مالیگاوں :- شہرعزیز مالیگاوں میںتعلیمی،سیاسی،سماجی،صحافتی اور دینی شعبہ حیات میں نمائندہ شخصیات کی پر خلوص خدمات کے اعتراف کے طور پر نشان ہند ٹرسٹ کے زیر اہتمام مورخہ ۲۴؍نومبر بروز جمعہ شب میں۸؍بجے امام احمد رضا روڈ، اے ٹی ٹی کے سامنے اسکس ہال میں ایک پروگرام بہ عنوان ’اعتراف خدمات اور کل ہندمشاعرے ‘کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔پروگرام کی صدارت بزرگ شاعرشبیر شاد صاحب ،شمع فروزی امتیاز پیرزادہ صاحب(شولاپور)،چیف گیسٹ الحاج قریشی مختار احمدصاحب جبکہزینت اسٹیج شیرمیسورٹیپو سلطان کے پوتےسید منصور علی صاحب (میسور) ہونگے۔ بیرونی شعرائے کرام میں فلم نغمہ نگار منظر بلیاوی،اجمل عارف اعظمی، راجیش اناوی، نصیب اللہ بستوی کے علاوہ شہر عزیز کے خوش فکر شعرائے کرام سامعین کو محظوظ فرمائیں گے۔ مشاعرے کی نظامت کے فرائض ارشاد انجم نبھائیں گے۔باذوق سامعین کے علاوہ خصوصی طور پرشہرمالیگاوں کے تمام شعرائے کرام سے شرکت کی اپیل ٹرسٹ کے صدر یوسف رانا نے کی ہے۔
______
یوگیتا بہن اور ہائی کورٹ کو سلام !
شکیل رشید ( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
یوگیتا بہن کون ہیں ؟ اس سوال کا بظاہر جواب ہے کہ نام سے ایک ہندو خاتون لگ رہی ہیں ، اس لیے یہ ہندو ہیں ۔ بات سچ ہے ، یہ ہندو ہیں ، ’ ہندوتوادی ‘ نہیں ۔ یوگیتا بہن نے اپنی طرف سے ضعیف العمر کلّو کو ، جس کی گڑگاؤں میں گدّوں اور کمبلوں کی دکان شرپسندوں نے جلا کر راکھ کر دی تھی ، ایک دکان خرید کر دی ہے ، اس میں گدّے اور کمبل بھر کر دیے ہیں ، اور کلّو کو یہ بھروسہ دلایا ہے کہ جب بھی ضرورت پڑے ، جب بھی لگے کہ کوئی پریشان کر رہا ہے ، آواز دے لینا ، مجھ جیسے ہندو اُن ہندوؤں سے کہیں زیادہ بڑی تعداد میں موجود ہیں جنہوں نے دکان جلائی تھی ۔ یوگیتا بہن کو سلام ! یہ سلام اس لیے نہیں ہے کہ انہوں نے ایک ضعیف العمر مسلمان کو ، جس کی روزی روٹی کے لالے پڑ گئے تھے ، دکان دی اور دکان کے لیے مال دیا ، یہ سلام اس لیے ہے کہ ان کے عمل سے یہ امید پختہ ہوگئی ہے کہ فرقہ پرست کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے ۔ بےشک وہ لوٹ پاٹ کر سکتے ہیں ، قتل و غارتگری کر سکتے ہیں ، اور جانبدار حکومتوں کی پشت پناہی میں بغیر کسی جوابدہی کے دندناتے پھر سکتے ہیں ، لیکن ایک حد تک ، بس ۔ ممکن ہے کہ ’ حد ‘ کی مدّت طویل ہو ، مگر طویل مدّت کی بھی ایک حد ہوتی ہے ۔ یوگیتا بہن نے کلّو کی امداد کرتے ہوئے دو اہم باتیں کہی ہیں ، ایک یہ کہ وہ مزید لوگوں کی مدد کرنا چاہتی ہیں ، اور یہ کہ جب انہوں نے کلّو کی دکان کے جلائے جانے کی خبر دیکھی تو وہ سو نہیں سکیں ۔ یقین ہے کہ اس ملک میں یوگیتا بہن جیسی بے شمار بہنیں ، اور بھائی ہوں گے جو میوات کے تشدد ، حکومتی ناانصافی ، بےجا گرفتاریوں اور گھروں و دکانوں پر ناجائز طور سے بل ڈوزر چڑھانے کے عمل سے ،راتوں کو سو نہیں سکے ہوں گے ۔ یوگیتا کا عمل اس لیے بھی قابلِ تحسین بن جاتا ہے کہ یہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بجرنگ دل اور وشوا ہندو پریشد کے شرپسند گروگرام میں بھیڑ اکٹھاکر کے ’ مسلمانوں کے بائیکاٹ ‘ کا نعرہ لگا رہے ہیں ۔ وہ یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ حافظ سعد کو قتل کرنے اور مسجد پر حملہ کرنے کے الزام میں جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے ، انہیں رہا کیا جائے ، وہ قصوروار نہیں ہیں ۔ لیکن حوصلے اور امید کی بات یہ ہے کہ جاٹ ، گوجر اور سکھ برادری مسلمانوں کے ساتھ کھڑی نظر آ رہی ہے ۔ جاٹوں نے باقاعدہ یہ کہا ہے کہ میوات کا امن اور سکون برباد کرنے والے مسلمان نہیں تھے ۔ اتنا ہی نہیں ہریانہ کی کھٹّر حکومت میں بھی میوات کے تشدد پر اختلافات ابھر آئے ہیں ، دشیئنت چوٹالہ جو نائب وزیراعلیٰ ہیں ، انہوں نے تشدد پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے ، ابھئے چوٹالہ کا ردعمل بھی سخت ہے ۔ بی جے پی کے مرکزی وزیر راؤ بریندر سنگھ نے سخت لہجے میں یاترا میں شریک ہونے والوں پر سوال اٹھایا ہے کہ وہ دھارمک یاترا میں کیوں ہتھیار لے کر چل رہے تھے ، کس نے انہیں ہتھیار لے کر چلنے کے لیے اکسایا ؟ سابق وزیراعلیٰ بھوپیندر سنگھ ہڈّا نے تشدد کے خلاف آواز اٹھائی ہے ۔ اور سب سے اہم یہ کہ ہریانہ اینڈ پنجاب ہائی کورٹ نے ازخود نوٹس لے کر بل ڈوزروں کے ذریعے انہدامی کارروائی پر روک لگائی ہے ۔ ملک میں یہ جو بل ڈوزر کی سیاست شروع ہوئی ہے ، اس پرپہلی بار کسی عدالت نے سخت لہجہ اپنایا ہے ۔ ہریانہ اینڈ پنجاب ہائی کورٹ کو سلام! یہ سلام بل ڈوزروں کو روکنے کے لیے تو ہے ہی ، اس لیے بھی ہے کہ ہائی کورٹ نے ہریانہ کی کھٹّر سرکار سے کچھ چبھتے ہوئے سوال بھی کیے ہیں ، ان میں سے ایک سوال یہ بھی ہے کہ ’’ کیا امن و امان کے مسئلہ کی آڑ میں کسی خاص کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی عمارتوں کو گرایا جا رہا ہے ، اور ریاست کی طرف سے ’ نسلی صفائی ‘ کی مشق کی جا رہی ہے ۔‘‘ یہ بہت سخت سوال ہے ، یہ سوال کھٹّر حکومت کے ’ ارادہ ‘ پر سوال اٹھاتا ہے ، یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہاں کے وزیراعلیٰ اور ان کی حکومت کے ’ ارادے ‘ کو عیاں کر دیتا ہے ۔ مسلم متاثرین کو چاہیے کہ وہ مذکورہ افراد کا شکریہ ادا کریں ، ہائی کورٹ کے سخت رویے کو سلام کریں ، اور اپنی لڑائی میں ’ ہندوتوادیوں ‘ کو نہیں یوگیتا بہن جیسی ’ ہندوؤں ‘ کو شامل کر لیں ، تاکہ لڑائی لڑنا آسان ہو جائے ۔ ایک اپیل مسلم دھنّا سیٹھوں سے ، جن کی بہت بڑی تعداد اس ملک میں ہے ؛ یوگیتا بہن سے کچھ سبق سیکھیں ، کلّو جیسے بے شمار لوگ میوات کے تشدد سے بے گھر اور بےکار ہوئے ہیں ، ان کی جانب نظر کریں اور یوگیتا ہی کی طرح انہیں گھر اور دکان بنا کر دیں ، یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ اس طرح کا کام صرف مسلم تنظیموں اور جماعتوں پر چھوڑ دیا جائے ۔
_____
کتاب کا نام:
"جتنے منہ اتنی باتیں"
(افسانوں اور افسانچوں کا مجموعہ)
مصنف: علیم طاہر
سن اشاعت:2023
01: دو سطری افسانچہ....
