*:مسلم سماج کا رستا ہوا ناسور-*
*مولانا محمدعمرین محفوظ رحمانی صاحب دامت برکاتہم*
مسلم عوام کوعلماء اور داعیان دین سے کاٹنااور ان دونوں طبقات کے درمیان خلیج پیدا کرنا دشمنان دین کاپرانا ایجنڈا ہے اور وہ اپنے اس ایجنڈے پر بڑی محنت، اورکدوکاوش کے ساتھ عمل پیرا ہیں، ان پر یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ جب تک عوام کارشتہ علماء سے کمزور نہیں ہوگا اور ان دونوں طبقات کے درمیان فاصلے پیدا نہیں کیے جائیں گے،اس وقت تک اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی،اور دین کے نام پر پھیلائے جانے والے فتنے فروغ نہیں پا سکیں گے،دشمنان دین کی فکر، ان کی سونچ ، ان کاطرز عمل، اوران کی تگ ودو تو ہے ہی ناپسندیدہ مگر اسے کیا کہیے کہ خود مسلمانوں میں ایک ایساطبقہ پیداہو گیاہے جو نادانستگی میں اسی راہ کاراہی اور اسی دشت کاسیاح بنتاجارہاہے،ایک ایساطبقہ جس کی زبان سے ان کے اپنے اکابر علماء اور دین وملت کی بیش بہا اور بلند قامت شخصیات کی عزت محفوظ نہیں، اور جن کے قلم اپنے ہی بڑوں کے خلاف شمشیر برہنہ بنے ہوئے ہیں، سوشل میڈیا پر لکھنے والے کچھ ایسے جیالے ہیں جو ’’صحت مند تنقید ‘‘کے نام پر کارگزارعلماء سے نفرت کا زہر پھیلا رہے ہیں اورعوام کے ذہنوں کوخدام دین کے سلسلے میں برگشتہ کرنے کی مہم چلارہے ہیں، بظاہر ان کاسراپاعالمانہ ہے اوران کی زبان پر دین و ملت کی خدمت کے حسین نعرے ،لیکن خوش نما نعروں اوردعوؤں کے پیچھے جواصل حقیقت چھپی ہوئی ہے، وہ کچھ اور ہر عام مسلمانوں کو علماء وقائدین سے بدظن کرنا ، ملت کے خدمت گاراداروں پر کیچڑ اچھالنا ،خدام دین کی نیتوں اور ان کی خدمات پر سوالیہ نشان لگانا،اور اہل اللہ اور بزرگان دین پر الزام تراشی کرنا،خدمت دین کاکون سا شعبہ ہے ؟کیا اس سے ملت کابھلاہوگا یا ملت کوسخت نقصان پہو نچے گا؟ اس پر غور کرنا بہت ضروری ہے۔
دین متین کی خدمت کرنے والے علماء،چراغ د ل جلا کر شاہراہ خدمت کو روشن کرنے والے اکابر ،اپنے آشیانوںکو پھونک کر زمانے کوروشنی بخشنے والے قائدین نہ تو معصوم ہیں اور نہ پیغمبر کی طرح لائق اتباع ،وہ بھی انسان ہیں ، خطا کرنے والے ، نفس وشیطان اور ماحول کے فتنوں سے متاثر ہوجانے والے ،کبھی ان کے قدم بھی غلط سمت میں اٹھ جاتے ہیں، کبھی رائے یاعمل کی غلطی ان سے بھی ہو جاتی ہے، لیکن کیا کسی ایک غلطی کی وجہ سے ساری زندگی کی خدمات کونظر انداز کر دیا جائے گا؟کیا رائے یا عمل کی خطا کے سبب ان کی تمام قربانیوں کو بھلا دیا جائے گا؟کیا کسی ایک غلطی کو بنیادبنا کر ان کی کردار کشی کی مہم چلائی جائے گی؟کانوں کوسننے کے لیے یہ بات بہت بھلی لگتی ہے کہ زندہ قوموں اورملتوں میں ’’صحت مند تنقید‘‘کا سلسلہ جاری رہناچاہئے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ’’صحت مند تنقید‘‘ کے نام پر الزامات کی بوچھاراورکسی مفروضہ غلطی پر سنان لسان و قلم کاوارجائز قرار دیا جاسکتاہے؟عجیب بات ہے کہ تنقید کے نام پر تنقیص اور سوال کے عنوان سے تذلیل و توہین کابازارگرم ہے اور اس کھلی ہوئی بے دینی پر یہ کہہ کر دینداری کاغلاف چڑھا دیاجاتاہے کہ’’ ہماری تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ایک ادنی مسلمان امیرالمؤمنین حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ کو برسر منبر ٹوکتا ہے اوران کااحتساب کرتا ہے ‘‘کوئی شبہ نہیں کہ یہ تاریخ اسلامی کا زرین واقعہ ہے،اور بعد والوں کے لیے مشعل راہ اور مینارہ نور !