یروشلم کی فتح کے موقع پر سلطان صلاح الدین ایوبی نے ہر اس اندازے کو غلط ثابت کیا جو شاید ماضی میں اس شہر میں ہونے والے واقعات کی بنیاد پر قائم کیے گئے تھے اور یہی وجہ ہے کہ اسی یورپ میں جہاں انھیں اپنے زمانے میں'خون کا پیاسہ' اور شیطان کی اولاد!' کہا گیا تھا 20ویں اور 21 ویں صدی میں ہیرو کا درجہ بھی دیا گیا۔
یہ تحریر بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر پہلی مرتبہ اکتوبر 2020 میں شائع کی گئی تھی، جسے آج قارئین کے لیے دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔
وہ دو اکتوبر 1187 کی تاریخ اور جمعے کا دن تھا جب دنیا کے 'مذہبی دارالحکومت' اور سب سے 'متنازع' سمجھے جانے والے شہر یروشلم میں تقریباً نو دہائیوں کے وقفے کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں ایک بار پھر مسلمانوں کی حکمرانی کا دور شروع ہوا تھا۔
شہر کی فصیلوں پر ایوبی پرچم لہرایا گیا تھا اور مذہبی مقامات سے مسیحیت کی علامات ہٹانے کا کام شروع کیا گیا تھا۔ ٹھیک 833 برس قبل دو اکتوبر کی وہ رات شب معراج کی رات بھی تھی۔
یروشلم جنگ کے نتیجے میں نہیں بلکہ ایک محاصرے کے بعد شہر کے مسیحی منتظمین اور صلاح الدین ایوبی کے درمیان معاہدے کے نتیجے میں مسلمانوں کے حوالے کیا گیا تھا۔ شہر کا ہر باسی معاہدے میں طے کی گئی رقم ادا کر کے آزادی سے کسی دوسرے مسیحی علاقے میں جا سکتا تھا۔ جو لوگ پہلے ہونے والے ممکنہ ظلم کا سوچ کر پریشان تھے اب اس فکر میں تھے کہ اپنی آزادی خریدنے کے لیے پیسے کہاں سے لائیں۔
دو اکتوبر کے دن اور آنے والے کئی ہفتوں تک شہر سے لوگ رقم ادا کر کے جاتے رہے۔ جو نہیں ادا کر سکتے تھے وہ مدد مانگتے رہے اور ان میں سے ہزاروں کی مدد خود سلطان صلاح الدین ایوبی اور ان کے بھائی سیف الدین نے ذاتی طور پر ان کا تاوان ادا کر کے کی اور بہت سے غربا کو شہر کے سابق مسیحی حکمرانوں کی درخواست پر بغیر تاوان ادا کیے جانے دیا گیا۔
مؤرخ جانتھن فلپس نے سلطان صلاح الدین کی زندگی پر اپنی کتاب 'دی لائف اینڈ لیجنڈ آف سلطان سلاڈن (صلاح الدین)' میں لکھا ہے کہ 'یروشلم کے مسیحی شہریوں کو کچھ ایسا دیکھنے کو نہیں ملا جس کی وہ توقع کر رہے تھے۔ مسلمانوں کے محاصرے کے دوران یروشلم کی خواتین نے اپنے بال کٹوا دیے تھے کہ وہ فاتح فوج کے سپاہیوں کی نظروں میں نہ آئیں لیکن فلپس لکھتے ہیں کہ فتح اور یروشلم پر قبضے مکمل کرنے کا مرحلہ طے کرنے کے بعد سلطان صلاح الدین نے خاص طور پر عورتوں کے معاملے میں رحم دلی کا مظاہرہ کیا جس کے لیے وہ مشہور تھے۔۔۔سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ ان کا یہ جذبہ سچا تھا؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایسا ہی تھا۔ وہ ان کو فروخت کر سکتے تھے یا اپنے فوجیوں کے حوالے کر سکتے تھے۔'
یروشلم کی فتح کے موقع پر سلطان صلاح الدین ایوبی نے ہر اس اندازے کو غلط ثابت کیا جو شاید ماضی میں اس شہر میں ہونے والے واقعات کی بنیاد پر قائم کیے گئے تھے اور یہی وجہ ہے کہ اسی یورپ میں جہاں انھیں اپنے زمانے میں'خون کا پیاسا' اور 'شیطان کی اولاد!' کہا گیا تھا، وہاں 20 ویں اور 21 ویں صدی میں ہیرو کا درجہ بھی دیا گیا۔
یہ وہی یروشلم تھا جس کی سنہ 1099 میں فتح کے بعد صلیبیوں کے یروشلم میں داخلے کے موقع پر یہاں ہر طرف لاشیں تھیں اور مرد، عورتیں اور بچے کوئی فاتحین کی تلواروں سے محفوظ نہیں تھا۔ مصنف جسٹن ماروزی نے اپنی کتاب 'اسلامی سلطنتیں: 15 شہر جو ایک تہذیب کو بیان کرتے ہیں' میں یروشلم کے بارے میں باب میں مسیحی ذرائع کا حوالے دیتے ہوئے صلیبیوں کی فتح کے بعد شہر کے مناظر بیان کیے ہیں۔ انھوں نے صلیبیوں کے رویے کی مثال کے طور پر ان کے ایک عہدیدار کا بیان نقل کیا 'زبردست مناظر تھے۔ ہمارے فوجیوں نے دشمنوں کے سر قلم کر دیے۔۔۔۔۔۔ کچھ کو زیادہ تکلیف دینے کے لیے آگ میں جھونکا گیا۔ گلیوں میں سروں، کٹے ہوئے پیروں اور ہاتھوں کے ڈھیر تھے۔'
سلطان صلاح الدین ایوبی کا چیلنج یروشلم کی فتح پر ختم نہیں ہوا بلکہ انھیں اندازہ تھا کہ اب مسیحی دنیا جس پر یروشلم جیسے مقدس شہر کے ہاتھ سے نکلنے کی خبر بجلی بن کر گری ہو گی اس کو واپس حاصل کر نے کی کوشش کرے گی۔
سنہ 1187 میں یروشلم کی فتح سے تیسری صلیبی جنگ میں اس کے کامیاب دفاع کا باب تقریباً پانچ برسوں پر محیط ہے، وہ صلیبی جنگ جس میں مغربی یورپ کے بڑے بڑے