر کھڑے ہوکر اپنا سیاسی قد بلند کیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اپنے ضمیر کو لوری گاکر سلاچکے ہوں وہ بھول جاٸیں تو بھول جاٸیں ہم تو نہیں بھولیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جھوٹے سیکولرازم کے دھوکے میں مبتلا ان نام نہاد سیکولر پارٹیوں میں شامل مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیۓ کہ قوم کے مفادات ، قوم کی عزت و ناموس کا سودا کرکے اپنا پرسنٹ محفوظ کرکے چند تعمیرات کرنے کو کمال نہیں بلکہ اسے دلالی کرنا کہا جاتا ہے
آتے ہیں اپنے اصل موضوع مہاراشٹر کی سیاست پر ورنہ بات نکلے گی تو قرب سے جوار تک جاۓ گی
چند روز قبل 27 جون کو مدھیہ پریش میں ہمارے بھارت کے پردھان منتری نریندر مودی جی نے دوران تقریر راشٹروادی کانگریس پر 70 ہزار کروڑ روپیٶں کے گھوٹالے کی بات کہی جس میں مہاراشٹر کو آپریٹیو بینک گھوٹالہ ، مہاراشٹر اسٹیٹ سینچاٸی گھوٹالہ ، غیر قانونی کھداٸی گھوٹالہ اور گھوٹالوں کی ایک لمبی لسٹ کا حوالہ دیا گیا ۔ 27 جون کو وزیر اعظم کے ذریعے مہاراشٹر راشٹروادی کانگریس کے گھوٹالوں گنوانے کے محض چند روز بعد وہی راشٹروادی کانگریس پارٹی شندے ، فڑنویس سرکار میں شامل ہوجاتی ہے ۔ اور راشٹروادی کانگریس پارٹی کے وہ افراد جن کے خلاف ED کے تحت معاملات درج ہیں وہ حکومت میں منتری بن جاتے ہیں ۔ راشٹروادی کے قومی صدر شرد پوار کے بھتیجے اجیت پوار ریاست کے ناٸب وزیر اعلی بن جاتے ہیں اور شردپوار کو کچھ علم نہیں !!؟؟؟ اسکو ED کا ڈر اور اندرونی ملی بھگت نہیں کہا جاۓ گا تو اور کیا کہا جاٸے گا ؟ کیونکہ یہ تمام اچانک ہونے والے عوامل نہیں ۔۔۔۔۔ اور جو افراد ان واقعات کو اچانک سے تشبیہ دے رہے ہیں یاتو وہ دھوکے میں ہیں یا دوسروں کو دھوکہ دے رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ”ویسے یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مالیگاٶں میں بھی غیر قانونی کھداٸی کی گونج سنی گٸی تھی اور اس میں بھی شہر راشٹروادی کانگریس پارٹی کے عہدے داروں کے رشتہ داروں کے ناموں کی گونج سناٸی دی تھی“ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک سال قبل بھی شیوسینا کے اکثر افراد ہندوتوا کے فروغ نام پر بی جے پی کے مل کر مہاراشٹر کے اقتدار پر قابض ہوگۓ تھے ۔۔۔۔ ان میں ایک مسلم ایم ایل اے عبدالستار شیخ بھی شامل تھے ۔۔۔۔۔ اب ہندوتوا کے فروغ کے لیۓ ایک مسلم ایم ایل اے کا کیا کام ۔۔۔۔ ؟؟ جانکار کہتے ہیں کہ اُن لوگوں پر بھی ED کا ہی دباٶ تھا ، اور نام دیا گیا تھا ہندوتوا کا ۔ ایک لمبی قانونی کارواٸی کے بعد شیوسینا کا نام اور پارٹی کا نشان ہندوتوا کے نام پر بی جے پی سے مل جانے والوں کو مل جاتا ہے ۔۔۔۔ اور اب اجیت پوار بھی کہہ رہیں کہ اگلا اسمبلی الیکشن گھڑی کے نشان پر ہی لڑا جاۓ گا وہ بھی بی جےپی کے ساتھ مل کر !!!!!! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واہ کیا سین ہے ۔