مگر اس پر غور کیوں نہیں کیا جاتاکہ حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ کا ایک ایسا عمل جو بظاہرعدل کے خلاف معلوم ہو رہاتھا ،پوچھنے والوں نے خودان سے اس عمل کے بارے میں سوال کیا اور جب جواب مل گیا تو فوراً پکار اٹھاکہ نسمعُ ونطیع (ہم سنیں گے ہم بات مانیں گے)کیا اس میں اس بات کی رہنمائی نہیں ہے کہ جب کسی معاملے میں شبہ پیدا ہو جائے توخود صاحب معاملہ سے پوچھ لیا جائے اور اگر جواب معقول اور اطمینان بخش ہو تو فوری طور پر اپنا شبہ دور کر لیاجائے،اور صاحب معاملہ کے شخصی احترام اوران سے محبت وعقیدت میں کوئی کمی نہ آنے دی جائے۔اس واقعہ سے استدلال کر کے ملت کے خدمت گذار اداروں اور دین متین کے بے لوث سپاہیوں کے خلاف زہرکی کاشت اور نفرت کا بیوپار کرنے والے ’’نام نہاد اسلامی اسکالرس‘‘غور فرما لیں کہ حضرت عمر سے سوال کرنے والے شخص اور خود ان کے طرز عمل میں کتنافرق ہے۔؟؟؟ وہاں صاحب معاملہ سے سوال کیا جارہاہے ، اور یہاں صاحب معاملہ کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں اور اس کے خلاف اخبارات کے صفحے کے صفحے سیاہ کیے جارہے ہیں، سوشل میڈیا پر زبان و قلم کا زور دکھایا جا رہا ہے، کسی نے ذاتی اغراض و مفادات یاحسد اور بغض کی بناء پر کسی صاحب علم ، صاحب بصیرت و فراست عالم دین پر ایسے الفاظ پر مشتمل مضمون لکھا جسے پڑھ کر ذوق سلیم کو اُبکائی آنے لگے اور ’’صحت مند تنقید کے علمبرداروں ‘‘اور’’نام نہاد اسلامی اسکالرس ‘‘نے اسے سوشل میڈیا کے مختلف اکاؤنٹس پر بلاتحقیق نشر کرکے ’’ثواب دارین ‘‘حاصل کرناشروع کر دیا، سونچیے اور دل پر ہاتھ رکھ کر سونچئے کیا یہی دین کی تعلیم ہے؟کیا اسی کا نام دیانت ہے ؟ کیا یہی طر ز عمل دین و ملت کے حق میں مفید ہے؟؟؟
قرآن و حدیث میں جا بجااحترام مسلم کی تعلیم دی گئی ہے ،کینہ کپٹ ،بغض و حسد ،ریاکاری و منافقت ،عیب جوئی وبد گوئی سے باز رہنے کی تلقین کی گئی ہے، ظن و تخمین کے گھوڑے دوڑانا، رائی کاپربت بنانا،مسلمان کی عزت وناموس سے کھلواڑ کرنا،یہ سب ازروئے قرآن و سنت منع ہے،مسلمان کی عزت و ناموس ﷲ پاک کی نگاہ میں اتنی عزیز ہے کہ اس کی بے حرمتی کو سب سے بڑ ا سود قراردیاگیا ہے۔(اِنَّ اَرْبَی الرِّبَااَلاسْتِطَالَۃُفِیْ عِرْضِ الْمُؤمِنِ)اور اس عزت و ناموس کی حفاظت کے لیے چاروں طرف سے حصار کھڑے کیے گئے کہ کسی مسلمان کے بارے میں بر ی بات نہ سونچی جائے، (ظَنُّوا بِالْمُؤمِنِیْنَ خَیْرًا)کسی کامذاق نہ اڑایا جائے، (لَایَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسیٰ اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْراً مِّنْھُمْ) کسی کوبرے لقب سے یا د نہ کیا جائے (لَاتَنَابَزُوْابِالْاَلْقَاب )کسی پہ تہمت نہ لگائی جائے، کسی کو عار نہ دلائی جائے۔(لَاتُعَیِّرُوْھُمْ) اور نہ زبان سے کسی کے بارے میں کوئی براکلمہ نکالا جائے۔ ( لَایَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا)کسی کے عیب کی تلاش نہ کی جائے( لاَ تَتَّبِعُوْاعَوْرَاتَھُمْ )اورنہ کسی مسلمان کو اپنے طرز و اندازسے تکلیف پہنچائی جائے۔ (لَا تُوْذُوا الْمُسْلِمِیْنَ )اب ان تمام تعلیمات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے صر ف اپنی انانیت کی بنیا دپر ،یاحسد وبغض کے سفلی جذبات کی تسکین کے لیے اگر کسی مسلمان کی عزت سے کھلواڑ کیاجاتاہے تو یہ دین نہیں بے دینی ہے،یہ اخلاق نہیں کھلی ہوئی بد اخلاقی ہے،یہ شرافت نہیں دناءت ہے،یہ دین کی خدمت نہیں دنیاوآخرت کی بربادی کاسودا ہے،حضوراکرم ﷺ جب معراج کے سفر پرتشریف لے گئے تو آ پ کا گزر ایسے لوگوں پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے اوروہ اپنے ناخنوں سے اپنے چہروں اورسینوں کو نوچ رہے تھے حضور اکرمﷺ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ حضرت جبرئیل نے عرض کیا کہ یہ لوگ (دنیا میں)دوسروں کی آبروریزی کرتے تھے، اور ان کے عیب تلاش کر کے لوگوں کے سامنے پیش کیاکرتے تھے،یہ توآخرت کی سزا ہے ،دنیا کی سزا کے بارے میں ترمذی شریف کی ایک حدیث میں نقل ہے کہ اپنے مسلمان بھائیوں کے عیب کے پیچھے نہ لگو، اس لیے کہ جو اپنے مسلمان بھائی کے عیب کے پیچھے لگتاہے ،اﷲ تعالیٰ اس کے عیب کے پیچھے لگ جاتا، اور جس کے عیب کے پیچھے اﷲ تعالیٰ لگ جاتاہے اسے گھر بیٹھے ذلیل و رسوا کر دیتاہے۔ (ترمذی شریف) عیب تلاش کرنے والے کے لیے تباہی اور بربادی کا ذکرخود قرآن پاک میں ہے،خرابی اورتباہی ہے عیب ٹٹولنے والے چغلی کھانے والے کے لیے (وَیْلٌ لِّکُلِّ ھُمَزَۃٍ لُّمَزَۃ)
قرآ ن پاک میں حضرات صحابہ کی شان میں یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے لیے نرم اور کافروں کے لیے بڑے سخت ہیں(اَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَھُمْ )یہ صرف صحابہ کی تعریف نہیں ہے بلکہ اہل ایمان کے لیے رہنمااصول ہے کہ ان کی سختی کافروں کے لیے ہواور آپس میں ایک دوسرے سے ان کارشتہ اخوت ، مروت، شرافت اوررحم دلی کاہو، وہ احترام اور اعتراف کی راہ پر چلیں نہ کہ تردید و تنقیص کے راستے پر،وہ دوسروں کو عزت دیناسیکھیں نہ کہ دوسروں کی آبروریزی اور کردار کشی کریں، ان کامزاج عفو درگذر کا ہو، عار دلانے اور شکست حوصلہ کرنے کانہیں ، انسانیت تویہی ہے کہ انسان کے اندردوسروں کااحترام ، اور ان کی خوبیوں اورخدمات کے اعتراف کاجذبہ ہو، اور وہ دوسروں کے لیے وہی چیز پسند کرے جوخود اپنے لیے پسند کرتاہے ؎
باخبر شو از مقام آدمی
آدمیت احترام آدمی
(انسان کے مقام سے آشنا ہو جاؤ ،انسانیت یہ ہے کہ انسان کا احترام کیا جائے)
زبان و قلم کی صلاحیت خدا تعالیٰ کی نعمت ہے ، بیش قیمت بھی بے بہا بھی!ان نعمتوں کا استعمال خیر کے کاموں میں ہو تو نورٌ علی نور بلکہ مجموعۂ انوار،اور اگر زبان و قلم کی نعمتوں کو خواہشات نفس کے تابع بنادیا گیا اور تخرب و تعصب کی راہ اپنائی گئی تو پھر یہ نعمتیں وبال جان،وجہ زوال و خسران!جنہیں یہ نعمت ملی ہے وہ احتساب کرتے رہیں کہ جادۂ حق پر ان کے قدم بڑھ رہے ہیں یا شر پر؟ ان کی منزل فانی دنیا ہے یا لازوال آخرت؟ان کا سفر خدمت ربانیت و للہیت کے زیر سایہ انجام پارہا ہے یا اغراض و سفلی جذبات کی سیاہ چادر اس پر تنی ہوئی ہے؟وہ رحمن کے بندے بن کر جی رہے ہیں یا شیطان کے ہرکارے اور نمائندے؟؟ زبان و قلم کی صلاحیت کامل جانا کمال نہیں ہے ان دونوں صلاحیتوں کا محتاط، متوازن اور مثبت استعمال کمال ہے، ان دونوں ہتھیاروں سے لیس ہوکر جب انسان قدم آگے بڑھاتا ہے تو ہاتفِ غیبی کی ندا اس کے کانوں میں آتی ہے ۔
نہ سنو گر برا کہے کوئی
نہ کہو گر برا کرے کوئی
روک لو گر غلط چلے کوئی
بخش دو گر خطا کرے کوئی
__________🔴🔴
چاندی کی بالیاں
وسیم عقیل شاہ جلگاؤں انڈیا