" آخر کار"
علیم طاہر
ہم روشنی کی تلاش میں بھٹکتے رہے، آخر کار اندھیروں کے عادی ہوگئے ـ
______________________________
02: افسانچہ
فیضان رمضان ۔
علیم طاہر
عاقب ماہ رمضان میں نماز فجر کے بعد حسب معمول شہر کے قبرستان میں فاتحہ کے لیے بڑے گیٹ سے اندر داخل ہوا ۔ ایک بزرگ جو لیٹے ہوئے تھے اسے دیکھ کر اٹھ بیٹھے ۔ عاقب نے فاتحہ مکمل کیا اور واپس گیٹ کی جانب بڑھا ہی تھا کہ بزرگ بھی اس کے ساتھ قدم بڑھاتے ہوئے مخاطب ہوئے ۔
۔۔سر۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔میں ۔۔۔کام نہیں کر پاتا ہوں ۔۔۔۔تو میری کچھ مدد کر دیجیۓ ۔
عاقب نے ٹھہر کر اپنی جیب سے بٹوا نکالا اور کچھ روپے بزرگ کے لرزتے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے کہا
" بابا ۔۔۔میرے لیے بھی دعا کیجئے ۔۔میں ایک سرکاری ملازم ہوں ۔۔۔ میرا ٹرانسفر دہلی میں ہو جائے ۔"
بابا نے گردن ہلاتے ہوئے کہا " انشاء اللہ ۔۔۔۔انشاء اللہ ۔ ضرور بچہ۔۔۔۔۔!!! فیضان رمضان کی بارش سب پر ہوگی ۔
عاقب نے اپنی بائیک اسٹارٹ ہی کی تھی کہ آسمان سے بادلوں نے برسنا شروع کر دیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.......۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔03: افسانچہ
" مجبوری"
علیم طاہر
مجبور عورت سرمایہ دار سے:۔۔۔۔۔
اللہ کے واسطے میری مدد کیجئے ۔ فطرہ ذکات جو بھی ہو دیجیے ۔
سرمایہ دار :۔۔۔۔کہاں سے ہو ۔ بیوہ ہو ۔ بے سہارا ہو ؟
عورت۔۔۔۔۔۔جی ۔۔۔بے سہارا ہوں ۔
سرمایہ دار:۔۔۔۔اچھا تو اور کام کر سکتی ہو ؟
عورت : ۔۔۔۔جی میں سمجھیں نہیں ۔۔۔
سرمایہ دار :۔۔۔۔سمجھنا کیا ۔۔۔آپ کو آم کھانے سے مطلب ۔
عورت: ۔۔۔۔جی۔۔۔
سرمایہ دار: ۔۔۔۔۔کھڑی کیوں ہو جاؤ کارخانہ کے اندر ۔۔
عورت: ۔۔۔۔۔جی لیکن ۔۔۔۔
سرمایہ دار:۔۔۔۔اف سوچو مت ۔۔۔۔ذکات چاہیے ناں ۔۔۔۔
عورت: ۔۔۔۔ہاں ۔۔۔۔ہاں ۔۔۔۔
سرمایہ دار۔۔۔۔۔۔۔۔"تو بس۔۔۔۔تیار ہو جاؤ ۔"
عورت تھکے ہوئے قدموں سے کارخانے میں داخل ہو رہی ہے ۔ اس کی آنکھیں ڈبڈبا چکی ہیں ۔
ایک قیمت حاصل کرنے کے لیے اسے اتنی بڑی قیمت چکانی پڑ رہی تھی ۔
________________________________
افسانچے.........علیم طاہر
(04 ).... کھچڑی
ٹیچر: کیا آپ کے قول و فعل میں تضاد نہیں لگتا؟
ہیڈ ماسٹر: وہ کیسے؟
ٹیچر: پہلے جب ٹرانسفر ہو کر آپ اسکول میں آئے تھے تو آپ نے پہلی میٹینگ میں کہا تھا کہ لوگ بچّوں کی کھچڑی کے چاول تک ہڑپ لیتے ہیں ـ میں یہ قطعی برداشت نہیں کروں گا اور اب ؟ پہلے تو کھچڑی کافی کافی مقدار میں پکتی تھی مگر اب تو ایک تہائی بھی نہیں! !
ہیڈ ماسٹر: ہاں بھئی، جو کہا جائے ضروری نہیں کہ وہ کیا جائے ـ
ٹیچر: سمجھ گیا سر میں سمجھ گیا، اب تو ہیڈ ماسٹر اور لیڈر میں کیا فرق ہے؟ میں سمجھ گیا ـ
--------------------------------------------------------
..........(05) ...درد ناک انجام
اس مصنف نے اپنے ہی مذہب کے خلاف اپنی کتابوں میں سستی شہرت پانے کے لیے زہر اگلنا شروع کر دیا ـ مذہب دشمنوں میں وہ عالمگیر شہرت کا حامل قرار پایا ـ دنیا میں سب زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں کا خالق وہی مصنّف تسلیم کیا گیا ـ مگر ایک دن اسے نا معلوم بیماری کا انکشاف ہوا وہ ساری دنیا میں شفا ڈھونڈ رہا، آخر کار بے پناہ تکالیف اور مایوسیوں کے بعد اس کے دل کی دھڑکنیں رک گئیں ـ مذہبی لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا اور مخالفین مذہب کفِ افسوس ملتے رہ گئے ـ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
.. ..... (06).....منطق
ملزم: آخر آپ مجھ سے جھوٹ کیوں بلوانا چاہتے ہو؟
حاکم: کیونکہ مجھے سچ پسند نہیں ـ
ملزم: لیکن سچ کا دوسرا نام خدا ہے ـ
حاکم: مگر ہم خدا نہیں خدا کے بندے ہیں اور بندے گنہگار بھی ہوتے ہیں ـ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(07) .................
