8446393682
مفتیٔ اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع ؒ نے معارف القرآن میں مندرجہ ذیل واقعہ نقل کیا ہے:
ایک بزر گ ایک مسلمان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے،تھوڑی دیرمریض کے پاس بیٹھے تھے کہ اس کی روح پرواز کر گئی۔اس موقع پر جو چراغ چل رہا تھا ،بزرگ نے اسے فوراً بجھا دیا، او ر اپنے پاس سے تیل منگا کر روشنی کی ،لوگوں نے اس کاسبب دریافت کیا تو فرمایا :
جب تک یہ شخص زندہ تھا یہ چراغ اس کی ملکیت تھا، اور اس کا جلانا درست تھا، اب یہ اس دنیاسے رخصت ہوگیا ہے، لہذا اس کی ہر چیز میں وارثوں کا حق طے ہوگیا، لہٰذا سب وارثوں کی اجازت ہی سے ہم یہ چراغ جلا سکتے ہیں، اور وہ سب یہاں موجود نہیں ہیں اس لیے میں نے اپنے پیسوں سے تیل منگا کر روشنی کی ۔ ( جلد ۲ صفحہ ۳۱۷)
اس واقعہ کو پڑھیں اور معاشرے پر سرسری نگاہ دوڑائیں تو نظر آئے گا کہ میراث کی تقسیم ہر دوسرے تیسرے گھر کا مسئلہ ہے،دارالافتاء میں آنے والے زیادہ تر مسائل میراث سے متعلق ہوتے ہیں اور عموماً وہی وارثین استفتاءلے کر حاضر ہوتے ہیں جو محروم کیے گئے ہوں ،جس کے قبضہ میں میراث کا مال ہوتا ہے وہ فتویٰ حاصل کرکے میراث کو تقسیم کرنا ہی نہیں چاہتا ،اس کی چند بنیادی وجوہات ہیں :
(الف)میراث سے متعلق شرعی ہدایات سے ناواقفیت(ب)مال کی حرص اور آخرت کے انجام سے بے فکری(ج)وارثین میں تقسیم کو لے کر اختلاف(د)میراث کی تقسیم میں غیر معمولی تاخیر۔
چونکہ میراث کا تعلق مال سے ہے اور مال انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور ایسی چیز ہے جس کو پانے میں انسان بعض مرتبہ رشتوں کا احترام اور حق بھی فراموش کربیٹھتا ہے ،پھر چونکہ مال کا تعلق حقوق العباد سے ہے ،یعنی اگر کسی وارث کا حق دبالیا گیا تو یہ ایسا گناہ ہے کہ جب تک صاحب حق معاف نہ کرے ، اللہ بھی معاف نہیں کرے گا۔
اس وقت معاشرے میں میراث کی شرعی تقسیم میں تاخیر ،وارثین کی حق تلفی اور ظلم وزیادتی کا گناہ عام ہے،کیا امیر وغریب کیا پڑھے لکھے اور بے پڑھے لکھے اور کیا دیندار اور بے دین ،ہر طبقے کے لوگ اس کبیرہ گناہ مرتکب نظر آتے ہیں ،راقم الحروف کا احساس یہ ہے کہ اگر ایسے لوگوں کو شرعی ہدایات کی روشنی میں آسان انداز میں میراث کے مسائل اور ان کے حل سے آگاہ کیا جائے تو خوف خدا اور فکر آخرت کی بنیاد پر امید ہے کہ بہت سارے افراد اپنے الجھے ہوئے مسائل کو حل کرلیں گے باذن اللہ!
آنے دنوں میں ہم میراث سے متعلق سلسلہ وار مضامین پیش کریں گے ان شاء اللہ!ہم اسلام کا نظام میراث بیان کرنے کے ساتھ ساتھ یہ واضح کریں گے کہ میراث کے مستحق افراد کون کون ہیں؟ میراث کو تقسیم کرنے کے کیا فوائد ہیں؟ہم یہ بھی بتائیں گے کہ میراث کی تقسیم میں تاخیر کے نقصانات کیا ہیں؟ساتھ ہی ساتھ میراث کو لے کر افرادخانہ میںپائے جانے والے اختلافات او ر اُن کے حل پر بھی روشنی ڈالیں گے۔ نیز اسلام کے نظام میراث کو لے کرمستشرقین اور مخالفین کی جانب سے جوبے جا اعتراضات پھیلائے جاتے ہیں جن کی وجہ سے بہت سارے مسلمانوں کے ذہنوں میں بھی شکوک و شبہات پیدا ہو جاتے ہیں ،ہم اُن اعتراضات کی حقیقت اور ان کا تسلی بخش جواب بھی تحریر کریں گے۔ ان شاء اللہ الرحمن
قارئین سے گذارش ہے کہ وہ پابندی اور اہتمام کے ساتھ ہمارے کالم(میں نے جو دیکھا) کا مطالعہ کرتے رہیں۔ اخبار پڑھ لینے کے بعد یہاں وہاں رکھ دینے کے بجائے اُن لوگوں کواخبار کی کاپی دے دیں جو باذوق ہوں اور دینی مضامین سے دلچسپی رکھتے ہوں۔یہ بھی گذارش ہے کہ اخبار میں شائع شدہ مضامین پڑھنے کے بعد اہم باتوں کو ذہن نشین کر لیا کریں۔ بلکہ نوٹ بک میں تحریرکرلیا کریں اور اپنےاہل خانہ اور دوستوں کی مجالس میں ان باتوں کا مذاکرہ بھی کیا کریں ، امید ہے کہ اس کے ذریعے دینی معلومات میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا اور عمل کا جذبہ بھی بیدار ہوگا! وما ذلک علی اللّٰہ بعزیز