عنقریب ماہِ جولائی بھی سِمٹا جا رہا تھا۔لیکن سورج اب بھی کسی ظالم حُکمراں کی طرح پورے آسماں پہ قابض تھا۔کہیں کالی گھٹائیں چھا بھی جاتیں تو مغرور ہوائیں اُن کے پیر جمنے نہ دیتیں۔کبھی کبھی ایک دو جھلکیں ضرور دیکھنے کو ملتیں، لیکن اُن سے زمین کی پیاس کیسے بجھتی جو ہر تِشنہ ذی روح کو اپنے کلیجہ سے لگائے ہوئے تھی۔ سوکھے ندی نالے منہ بسورے پڑے تھے۔ دھرتی سے اُکھڑی ہری چادریں اُس کی بدنمائی کو مزید واضح کر رہی تھیں۔ ہر سمت گرمی کی تیز لہریں لٗو کی شکل میں سنسناتی پھرتی تھیں۔ شاخو ں پرچہچہا تے پرندوں کی آوازوں میں آہ و بُکا کا گماں ہوتا تھا۔بے زبانوں نے رحم کی ڈور انسانوں سے باندھ لی تھیں۔ اور انسان اِس سوکھے بھنور میں انفرادی، سماجی اور معاشی سطح پر جکڑے جا رہے تھے۔ہر طرف مچی ہا ہاکار سے نجات کی صرف ایک ہی صورت تھی ،اِس لیے سبھی عاجزانہ نگاہوں سے آسمان میں ٹکٹکی باندھے ہوئے تھے کہ کہیں سے کچھ گھٹائیں رحمتیں لیکر آئیں اور اِس تپتی زمیں کو ٹھنڈا کردیں۔
اُنہیں دِنوں کی وہ ایک تاریک رات تھی ۔۔۔
وہ گیئر پر گیئر بدلتے ہوئے پوری رفتار سے اپنے گھر کی طرف جارہا تھا۔ سڑکیں سُنسان او ر بے نور پڑی تھیں ، اِکّادُکّاا سٹریٹ لائٹس سینہ تانے اندھیروں کے سِرے تلاش کر رہی تھیں۔ آدھی رات کے گھور سنّاٹے میں اُس کے آٹو رکشے کی آواز کسی ہارَر فلم کی موسیقی جیسی تھی۔ نوٹوں اور سِکّوں سے بھری اُس کی بھاری جیب اور زبان پرفِلمی نغمے اُ س کی رفتار کو تیز سے تیز تر کر رہے تھے۔ نا ہموار سڑک اور اُس کے رکشے کی تیز رفتاری سے پیدا ہونے وا لی دھڑ دھڑاتی آوازوں کی بھی اُسے کچھ پرواہ نہ تھی۔وہ تو بس بے اِنتہا خوشی کے عالم میں اُچھلتا ،مچلتا، لہراتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ یقیناًاُس کے لیے یہ جشن کی گھڑی تھی کہ آج پھر اُس کی کمائی روزانہ سے خاصی زیادہ ہو گئی تھی ۔جو اس کی سابقہ جمع پونجی میں قدرے اضافہ تھی اورجس کے ذریعے اب وہ بہت جلد اُجولاسے کیے ہوئے وعدے کو پورا کرسکے گا۔
***
سال بھر پہلے ہی دیپک اور اُجولا شادی کے پوِتر بندھن میں بندھے تھے۔اُجولا معمولی شکل و صورت کی دُلہن مگر دیپک کو کسی اپسراکی طرح بھاتی تھی۔یہ دیپک کا ہی عشق تھا کہ اُس نے اُجولا کے معمولی حُسن، ناز نخروں اور شوخ اداؤں کے لیے اپنے دِل میں محبت کے سارے دروازے کھول رکھے تھے۔وہ اپنی چاہت کسی نہ کسی بہانے نفیس قِسم کے تحائف کی شکل میں اُس پر نچھاور کرتا رہتا تھا۔اُجولا کا من بھی شوہر سے ملنے والی سوغات کا منتظر رہتالیکن اُس کے مزاج میں کبھی ضِد کی کھٹاس نہیں گھُلی تھی۔جس کا سبب اپنے شوہر کی بر موقع خدمات تھیں۔ہاں اگر دیپک سے کہیں کچھ کمی رہ جا تی تو شریمتی اشاروں کناہوں سے تو کبھی معنی خیز خاموشی سے اپنی خواہشوں کا اظہار کرلیتی ۔ یہ ’مانگے ‘زبانی نہ ہوتے ہوئے بھی دیپک بہت جلد سمجھ لیتا اور سعادت مند شوہر کی طرح بلا تامل ان کو پوری کردیتا یا پوری کرنے کے لیے جٹ جاتا ۔
آٹو رِکشہ چلانا اُس کا پیشہ تھا اور اُس کی زندگی کا آئینہ بھی،جس کے عکس میں اُسے اُجو لا کے لیے خریدے ہوئے تحفہ کی قیمت کم اور وقعت زیادہ دِکھائی دیتی تھی۔مگر دُشوار گزارمعاملہ تب پیش آتا جب’’ قیمت وقعت سے کئی زیادہ بڑھ جاتی۔‘‘دراصل دیپک نے اپنی بیوی کو اُس کے جنم دن کے اوسر پر ایک ننھا سا بکسہ بطور تحفہ پیش کیا جس میں ایک جوڑ تھا،’’چاندی کی بالیوں ‘‘کا۔ا نہیں پاکر اُجولا کا چہرہ ایسے کھل اٹھا تھا جیسے مدّھم روشنی بھرے کمرے میں یکلخت بھر پور اُجالا کر دیا گیا ہو۔لیکن چند ہی لمحات میں آئینے کے مقابِل وجود کے اجلے کھلے مُکھڑے پر ارمانوں کی موجوں نے سر اُٹھالیا ، جسے دیپک نے ایک ہی نظر میں تاڑ لیا ۔ اپنی بے تحاشہ محبت میں کمی محسوس کرتے ہوئے بڑی ندامت کے ساتھ اس نے اُن بالیوں کو خود اپنے ہاتھوں سے اُتار ا اورپورے عزم کے ساتھ یہ وچَن دیا کہ’’وہ اب سونے کی با لیوں سے ہی اُجولا کا سنگار کریگا ۔‘‘
