اہم اجتماع جمعیۃ علماء ہند کے صدر دفتر نئی دہلی کے مدنی ہال میں منعقد ہوا، جس میں مختلف شعبۂ حیات سے وابستہ شخصیات ، ماہر ین معیشت، سماجی کارکنان، مفکر اور پروفیسر حضرات شریک ہوئے۔ اجتماع میں ملک کو درپیش فرقہ پرستی سے چیلنج، سماجی تانے بانے کے بکھرائو اوراس کی روک تھام کے مختلف پہلوؤوںکا جائزہ لیا گیا اور زمینی سطح پر کام کرنے اور سمواد کی ضرورت پر اتفاق کیاگیا ۔سبھی دانشوروں نے یہ محسوس کیا کہ فرقہ پرستی اس ملک کی فطرت سے میل نہیں کھاتی او رنہ وطن عزیز کی اکثریت ایسی سوچ کی طرف دار ہے ، لیکن اس بات کی شدت سے ضرورت محسوس کی جارہی
ہے کہ جو لوگ مثبت سوچ کے حامل ہیں ، انھوں نے یا تو خاموشی کی چادر اوڑھ لی ہے یا ان کی بات سماج کے آخری حصے تک نہیں پہنچ رہی ہے،جس کی وجہ سے جو لوگ ملک کی سماجی ڈھانچہ کو بدل دینا چاہتے ہیں یا نفرت کی دیوار کھڑی کرکے اپنی ملک دشمن آئیڈیالوجی کو کامیاب کرنا چاہتے ہیں ، وہ بظاہر حاوی ہوتے نظر آرہے ہیں، حالاں کہ یہ حقیقت نہیں ہے۔اس لیے سماج کی اکثریت کو خاموشی کے بجائے میدان عمل میں آنا ہوگا اور بھارت کی عظمت اوراس کے فطری وجود کو بچانے کی متحدہ و متفقہ لڑائی لڑنی پڑے گی۔
اپنے افتتاحی کلمات میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر اور پروگرام کے داعی مولانا محمود اسعد مدنی نے دانشوروں و سماجی رہ نمائوں کا استقبال کرتے ہوئے سوال کیا کہ ایسے حالات میں جب کہ ملک کی ایک بڑی اقلیت کو ان کے مذہب وعقیدے کی وجہ سے مایوس کرنے یا دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے ، ہمیں اس کے سدباب کے لیے کیاضروری اقدامات کرنے چاہییں؟ مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند کے بزرگوں نے گزشتہ سوسال سے باضابطہ اور دوسو سال سے نا ن آفیشل طور پرملک کو جوڑنے کی کوشش کی اور وطن کی عظمت کو حرز جاں بنایا، جب ملک کی تقسیم کی بنیاد رکھی گئی
تو ہمارے اکابر نے اپنوں سے مقابلہ کیا ، ملک کے لیے بے عزتی برداشت کی اور آزادی کے بعد قومی یک جہتی کے لیے اپنی قربانیوں کے انمٹ نقوش چھوڑے اور تمام مشقتوں کے باوجود ہم آج تک اپنی ڈگر سے نہیں ہٹے ہیں ۔ آج کے حالات میں بھی ہم ڈائیلاگ کے حق میں ہیں ، ہمارا موقف ہے کہ سب کے ساتھ ڈایئلاگ ہونا چاہیے اور ایک ایسی مشترکہ مہم چلنی چاہیے کہ وطن کا ہر دھاگہ ایک دوسرے سے جڑ جائے۔