اب ہم شخصیت پرستی ، چمچہ گری کے اثرات کو اپنے ذہنوں سے زاٸل کرکے عقل و شعور کا استعمال کرکے سیاست کی کینواس کو وسیع کرتے ہوٸے ملکی سطح پر اور مختلف صوبوں میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں اور اقتدار کی منتقلی (کرناٹک کے تازہ واقعے کو چھوڑ کر) کا سنجیدگی سے جاٸزہ لیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ عوام کسی بھی پارٹی کو ووٹ دے ، حکومت بی جے پی کی ہی بن جانی ہے ۔۔۔۔ نام نہاد سیکولر ازم کے نام پر عوام کی ووٹوں سے منتخب نماٸندے کب فرقہ پرستوں سے ساز باز کرکے انکی گود میں بیٹھ جاٸیں کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔۔۔۔۔ ملک کی اقلیتیں خصوصاََ مسلمان بھارت میں سیکولرازم کی بقا کی خاطر ان نام نہاد پارٹیوں کا ساتھ دیتے آٸیں ہیں اور دے رہیں ہیں ۔ لیکن آخر میں ہوتا کیا ہے ہم اور آپ اسے بخوبی دیکھ سکتے ہیں ۔ اور اپنے آپ کو ٹھگا ہوا محسوس کرکے کف افسوس ملتے رہ جاتے ہیں ۔
ایک اندازے کے مطابق بھارت کے سیاسی حالات و واقعات اس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ بی جے پی کا ملک کو ہندوراشٹر بنانے ، یکساں سول کوڈ نافذ کرنے اور مسلمانوں کو ہر شعبے میں پچھاڑنے کے لیۓ باقاٸدہ ایک منصوبہ بندی سے کام کیا جارہا ہے ۔ اور اس کے لیۓ بوقوت ضرورت فرقہ پرست اور نام نہاد پارٹیاں بلا جھجھک متحد ہوجاتی ہیں ۔ اور یہ کام سیاسی طاقت کے ذریعے ہی کیا جارہا ہے ۔ سیاسی طاقت و قوت کے بل پر بڑی چالاکی سے سیاسی فاٸدہ اٹھانے کے لیۓ مساٸل پر مذہب کا رنگ چڑھا دیا جارہا ہے ۔ جس کے فریب میں ہمارے بھولے بھالے ہندو بھاٸی بھی بڑی آسانی سے آجاتے ہیں ۔۔۔۔۔ اور ہماری مذہبی تنظیمیں اسے مذہبی مساٸل سمجھ کر ایک میمورنڈم دینے یا چند بیانات دے کر اپنے آپ کو بری الذمہ گردانتے ہیں ۔۔۔۔ جبکہ آج ملک میں مسلمانوں کے خلاف جو بھی سازشیں ہو رہی ہیں ، مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف جو بھی اقدامات کیۓ جارہے ہیں وہ خالص سیاسی ہیں ، سیاسی ہیں خالص سیاسی ہیں انکو مذہبی سمجھنا پرلے درجے کی بیوقوفی ہے اور انکا حل بھی ہمیں متحد ہوکر سیاسی طاقت سے ہی دینا ہوگا ، یوں مختلف نام نہاد سیکولر سیاسی جاعتوں میں منقسم ہو کر اپنے آپ کو بے وقعت بناکر رکھنے کا وقت ختم ہوچکا ۔ ملک کا مزاج تبدیل ہو رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مسلم مخالف ایشوز پر انہی تمام سیاسی جماعتیں چپی سادھ لیتی ہیں جن پارٹیوں کو سیکولر سمجھ کر آپ شامل ہو یہ سوچ کر کہ یہ ہمارے خلاف ہورہے واقعات پر اور ہمارے خلاف بن رہے قوانین پر احتجاج کریں گی ، کوٸی نہیں بولے گا ۔ آپ کتنا ہی ان نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی بقا کا سبب بنے رہو ان کو آپ کے ووٹوں سے مطلب ہے ۔ آپ کو تعمیر و ترقی کی دہاٸی دے کر آپ کا ساتھ اور آپکی ووٹیں حاصل کرتے رہیں گے ۔ بدلے میں آپکو فنڈ کی خیرات باٹتے رہیں گے ۔ اپنے آپ کو سب سے بڑا سیکولر بتاکر آپ کو مختلف خانوں میں تقسیم کیۓ رہیں گے ، لیکن آپ کو ایک قوم ہونے کا احساس نہیں ہونے دیں گے ۔ تاکہ آپ بحیثیت ایک قوم کے فرد سوچنے سمجھنے اور قوم کا درد سمجھنے سے محروم رہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ ان کا جنم دن مناتے رہیں وہ آپکو افطار کی دعوت دیتے رہیں گے ۔ جہاں آپ نے خود کو قوم کا ایک فرد سمجھنے کی کوشش کی وہ آپکو اپنے درمیان ایک منٹ بھی برداشت نہیں کریں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دیر نہیں ہوٸی ۔۔۔۔۔ ابھی بھی وقت ہے بھارت کی سیاست میں اپنی ایک مضبوط آواز بناٸیۓ ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں پھر کہہ رہا ہوں کہ وطن عزیز بھارت میں اقلیتوں خصوصاََ مسلمانوں کے خلاف جاری مساٸل سیاسی ہیں نہ کہ مذہبی ، اس لیۓ انکا مقابلہ بھی سیاسی جدوجہد سے کیا جانا چاہیۓ ۔۔۔۔۔۔۔ اور اسکے لیۓ ہماری ایک مضبوط سیاسی طاقت کا ہونا نہایت ضروری ہے ۔
آج ملک میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیۓ سب سے مضبوط ، بیباک جامع و مدلل آواز کل ھند مجلس اتحادالمسلمین کے قومی صدر بیرسٹر اسدالدین اویسی صاحب کی ہے لہذا اپنی انا ، خواہشوں ، ذاتی خواہشیں و مفادات اور ضرورت پڑے تو شہر کے مفاد کو بھی قوم کے مفادات کے لیۓ قربان کریں اور اسدالدین اویسی صاحب کی آواز میں آواز ملا کر انکا ساتھ صرف قوم کے مفادات کے تحفظ اور قوم کے وقار کے لیۓ ہر قم کے لالچ سے اوپر اٹھ کر خلوص دل سے دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر اسدالدین اویسی سے بہتر کوٸی آپکو نظر آتا ہے تو بلاجھجھک انکو اپنا قاٸد مان لیں
یہ ملک ہم سب کا ہے ، اس ملک کا آٸین سبھی مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کی آزادی دیتا ہے ۔ اس ملک کا آٸین سبھی ثقافت کا احترام کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور تمام اقلیتوں کے سبھی حقوق کا تحفظ ہی ہمارے اس پیارے بھارت کی بقا و ترقی کا ضامن ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اشتیاق احمد 42
9271717142 8208220882
افسانہ برائے "عالمی ایونٹ۔ اکیسویں صدی کے افسانے"
افسانہ نمبر75
مرگِ مفاجات
افضال انصاری