تب ہی سے دیپک ان چاندی کی بالیوں کو سونے کی بالیوں میں تبدیل کرنے کی حسرت لیے دن رات رِکشہ دوڑاتا رہتاہے۔جیسے کسی سے اپنی بڑی ہارکا بدلہ لینا چاہتا ہو۔ جب محدود کمائی سے مطلوبہ رقم میسّر نہ آئی تو اُس نے اپنے شفاف رِزق میں جھوٹ ،لوٹ اور فریب کے بد نما رنگ ملا لیے جو اس کی آمدنی پر خاصے پر اثر ثابت ہوئے ۔اِسی روِش میں اُس نے ایک موٹی رقم اکٹھّا کرلی تھی۔
ابھی کچھ دیر پہلے ہی اُس نے ایک مجبور مسافر کو اپنی غرض کا نشانہ بنایا تھا ۔اس مسافر کو فوری طور پر ریلوے اسٹیشن جانا تھا مگر رات کافی ہوچکی تھی جس کے سبب اسے دیپک کے رکشے کے علاوہ وہاں کوئی دوسرا رِکشہ نہ ملا ،مجبوراً سے دیپک کا من چاہا کرایہ ادا کرنا پڑا۔
آج کے لیے خطیربلکہ توقع سے زیادہ روپیے کمانے کے بعد اب وہ مزید محنت نہیں چاہتا تھا، اس لیے ر یلوے اِسٹیشن سے سیدھے گھر کی طرف لپکا ۔اُسے اُجولا کا بھی خیا ل تھا۔
***
دیپک گیئر گیئر بدلتے ہوئے، گنگناتے ہوئے ،اچھلتے مچلتے پوری رفتار سے اپنے گھر کی طرف جا رہا تھا۔۔۔کہ د فعتاً اُس کی نظر دور سڑک کی دوسری جانب پڑی۔کوئی تھا جو اندھیرے میں تنہا جلتی اِسٹریٹ لائٹ کے قریب کھڑا اُسے اپنی طرف راغب کر رہا تھا۔ اُسے تو راست گھر ہی جانا تھا لیکن’’ جب لکشمی خود چل کر ماتھے پر تِلک لگانے آرہی ہو تو کیا دِن کیا رات ‘‘دیپک نے موقع کو غنیمت جانا اور فوراً قریب پہنچ کر ’ یو ‘ ٹرن لیا۔
’’بولو ماؤ سی کدھر جانا ہے ؟‘‘
’’اِندرا میونسپلٹی دواخانے جانا ہے بھیا ۔‘‘
ایک ادھیڑ عمر کی خاتون نے نہایت لاچاری اور عاجزی سے کہا۔
اُس عورت نے حقیقی لاچاری سے کہا تھا یا عادتاً ،وہ سمجھ نہ پایالیکن اُس کے احوال بیان کر رہے تھے کہ وہ اِنتہائی مصیبت کی ماری تھی ۔ قدرے مضطرب چہرے پر پچکے ہوئے گا ل ،اندر کو دھنسی ہوئی آنکھیں اورپتلے بدن پر جھُولتے معمولی کپڑے۔اُسے دیکھتے ہی لگتا تھا کہ مفلسی اُس کی عمر کھا گئی ۔حا لانکہ وہ چالیس بیالیس سے زیادہ کی نہ تھی۔ ایک اَدھ ننگا بچہ رونی صورت بنا ئے اُس کی د ا ہنی ران سے چمٹا ہوا ،جس کی آنکھوں میں خوف پلکو ں تک بھرا معلوم ہوتا تھا۔قریب ہی ٹوٹے کنٹینرکی دیوار سے ٹیک لگائے غالباً دس گیارہ برس کی ایک بچی بے حال پڑی تھی۔ اُس کا سر دیوار سے لگا ہوا تھا جس کے سبب لائٹ کی روشنی سیدھے اُس کے چہرے پر پڑ رہی تھی ۔وہ انتہائی علیل معلوم ہورہی تھی ۔اُس کی کیفیت میں مدہوشی و غنودگی کے اثرات تھے اور ٹھہر ٹھہر کے کسی درد سے کرا ہتی بھی تھی۔
’’میں اُدھر پہ نئیں جا تا ماؤسی اُدھر اپنا لا ئن نئیں ہے ۔‘‘
دیپک نے اِسکلیٹربڑھاتے ہوئے کہا۔
’’ارے !ایسا نہ کہو بھیّا ، مریج ہے۔ کچھ تو رحم کرو، دیکھو وہ کیسی مر رہی ہے ۔۔۔۔‘‘
خاتون نے رکشے کے ایک حصے کو مضبو طی سے پکڑلیا ۔اور بیمار بچی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کی منتیں کرنے لگی۔
خاتون کی مسلسل منّت سماجت اور دیپک کے داؤ پیچ کا سلسلہ نصف منٹ تک جاری رہااور بالآخر۔۔۔۔
’’ٹھیک ہے مگر اَسّی /۸۰ روپیہ ہو جائے گا ،تو چلتا ہوں۔‘‘
کرایہ سنتے ہی خاتون کی آنکھیں پھٹ پڑیں کیونکہ معمول کے بیس /۲۰ ر وپیے سے کرایے کی یہ رقم بہت زیادہ تھی۔ اِس سے پہلے کہ وہ زبانی احتجاج کرتی بچی کے کراہنے کی آواز نے اُسے خاموشی سے رکشے میں سوار ہونے پر مجبور کر دیا۔
