تبصرہ ریویو 🖋️ مسلم انصاری
پتہ ہے کہیں پر بھی جو جوائے لینڈ کا لِیڈِنگ پوسٹر آپ نے دیکھا ہے بس فقط وہ پوسٹر ہی غلط ہے اور کچھ نہیں یہاں اصل چہرے کی تصویر ہے ہی نہیں جس کا نام ممتاز ہے
کچھ سال پہلے کی بات ہے جب اورنج ٹرین منصوبے پر کام چل رہا تھا اور تجاوزات خالی کروائی جارہی تھیں معلوم نہیں دھلی گیٹ کے پاس چوتھی منزل کے کارخانے میں وہ خواجہ سرا بھیک مانگنے کیسے آ دھمکا تھا
پھر وہ کھانہ کھلانے اس طاقچے میں لے گیا جہاں وہ رہتے تھے
وہ سچ مچ کے طاقچے ہی تھے
ان کے وہ گھر بھی اور وہ بھی
وہ سارے ہی، ان کے آنسو بھی، پیٹھ کے نشان بھی، لہجے بھی اور ماضی بھی!
جانے اورنج ٹرین کا منصوبہ تکمیل پہنچنے پر ان کے گھر کہاں چلے گئے میں پھر واپس اس جگہ جا نہیں سکا
جب جوائے لینڈ دیکھنے لگا تو اس جیسے کئی دوست پرانے یاد آگئے مگر یہ کہانی تو خواجہ سرا اور محبت سے کہیں زیادہ ممتاز کی نکل آئی
اس دو گھنٹے چھ منٹ کچھ سیکنڈز کی فلم میں بیسیوں کہانیاں ہیں
پتہ ہے کونسی کہانیاں
وہی کہانیاں جس پر ہم بات نہیں کرنا چاہتے
ایک عورت جو ہر بار لڑکیاں ہی جنتی ہے
ایک خواجہ سرا جو مجرا گاہوں پر رقص کرتا ہے اور پیسے جمع کرتا ہے تاکہ کسی روز جینڈر بدلوالے وہ تو کہتا بھی ہے کہ عورت بنے رہنے میں کونسا آسانی ہے
ایک باپ کی کہانی جو وہیل چیئر پر ہے اور گھر والوں کے دیر سے آنے پر جب اسے کوئی واشروم نہیں لے جا پاتا تو اس کا پیشاب نکل جاتا ہے
ایک لڑکے کی کہانی جو اپنی ممتاز سے بہت محبت کرتا ہے جب وہ تھک جاتا ہے تو اس کے گلے لگ کر رو پڑتا ہے
یہ کہانی ممتاز کی چُپ کی ہے
ایک رات گھر سے کہیں دور بھاگ جانے والی لڑکی جو اسٹیشن سے ہی اسی رات لوٹ آتی ہے کوئی نہیں جانتا یا جاننا چاہتا
یہ وہی کہانی ہے
یہ کہانی ہے ایک ایسی ڈھلتی عمر کی بیوہ کی جس کا شوہر 2012 میں مر جاتا ہے تو وہ وہیل چیئر پر بیٹھے بوڑھے کا خیال رکھنے کئی گھر دور سے روز چلی آتی ہے
یہ جوائے لینڈ کراچی کے سمندر کی کہانی ہے
سمندر جس کے آگے انسان بہت چھوٹا دکھتا ہے
کہانی یہیں آکر ختم ہوتی ہے
یہ ایک ایسی خودکشی کی کہانی ہے جس کے پیچھے بہت سے لوگوں کا ہاتھ ہے
یہ محبت میں دھتکارے جانے کی بھی کہانی ہے
یہ کہانی ہے ان مَردوں کی جو ہر خسرے، خواجہ سرا اور ہجڑے کے کپڑوں کے پیچھے دیکھنا چاہتے ہیں کہ ایسا ہے کیا؟
یہ اس بچے کی کہانی ہے جو پیدا ہونے سے پہلے ہی مرجاتا ہے
یہ اس ماں کی بھی کہانی ہے جس کی اولاد اپنے مشاغل کے باعث جان ہی نہیں پاتی کہ ان کی ماں گھر میں نہیں ہے
اس میں یہ سب کچھ ہے مگر دیکھنے والی آنکھ چاہئے
یہ جوائے لینڈ ہمارے معاشرے کا سچ ہے
ہے تو کڑوا، تلچھٹ زدہ، حلق میں نا اترنے والا مگر ہے تو!
یہ بات ہے جسم کے اندر کی، پیسے، دبدبے، ضرورت، بھوک، نگاہ، رویّے، محبت، سپنوں، اپنوں، جنس اور سچائی کی
عورت مرد اور خواجہ سرا تینوں کی
اگر یہ جنسی تسکین کی نیت سے نا دیکھی جائے تو
ہاں یہ کہانی تلخ ہے کٹھور اور کہیں کہیں جاکر بدذائقہ ہوجاتی ہے مگر اتنی بھی نہیں کہ آپ سچائی کو دیکھ کر قے کرنے لگیں
اچھا کرلیں قے مگر خود پر!!
