اے اہل ادب آؤ یہ جاگیر سنبھالو
میں مملکت لوح و قلم بانٹ رہا ہوں
مالیگاؤں (بذریعہ ای میل) یوں تو ملک و بیرون ملک سے اردو کے ادبی رسائل اردو اور ادب کی تبلیغ و اشاعت میں ہمہ وقت مصروف عمل ہیں. شہر مالیگاؤں بھی ایسے ہی ادبی رسائل کی آبیاری میں برسوں سے شامل رہا ہے "جلیس "رائے حبیب کی ادارت میں شائع ہونے والا خوب صورت رسالہ چند ہی شماروں میں دم توڑ گیا تھا. اس کے بعد سلطانی سبحانی نے "نشانات ,ہم زباں" کے ذریعے جدید ترین ترقی پسند نظریات کی آبیاری کی تھی لیکن مالی وسائل سے محرومی نے ترقی پسند نظریات کو بھی سویت روس جیسا تباہ کرکے رکھ دیا تھا. مذکورہ تینوں ادبی رسائل کی محرومی کا غم مرحوم سید عارف نے "جواز"جاری کرتے ہوئے اس آب و تاب سے ازالہ کیا کہ آج بھی ادبی دنیائیں جواز کی ادبی حیثیت کا اعتراف کرتی نظر آتی ہیں. سید عارف کی ناتوانی اور مالی حیثیت جب ٹوٹ پھوٹ کر انھیں نچلا بیٹھنے پر مجبور کیا تو آخری ضخیم ترین سالنامہ نے منظر عام پر آتے ہوئے اپنے آپ کو دفن کرنے کا اشارہ کردیا تھا.
آج پھر چند سر پھروں نے اپنے اسلاف کی پیروی کرتے ہوئے "روایات "پارینہ و جدیدہ " کے امتزاج کا عزم ظاہر کرکے ایک ادبی مجلہ بنام "سخن دریچہ "جاری کرنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے.بہت جلد منظر عام پر آنے والے اس رسالے کے ترتیب کاران کا کہنا ہے کہ وہ سخن دریچہ کے ذریعے ہر اس ادبی دریچہ کو "وا "کرنے کی کوشش کریں گے جو نئ نسل کی وجدانی و ایقانی منڈیروں پر ادب کے گلہائے رنگا رنگ رقصاں و بہاراں کرنے کا سبب بن جائیں . ترتیب کاران کا یہ بھی کہنا ہے کہ نئ نسلوں کے اذہان و قلوب میں پوشیدہ وہ تمام تر بیش بہا خزینے لا شعور سے نکالتے ہوئے شعور کی دسترس میں لا کر صفحہ قرطاس کی زینت بنا دیں گے جو اشاعت کی محرومی کا غم جھیلتے ہوئے کسی گوشہ گمنامی کی تاریکی میں دفن ہو رہ جاتے ہیں. دیکھئے....... دیکھئے سخن دریچہ آپ کی انگلیوں کی جنبش سے کھلنے کا متظر ہے. آپ اپنی تخلیقات سخن دریچہ کی کھلی ہوئی دہلیز تک پہنچا کر اسے دوام عطا کریں یہ اپ کا اخلاقی فریضہ ہے کیونکہ ادبی رسائل و جرائد اور کتابیں انسانی تواریخ کے تہذیبی, ثقافتی, سماجی, سیاسی, تخلیقی, جذباتی, معاشرتی اور دینی ورثے کی امانت دار ہوتی ہیں. کتابوں اور ادبی رسائل سے تغافل اور بے اعتنائی نے ذہنی اور محسوساتی آشوبیت کو بڑھاوا دیا ہے. عوامی سطح پر ادبی رسائل و کتب کے شغف کی آبیاری کا تفکر سخن دریچہ کے ترتیب کاران کی مساعی جمیلہ کا روح رواں ہے. ایسی ہر سعی تابندہ کی حوصلہ افزائی ارباب نقد نظر کا اخلاقی فریضہ ہے کیونکہ اچھی کتابوں اور اچھے ادبی جرائد کا مطالعہ دل کو زندہ و بیدار رکھتا ہے. ماہنامہ "سخن دریچہ "کے اولین شمارے کے لئے آپ اپنی تخلیقات درج ذیل نمبر پر 8329155721 واٹس ایپ کر سکتے ہیں.