دن بھر کی سلگتی زمین تقریباً ٹھنڈی ہوچکی تھی لیکن نیم گرم ہوا ؤں کے بھپکے اب بھی ماحول کو گرما رہے تھے ۔رکشہ دائیں بائیں مڑتے ہوئے اِندرا میونسپل اسپتال کی طرف رواں دواں تھا۔ دیپک کی ذات میں شوخیاں اب بھی مچل رہی تھیں لیکن اُس کے پسِ پُشت اَشکوں کا سیلاب آن پڑا تھا۔ بیمار بچی نا معلوم درد کے مارے حلق کے کنویں سے عجیب آوازیں نکالتی، وہ با ربا راپنی بچی کھچی قوت سے اپنے کرب کا اظہار کرتی ،لیکن اس کی چیخیں کچھ بلند ہوکر حلق ہی میں معدوم ہوجاتیں۔ پھر تھک کر سسکیاں بھرنے لگتی ۔ خاتون اپنے ممتا بھرے آنچل سے اُس کے آنسو خشک کرتی جاتی ،اُسے صبر کی تلقین کرتی اور بہت جلد اسپتال پہنچنے کا دِلاسہ دیتی۔ اُس کی آنکھیں بھی اشکبار تھیں لیکن ہر بار وہ کسی طرح خود پر ضبط کیے جارہی تھی۔ بغل میں بیٹھے معصوم بچے کی بے چینیاں بھی قابل رحم تھیں۔ کبھی وہ مرتعش نظروں سے اپنے ہمسفروں کو تو کبھی اُچک اُچک کر باہر اندھیروں کو گھور نے لگتا۔ اور کبھی بے آواز مگر ہچکیوں کے ساتھ روپڑتا ۔شریفانہ تمدّن کے یہ تین اِنسان غربت کی ایک ہی مورت تھے ،جن کی زبو ں حالی میٹر لائٹ کی نیم روشنی میں جھِلمِلا رہی تھی۔اور دیپک اُسے سائیڈ گلاس کے مدھّم عکس سے محسوس کر رہا تھا۔
اب اُس کی زبان خاموش ہوچکی تھی، آنکھوں میں ایک قسم کا ٹھہراؤ اور رفتار درمیانہ۔ اُس کا وجو د مکمل ساکت اور کچھ بھاری بھاری سا ہو گیا تھا ۔اپنے اندرون میں چھائی پشیمان خاموشیوں کو توڑنے کے لیے اُس نے الفاظ کا سہا را لیا۔
’’ماؤسی ،بے موسم گرمی چالو ہے ابھی سب چھوڑ پہیلا اپنے بچے لوگ پہ د ھیا ن دینے کا ، کچھ ہوگیا نا تو کون سالا اپنا دھرا ۔۔۔؟باپ کہا ں ہے اِس کا؟؟؟‘‘
خاتون نے بڑی حیرت سے اُس کا منہ دیکھنے کی کوشش کی جس کا رُخ آگے کی طرف تھا۔پھر دبی آواز میں بولی۔
’’نئیں ہے۔۔۔گُجرگئے۔‘‘
دیپک نے ایک جھلک نگاہِ تاسف سے پیچھے کی سمت دیکھا۔
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد دیپک نے پھر بولنا شروع کیا ۔
’’ہو اکیا اس کو۔۔۔۔ ؟اتنی رات کو وہ ڈاکٹر لوگ کیا دیکھیں گے بھلا اِس کو ، فارم والا بھی جھپکی مار رہا ہوگا۔ آج تو بس پرا وِٹ دواخانے ہی سہی ہے ، سب ایکدم پیشل۔۔۔۔ ، طبیعت بگڑے نا تو پراوٹ دواخانے میں ہی جانے کا روپیہ پیسہ پیسہ جاتا ہے جائے پر ادھر نہیں آنا بابا۔ ہوں۔۔۔ یہ سرکاری دواخانے ۔۔۔۔ او ر یہ ۔۔۔ ڈاکٹر۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔ سب بے بھروسے ہے سالے ‘‘
’’سرکاری دواخانے ہی بھلے ہے بھیّا علاج ڈھنگ سے نئیں بھی ہوا تو پیسہ جانے کا غم نئیں ، ڈوبے بھی تو کتنا ؟
دیپک نے اب کی با ر بڑی حیرت سے پیچھے کی سمت دیکھا ۔خاتون نے ناک سڑک کر کچھ توقف کیا اور پھر گویا ہوئی۔
’’ ہماری چال کے ڈاکٹر صاب کی صلاح سے پراوٹ دواخانے بھی لے گئی اسے ،دو مہینے سے دوا چالو تھا مگر علاج دھیلے بھر کا نہیں ۔ بس پیسہ ٹھگ رے میرے سے، دو ہی جیور تھے وہ بھی بیچ آئی اُن کمینو ں کا منہ بھرنے ۔پھر بھی بولتے اور پیسہ لاؤ۔ اب کیا دھرا میرے پاس جو اور جاؤں اُن قصابوں کے یاں ۔ ‘‘
خاتون ایک ہاتھ سے بچی کا سر اپنی چھاتی سے چمٹائے اور دوسرے ہاتھ سے لڑکے کو پکڑے ہوئے برستی آنکھوں سے من کے چھالے پھوڑرہی تھی۔ اور آخر کے ان جملوں پر تو اس کی آواز ہی دب کر رہے گئی کہ ’’ بھیا ہم غریبوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھانے والے یہیچ لوگ اصلی جالم ہے۔دیکھنا یہ بھوت بھگتے گے ۔۔۔!اوپر والا ان کا کبھی بھلا نہیں کریگا۔۔۔۔!