و ا ئر س
پہلا: آخر میرے کمپیوٹر میں اینٹی وائرس کے باوجود وائرس آ کیسے جاتے ہیں ؟
دوسرا: کیونکہ وائرس کے سامنے اینٹی وائرس شکست کھا جاتے ہیں اور وائرس جیت جاتے ہیں ـ
پہلا: تو پھر اس مسئلے کا حل کیا ہے ـ
دوسرا: دوبارہ اینٹی وائرس کے ذر یعے وائرس کا خاتمہ ـ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
افسانچے.....علیم طاہر (انڈیا)
(08)......شاباش بیٹا
ا
ماں: آدھی عمر ناول اور کتابیں پڑھتا رہا لیکن اپنے اندر ایک افسانہ لکھنے کی صلاحیت نہیں پیدا کر سکا ـ
بیٹا: ممّی ضروری نہیں کہ ہر ناول اور کتابیں پڑھنے والا تخلیق کار بن جائے ـ یہ تو خدا داد صلاحیت ہوتی ہے ـ
ماں: پھر وہ جمّن میاں کا لڑکا نہ ناول پڑھا نہ کتابیں پھر افسانوں کی کتاب کیسے چھاپ لی ـ
بیٹا: افوہ ممّی، تمہیں کیسے سمجھاؤں کسی ضرورت مند مصنف کو روپے دے کر اس کے افسانے اپنے نام سے چھپوانا نا انصافی اور ظلم ہے ـیہ میں تو کبھی نہیں کر سکتا ـ
ماں: شاباش بیٹا، شاباش، بالکل اپنے باپ پر گیا ہے ـ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(09) کنفیوژن
ایک آدمی: گفتگو سلیقے سے کی جانی چاہیئے ـ
دوسرا: تو کیا ہم جاہل ہیں ـ
آدمی: میں نے یہ تو نہ کہا ـ
دوسرا: یہی تو پرابلم ہے ـ جو تم نہیں کہتے ہو ہم وہی سوچ کر کنفیو ژ ہو جاتے ہیں ـ
آدمی؛: یہ تو تمہارا پرابلم ہے ـ
دوسرا : اور ہمیں اس پرابلم سے کنفیو ژن ہے ـ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
....(10) ناستک
دوست: کیا آپ اپنی ڈیوٹی ایمانداری سے نبھا رہے ہو ـ
افسر: خبردار! مجھے اپنی ڈیوٹی کے بارے میں مت پوچھو ـ
دوست: کیوں، اسی لیے نا کہ ڈیوٹی بے ایمانی سے نبھا رہے ہو ـ
افسر: او چپ کر یا ـ ایمانداری اور بے ایمانی کا تصور، مجھ میں کب کا فنا ہو چکا ہے ـ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(11) طمانچہ
پہلا: سنا ہے کسی نے لیڈر کو طمانچہ رسید کر دیا ـ
دوسرا: ہاں بھئی، لیکن لیڈر نے طمانچہ رسید کرنے والے کو معاف کر دیا ـ
پہلا: پتہ نہیں بڑے لیڈروں کے ساتھ آگے کیا کیا ہونے والا ہے ـ
دوسرا: اب پوچھ ہی لیا ہے تو سُن !
مہنگائی اور نا انصافی یوں ہی بڑھتی رہی تو لیڈروں کو چوروں کی طرح گلیوں میں بھاگنا پڑ سکتا ہے ـ پوچھ کیوں ؟
پہلا: کیوں ، کیوں؟
دوسرا: کیونکہ ان کے پیچھے بیدار اور غصیلی عوام سر پٹ دوڑ رہی ہو گی ـ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
افسانچے۔۔۔۔۔۔۔۔۔علیم طاہر
( 12) درد ناک انجام "
اس مصنف نے اپنے ہی مذہب کے خلاف اپنی کتابوں میں سستی شہرت پانے کےلئے زہر اگلنا شروع کر دیا ۔ مذہب دشمنوں میں وہ عالمگیر شہرت کا حامل قرار پایا ۔ دنیا میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں کا خالق وہی مصنف تسلیم کیا گیا ۔مگر ایک دن اسے نامعلوم بیماری کا انکشاف ہوا ۔ وہ ساری دنیا میں شفا ڈھونڈتا رہا ، آخر کار بے پناہ تکالیف اور مایوسیوں کے بعد اس کے دل کی دھڈکنیں رک گئیں ۔ مذہبی لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا اور مخالفین مذہب کف افسوس ملتے رہ گئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( 13) "نئی روشنی "