جسم کی دیوار
افسانہ نگار *بلراج مین راء * دہلی ۔ انڈیا
انتخاب و ٹائیپنگ : احمد نعیم ۔ مالیگاؤں، مہاراشٹر ۔انڈیا
اس کے پاؤں برف ہورہے تھے، پنڈلیاں دکھ رہی تھی، زبان کسیلی ہوگئی تھی، حلق میں خراشیں پڑگئ تھیں اور اسے یوں محسوس ہوا تھا کہ اس کی پیشانی، دائیں کنپٹی سے ناک تک کھوکھلی ہوگی ہے
وسط دسمبر کی اس سرد رات کو اس نے کناٹ پیلس سے ماڈل ٹاؤن تک، تقریباً سات میل کا فاصلہ طے کیا تھا - اسے کوئی تین گھنٹے لگے تھے اور ان تین گھنٹوں میں سگریٹ اس کے لبوں سے پل بھر بھی جدا نہ ہوا تھا
تھکن کی وجہ سے اسے جیکٹ، پتلون اور قمیص اتارنے میں خاصی تکلف ہوئی لیکن جب اس نے شب خوابی کا ڈھیلا لباس پہن لیا تو اسے قدرے سکون ملا کہ اس کا جکڑا ہوا، جسم آزاد ہوگیا تھا
بتی گل کر کے وہ صاف اور بے داغ بستر پر کنڈھوں تک لحاف کھینچ کر داز ہوگیا -
بستر سرد تھا، کمرہ سرد تھا، کمرے میں پھیلی ہوئی تاریکی سرد تھی مگر اس کی رگوں میں تھکن کے مارے آگ دوڑ رہی تھی - اسے سرد بستر، سرد کمرہ اور سرد تاریکی بھلی لگی کہ اسے تھوڑا سا جسمانی آرام ملا -
ابھی اس نے چند ہی کروٹیں لی تھیں کہ بستر اس کی تھکن کی انگیٹھی سے سلگنے لگا اور اس کا دم گھٹنے لگا -
اب اسے محسوس ہوا کہ آنکھیں بھی جل رہی ہیں جیسے کسی نے ان میں مرچیں جھونک دی ہوں -
اسے سانس لینے میں دقت محسوس ہو رہی تھی - جسے کمرے میں دھواں بھر گیا ہو اور بستر میں جسے آگ لگ گئی ہو - اس نے لحاف اتار پھینکا، لپک کر بتی جلائی، دونوں کھڑکیاں کھول دی دونوں دروازے کھول دیے اور رسی کھینچ کر روشندان بھی کھول دیا -
سردی کی لہر اس کے جسم تک پہنچی ننگے فرش سے اس کے جلتے ہوئے تلووں میں ٹھنڈک پہنچی اور اس کے سانس سنبھالنے - اس نے اطمینان سے طویل سانس کھنچا اور کرسی میں دھنس گیا - رات کے تین بجے رہے تھے - اس کی نظریں ننگی بچی دیوار پر جم گئیں - ایک جگہ سفیدی زردی میں تبدیلی ہوگی تھی اور اک جگہ پلستر اکھڑ چکا تھا اور گرنے ہی کو تھا -
وہ اکھڑے ہوے پلستر کو گھورتا رہا جو نہ جانے کس طرح سنبھلا ہوا تھا
کمرہ تج ہوگیا تھا اور اسے اچھا لگ رہا تھا کہ اس کا تپتا ہوا جسم پر سکون تھا صرف اس کی آنکھیں جو اکھڑے ہوے مگر سنبھلے ہوے پلستر کے اک ٹکڑے کو تک رہی تھیں، جل رہی تھیں
کافی دیر تک وہ اکھڑے ہوے پلستر کو گھورتا رہا جیسے اس کی نظروں کی تاب نہ لاکر پلستر کا وہ سنبھلا ہوا ٹکڑا گر جائے گا - ٹکڑا جوں کا توں سنبھلا رہا نہ گرا - اس کی آنکھوں کی جلن شدید ہوگی اور اس کی کنپٹیاں سلگنے لگیں اور اس کے سانس رکنے لگے
اس نے کرسی کے بازو کا سہارا لیا اور کھڑا ہو گیا - پلکیں گراکر انگلیوں سے آنکھیں مسلیں اور دھیمے دھیمے غسل خانے کی طرف قدم بڑھائے -
ہر قدم اٹھاتے ہوئے اسے محسوس ہورہا تھا کہ غسل خانے تک پہنچ نہ پائے گا، راستے میں ہی گر جائے گا -