دیپک کی آنکھیں تو سامنے سڑک پر دوڑ رہی تھیں لیکن پورا وجود ایک ہی جگہ ٹھہر کر پورے دھیان سے خاتون کی طرف ہوگیا تھا ۔ یک بارگی اُسے اپنے اندر ایک خلش سی محسوس ہوئی ، سر چکرانے لگا، آنکھوں کے آگے اندھیرا چھاگیا ۔ پھر ہوا کا ایک سرد بگولہ اُس کے پیٹ میں بل کھاتے ہوئے تیرگیا جس کے سبب وہ اندر ہی اندر عجیب کروٹیں بدلنے لگا۔ اسے یوں محسوس ہورہا تھا گو کہ وہ گہراتی تاریکیوں کا مسافر ہے اور روشنی کا کچھ سامان نہیں ۔
اسی اثنا میں رِکشہ انگریزوں کے زمانے کی ایک کشادہ عمارت کے سامنے آکر رُکا۔ رکشے سے اترتے ہی خاتون گنگ زبان بنی فرط حیرت سے یہ سب دیکھتی رہی کہ خود دیپک نے کس طرح بچّی کواپنی گود میں لٹایا اور تیزی سے اسپتال کے صدر دروازے کی طرف دوڑ پڑا۔پھر بھرتی کی کاروائی میں اسپتال کا کمرہ کمرہ بھاگتا رہا اور آخر کار اسپتال کے عملے سے تقریباً لڑ جھگڑ کر علیل بچی کو ڈاکٹرس کے حوالے کر دیا ۔ اس کی دوڑ بھاگ سے کچھ ہی منٹوں میں اسپتال کی سستاتی عمارت متحرک ہو اٹھی تھی ۔
دیپک اپنے بے دم ضمیر میں نئی جان کے آجانے سے نا آشنا تھا،مگر وہ کچھ ہلکا ہلکا سا ہوگیا تھا۔ ۲۰ / منٹ کی جِدو جہد کے بعد وہ واپسی کر رہا تھا کہ اُسے محسوس ہوا دو معصوم سہمی سہمی نگاہیں اُس پر ٹکی ہوئی ہیں۔ وہ پر سکون انداز میں چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا تا ہوا اس کے قریب پہنچا ۔پھر ایک پل رُکا اور جھک کر اپنی جیبو ں کی کچھ ریزگاری سے اُس معصوم بچے کی ننھی مٹھیوں کو بھر دیا ساتھ ہی کچھ نوٹ ا س کی شرٹ کی جیب میں ڈال کر اس کی جیب کو تھپ تھپاتا ہوا بغیر مڑے تیز تیز قدموں سے باہر کی سمت بڑھ گیا۔اس سے پہلے کہ خاتون کا لجلجا وجود اس کی طرف متوجہ ہوتا اس کا رکشہ نیم شب کے سکوت کو جگاتا ہوا اسپتال کی عمارت سے دور ہو تا جا رہا تھا۔
***
ادھر اُجولا کی بے چینیوں کا عالم عروج پہ تھا۔کھڑکی کا پٹ کھولے سڑک پر دیدے گاڑے بیٹھی تھی۔دور سے آتی گاڑیوں کے آنے جانے کی آوازوں سے اُچھل پڑتی۔ کبھی اپنے سیل فون کو کان سے لگاتی اور شِٹ شِٹ کر کے اسے جھٹکے سے بند کر دیتی ،تو کبھی اپنے چھوٹے سے کمرے میں ٹہلنے لگتی ۔ اُس پر یہ ایک ایک پل پہاڑ سا گزر ا۔
وہ ان طویل تڑپاتی فکروں سے اُس وقت آزاد ہوئی جب ایک ہی دستک پر اس نے دروازہ کھول کر دیپک کو اپنے سامنے کھڑا پایا ۔قریب ہی تھا کہ وہ اُس سے والہانہ انداز میں لپٹ جاتی اور یوں دیر لگانے پر درجنوں سوالوں کے تیر اپنے گھونسوں میں سمیٹ کر اس کی کشادہ چھاتی پرداغتی۔مگر وہ ایسا کچھ بھی نہ کرسکی کیونکہ دیپک اپنے چہرے پر کئی پہیلیاں لیے ہوئے تھا اور آنکھوں میں ڈھیروں سوالوں کے ساتھ اُسے ایک ٹک دیکھے جا رہا تھا۔اجولا نے پہلے تو اپنے آپ کو سنبھالا پھر اُس کی منشا جاننے کے لیے آہستہ آہستہ اُس کی آنکھوں میں اترنے لگی۔چند ہی ساعتوں میں دیپک نے کسی شکست خور دہ سپا ہی کی طرح اپنا مجبور ہاتھ اس کی طرف بڑھایاجِس کی ہتھیلی پر ایک چھوٹاسا بکسہ تھا ۔اُجولا مجسمہء حیرت بنی کبھی اسے تو کبھی اس کی ہتھیلی پر رکھے بکسے کو دیکھتی رہی ۔پھر دھڑکتے دل سے بکسہ اپنے ہاتھوں میں لیا اور حیرت و سوال کے ملے جلے انداز سے اُسے کھولا۔اُس میں وہی چاندی کی بالیوں کا جوڑ تھا جس کی معمولی چمک اس کی آنکھوں میں ننھی سوئیوں کے مانند چبھنے لگی ۔ اس کا چہرہ فق پڑ گیا ۔یقیناً اس کے من کے گوشو ں سے پیلے رنگ کی تمناؤں نے صدا ئیں دی تھیں ۔