مالیگاؤں، مہاراشٹر
انڈیا
بینر ( محمد ابصار )
"ڈاکٹر صاب میری بچی ٹھیک تو ہوجائے گی نا؟؟" ڈاکٹر جمشید مجاور نے آواز سن کر سر اٹھایا___وہ ایک ادھیڑ عمر کا، زرد چہرے اور دبلے پتلے بدن والا شخص تھا، کچھ چہرے ایسے ہوتے ہیں جن پر زندگی اپنی سختیوں اور سنگینیوں کے انمٹ نقوش چھوڑ دیتی ہے__ اور کچھ چہرے کیوں؟__اکثر چہرے تو ایسے ہی ہوتے ہیں__یہ وہ چہرے ہوتے ہیں جو اپنی عمر سے دگنی رفتار میں آگے کی جانب بھاگتے ہیں___یہ چہرہ بھی انہیں چہروں میں سے ایک تھا____اس شخص کے چہرے پر سوال، یاس، امید، حسرت ساری چیزیں یکجا نظر آ رہی تھیں___ڈاکٹر جمشید مجاور نے مسکراتے ہوئے کہا ارے بھائی آپ بیٹھیں تو پہلے ، ہاں اب مجھے بتائیں کہ آپ کی بچی کو ہوا کیا ہے؟؟
وہ شخص سکڑا سمٹا ڈاکٹر کے سامنے والی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہنے لگا "ڈاکٹر صاب دو ہفتوں سے میری بچی پیٹ کے شدید درد سے پریشان ہے__نا وہ کھا پاتی ہے__اور نا ہی رات میں سکون سے سو پاتی ہے__دو ہفتوں میں ہی اس کا وزن آدھا ہوگیا ہے__پڑوس کے حکیم صاب سے روزانہ دوائی لا کر کھلا رہا ہوں مگر تکلیف بڑھتی ہی جا رہی ہے___ڈاکٹر جمشید مجاور اس شخص کی باتیں سنتے ہوئے بچی کی طرف متوجہ ہوئے__ بچی کی عمر بمشکل گیارہ، بارہ برس رہی ہوگی__اس بچی کا چہرہ اتنا پیارا، خوبصورت اور معصوم تھا کہ ڈاکٹر مجاور کو بے ساختہ اس بچی پر پیار آگیا___اور وہ تھی بھی سلیقہ مند، ایسے گھرانوں کی بچیوں کو مائیں سلیقے کے سوا اور دے بھی کیا سکتی ہیں___سادہ سا لباس___بالوں میں تیل لگا کر چوٹی پڑی ہوئی__کانوں میں جھمکے جو اسے اور پیارا بنا رہے تھے____بیٹا آپ اس کاؤچ پر لیٹ جائیں ڈاکٹر مجاور نے بچی سے کہا___بچی ایک ہلکی سی کراہ کے ساتھ اٹھی اور کاؤچ پر لیٹ گئ_____ڈاکٹر جمشید مجاور نے بچی کی جانچ کرتے ہوئے پوچھا،، بیٹا آپ کا نام کیا ہے___بچی نے آہستہ سی آواز میں کہا "بانو"،
سچ ہی تو ہے غریب بچوں کے نام بھی عموما غریب ہی ہوتے ہیں، ڈاکٹر مجاور جانچ کرتے ہوئے سوچنے لگے___بیٹے بانو اب آپ نیچے اتر کر کرسی پر بیٹھ سکتی ہیں__بانو آہستہ سے نیچے اتری اور کرسی پر بیٹھ گئی____ہاں بھائی بچی کی جانچ تو میں نے کر لی ہے اور قریب قریب مرض بھی سمجھ میں آ گیا ہے__ لیکن پھر بھی ہمیں کچھ ضروری ٹیسٹ کروانے ہوں گے وہ میں آپ کو لکھ کر دیتا ہوں کل آپ آتے وقت سارے ٹیسٹ کرواتے ہوئے آئیں____لیکن ڈاکٹر صاب میری بچی کو ہوا کیا ہے؟__یہ ٹھیک تو ہو جائے گی نا؟