سال میں تین موسم ہوتے ہیں۔ سردی گرمی اور برسات۔ ہمیں اسکول میں یہی پڑھایا جاتا تھا۔ ماسٹر صاحب بارش پر مضمون لکھاتے تھے جس میں بتاتے تھے کہ بارش 7 جون سے شروع ہوتی ہے، اور ہم نے برسوں اس بات کا بچشم حیرت مشاہدہ بھی کیا۔مگر جیسے جیسے انسان بے بھروسا ہوتے گئ۔۔۔ بارش بھی غیر یقینی ہوتی ہوگئ۔۔۔۔اب یہ حال ہے کہ بارش کب ہوگی،نہیں کہا جاسکتا۔ پہلے بارش کے لئے چار مہینے، جون ،جولائی ،اگست اور ستمبر مخصوص ہوتے تھے،اب بارش کے لئے پورا سال مختص ہے، کبھی بھی بارش ہوسکتی ہے اور نہیں بھی۔۔۔۔۔ بلکہ بعض مرتبہ بارش کے لئے نماز استسقاء کی بھی ضرورت پڑجاتی ہے۔
پہلے بارش کا اپنا ایک مزہ تھا۔مینہ برستا تھا۔۔۔۔بارش رجھم رجھم رم جھم۔۔۔۔۔۔اور چھم چھم چھم چھم ہوتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔بارش ایک خاص ترتیب میں ہوتی تھی۔ یعنی پہلے بادل گھر کر آتے تھے۔۔۔۔۔پھر بجلی چمکنا ۔۔۔۔پھر بادل گرجنا اور پھر رم جھم کی بارش۔۔۔۔مگراب کوئی ترتیب نہیں رہی۔۔۔۔ اچانک دھڑام سے بارش شروع اور اچانک بند بھی۔۔۔۔۔ابھی بارش کا مزہ لینا شروع ہی کیا تھا۔۔۔۔۔۔ ابھی کپڑے پوری طرح بھیگنے بھی نہیں پائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بارش بند۔ گویا بارش نہ ہوئی مذاق ہوگیا۔
اس دھڑام کی بارش نے تو ٹپ ٹپ برسا پانی اور رم جھم گرے ساون والا سارا مزہ ہی ختم کردیا۔ بارش میں بھیگنے ۔۔۔۔کچڑ سے کھیلنے۔۔۔۔ اور کاغذ کی کشتی بنانے کا دور بھی ختم ہوگیا۔
اس دھڑام کی بارش کی وجہ سے گٹریں مارے جوش کے ابلنے لگتی ہیں۔۔۔۔سڑکیں جھیل اور تالاب میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔۔۔۔ گڑھوں میں پانی جمع ہونے۔۔۔۔ اور گٹروں کا نہروں کی طرح بہنے سے ایسا خوبصورت منظر دکھائی پڑتا ہے جیسے کسی ماہر مصور نے بڑی فرصت سے اسے بنایا ہے۔
پہلے بارش ہونے پر ہر طرف فصلیں لہلہانے لگتی تھیں اور اب فصلوں کے ساتھ ساتھ کسان کی قسمت اور سرکاری مشنریاں بھی سو جاتی ہیں۔
پہلے بارش میں کیچڑ میں پھسلنے کا بھی اپنا مزہ تھا۔۔۔۔اب تو ۔۔۔۔ادھر بارش ہوئی ۔۔۔۔ادھر پیر پھسلا۔۔۔۔ادھر گٹر میں گرے۔۔۔۔ادھر ہڈی ٹوٹی۔۔۔۔۔ اور ہسپتال میں داخل ۔۔۔۔۔۔ہسپتال سے ڈسچارج ہوکر باہر آئے اور بارش نے رخصت کی اجازت مانگ لی۔
پہلے بارش کے موسم میں جنگلوں میں مور ناچتے تھے مگر اب شکاریوں کے ڈر سے موروں کا باہر نکلنا دوبھر ہوگیا ہے۔ ادھر پنکھ پھیلائے اور ادھر جام شہادت نوش فرمایا۔
پہلے کبھی کبھی باڑھ آتی تھی جسے لوگ سن (سال) کے حساب سے یاد رکھتے تھے۔ اب تو سیلاب کی باڑھ آجاتی ہے۔بارش شروع ہوئی اور سیلاب کی خبروں کی باڑھ آگئ۔گاؤں کے گاؤں اور شہرکے شہر پانی میں ڈوبنے لگے۔سیلاب ذدہ علاقوں میں۔۔۔ کمر تک پانی میں ڈوب کر۔۔۔ رپورٹنگ کرنے والے۔۔۔اپنی قیمتی جان کو جوکھم میں ڈال کر۔۔۔ باضمیر۔۔۔ ایماندار۔۔۔ دیانت دار۔۔۔ اور اپنے پیشے سے حد درجہ انصاف کرنے والے صحافیوں کو رپورٹنگ کرتے دیکھ کر رشک آتا ہے۔دل کرتا ہے کہ ایسے تمام صحافیوں کو جمع کرکے اگلے کئی برسوں کا نوبل پرائز اور بھارت رتن ایک ساتھ دے کر ان کی صحافتی خدمات کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔
سیلاب ذدہ علاقوں کا ہیلی کاپٹر کے ذریعے دورہ کرنے۔۔۔۔ پانی ڈوبے ہوئے شہروں کے پر کشش منظر کا بیان تو منسٹر حضرات ہی کر سکتے ہیں۔
تیز بارش کے سبب غریب کی چھت اور ٹھیکیداروں اور بابوؤں کی رال ٹپکنے لگتی ہے۔
بارش کا موسم عاشقوں کے لئے بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔بارش اور عاشقوں کا چھتیس کا آنکڑہ ہوتا ہے۔پہلی بارش عاشقوں کے لئے دکھ درد کا ہمالیہ پہاڑ لے کر آتی ۔ہمارے شاعروں نے بھی بارش کے موسم کو خوب نوازا ہے۔ برسات کے موسم کی منظر کشی مختلف انداز سے کی ہے۔کسی شاعر نے برسات میں گھر جلتے دیکھا ہے تو کسی نے دل۔۔۔۔ کسی کو بارش بوندیں محبوب کی یاد دلا دیتی ہے تو کسی بارش کا موسم۔۔۔۔۔۔۔بارش ہونے سے کسی کا دل دکھتا ہے۔۔۔۔۔ کسی کے دل میں ہوک اٹھتی ہے تو کسی کا دل جل جاتا ہے۔۔۔۔۔۔کسی کو کاغذ کی کشتی یاد آجاتی ہے تو کسی کو بارش کا پانی۔۔۔۔ کسی کو بارش میں بھیگنا اچھا لگتا ہے تو کسی کی آنکھوں میں اشکوں کی باڑھ آجاتی ہے بارش میں کسی شاعر کی تو آنکھ سے آگ بھی ٹپکنے لگتی۔۔۔۔۔ جسے بجھانا محکمہ آتش فرو کے بھی بس کی بات نہیں ۔۔۔۔برسات کسی کا دل توڑ دیتی ہے تو کسی چھت اور کسی کا گھر۔۔۔۔۔
غرض جتنے منہ اتنی باتیں یعنی جتنے شاعر اتنے خیالات۔