نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ
دین پر چلنا آسان ہے، اس کے اصول وضوابط آسانیاں پید اکرتے ہیں، اس پر چلنے سے ذہنی سکون ملتا ہے اور تناؤ کی کیفیت سے آدمی باہر آجاتا ہے، دین سے جس قدر دوری ہوگی اسی قدر پریشانیاں پیدا ہوں گی، عمومی احوال کے اعتبار سے دیکھیں تو مسلم سماج کو اس حقیقت کا ادراک نہیں ہے، وہ دین پر چلنا اور اس کے احکام کو مانناا اس وقت پسند کرتا ہے جب معاملہ اختیار کا باقی نہ رہے، اور حالات اضطرار کے پیدا ہوجائیں۔
اس کو مثالوں سے سمجھنا ہو تو جان لیجئے کہ میت کی تدفین میں جلدی کرنے کا حکم ہے، ہم ایسا نہیں کرتے چوبیس گھنٹے روک لینا تو عام سی بات ہے کبھی دوچار دن بھی روک لیا جاتا ہے، اس وقت جب شریعت پر عمل کرنا اختیاری ہوتا ہے، لیکن اگر خدانخواستہ کسی نے خود کشی کرلی، تو حالت اضطرار میں فوری تدفین کا خیال آتا ہے، تاکہ تھانہ پولیس کے جھنجھٹ سے بچا جا سکے،کاش یہ خیال عام موت کی شکل میں بھی آتا اور تدفین میں جلدی کرلی جاتی،اور یہ خیال رکھا جاتا کہ میت اگر نیک ہے تو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے جلد قبر میں جا کر بہرہ ور ہونے لگے اورخدانخواستہ بد ہے توزمین اس کے وجود سے جلد پاک ہو جائے۔
یہی حال ہمارا توکل اور قناعت کے سلسلے میں ہے، ہمارے پاس مال ودولت کی کمی ہے، بھوک پیاس سے بے حال ہیں تو توکل اور قناعت کا سبق یاد دلایا جا تا ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شکم مبارک پر پتھر باندھنے کا ذکر آتا ہے، کئی کئی روز کے فاقے اور پوری زندگی شکم سیر نہ ہونے کی بات کہی جاتی ہے،لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فقر وفاقہ کو اختیار کیاتھا، ان کا معاملہ اضطرار کا نہیں تھا، جب احد پہاڑ سونے کا آپ کے کہنے سے ہو سکتا تھا اس کے با وجود آپ نے الفقر فخری کا اعلان کیا، یقینا آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل اورصحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی زندگی ہمارے لیے اسوہ اور نمونہ ہے اور ہر حال میں ہے، لیکن ہمیں یہ فرق یا د رکھنا چاہیے کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرضی سے اسے اختیار کیا تھا، اور ہم حالت اضطرار میں جب کچھ دستیاب نہیں ہوتا تو ان احوال وواقعات کے ذکر سے دل کو تسلی دیتے ہیں، یقینا آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا اس طرح زندگی گزار نا پریشان حال لوگوں کے لئے نمونہ ہے اور صبر وشکر، توکل علی اللہ اور اعتمادکا بڑا ذریعہ بھی، لیکن جب ہم آسودہ حال ہوتے ہیں تو ہمارا عمل بالکل دوسرا ہو جاتا ہے، فضول خرچی، لہو ولعب میں ہمارا سر مایہ زیادہ خرچ ہوتا ہے، منکرات اور گناہوں کے کام کی ہمارے یہاں فراوانی ہوجاتی ہے اور ہم شریعت کی روشنی میں خوشی وغمی نہیں مناتے، بلکہ من مانی پر اترآتے ہیں، اسی طرح جب ہم کمزور پڑجاتے ہیں، دشمن سے بدلہ لینے کی سکت ہم میں نہیں ہوتی تو آقا صلی اللہ علیہ وسلم کادشمنوں کے ساتھ سلوک یاد آتا ہے، اور عفو در گذر کی بات کی جاتی ہے، طائف کی گلیوں میں دشمنوں کو معاف کر دینے کا ذکر کیا جاتا ہے، فتح مکہ کے موقع سے اذہبو انتم الطلقاء (جاؤ تم سب آزاد ہو) کا ورد کیا جاتا ہے، قرآنی آیت والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس کی تلاوت کی جاتی ہے،یہ سب کچھ بدلے کی طاقت نہ پاکر کیا جاتا ہے، اگر بد لے کی طاقت موجود ہے تو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی کوشش کی جاتی ہے،حالانکہ شریعت کا مطالبہ ہر حال میں دین پر عمل کرنے کا ہے، حالت اختیار میں بھی اور حالت اضطرار میں بھی، بلکہ جولوگ بھی حالت اضطرار کو اختیارمیں بدلنے پر قادر ہوں، انہیں چاہیے کہ ایسا ماحول پیدا کریں کہ اضطرار کی نوبت ہی نہ آئے سب کچھ اختیار می رہے اور قدرت واختیار کے با وجود شریعت پر عمل ہماری زندگی کا لازمہ بن جائے۔