__ اس شخص پھر وہی سوال کیا جو وہ پہلے پوچھ چکا تھا___ارے ہماری گڑیا رانی بالکل ٹھیک ہو جائے گی، بس ایک چھوٹا سا آپریشن کرنا ہوگا اور بیماری ختم سمجھئیے __ڈاکٹر مجاور نے رسان سے سمجھایا___آپ بے فکر ہو کر جائیں کل آپ یہ سارے ٹیسٹ کروا لیں اور بچی کو اسپتال میں داخل کر دیں___وہ شخص اٹھا اور سلام کرتے ہوئے بچی کو لے کر چلا گیا____دوسرے روز وہ شخص پھر ڈاکٹر مجاور کے سامنے بیٹھا ہوا تھا__اس نے ساری رپورٹس ڈاکٹر مجاور کے ٹیبل پر رکھ دیں ___ڈاکٹر مجاور نے ساری رپورٹس کو بغور دیکھنے کے بعد اپنے اسسٹنٹ کو بلایا اور کچھ ہدایات دیں___پھر اس شخص کی طرف پلٹے اور کہا آج رات میں آپ کی بچی کا آدھے گھنٹے کا آپریشن ہوگا، دو ہفتوں میں بچی مکمل صحتیاب ہو جائے گی___بانو کا کامیاب آپریشن ہوا____دسویں دن جب بچی کو ڈسچارج کرنا تھا____وہ دونوں پھر ڈاکٹر مجاور کے کیبن میں موجود تھے___ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے بانو سے سوال کیا بیٹے اب آپ کو کیسا لگ رہا ہے؟ بانو نے شرماتے ہوئے کہا اب تکلیف محسوس نہیں ہو رہی___ڈاکٹر جمشید مجاور کی نظریں بانو کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں__ انھیں بانو کا چہرہ آج کچھ ادھورا ادھورا سا لگ رہا تھا___کیا کمی تھی وہ سوچنے لگے ___کچھ تو کمی تھی__ جو ڈاکٹر مجاور کو کھٹک رہی تھی____اچانک ڈاکٹر مجاور کے ذہن میں جھماکا ہوا___اور ان کی نگاہیں بانو کے کان کی طرف گئیں___وہاں وہ جھمکے نہیں تھے جو انھوں نے پہلے روز دیکھے تھے__اور ٹیبل پر اسپتال کا بل اور بل کی ساری رقم رکھی ہوئی تھی___زندگی میں پہلی بار ڈاکٹر جمشید مجاور کو محسوس ہوا ٹیبل پر روپئے نہیں کسی نے بچھو لا کر رکھ دئیے ہیں...
_________غزل
مجھے ہے بہت اپنا بچپن عزیز
جہاں کھیلتا تھا وہ آنگن عزیز
اگاتا ہوں میں اس میں گل نت نئے
مجھے دل کا میرے ہے گلشن عزیز
اسے زیوروں سے سجاتا ہوں میں
امیدوں کی ہے مجھ کو دلہن عزیز
کبھی اس کو خالی میں رکھتا نہیں
مجھے آرزو کا ہے برتن عزیز
میں خوشبو کا رسیا بہت ہوں کمال
میں رکھتا ہوں دنیا میں چندن عزیز
مصطفٰے کمال حبیبی
انڈیا مالیگاؤں
ایک غزل احبابِ گراں قدر کی اعلیٰ بصارتوں کے حوالے
اس درد کا کسی سے بھی چارہ نہ ہو سکا
ہم اس کے ہو گئے جو ہمارا نہ ہو سکا
دنیا نے معتبر بھی پکارا ہمیں تو کیا
ہم پر جو اعتبار تمہارا نہ ہوسکا
پتھرا گئی ہے آنکھ جسے دیکھتے ہوئے
دل کے نصیب میں وہ ستارہ نہ ہو سکا
رشتہ تھا یا معاہدہ کوئی ہمارے بیچ
ٹوٹا تو پھر بحال دوبارہ نہ ہو سکا
سینے میں اس کے دل نہیں پتھر ہے دوستو
جس کی پلک پہ اشک ستارہ نہ ہو سکا
میں جانتا ہوں کوئی بھی حق میں نہیں مرے
پھر بھی تو دوستوں سے کنارا نہ ہو سکا
میں کھل کے خرچ کرنے کا عادی ہوں اسلیے
یادوں پہ تیری دل کا گزارا نہ ہو سکا
سیکھا ہے دل نے درد کو شعروں میں ڈھالنا
دنیا کو یہ ہنر بھی گوارا نہ ہو سکا
🖋 فرحان دِل ـ مالیگاؤں ـ
📞 9226169933