پہلا: کیا تمہیں نئی روشنی میں دکھائ نہیں دے رہا ہے ؟
دوسرا : نہیں بھائی ، کچھ بھی نہیں ! اس میں تو اندھیرا ہی اندھیرا ہے ۔
پہلا : کیا ؟
دوسرا : پھر تم اپنی زندگی کا سفر کیسے طے کر رہے ہو ؟
پہلا : یہی تو تمہیں سمجھ نہیں رہا ؟
پہلا : کیا؟
دوسرا : میری زندگی کا سفر جاری نہیں ہے بلکہ رک گیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( 14) "چائے پی کے جاؤ"
پہلا: تم کیا ہو ؟
دوسرا : میں کچھ نہیں ہوں ۔
پہلا : دروغ گوئی سے کام مت لو ۔ تم بہت کچھ ہو ۔
دوسرا : خبر دار !! مجھے چنے کے جھاڑ پر مت چڑھاؤ ۔
میں جانتا ہوں میں کچھ نہیں ہوں ۔ مجھے حقیقت میں جینے دو ۔ خواب مت دکھاؤ ۔
خواب گمراہ کر دیں گے ۔
مجھ میں غرور بھر دیں گے ۔ مجھے مغرور مت بناؤ ۔ بیٹھو چائے پی کے جاؤ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منی افسانہ نمبر01۔۔۔۔
" پوائنٹ آف انکاؤنٹر "
15:افسانچہ:
افسانچہ نگار: علیم طاہر
"انکاؤنٹر"
پہلا: ریپ کرنے والوں کا انکاؤنٹر کر دیا گیا ۔ لیکن کیوں ؟
دوسرا: کیونکہ وہ پولس پر حملہ آور ہو گئے تھےاور بھاگنے کی کوشش بھی کر رہے تھے ۔
پہلا : یہ واقعہ کب اور کہاں ہوا ؟
دوسرا : حیدرآباد میں رات کے آخری پہر میں ،
پہلا : تو پولیس رات کو ہی کیوں لے گیء انہیں ۔
دوسرا: پولس کا کہنا ہے کہ دن میں ان پر پبلک کے حملہ کرنے کا خدشہ تھا ۔ اور جہاں انہوں نے ریپ کے بعد عورت کو جلا کر راکھ کر دیا تھا اس معاملے کو سلجھانے سمجھنے کے لیے ۔
پہلا: لیکن انہیں ہتھکڑیاں کیوں نہیں لگائی گئی تھیں؟ وہ حملہ آور کیسے ہوئے؟ اور رات کے اندھیرے میں کیا معاملہ سمجھا جا سکتا بھلا؟
دوسرا: بھائی بے شمار لوگ اس واقعے پر پولس کی پیٹھ ٹھونک رہے ہیں پذیرائی حاصل ہورہی ان کو ۔ اور تو سوالات کیے جارہا ۔
پہلا : اچھا تو کیا تو بھی اسے اچھا سمجھتا ہے ۔
دوسرا: ہاں بھائی نہ عدالت نہ شنوائی، نہ جیل ، نہ بہت بعد میں پھانسی، بس انکاؤنٹر اور بات ختم ۔
پہلا:۔ اچھا تو پھر جمہوریت کا خون نہیں ہے یہ ۔ اس طرح تو پولس جسے چاہے مار دے گی ۔ اصلی مجرمین کیسے پتہ چلے گا کون ہیں ؟ ہو سکتا امیر زادوں کو بچانے کے لیے بھی انکاؤنٹر کر دیا گیا ہو۔ ؟ کیونکہ اس سے پہلے ایسا بہت مرتبہ ہو چکا ہے ،
دوسرا:۔ بالکل بھائی اب بات سمجھ آئی ۔
پہلا : ہمیں ہر نکتے ہر پوائنٹ پر غور کرنا ضروری ہے۔ ورنہ جمہوریت بالکل ختم ہو جائے گی اور بے شمار مسائل جنم لیں گے ۔
دوسرا:۔ جی بھائی آپ نے میری آنکھیں کھول دیں۔ اب تو انکاؤنٹر کی تحقیق کروائی جانی چاہئے۔ بہت شکریہ۔۔۔
________________________________
افسانہ: نمبر 16
:
. " چھپکلی "
علیم طاہر
ایک ادھیڑ عمر چھپکلی اپنے شرارتی بچے کے ساتھ انسانوں کے مکان کی بیرونی دیوار پر چڑھتے ہوئے یوں گویا ہوئی ۔
" سورج غروب ہو رہا ہے میری بات غور سے سنو ! بڑی ہوشیاری اور چتورائی سے انسانی مکان میں داخل ہونا۔ تم بڑے شرارتی ہو، انسانوں کے زیادہ قریب جانے کی ضرورت نہیں۔ خوامخواہ ڈیرنگ (بیباکی) دکھاؤ گے تو مارے جاؤ گے ۔ لائٹس کے ارد گرد کے کیڑے مکوڑوں، یا کچن روم میں ڈسٹ بین میں پھینکے ہوئے کھانے کھا کر، پیٹ بھرتے ہی واپس اسی جگہ پر ملنا، پیٹ میں پڑتے ہی تمہیں مستی سوجھنے لگتی ہے ۔خبردار !