لیکن پھر ۔۔ ۔۔
اچانک وہ خوشی سے کیے سمجھوتے کے جذبے سے چہک اٹھی۔ اب اس کا چہرہ صاف بتا رہا تھا کہ وہ دیپک کی آنکھوں میں ا بھر آئے تمام ہی سوالوں کے حل تلاش کر چکی ہے۔اس نے ہونٹوں کو ہلکا سا خم دیا، ناک پھلا کر ایک لمبا سانس کھینچا اور آنکھوں کو بھینچتے ہوئے مگر پیار بھرے غصے سے اسے نہارا ۔پھر چاندی کی بالیوں کو کانوں میں آویزاں کیا اور خود کو دیپک کی آنکھوں کے آئینے میں گڑاتے ہوئے اپنے دل فریب انداز میں گویا ہوئی۔
’’کیا میں ’ اِن‘ میں سُندر نہیں لگتی؟؟؟؟‘‘
دیپک کا بوجھل انگ انگ بجلی کی سی سراہیت سے کڑک اٹھا اور بے نور چہرہ مسرتوں کے سیکڑوں جگنوؤں سے جگمگا اٹھا ۔اس نے پوری توجہ سے اجولا کے لجّاتے ہوئے چہرے کو دیکھا ۔یقیناً وہ آج سے پہلے اُسے اتنی سُندر نہیں لگی تھی ۔
رات کے وہ رواں پل گواہ تھے کہ آج نہ توزر و زیور کی خواہش تھی اور نہ ہی حسن کی چاہ ، فقط ’’مان تھا ،سمّان تھا۔‘‘ تبھی کھڑکی سے آتے ٹھنڈی ہوا کے تیزجھونکے نے کمرے کی فضا کو بھینی بھینی خوشبوؤں سے معطر کر دیا۔باہر بارش شروع ہو چکی تھی۔۔۔۔!آسمان ٹوٹ پڑا تھا۔۔۔۔۔!
پھر بادل گرجتے رہے ، بجلیاں کڑکتی رہیں۔ مہینوں کی پیاسی، تڑپتی، سلگتی زمین سیراب ہوتی رہی۔۔۔۔۔۔رات بھر بارش ہوتی رہی ۔۔۔۔۔ہوتی رہی۔۔۔۔۔ رِم جھِم رِم جھِم رِم جھِم
_______🔴
طرحی غزل
دریا کی تہوں کو جو کھنگالا نہیں ہوتا
کچھ قیمتی موتی میں نکالا نہیں ہوتا
ہوتا نہیں رسوا میں زمانے میں کبھی بھی
گر ماں کی نصیحت کو میں ٹالا نہیں ہوتا
پھر کیسے سنورتا یہ مرا ظاہر و باطن
غلطی پہ اگر ٹوکنے والا نہیں ہوتا
چلتے نہ اگر مجھ پہ بھی تنقید کے نشتر
میرا بھی کوئی شعر نرالا نہیں ہوتا
ان عقل کے اندھوں کو بھلا کون بتائے
"نفرت کے چراغوں سے اجالا نہیں ہوتا"
یوں ہی کہاں پرنور ہوٸیں ہِجرکی راتیں
میں دل نہ جلاتا تو اجالا نہیں ہوتا
گم ہوتا کسی اور ہی پستی میں فہیم آج
گر خود کو بلندی پہ سنبھالا نہیں ہوتا
🖋️فہیم اختر دھولیہ
Mob 9028853745
____________🔴
غزل اختر جمال بھیونڈی
بے مکانی راس آئے گی مکاں ہونے کے بعد
یہ زمیں مجھ کو روئے گی آسماں ہونے کے بعد
اچھی باتیں اچھے لوگوں کی تمنا چھوڑئے
دل کو سمجھایا بہت، لیکن زباں ہونے کے بعد
ایک پل خوش فہمیوں کا، لے گیا سارا ہنر
ڈھونڈتا پھرتا ہوں خود کو، رائیگاں ہونے کے بعد
میں اکیلا تھا، تو کتنی منزلیں سر ہوگئیں
ٹوٹ کر بکھرا ہوں میرِ کارواں ہونے کے بعد
آسمانوں سے اتر آئے تھے اخترؔ کس لئے
شمع کی چوکھٹ پہ بیٹھے ہو، دھواں ہونے کے بعد
🌹 اخترؔ جمال
✍️ انتخاب : شمیم ریاض