غسل خانے میں پانی سے بھری بالٹی رکھی تھی، اس نے جھک کر، آنکھیں کھول کر، پھیلا کر، بے تحاشا پانی کے چھینٹے مارنے شروع کردیے جیسے آگ لگ گئی ہو اور آگ کے پھیل جانے کا اندیشہ ہو
پانی کے چھینٹے اڑنے سے اس کا شب خوابی کا ڈھیلا لباس کسی قدر بھیگ گیا اور چھینٹے اس کی چھاتی اور پیٹ تک جا پہنچے اور وہ ذرا کانپا اور اس کے چھینٹے اڑاتے ہوے ہاتھ رک گئے - اس کی آنکھوں کی جلن دب گئی کنپٹیاں بھی ٹھنڈی ہوگیں اور اس کے سانس بھی درست ہوگے
آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے وہ کمرے تک پہنچا اور بتی گل کرکے بستر پر دراز ہوگیا -
بستر سرد تھا، کمرہ سرد تھا اور تاریکی سرد تھی -
رات کے چار بج رہے تھے
نیند کی لہریں اس کی آنکھوں کے ساحل پر سر پٹک رہی تھیں -
اس کے ذہن میں سرگوشیاں ہو رہی تھیں -
"نگم، تم طوفان کی تیزی سے زندگی گزارنے کے عادی ہوگے ہو.....! تم بے تحاشہ شراب پیتے ہو، بےتحاشہ سگریٹ پیتے ہو..... بے تحاشہ کافی پیتے ہو بے تحاشہ گھومتے ہو... بےتحاشہ پڑھتے ہو اور ہر حادثے کو،واقعے کو چاہے اس کا تعلق تمہاری ذات سے ہو یا نہ ہو بے تحاشہ قبول کرلیتے ہوے...! تم دھیمے دھیمے زندگی کیوں نہیں گزارتے نگم!... شراب چھوڑ دو، تمہیں یہ راس نہیں آتی، سگریٹ کم پیا کرو، کافی پیا کرو، یہ سب تمہاری رگوں کو کھنچنے رکھتی ہیں اور تمہاری طبیعت میں شدت پسندی بھررہی ہیں.... اس شدید زندگی سے دور جا کر آرام کرو، خوب سوؤں ٹانگیں پسار کر سوؤ میری جان!،،
"میرے پیارے ماتھر، سوؤں گا اور خوب سوؤں گا اور اس قدر سوؤں گا کہ تمارا دم گھٹ جائے گا، تم بینڈ باجے بجا کر بھی جگانا چاہو گے، تو نہیں جاگوں گا........! "نگم، اس ڈھنگ سے مت سوچو - سوچنے کا یہ ڈھنگ بھی شدید ہے"!
" ماتھر! تم میرے دوست ہو اور تم ڈاکٹر بھی ہو - تمہارے اندر کا ڈاکٹر میرے جسم کو بچانا چاہتا ہے - میں تمہارے اندر کے ڈاکٹر کے دکھ کو جانتا ہوں..... تمہارے اندر کا کے ڈاکٹر پر میرا دوست غالب آجائے تو اس سے کہوں... میرا دادا بتیس سال کی عمر میں سو گیا تھا، جانتے ہو کہاں؟؟.... جلیاں والا باغ میں اس سمے میرا باپ چار سال کا تھا میرا باپ اٹھائیس سال کی عمر میں سو گیا تھا - جانتے ہو کب؟ 1942 ء میں اس سمے میں تین سال کا تھا.. اب میں چوبیس سال کا ہوں... میری جوانی وہی لوگ لوٹ رہے ہیں جو آج میرے دادا اور میرے باپ کی جوانمرگی کے صدقے ارباب اقتدار ہیں، جو آج عیش کررہے ہیں، عیش....! میری راگوں میں خون نہیں دوڑتا مضطرب لہریں دوڑتی ہیں... میرے ذہن میں نفرت کے آتش فشاں پہاڑ ابھر آے ہیں اور میرے دل میں غم کا سمندر موجیں مار رہا ہے... اب میں کہیں کا نہیں رہا... کہیں کا نہیں رہا... مجھے نیند نہیں آتی....! "
آخر کار نیند نے اسے دبوچ لیا -
پو پھٹنے ہی کو تھی -
صبح جب اس کی آنکھ کھلی، اس کا سر گھوم رہا تھا، آنکھوں میں اندھیرا چھا رہا اور جسم تپ رہا تھا -
