اسلامی ثقافت اور عقائد کے مطابق 12 مہینوں کے قمری کیلنڈر کا ہر مہینہ نئے چاند سے شروع ہوتا ہے۔ ہجری مہینوں میں صفر کا مہینہ اہم ترین مہینوں میں سے ایک ہے۔ کیلنڈر میں یہ دوسرا مہینہ ہے اور اس کا مطلب خالی ہے۔ علماء کے نزدیک زمانہ جاہلیت کے دور میں اس ماہ میں لوگ اپنے گھر خالی کر کے کھانا اکٹھا کرنے نکلتے تھے۔ صفر محرم کے بعد آتا ہے اور اس کا نام مکہ مکرمہ کے خالی ہونے کے بعد رکھا گیا ہے جب حجاج کرام اپنا سفر مکمل کر لیتے ہیں۔ ایک اور کہانی کے مطابق صفر کا نام اس لیے دیا گیا کہ اس وقت کے آس پاس لوگ کسی قبیلے پر حملہ کرتے، ان کا سامان لے جاتے اور انہیں خالی ہاتھ چھوڑ دیتے۔
ماہ صفر کے چند اہم واقعات
• 13 صفر کو حسین ابن علی رضی اللہ عنہ کی سب سے چھوٹی بیٹی سکینہ کی شہادت ہوئی۔
• 27 صفرکو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔
• 28 صفرکو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو ئے۔
• 28 صفرکو حسن ابن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی- (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے اور علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بڑے بیٹے)
پیغمبر اسلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق 27 صفر کی اہمیت
صفر کی ستائیسوی رات قریش کا ایک گروہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے باہر آپ ؐکو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ آپ ؐ مکہ نہ چھوڑ سکیں اور اسلام کی روشنی کو مزید پھیلانے سے باز رہے۔ تاہم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باز نہ آئے۔ آپ ؐنے اپنے چچا زاد بھائی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ اپنے بستر پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سبز چادر اوڑھ کر سو جائیں۔ آپؐ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تسلی دی کہ وہ نہ مارے جائیں گے اور نہ کوئی نقصان پہنچے گا۔
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس گروہ پر مٹھی بھر مٹی ڈالتے ہوئے اپنے گھر سے نکلے۔ آپؐ یہ پڑھتے ہوئے ان کے درمیان سے گزرتے رہے: "اور ہم نے ان کے آگے اور ان کے پیچھے ایک دیوار لگا دی ہے اور ان کو ڈھانپ دیا ہے، پس وہ دیکھتے نہیں ہیں۔" (سورہ یٰسین: 9)
حیرت کی بات یہ ہے کہ گھر کے باہر جمع اس گروہ میں سے کسی نے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اس کے بعد آپؐ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھر گئے اور فجر سے پہلے دونوں ایک ساتھ نکل گئے۔ یہ جانتے ہوئے کہ قریش یقینی طور پر ان سے مکہ کے شمال سے مدینہ کا راستہ اختیار کرنے کی توقع کریں گے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا راستہ بدل کر یمن کی طرف یعنی جنوب کی طرف چلنے کا فیصلہ کیا۔ وہاں پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ غار ثور میں تین راتیں چھپے رہے جبکہ قریش کے گروہ انہیں تلاش کرتے رہے۔