اففف جب ایک لاش کم شور میں قبرستان کی طرف لے جائے جارہی ہوتی ہے اور چھوٹے بچے اس پر پھول پھینک رہے ہوتے ہیں اور دھند سے منظر گدلا ہوتا دکھتا ہے
بس یہ کہانی اسی کی ہے!!
کہانی کے لکھکھ کے لئے بے حد محبت!!
_______
عالمی افسانہ میلہ 2018
افسانہ نمبر 123
آوازیں
صادق اسد ۔ مالیگاؤں ،مہاراشٹر انڈیا
سورج سر پر چڑھ آیا ہے اور میں کھیتو ں کے کچے راستے پرجھلسا دینےوالی دھوپ کی پروا کئےبغیر ، نا معلوم منزل کی مسافتوں کو طئے کررہا ہوں ـ
اپنے اطراف نظریں دوڑائیں تو دیکھا کہ چاروں جانب خشک جھاڑیاں پھیلی ہوئی ہیں ـ گرم ہواؤں سے اڑتی ہوئی دھول چہرہ پر جم رہی ہے ـ میں نے کانوں پر بندھے ہوئے کپڑے کو کھول کر چہرہ صاف کیا اور دوبارہ کپڑے کو کانوں پر باندھ لیا تبھی ایک آواز آئی " اوئے " ـ میں اپنےکانوں پر ہاتھ رکھ کر جلدی جلدی چلنے لگا ـ وہ آواز اب بدلتی جارہی ہے ـ کبھی دفترکے احباب کی آواز ، کبھی ھارن کی آواز تو کبھی مختلف گاڑیوں کی گُھر گَھر کی آواز ، کبھی کسی کے رونے سسکنے کی آواز ، میں نے اپنے کانوں کو دونوں ہتھلیوں سے زور سے دبایا اور دباتا ہی چلا گیا ـ آہستہ آہستہ وہ آوازیں کم ہونے لگیں ، مجھے کچھ سکون محسوس ہوا ـ
میں ایک ایسے ٹھکانے کی تلاش میں چلا جارہا ہوں جہاں کوئی آواز نہ ہو ـ ایک ایسی جگہ جس کے لیے اپنا شہر ،اپنا گھر، اپنی بیوی بچوں کو چھوڑ آیا ہوں، مگر یہ آوازیں میرے ساتھ ساتھ کئی ہفتوں سے جنگل جنگل، گاؤں گاؤں کا سفر کر چکی ہیں ـ اب مجھے گھر سے نکلنے کا سبب یاد آنے لگا ہے ـ مجھے یاد ہے ان دنوں میری بیوی کچن میں تھی اور میں ڈرائنگ روم میں کتاب کے ورق پلٹ رہا تھا ـ تبھی بیوی کی آواز آئی ـ میں چونک کر غصے میں کچن کی سمت گیا اور بیوی سے چلانے کی وجہ دریافت کی ـ اس نے حیرت سے مجھے دیکھتے ہوئے آہستہ سے کہا " میں تو اپنے کام میں لگی ہوں ، میں نے کوئی آواز نہیں دی ـ" مجھے یاد ہے میں نے اسے گھور کر دیکھا تھا ـ
ہاں اور جب سورج طویل سفر سے تھک کر سرخ ہونے لگا تھا ـ شام ، رات میں پیوست ہونے لگی تھی ـ میں اپنے بیٹ روم میں آنکھیں بند کئے لیٹا ہوا تھا ـ میری بیوی ، بچوں کے ساتھ کتابوں میں الجھی ہوئی تھی ـ میں نے اسے آواز دی "موبائیل کب سے بج رہا ہے اور تمھیں سنائی نہیں دیتا " وہ روم میں آئی اور موبائیل میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا "کئی دنوں سے گھرکے تمام موبائیل بند ہیں"میں موبائیل کو گھور گھور کر دیکھ رہا تھا ـ بیوی نے میرے قریب بیٹھتے ہوئے کہا "ہم صبح ڈاکٹر کے پاس جائیں گے ـ" یہ یاد نہیں رات کتنی سرک چکی تھی ـ میں نیند سے بے دار ہوچکا تھا اور میری بیوی گہری نیند میں سوئی ہوئی تھی ـ میں نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر اسے ہلایا وہ پھر بھی سوئی رہی تو میں اسے جھنجھوڑتے ہوئے چیخنے لگا ـ وہ جلدی سے اٹھ بیٹھی اور گھبرا کر پوچھنے لگی "کیا ہوا ؟" میں نے کہا " دیکھو پڑوس میں جھگڑا ہو رہا ہے ان کے شور سے میری آنکھ کھل گئی" اس نے اپنے ماتھے پر ہتھیلی مارتے ہوئے کہا " نہیییں ـ ـ ـ کوئی جھگڑا نہیں ہو رہا ہے ـ کوئی آواز نہیں آرہی ہے ـ یہ صرف تمھارا وہم ہے ـ " میں نے اسے دیکھتے ہوئے محسوس کیا تھا کہ آوازیں تبدیل ہونے لگی تھیں ـ میں تکئے پر گرا ، اپنے کانوں کو زور سے دباتا چلا گیا اور آنکھوں کو کَس کے بند کرلیا ـ آہستہ آہستہ آوازیں کم ہو نے لگیں اور پھر کب نیند کا پیڑ سایہ دار ہوا پتہ ہی نہیں چلا ـ
