کبھی ریت کے اونچے ٹیلوں پہ جانا، گھروندے بنانا، بنا کر مٹانا
وہ معصوم چاہت کی تصویر اپنی، وہ خوابوں کھلونوں کی جاگیر اپنی
نہ دنیا کا غم تھا، نہ رشتوں کا بندھن، بڑی خوبصورت تھی وہ زندگانی
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی...
یہ ہمارے وہ احساسات ہیں جنہیں ہم دوبارہ نہیں جی سکتے، نہ دوبارہ ان پلوں کو واپس لا سکتے ہیں، یہ وہ سنہرا دور تھا جہاں ہم نے ہمارے ماں باپ کے ساتھ ساتھ اپنے دادی دادا نانی نانا حتیٰ کہ ہر رشتے کو جیا ہے پھر چاہے وہ نانا کے ساتھ ہر جمعہ مٹھائیوں کا مزہ چکھنا ہو یا پھر چاچا کے ساتھ گلی محلوں میں گھومنا ہو یا دوستوں کے ساتھ سائیکل سیکھتے وقت محلے کی بوڑھی دادی نانی کی خدمت کرنا ہو، جہاں ہم بے غرض ہو کر سب کو اپنا سمجھتے تھے اور ہر کسی نے ہمیں سہارا بھی دیا، اب یہی ساری چیزیں ہمارے لئے ایک خواب ہو چکی ہیں اور ہمارے بچوں کیلئے ایک عجوبہ..... کیونکہ یہی وہ دور تھا جو ٹکنالوجی سے خالی لیکن خوشیوں اور اخلاص سے بھرا ہوا تھا اور ہم وہ خوش نصیب ہیں جو اس دور کی زندگی سے لطف اندوز ہوئے. ہم.... ہم کون؟ ہم یعنی جنریشن وائے... 1980 کی دہائی سے 1990کے وسط تک پیدا ہونے والے اشخاص کو جنریشن وائے اور millenials کہا جاتا ہے
اب چلتے ہیں ہمارے ماں باپ کی انگلیوں کو تھام کر ان کی زندگی کے سفر پر.. جہاں مشترکہ خاندان کی روایت تھی اور رشتے ناطوں کا بے حد احترام اور اہتمام تھا، یہ وہ نسل تھی جس نے ہندوستان بلکہ دنیا کی اتھل پتھل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا! اسی نسل کے حاجیوں نے پانی کے جہاز سے بھی سفر کیا اور ہوائی جہاز سے بھی حرمین شریفین کی زیارت کی. جن کے نزدیک دولت کی اہمیت تھی اور نہ ہی نمائشی چیزوں کی اور یہ وہ نسل ہے جسے جنریشن ایکس کہا جاتا ہے. 1965 سے 1980 کی دہائی تک پیدا ہونے والے افراد اسی نسل میں شمار کئے جاتے ہیں
اب نظر ڈالتے ہیں ہمارے بچوں کی زندگی پر! جن کیلئے جنریشن ایکس اور وائے سے وابستہ تمام چیزیں ایک خواب کی سی ہیں. جنہوں نے ٹکنالوجی کو ہی اپنا دوست سمجھا ہے. پھر چاہے ماں باپ کی پکار ہو یا اذان کی آواز ہر چیز کو سنی ان سنی کر دینا ان کی عادت ہے.. یہ ہے جنریشن زیڈ، جس نے 1996 کے بعد دنیا میں قدم رکھا، مادیت سے پر اس دنیا میں آنکھ کھولنے والے ان بچوں کو یہ بھی پتہ نہیں کہ مذہبی تہواروں کے پس منظر کیا ہیں!
جنریشن وائے یعنی ہم ان دونوں کے بیچ پس کر رہ جاتے ہیں کیونکہ ہم جنریشن ایکس اور زیڈ کے بیچ پل کی طرح ہیں. ہم ہی ان دونوں کو سنبھالتے بھی ہیں اور انہیں جوڑ کر بھی رکھتے ہیں. ہماری سب سے بڑی آزمائش یہی ہے کہ کہ دو ایسی نسلوں کو جوڑ کر رکھنا، انہیں ساتھ لے کر چلنا، جو ایک دوسرے کے الٹ ہیں.... ایک نسل جسے ٹکنالوجی ہی نہیں پتہ اور دوسری جو اسی کے بل پر آگے بڑھ رہی ہے. جنریشن ایکس جس نے ساتویں تک پڑھ کر بھی روزگار حاصل کرلیا اور جنریشن زیڈ جو پوسٹ گریجویشن ہونے کے بعد بھی روزگار کیلئے تگ و دو کر رہی ہے. جنریشن ایکس کیلئے تمام چیزیں فلسفے جیسی ہیں اور جنریشن زیڈ کیلئے ایمان کی حفاظت بھی مشکل امر ہے
ہماری سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ہم جنریشن ایکس کے طور طریقوں پر چل کر جنریشن زیڈ کی تربیت کریں، اور انہیں صحیح راہ دکھائیں.. ایسے وقت لازم ہے کہ جنریشن ایکس کے افراد فہم و فراست کا ثبوت دے کر جنریشن زیڈ کو خودمختار بنانے میں جنریشن وائے کا ساتھ دیں.. کیوں کہ بہر حال ہمارے بزرگوں کی نصیحت اور تجربات کے بنا جنریشن زیڈ مشکلات کا مقابلہ نہیں کرسکتی... ان سب میں سب سے اہم کردار جنریشن وائے کا ہے جسے دونوں سروں کو لے کر چلنا ہے، جس نے پرانے دور کے ساتھ نئے فتنے بھی دیکھے، ٹیلی-فون سے موبائل-فون اور دوردرشن سے آئی پی ایل تک کا سفر دیکھا... ہمارا درد تھوڑا مختلف ہے... جسے سید محمد اشرف نے ناول آخری سواریاں میں یوں بیان کیا