چار پائی سے اٹھتے ہوئے اس نے بھر پور انگڑائی لی، اس کی ہڈیاں چٹح گئیں اور اس کے لبوں پر تبسم کی معدوم سی لکیر آپ ہی آپ کھینچ گئی
اس نے آئینہ دیکھا -
اسے اپنا چہرہ بھلا لگا_____خشک، بکھرے ہوئے، گھنے، شاہ بال جن میں چند اک چاندی کی تاریں کنپٹیوں کے قریب چمک رہی تھیں - چوڑا ماتھا، گھنی بھویں اور نیند کو ترستی ہوئی بے نام سی چمک لیے زرد آنکھیں جن پر بوجھل پلکیں بار بار گر رہی تھیں - سیدھی سی ناک اور سوکھے سوکھے ہونٹ اور گندمی رنگ -
اسے اپنا چہرہ بھلا لگ رہا تھا جیسے وہ آئینے میں صدیوں پرانی، شکستہ، اجڑی ہوئی عمارت جو اسے بھلی لگ رہی تھی، کانپنے لگی - اس نے آئینہ رکھ دیا اور دھیمے دھیمے غسل خانے کی جانب بڑھا
دس بج رہے تھے -
گیارہ بجے کے قریب جب جب وہ ریلنگ کا سہارا لیے، ہونٹوں میں سگریٹ دباے، دھیمے دھیمے، کانپتے ہوے قدموں سے سڑھیاں اترا رہا تھا اسے ہئی احساس تھا کہ وہ اگلے پل آخری سیڑھی پر منہ کے بل پڑا ہوگا
نیچے لان میں بچے کھیل رہے تھے - اس نے دو اک کے گلال تھپتھپا ے اور مین گیٹ سے باہر آگیا -
اس کا سر گھوم رہا تھا -
اس نے سگریٹ کا طویل کش کھنچا ہی تھا کہ کھانسی کا زلزلہ آن پہچا اور اس کا پورا وجود ہل گیا - اس نے تھوکا تو بلغم کا یہ بڑا دھبہ سڑک پر دکھائی دیا -اسے متلی آگئی، کلیجہ حلق تک آگیا مگر قے نہ ہوئی کہ پیٹ خالی تھا-
کھانسی کے زلزلے کے بعد اس کی آنکھیں نم آلود ہوگیں اور پیٹ کی بھٹی جل اٹھی اس نے رومال سے آنکھیں اچھی طرح ماجھیں جیسے قلعی گر برتن مانجھ تے ہیں اور پیٹ کی بھٹی کو جلنے دیا ک اس کے سوا وہ کر بھی کیا سکتا تھا - مین گیٹ کے باہر وہ کافی دیر اسکوٹر کا انتظار کرتا رہا اس احساس کے ساتھ کہ ابھی اس کی ٹانگیں اس کا ساتھ چوڑ دیں گی -
بارہ بج رہے تھے -
خالی اسکوٹر دیکھ کر اس نے بڑی مشکل سے ہاتھ اٹھایا اور اسکوٹر روکنے ک اشارہ کیا -
ڈرائیور نے بریک لگائی اور اسکوٹر دس قدم کے فاصلے پر بے ہنگم سے شور کے ساتھ رکا - اس نے دھیمے دھیمے، بڑی مشکل سے قدم اٹھائے
اسکوٹر تک پہنچتے پہنچتے، اسے اک جگ بیت جانے کا احساس ہوا - اس نے لب کھولے ہی تھے کہ ڈرائیور نے پوچھا "ہندو راؤ ہاسپٹل یا ارون ہاسپٹل؟؟
اس کا دل ڈوب گیا، اس کے لب کانپے -
" نہیں....!
کناٹ پلیس..... ریگل بلڈنگ.... ٹی ہاوس.... "اس نے بڑے ضبط سے لبوں کو دانتوں میں دبا لیا -
ڈرائیور کو تعجب ہوا - چند لمحے وہ اسے آنکھیں پھاڑ کر دیکھتا رہا اور پھر اس نے دھڑکتے ہوے دل سے بریک کھول دی -
" کون جانے یہ شحص ٹی ہاوس پہنچ بھی پائے گا یا نہیں.... ".."
(نصرت" لاہور :1963 ء )
.. مقتل سے اک انتخاب موڈرن پبلشنگ ہاوس، 9-گولا مارکیٹ، دریا گنج، نئی دہلی *************
صفہ نمبر 154
انتخاب و ٹائیپنگ : احمد نعیم - (موت ڈاٹ کام مالیگاوں بھارت) ۔ مالیگاؤں، مہاراشٹر ۔انڈیا
ریزہ ریزہ بہار بھی، مَیں بھی !