صبح بچے اسکول چلے گئے ـ بیوی نے گھر کے سارے کام نمٹائے اور ہم دوپہر ہوتے ہوتے شہر کے ایک بڑے ہسپتال پہنچ گئے ـ مریضوں کی قطار میں لگ کر ہم اپنی باری کا انتظار کررہے تھے ـ تب ہی ایک عورت ایک مرد کے ساتھ آئی ـ مرد کا سر اور کان ایک بڑے رومال سے ڈھنپا ہوا تھا ـ وہ آدمی میرے قریب کی کرسی پر بیٹھ گیا اور عورت بے چینی سے ٹہلنے لگی ـ اس عورت کی بے سکونی کو دیکھ کر میری بیوی نے پوچھا "کیا بات ہے اتنی پریشان کیوں ہو" اس عورت نےکچھ سوچ کر میرے قریب بیٹھے ہوئے آدمی کی طرف اشارہ کرکے کہا "وہ میرے پتی ہیں، گاڑیوں کے ہارن، ہجوم کے ہنگامے، شور شرابے، ہر وقت آوازوں سے پریشان رہتے ہیں، اور آج اس قدر حیران ہوئے کے انھوں نے اپنے کانوں میں سلاخیں ڈال لیں ـ تین مہینوں سے اِنھیں ڈاکٹروں سے علاج چل رہا ہے لیکن کچھ افاقہ نہیں ہوا ـ ابھی وہ عورت کچھ اور کہنا چاہتی تھی کہ وہ شخص اپنے کانوں سے خون صاف کرتے ہوئے مجھ سے کہنے لگا "بھائی آپ کا موبائیل بج رہا ہے ـ" میں اپنی بیوی کو دیکھتا رہ گیا اور کچھ دیر بعد اٹھ کر ہسپتال سے باہر آگیا ـ میری بیوی سمجھی ہوگی کہ میں کسی ضرورت سے باہر گیا تھا ـ میرے ہسپتال کے باہر آتے ہی آوازوں کا سلسلہ پھر شروع ہو گیا ـ تب سے اب تک میں آوازوں سے بچنے کے لئے جنگل جنگل ، گاؤں گاؤں کا سفر کر رہا ہوں، .مگر یہ آوازیں ......
اف یہ آوازیں پھر شروع ہوگئیں ـ اب مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میرا نام کسی نے پکارا ہے ـ میں چاروں طرف دیکھ رہا ہوں ـ دور دور تک کوئی نہیں ہے ـ میں چل رہا ہوں ــــ بس چلتاجا رہا ہوں ــــ سامنے ایک پہاڑ ہے ـ میں اس پر چڑھ گیا ـ اوپر چڑھ کر دیکھتا ہوں ایک بہت خوبصورت مندر ہے جو شاید صدیوں پرانا ہے ـ میں مندر کے ایک ستون سے ٹیک لگا کر اپنی آنکھیں بند کر کے بیٹھ گیا ـ مجھے سکون ملنے لگا ہے ـ ابھی کچھ لمحے ہی گزرے تھے کہ مندر کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی ـ پتہ نہیں دروازہ کھلا بھی ہے یا نہیں ـ میری آنکھیں تو بند ہیں ـ اب کسی کے چلنے کی آواز آرہی ہے ـ
میری آنکھیں اب بھی بند ہیں ـ لیکن یہ کیا ، ایک ہاتھ اپنے کاندھے پر محسوس ہوتے ہی میری آنکھ کھل گئی ـ ایک سادھو صفت آدمی ہے ـ میں پیچھے ہٹ رہا ہوں ـ میرے چونکنے پر اس نے اپنے کانوں سے خون کو صاف کرتے ہوئے کہا " گھبرائیے مت ، میں یہ کہنے آیا تھا کہ آپ کا موبائیل کب سے بج رہا ہے ـ ـ ـ
________
انتخاب :-
عتیق اللہ
یونانی شاعرہ: بلیٹس(سات سو قبل مسیح)
میں بستر کو ،
ویسے ہی رہنے دوں گی ،
بے ترتیب ،
شکن آلود ،
اور سلوٹوں سے بھرا ،
تاکہ اس کے جسم کا نقشہ
بستر پر بنا رہے
کل تک میں غسل نہیں کروں گی
کوئی لباس نہیں پہنوں گی
بال نہیں بناؤں گی
مجھے ڈر ہے کہ اس کے بدن کا لمس ختم نہ ہو جائے
میں آج کھانا نہیں کھاؤں گی
نہ شام کو غازہ ملوں گی
نہ ہونٹوں کو سرخی ملوں گی
کہیں اس کے بوسے کا اثر ختم نہ ہو جائے
میں کھڑکیاں دروازے بند رکھوں گی
اس ڈر سے کہ کہیں اس کی یادیں ہوا میں تحلیل نہ ہو جائیں
(مترجم: ظہیر علی)
🌙
________