انسانوں سے دور رہتے ہوئے پیٹ بھرنا، آنکھ مچولی مت کھیلنے لگ جانا۔"
چھپکلی کے شرارتی بچے نے جمائی لیتے ہوئے کہا "افوہ مما آپ بھی کتنا خوفزدہ ہو انسانوں سے۔
وہ ہمیں کیوں مارنے لگے؟
ادھیڑ عمر چھپکلی (دیدے گھماتے ہوئے طنزیہ لہجے میں) کہنے لگی ۔
" اس بھرم میں مت رہیو بیٹے! انسانی دنیا میں نفرت بہت بڑھ چکی ہے . یوٹیوب، فیس بک ،انسٹاگرام اور گوگل، کا زمانہ ہے۔ ہماری تمام نسلوں کی معلومات رکھتے ہیں یہ انسان۔
شرارتی بچہ (منہ بناتے ہوئے)" لیکن سارے انسان ایسے نہیں ہوتے، جو ہم سے نفرت کرتے ہیں۔"
چھپکلی (فیصلہ کن انداز میں)" جو ہم سے محبت کرتے ہیں۔ وہ آٹے میں نمک برابر بھی نہیں ہے بیٹا۔ اور ان کی کون سنے گا؟ کون مانے گا ان کی؟ وہ لاکھ دلیلیں دے دیں. ہمارے بے ضرر ہونے کی. ہماری زہریلی نسلوں کی وجہ سے ہمیں تو مارنے تک کا حکم ہے !
ناچتے نہ پھریو ۔۔ انسانوں کے سامنے ، نہیں تو" پچاک" سے زندگی کا خاتمہ کر دیں گے۔
شرارتی بچہ (خوفزدہ لہجے میں)" ٹھیک ہے مما ...اب تو زندگی سے ڈر لگنے لگا ہے. آخر انسانوں کو ہمیں مار کر کیا ملتا ہوگا؟
چھپکلی (سنجیدگی کے ساتھ)" ارے بیٹا انہیں کیا ملتا ہوگا؟؟ تسکین ملتی ہے, کچھ لوگ تو "چھپکلی قاتل" کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ انسانوں کی فطرت کو سمجھو. ہمیں قتل کروا کر سکون پاتی ہے۔ اکثر عورتیں ہمیں دیکھ کر ایسے اچھلتی ہیں جیسے "ملک الموت" کو دیکھ لیا. ان کے خوف کو دور کرنے کے لیے مرد حضرات ہمارا " کچومر "بنانے کو ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ وہ تو ہم خود اپنی ہلتی ہوئی دم توڑ کر انسانوں کو گمراہ کرکے بچ جاتے ہیں ۔ مگر ضروری نہیں کہ ہر بار بچنے کا موقع ہی نصیب ہو جائے۔ آج کا انسان ہم سے کہیں زیادہ چالاک اور شاطر ہو چکا ہے۔ "
شرارتی بچہ (وفاداری اور فرمانبرداری کا احساس دلاتے ہوئے)
" ٹھیک ہے مما آپ کی نصیحت پر عمل کروں گا۔ کیونکہ مجھے زندہ جو رہنا ہے ۔ "
اتنی گفتگو کے بعد دونوں چوری چھپے انسانوں کے مکان میں داخل ہو جاتے ہیں ۔
(C): Afsana no.16.
" Chipkali"
Email id: aleemtahir12@gmail.com
Mobile no.9623327923.
________________________________
افسانہ نمبر :17
"سانپ پکڑا گیا "
افسانہ نگار : علیم طاہر
آج صبح شہر کے بھنگار بازار میں دکانیں کھلنی شروع ہو رہی تھیں. اکا دکا دکانیں کھل چکی تھیں.. ایک دکاندار نے شٹر کھولا تو حیرت سے اس کی آنکھیں پھیلتی چلی گیئں کیونکہ ایک موٹا بھدا اور خوفناک لمبا سانپ سر سر کرتے ہوئے دکان کی دیوار سےسٹ کر رکھے سامان کی آڑ میں گھس گیا. دکاندار ہڑبڑا کر پیچھے ہٹا اور گرتے گرتے سنبھلتا ہوا دکان کے باہر سڑک پر آ گیا ہانپتے کانپتے کچھ دکانداروں کو پکار کر بلا لیا اور سانپ کے اندر چھپنے کی خبر دی. آٹھ دس افراد اکٹھا ہوچکے تھے. سب کے چہرے پر خوفناک تجسّس مسلط تھا. جتنے منہ اتنی باتیں، کسی نے کہا
"گبھراؤ نہیں. ابھی سانپ پکڑنے والے کو کال کرتا ہوں وہ پکڑ کر لے جائے گا.
دوسرے نے کہا کہ
" جلدی بلاؤ بھائی. کسی کو ڈس لیا تو؟
تیسرے نے کہا کہ
"لگتا بہت زہریلا ہے."
کال کرتا ہوا شخص " بھائی بھنگار بازار دکان نمبر 36 میں ایک زہریلا سانپ دیکھا گیا.
ہاں ہاں اندر گھس گیا ہے، اسی دکان میں جس میں ایک درخت کی جڑیں اور تنا چھوڑ کر دیوار اٹھائی گئی ہے..
اچھا، دس منٹ میں، ٹھیک ہے آجاؤ..."