خواہشِ زلفِ یار بھی، مَیں بھی !
لمحہ لمحہ، صدی صدی جیسے
اُف! تِرا انتظار بھی، مَیں بھی !
قصرِ جاناں سے صبح لَوٹے ہیں
حضرتِ ذی وقار بھی، مَیں بھی !
کیا زمانے کو منہ دکھائیں گے
نغمۂ داغ دار بھی، مَیں بھی !
نیل کی وادیوں سے پھر اٹھّے
کوئی شعلہ شعار بھی، مَیں بھی !
تیری آمد کے منتظر سب ہیں
موسمِ خوشگوار بھی، مَیں بھی !
🍁 *منصـــــور اکبر*
*
--🔰انتخاب🔰-
:- تنویر اشرف :- ایڈمین" بزم تنویر ِ ادب "
دُھول مٹی سے اَٹا میرا شہر مالیگاؤں
🔖شگفتہ سبحانی (مالیگاؤں)
عزم اور فکر کا مرکز تھا حسیں مالیگاؤں ___
خواب ِ تابندہ کی تعبیر رہا مالیگاؤں__
سارے ادباء نے لکھا شہر حسیں مالیگاؤں
سارے فنکاروں کا مسکن یہ حسیں مالیگاؤں
طالب علموں کا مرکز یہ مرا مالیگاؤں
علم کا منبع رہا میرا شہر مالیگاؤں
علم کی شمع بنا میرا شہر مالیگاؤں
جیسے رخشندہ قمر میرا شہر مالیگاؤں
مسجدوں اور میناروں کا شہر مالیگاؤں
رشک کرتا تھا فلک جس پہ حسیں مالیگاؤں
گنگا یمنا کی عبارت سے لکھا مالیگاؤں
کہکشاؤں سے سجا میرا وطن مالیگاؤں
"آہ! ____ یہ کس نے کیا کیسے کیا کیسے ہوا؟
ہوگیا کیسے کھنڈر _ میرا شہر مالیگاؤں؟
دھول مٹی سے اٹا کیسے شہر مالیگاؤں؟
کیسے اجڑا یہ چمن کس سے کریں ہم شکوہ؟
کیسے بکھرا یہ نشیمن یہ مرا مالیگاؤں؟
حال اس کا کسی بیوہ کا چمن مالیگاؤں...
ہر طرف جیسے خزاں چھاۓ مرا مالیگاؤں....
کیسے ٹوٹا یہ حسیں خواب مرا مالیگاؤں؟
جیسے مفلس کی ردا، بجھتا دِیا مالیگاؤں....
بنکروں سے رہا آباد یہ گلشن لوگو
لوم کی گھررررر سے گرجتا رہا یہ مالیگاؤں
لگ گئی کس کی نظر؟
ہاۓ مرا مالیگاؤں...
اجڑے رستوں کا سفر در یہ سفر مالیگاؤں...
انقلابوں کے اۓ متوالو کہاں ہو تم سب؟
کھوگیا سبز شگفتہ سا حسیں مالیگاؤں____
دھول مٹی سے اَٹا میرا شہر مالیگاؤں
ہورہا قوم کا نقصان یہ رنجش چھوڑیں
ایک دوجے پہ جو بہتان ہے رنجش چھوڑیں
کھو گئے کتنے مہربان یہ رنجش چھوڑیں
ہورہے لوگ پریشان یہ رنجش چھوڑیں
قائدو! وقت کسی کا بھی نہیں ہوتا ہے
وقت کی قدر کریں آؤ یہ رنجش چھوڑیں
قوم کے جتنے بھی غمخوار ہیں رنجش چھوڑیں
بخش دیں جتنی بھی تکرار ہے رنجش چھوڑیں
کتنے مسئلوں کاہے انبار مرا مالیگاؤں ____
گھر کے گھر ہورہے برباد مرا مالیگاؤں
قوم افلاس میں جاں دینے کے درپے آئی
خودکشی ہورہی گھر گھر یہ مرا مالیگاؤں
ہر زمانے میں کوئی ہوتا ہے سالار ِ جہاں..
اۓ خدا بھیج مسیحا، کسی رہبر سے ملا
قوم کے لوگ پریشاں ہیں خدا تو ہی بچا
انقلاب آۓ اگر اب کی دفعہ مالیگاؤں
پھر بنا شہر کو تابندہ قمر مالیگاؤں
اۓ خدا کر ذرا آباد مرا مالیگاؤں
"دھول مٹی سے اٹا میرا شہر مالیگاؤں"
▪️▪️▪️