پچھلے مہاراشٹر کے انتخابات میں مسلمانوں کے دس امیدوار جیت کر اسمبلی پہنچے تو مسلمان خوش ہو گیا کہ ہمارے بھی دس امیدوار پہنچے ہیں ۔یہ گنتی ہر الیکشن میں مسلمان گنتا ہے اور خوش بھی ہو جاتا ہے ۔کوئی خوشی بے وجہ بھی نہیں ہوتی ۔خوشی کا تعلق دماغ سے نہیں دل سے ہوتا ہے ۔جسم کے اندر دل اتنا معصوم اور بھولا ہوتا ہے کہ جھوٹی تسلی سے بھی خوش ہو جاتا ہے ۔
غالب کہتے ہیں کہ
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کےبہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
غالب نے یہ بات کس تناظر میں کہی یہ کہنا ذرا مشکل ہے لیکن موجودہ سیکولر اور لبرل طرز سیاست کے تعلق سے ہمارا تجربہ پختہ ہوتے جارہا ہے کہ عوام پچھلے ستر سالوں سے جھوٹے وعدوں اورجھوٹی تسلیوں سے ہی بہلائی جارہی ہے ۔میں ستر سالہ جمہوری سیاست پر غور و فکر کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مسلمان ہر الیکشن میں جوش و خروش سے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں اپنے مسلم امیدوار بھیجتا ہے مگر ہر بار جب اسی پارلیمنٹ اور اسمبلیوں سے مسلمانوں کے خلاف کوئی قانون پاس ہوتا ہے تو یہ لڑائی مسلم سیاستدانوں کی بجائے ملی تنظیمیں اور ان کے علماء لڑتے ہیں ۔میں نے نہیں دیکھا کہ کبھی سیاسی پارٹیوں کے مسلمان بھی مسلمانوں کے مسائل پر جمع ہو کر غورو فکر کرکے کوئی حل تلاش کرنے کی کوشش کی ہو ۔کچھ سال پہلے تک جب مسلم قیادتیں کسی حد تک مضبوط تھیں یا سیاستدانوں میں حیاء گرم باقی تھی وہ دلی وغیرہ میں مرحوم اسد مدنی یا جامع مسجد کے امام سید عبداللہ بخاری کی آواز پر رسما ہی جمع ہو جاتے تھے ۔
کامن سول کوڈ کا ہی معاملہ لے لیجئے کسی بھی سیاسی پارٹی کے مسلمان نمائندے مسلمانوں کی رہنمائی کیلئے آگے نہیں آ رہے ہیں کہ مسلمان کیا کریں ۔اگر یہ قانون پاس بھی کر دیا گیا تو وہ کیسے قانونی چارہ جوئی کیلئے آگے بڑھیں ۔خود مسلم تنظیموں کے سربراہان بھی جو چند ایک بیان دے کر خاموش ہو جاتے ہیں ان کی طرف سے بھی ملک کی مختلف سیاسی پارٹیوں کے مسلم سیاستدانوں کو مدعو کر کے کوئی سنجیدہ اجلاس منعقد کرنے کی کوئی پہل نہیں ہوئی ہے ۔شاید یہ پہل بھی اب اجیت ڈوبھال صاحب کو ہی کبھی کرنا پڑے !