فون کٹ ہوتے ہی سب کے چہرے پر دس منٹ انتظار کی بے چینی صاف دیکھی گئی.. کچھ دیر میں....
ایک نوجوان آیا، جس کا چہرا جنگلی ادیواسی جیسا تھا مگر جینس اور شرٹ میں وہ مداریوں کے خاندان کا فرد معلوم ہو رہا تھا. آتے ہی اس نے خوفناک قہقہہ لگایا. اس کے کئی دانتوں پر سونا رنگ چڑھا ہوا تھا. جو اسے اور بھی بھیانک بنا کر پیش کر رہے تھے. سب نے اسے راستہ دیا وہ آتے ہی دکان میں گھس گیا اور ایک
سانپ کو ہینڈل کرنے والی چھڑی لے کر سانپ کو چھیڑنے لگا سانپ فوراً سامان سے باہر نکل آیا اور پھنکارتے ہوئے حملہ آور ہوا مگر مگر سپیرا بہت منجھا ہوا چالاک تھا بچتے ہوئے چند منٹ اس سانپ سے کھیلتا رہا اور پکڑنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ سانپ نے زہر کی پھوار اچھال دیا جو نیچے کم از کم انسانی چند گھونٹ کی طرح سفید رنگت جیسی گر پڑی تھی، جیسےچار بگلوں نے شاخ پر بیٹھ کر نیچے سفید رنگ کی ٹٹی کر دی ہو.
آخر کار اسے سپیرے نے اپنے قابو میں کرتے ہوئےمضبوط پلاسٹک کے اندر قید کرکے باندھ لیا.
چائے منگوا کر سپیرے کی آؤ بھگت کی گئی. چائے پینے سے پہلے اس نے اچھی طرح پانی سے ہاتھ منہ دھویا اور سکون سے چائے نوش فرمائی.
سپیرے سے فیس پوچھ کر دو سو روپے دے دیے گئے. لوگوں کی آنکھوں میں اطمینان کی چمک صاف نظر آرہی تھی.
بازو کی دکان میں لوگ باگ باتیں کرنے لگے.
ایک فرد، " سانپ کا نکلنا دکان میں بڑا منحوس ہے.
دوسرا فرد،" سانپ بڑا زہریلا تھا"
تیسرا فرد" ہاں یار زہریلی پھنکار کے ساتھ زہر تھوکا تھا وہ "
چوتھا فرد" زہر بہت مہنگا بکتا ہے، کم از کم دو لاکھ کا "
پہلا فرد" بالکل بھائی، یہ بات سہی ہے. مداری کے ہاتھ لگ جائے تو اس کے دانت نکال کر پورا پریوار پالنے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں. "
دوسرا فرد" یہ سانپ، سانپ کے روپ میں خبیث، اور جن، ہوتے ہیں.
تیسرا فرد " جتنے لوگ دیکھے ہیں آج وہ بڑے خوش نصیب ہیں"
چوتھا فرد "وہ کیوں؟
تیسرا فرد" کیونکہ سانپ کو پکڑتے دیکھنا یعنی اپنے دشمن پر قابو پاناہے. "
پہلا فرد" ابے چھوڑو سب باتیں.. جیسے اعمال ویسے حالات.. یہ سب اوپر والے کا عذاب ہے.."
دوسرا فرد" لگتا ہے اس سانپ کے رشتے دار رات کو اسے ڈھونڈنے نکلیں گے"
تیسرا فرد" میں نے اپنے موبائل فون میں ویڈیو بنایا ہوں "
پہلا فرد،" ابے جلدی ڈیلیٹ کر، کہیں رات وات کو تیرے گھر سانپوں کی ٹولی نہ آجائے. "
تیسرا فرد" ہاں بھائی ڈیلیٹ کر رہا ہوں.. یہ لو کر دیا، موبائل دکھاتے ہوئے..... "
تقریباً تمام دکانیں کھل چکی تھیں اور سانپ کے متعلق جتنے منہ اتنی باتیں.. شام تک ہر کوئی اس موضوع میں منہمک تھا...
سپیرا سانپ کو لے کر جا چکا تھا مگر اپنے پیچھے ڈھیر ساری باتیں خود بخود چھوٹ گئی تھیں. .....
علیم طاہر
________________________________
(C) :
Afsana no :17
Aleem Tahir
Email id: aleemtahir12@gmail.com
Mobile no. 9623327923.
________________________________
Kitaab ka Naam:" jitne munh Utni
baaten "
Afsanon,Afsanchon ka majmua.
Musannif:Aleem Tahir
Published:18/09/2023.
Aleem Tahir:
Email id: aleemtahir12@gmail.com
Mobile no.9623327923.
_________
مطالعہ کی میز پر.........
