نئی دہلی: سپریم کورٹ نے پیر کو گیانواپی مسجد زمین کی ملکیت تنازعہ سے متعلق عرضیوں پر سماعت یکم دسمبر تک ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی جسٹس جے بی پاردیوالا اور جسٹس منوج مشرا پر مشتمل بنچ وقت کی کمی کی وجہ سے کیس کی سماعت نہیں کر سکی۔ بنچ نے فریقین سے کہا کہ وہ اس مدت کے دوران ایک صفحے کا نوٹ داخل کریں۔
وارانسی میں گیانواپی مسجد کا انتظام سنبھالنے والی انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی نے سپریم کورٹ میں تین الگ الگ عرضیاں دائر کی ہیں۔ اپنی پہلی عرضی میں گیانواپی-شرنگار گوری کمپلیکس کے سروے کے لیے کورٹ کمشنر کی تقرری پر اعتراض کرتے ہوئے کہا گیا کہ وارانسی عدالت کا حکم بادی النظر دائرہ اختیار کے باہر نظر آتا ہے۔
مسجد کمیٹی کی طرف سے پیش سینئر وکیل حذیفہ احمدی نے کہا کہ کمشنر کی تقرری سی پی سی (مجموعہ ضابطہ دیوانی) کے آرڈر 26 رول 9 کے لحاظ سے درست نہیں ہے۔ دوسری اسپیشل لیو پٹیشن میں الہ آباد ہائی کورٹ کے حکم کو چیلنج کیا گیا ہے جس میں اے ایس آئی (آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا) کو گیانواپی مسجد کے احاطے (وضو خانہ کو چھوڑ کر) کا سروے کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
سپریم کورٹ نے 4 اگست کو سالیسٹر جنرل تشار مہتا کے یہ کہنے کے بعد کہ اس جگہ پر کوئی کھدائی نہیں کی جائے گی، سروے کے عمل کو روکنے کے لیے کوئی عبوری حکم پاس کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ تاہم، سپریم کورٹ نے قبل ازیں ہائی کورٹ کے ایک اور حکم پر روک لگا دی تھی، جس میں اے ایس آئی کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ گیانواپی مسجد میں مبینہ طور پر دریافت کیے گئے شیولنگ کی عمر کا پتہ لگانے کے لیے سائنسی سروے کرے۔
اپنی تیسری عرضی میں انتظامی کمیٹی نے الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر سوال اٹھایا جس میں ضلع عدالت میں دائر ہندو عقیدت مندوں گزاروں کے مقدمے کو برقرار رکھا گیا ہے۔ 31 مئی کو منظور کیے گئے اپنے متنازعہ حکم میں ہائی کورٹ نے ڈسٹرکٹ جج کی طرف سے سی پی سی کے آرڈر 7، رول 11 کے تحت درخواست مسترد کیے جانے کے خلاف دائر نظرثانی کی درخواست کو خارج کر دیا تھا۔