وہ کر بھی رہے ہیں ۔ایک سال پہلے مسلم صوفی سنتوں کی کانفرنس بلا کر ان کی زبان سے پوپولر فرنٹ پر پابندی کا مطالبہ کروایا اور کچھ ہی مہینے بعد پابندی لگا کر ان کے لیڈران کو جیل میں ڈال دیا گیا ۔اب عالمی رابطہ اسلامی کے سکریٹری ڈاکٹر عبدالکریم العیسی کو بے غیر کسی جواز کے دلی کے اسلامی سینٹر میں کیوں بلایا گیا اللہ ہی خیر کرے ۔ایسے ہر اجلاس کے بعد ہم جیسے لکھاریوں سے کہا جاتا ہے کہ ہم مثبت سوچا کریں اور ہم مثبت ہی سوچتے ہیں لیکن کچھ دنوں کے بعد منفی ہو جاتا ہے ۔
سچ یہ ہے کہ اہل سیاست اور سرکاری اہل کاروں کا ہر قدم مشتبہ ہوتا ہے ۔وہ مکمل جھوٹ بھی نہیں بولتے,عوام کو مرنے بھی نہیں دیتے مگر جب وہ خودکشی کے کگار پر کھڑے ہوتے ہیں یا جمہوریت سے ان کا یقین مردہ ہونے لگتا ہے تو کچھ روٹی کے ٹکڑے پھینک دیتے ہیں ۔عوام کو یقین ہو جاتا ہے کہ جمہوریت زندہ ہے ۔
ایک سوال ہے کہ سیاستداں عوام کو مرنے بھی کیوں دینگے ۔حکومتیں ملکوں اور رقبوں سے نہیں افراد سے چلتی ہیں ۔یہ افراد ہی ہیں جو اپنی محنت اور مشقت کی کمائی میں سے کچھ حصہ حکومتوں کو ٹیکس کے طور پر دیتے ہیں تاکہ حکومتیں سماج اور معاشرے میں انصاف کا ماحول قائم کریں اور جو سہولیات عوام کو درکار ہیں اسے پوری ایمانداری کے ساتھ فراہم کی جائیں۔مگر موجودہ سیاست میں عوام کو ان کے ٹیکس سے جو بھر پور انصاف اور سہولیات ملنا چاہئے وہ نہیں مل پاتا ۔ارباب اقتدار عوام کے ٹیکس کا اسی فیصد حصہ چوری کر لے جاتے ہیں ۔ہندوستان میں تقریباً یہی حال مسلم سیاستدانوں کا بھی ہے ۔کسی بھی ریاستی اسمبلی یا پارلیمنٹ میں جب کچھ مسلمان پہنچ جاتے ہیں تو مسلمان گنتی گننا شروع کر دیتا ہے کہ اس بار اتنے مسلمان اسمبلی یا پارلیمنٹ میں پہنچ گئے ۔مگر سچائی یہ ہے کہ آج تک مسلمانوں کا کوئی بھی سیاسی لیڈر متحد ہوکر مسلمانوں کی فلاح و بہبود کیلئے کوئی کام کرنا تو دور کی بات آواز بھی نہیں اٹھا پاتا ۔2002 کی بات ہے ۔میں نے اپنی کمپنی کے اطراف میں لوگوں میں بیداری پیدا کرنے کیلئے ایک تحریک شروع کی تھی۔ہر ہفتے قرآن کی ایک آیت کا انتخاب کیا کرتا اور اس پر قرآن کے ہی حوالے سے تقریباً دو گھنٹے گفتگو ہوتی ۔سوال و جواب کے سلسلے کے ساتھ یہ سلسلہ دو سال تک چلتا رہا ۔پچاس سے ساٹھ نوجوان درس میں جمع ہوجاتے تھے ۔اس دوران ہم نے سوچا کہ صرف درس قرآن ہی کیوں ہمیں عوامی فلاح و بہبود کے بھی کام کرنے چاہئے۔ ہر مہینے ہم لوگوں سے دس روپئے جمع کرتے اور محلے کی ایک پانچ بچوں کی بیوہ عورت کی مدد کردیتے تھے ۔
اس کے بعد اپنے دائرے کو وسیع کرتے ہوۓ سوچا گیا کہ خیرانی روڈ ساکی ناکہ ایک بہت بڑا مسلم علاقہ ہے مگر یہاں نہ تو مسلمانوں کا کوئی ایسا فلاحی نرسنگ ہوم ہے اور نہ ہی شادی کیلئے کمیونٹی ہال اس لئے کیوں نہ اس کیلئے کوشش کی جاۓ۔کوشش تو کی لیکن فلاحی کام کے تعلق سے نہ تو عوام میں کوئی بیداری پائی جاتی ہے نہ ہمارا مولوی جمعہ کے خطبے سے سواۓ فقہی مسائل کے عوام کو ان کے روز مرہ کی زندگی کے مسائل سے آگاہ کرتا ہے ۔یہ بیداری جمیعت العلماء اور جماعت اسلامی میں بھی نہیں پائی جاتی ۔تبلیغی جماعت تو خیر زمین کے اوپر کوئی انقلاب لانا ہی نہیں چاہتی ۔ہاں ایمان کی محنت تو ماشاءاللہ سب کر رہے ہیں لیکن پھر بھی بے ایمانوں کی تعداد کم نہیں ہو پاتی !