کتاب : دکھتی رگ (افسانچہ)
مصنف. : خالد بشیر تلگامی
دکھتی رگ کی گاتھا
اردو ادب میں دبستان کشمیر کی خدمات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے یہاں کے شعراء و ادباء کی ایک لمبی فہرست ہے.. یہاں کے افسانہ نگار بھی افسانوی ادب کو مالا مال کر رہے ہیں.. نوجوان افسانہ اور افسانچہ نگار خالد بشیر تلگامی کا تعلق بھی ادب کی اسی مردم خیز زمین سے ہے انہوں نے بہت کم عرصے میں بحیثیت افسانچہ نگار اپنی شناخت مستحکم کر لی ہے ان کے افسانچے ملک کے مشہور و معروف اخبارات و رسائل میں تواتر سے شائع ہو رہے ہیں... "دکھتی رگ" ان کے افسانچوں کا پہلا مجموعہ ہے... افسانچہ نگاری ایک مشکل فن ہے مگر ادھر کچھ سالوں میں بہت سارے سنجیدہ قلم کاروں نے افسانچہ نگاری کی طرف توجہ دی ہے اور اس فن کو آگے بڑھانے میں اپنا نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں ان میں ایک نام خالد بشیر تلگامی کا بھی ہے... جو افسانچہ کے فن سے بخوبی واقف بھی ہیں.. ایک کامیاب افسانچہ نگار وہی ہے جو کم سے کم الفاظ میں کہانی کہنے کا ہنر جانتا ہو کیونکہ اختصار افسانچے کا خاصہ ہوتا ہے..."دکھتی رگ" افسانچے کا عنوان بھی ایک کامیاب افسانچے کی طرح چونکانے والا ہے جیسے کسی نے کہانی کار کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہو.. اس کتاب کو انہوں نے اپنی امی ابو، اپنی شریک حیات اور بچوں کے نام منسوب کیا ہے جہاں سے زندگی کی اصل کہانی شروع ہوتی ہے.. اس کتاب میں ملک کے نامور افسانہ نگاروں نے خالد بشیر تلگامی، افسانچہ نگاری اور دکھتی رگ کے حوالے سے اپنی گراں قدر رائے کا اظہار کیا ہے نورشاہ، ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا، تنویر اختر رومانی، ایم مبین، سرور غزالی اور پروفیسر اسلم جمشیدپوری نے نہ صرف افسانچہ پر کھل کر باتیں کی ہیں بلکہ بحیثیت افسانچہ نگار خالد بشیر تلگامی کی افسانچہ نگاری پر بھی روشنی ڈالی ہے اور ان کے پہلے مجموعہ کی اشاعت پر انہیں دلی مبارک باد بھی پیش کی ہے.. اس کتاب میں خالد بشیر تلگامی کا مختصر تعارف اور انکی اپنی باتیں ان کی ادبی شخصیت کو اور بلند کرتی ہیں.. اس مجموعے میں ان کے ایک سو چھ افسانچے شامل ہیں.... چند افسانچے ملاحظہ فرمائیں.......
مصروف
"ایک روٹی مجھے بھی دے دو سیٹھ جی... دو دنوں سے بھوکا ہوں.." بھکاری نے صدا لگائی.
کتے کو روٹی کھاتے ہوئے سیٹھ جی نے بھکاری کو حقارت سے دیکھا اور ڈانٹتے ہوئے کہا.. "دکھائی نہیں دیتا کیا...! ابھی میں مصروف ہوں..."
ارادہ
زندگی کے مسائل سے تنگ آ کر وہ خودکشی کر کے گھر سے نکلا.. راستے میں اس کو ایک چھوٹی سی بچی نظر آئی جو بھیک مانگ رہی تھی.. بچی کو بھیک مانگتا دیکھ کر اس کو اپنے بچے یاد آ گئے.. اس کی آنکھیں نم ہو گئیں اور اس نے خودکشی کا ارادہ ترک کر دیا..
چراغ تلے
"پاپا، یہ ایوارڈ آپ کو کیسے ملا ہے؟ بیٹے نے سوال کیا
" گھریلو ہنسا روکنے کے لئے میں نے جو کام کئے ہیں ان کے لئے.. "
بیٹے نے اور کچھ نہیں کہا صرف اپنی ماں کے مایس چہرے کو دیکھتا رہا..
اس مجموعے کے آخری حصے میں معروف اہل قلم کے تاثرات بھی پیش کئے گئے ہیں جن میں احمد کمال حشمی، ارشد علی ارشد، اقبال نیازی، جاوید نہال حشمی، حنیف قمر ریحان کوثر، سلیم سرفراز، شگفتہ شفیق، علیم اسماعیل، قیوم اثر، محمد علی صدیقی، نخشب مسعود، وحشی سعید وغیرہ یہ وہ نام ہیں جو اندنوں بذات خود افسانچہ کے فن کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کر ہیں اور اپنے افسانچوں کے ذریعے اس فن کو بلندی کی طرف لے جارہے ہیں...
خالد بشیر کے افسانچوں کے مطالعہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے اندر ایک اچھے افسانچہ نگار کی ساری خصوصیات موجود ہیں... مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے اس مجموعہ "دکھتی رگ" کے ذریعے بہت جلد ادبی دنیا میں اپنی ایک الگ پہچان بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے ....
اصغر شمیم, کولکاتا