( شکیل رشید ، ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز )
اسرائیلی مانیں یا نہ مانیں ، ح م آ س نے ایک اسرائیلی ماں کا شکریے کا بھیجا ہوا جو خط جاری کیا ہے ، اُسے ساری دنیا دیکھ رہی ہے اور ح م آ س کی ’ انسانیت ‘ کا احساس بھی کر رہی ہے ۔ اس تنطیم کا رویہ اُن اسرائیلی شہریوں کے ساتھ ، جو اس کی قید میں تھے ، رحم دلانہ اور ہمدردانہ تھا ، اور اس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ وہ ’ قید ‘ ہونے کا دکھ اور غم جانتے ہیں ۔ فلسطینیوں کی بہت بڑی تعداد اسرائیل کی قید میں ہے ، اور یہ چند روز کی قید نہیں ہے ، یہ برسوں کی قید ہے ۔ بہت سے فلسطینی ایسے ہیں جن کا سارا بچپن قید میں گزرا ، اور جب وہ رہا ہوئے تو ان کی جوانی بھی رُخصت ہونے کے قریب تھی ۔ آج بھی بے شمار فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں قیدِ تنہائی کا عذاب جھیل رہے ہیں ، ان میں خواتین بھی ہیں اور بچے بھی ۔ تو اس تنطیم کے لوگ بھی اور فلسطینی عوام بھی خوب جانتے ہیں کہ قید کی زندگی ایک عذاب ہوتی ہے کہ یہ اپنوں کو اپنوں سے دور کر دیتی ہے ، اور کبھی کبھی قید ہی میں جانیں چلی جاتی ہیں ، اور گھر والے آخری دیدار تک نہیں کر پاتے ، یا یوں بھی ہوتا ہے کہ قید میں جو ہے اس کا اپنا کوئی پیارا گزر جاتا ہے اور وہ سلاخوں کے پیچھے ہی درد و کرب کو جھیلنے پر مجبور ہوتا ہے ۔ نہ جانے کتنے فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں ، اور سارے فلسطینیوں کو خوب پتہ ہے کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جا رہا ہے ، ایسا سلوک جو ایک دشمن بھی اپنے دشمن کے ساتھ نہیں کرتا ! اسی لیے جب اسرائیلی قیدیوں کا معاملہ آیا تو اس تنظیم نے ان کے ساتھ ہمدردی کا ، نرمی کا اور بہترین اخلاق کا مظاہرہ کیا ؛ اور سچ کہیں تو اسلام یہی سکھاتا بھی ہے ۔ جنہوں نے اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ مختلف غزوات کے قیدیوں کے ساتھ رسولِ اکرم ﷺ کا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا سلوک کیسا مشفقانہ اور برادرانہ ہوتا تھا ، اور یہ سلوک ہی تھا جو اسلام کی ترویج کا سبب بنا ، تلوار نہیں ۔ کتنے ہی مشرکین تھے جنہوں نے اخلاق کے اعلیٰ ترین نمونے دیکھے اور مشرف بہ اسلام ہوگیے ، تاریخ مشرف بہ اسلام ہونے کے ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ اکثر مسلمان حکمراں بعد کے دنوں میں اخلاق کے بہترین مظاہرے سے غافل ہو گیے اور ان کی وجہ سے ساری دنیا میں اسلام کی ایک ایسی منفی تصویر بنی جو مٹائے نہیں مٹتی ۔ حکمراں ، اور خواص تو ہیں ہی عام مسلمان بھی آج اخلاقی پستی کا شکار ہیں ، جس کی وجہ سے غیروں میں مذہبِ اسلام کی ساکھ متاثر ہوئی یا متاثر ہو رہی ہے ۔ لیکن جب بھی اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ایک بڑی تعداد اسلام کے دامن میں پناہ لیتی ہے ۔ گزشتہ دنوں خبر آئی تھی کہ فلسطینیوں کے بے مثال حوصلے سے متاثر ہوکر امریکہ کے کئی ٹک ٹاکر ، جن میں خواتین بھی شامل ہیں ، مشرف بہ اسلام ہوگئی ہیں۔ ایک نظر اس خبر پر ڈال لیں ؛ ’’غزہ پر حالیہ اسرائیلی حملوں کے بعد، ایک قابل ذکر رجحان ابھر رہا ہے ، نوجوان امریکی خواتین نہ صرف اسلام قبول کر رہی ہیں بلکہ ٹک ٹاک جیسے مقبول پلیٹ فارم پر شیئر کیے گئے مختصر ویڈیو پیغامات کے ذریعے عوامی طور پر اپنے تبدیلیٔ مذہب کا اعلان بھی کر رہی ہیں ۔ برطانوی خبر رساں ادارے ’ ڈیلی میل آن لائن ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، ان خواتین نے اسلام قبول کرنے کے اپنے فیصلے کی وجہ ’ معرکۂ طوفان اقصیٰ‘ پر اسرائیل کے ردعمل کو قرار دیا ہے ۔ اس تنازعہ نے متعدد مغربی خواتین کو اپنی مذہبی وابستگیوں کا از سر نو جائزہ لینے پر اکسایا ہے ۔ رپورٹ میں مذہب تبدیل کرنے والے ایک نوجوان کا حوالہ دیا گیا ہے، جس نے کہا، ’ اسرائیل کی طرف سے طاقت کا بے دریغ استعمال میرے قبول اسلام کے لیے ایک محرک رہا ہے ۔ ‘‘ اسرائلی خاتون ڈینیئل الونی نے اپنی پانچ سالہ بیٹی کی رہائی پر شکریے کا جو خط لکھا ہے ، اس میں صاف صاف کہا ہے کہ ’’ بچوں کو جیل میں نہیں ہونا چاہئے، لیکن آپ اور دوسرے مہربان لوگوں کا شکریہ جو ہم راہ میں ملے… میری بیٹی خود کو غزہ میں ملکہ سمجھتی تھی ۔‘‘ یہ خط عبرانی زبان میں ہے اور عربی میں اس کا ترجمہ شائع ہوا ہے ۔ آخر ایسا کیا ہوا تھا کہ ایک یہودی خاتون شکریے کا خط لکھنے پر مجبور ہوئی ! خط میں اس کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے ،’’ میں آپ سب کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ نے میری بیٹی کے ساتھ حسنِ سلوک اور محبت کا مظاہرہ کیا ، آپ نے اس سے والدین کی طرح سلوک کیا ، اسے اپنے کمروں میں بلاتے اور اسے یہ احساس دلاتے کہ آپ سب اس کے صرف دوست ہی نہیں بلکہ محبت کرنے والے بھی ہیں ، آپ کی شکر گزار ہوں اس سب کے لیے ۔‘‘ اسرائیلی میڈیا اور اسرائیلی کے لیے بطور گودی میڈیا کام کرنے والے صحافی اور نیوز چینل و اخبارات اس خط کو پروپیگنڈا قرار دے رہے ہیں ، حالانکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ یہ گودی میڈیا انتہائی جانبدار اور یکطرفہ خبریں پروستا ہے ، خبریں جو واقعی پروپیگنڈا ہوتی ہیں ۔ یہ خط اس لیے حقیقی ہے کہ صرف مذکورہ خاتون ہی نہیں رہا ہونے والے اکثر اسرائیلی باشندوں نے یہ اعتراف کیاہے کہ ان کے ساتھ بہترین سلوک کیا گیا ، اور اس اعتراف کی تائید اسرائیلی ’ چینل -۱۳ ‘ کے دفاعی امور کے صحافی بین ڈیوڈ نے بھی کی ہے ۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے یہ ایک سبق ہے ، کہ حسنِ سلوک سے ہی دلوں کو جیتا جا سکتا ہے ۔
💌 آیا جاڑا ۔۔۔
____________________
✒️ ڈاکٹر آصف فیضی ( مالیگاؤں)
____________________
🍁 بارش کی بوندوں نے ابھی گرنا بند ہی کیا تھا, برسات کا موسم بوریا بستر لپیٹے ابھی ٹھیک سے رخصت بھی نہیں ہوا تھا اور مشرق سے آنے والی سرد ہواؤں نے موسم سرما کی آمد کی نوید سنادی۔ ہلکی سرد ہواؤں سے جاڑے کی خوشخبری سنتے ہی دادی اماں نے گٹھری کھولی، سب کو گرم اونی کپڑے، ٹوپیاں، دستانے ، موزے ، مفلر اور شال مل گئے۔ امّاں نے رضائی اور کمبل کو صاف کیا اور جاڑے کا استقبال کرنے لگیں۔
ہر موسم کا اپنا مزہ ہے مگر جاڑے کا مز ہ ہی کچھ اور ہے۔ہمیں تو جاڑے سے اچھا کوئی موسم نہیں لگتا۔ ٹھنڈی سے بچنے کے لیے گرم کپڑے پہننا، اونی ٹوپی پہننا، ہاتھوں میں دستانے چڑھانا، پیروں میں موزے ڈالنا اور سردیوں کو مدوا کرنا۔ موسم سے لڑنے کے لیے اتنے سارے ہتھیار سردیوں کے علاوہ کس موسم کے لیے ہوسکتے ہیں؟ سردیوں سے لڑنے کے لیے اتنے سارے ہتھیارہونے کے باجود ، افسوس ہے اس شخص پر جو گھر میں بیٹھا انگیٹھی تاپ رہا ہو۔ ایسے بزدل کی بزدلی کو اکیس توپوں کی سلامی۔
سردی کا موسم اپنے ساتھ کئی سارے موسم ساتھ لاتا ہے ۔ یہ صحت کا موسم ہے ، کاہلوں کے لئے سونے کا موسم ، بسیار خوروں کے لئے بسیار خوری کا موسم ، کام کرنے والوں کے لئے کام کا موسم، طلبہ کے لئے چھٹیوں کا موسم، ڈاکٹروں اور طبیبوں کے لئے علاج کا موسم۔
سردیوں کا موسم ہی کچھ ایسا ہے کہ راتوں کو گھر کے باہر علاؤ جلا کر بیٹھنا اور کہانیاں سننا، سنانا اور دیر رات گہے جاکر بستر میں دبک جانا۔سردیوں کو یاد گار بنا دیتا ہے۔
زمانے کے ساتھ ساتھ انسان اور موسم کے مزاج میں نمایاں تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ ابھی ذرا سردیاں شروع نہیں ہوئیں۔ ذرا جیکٹ ، سوئیٹر نکالا نہیں ، سردیوں کامزہ لینے کی تیاری ہوئی نہیں کہ سردی کا موسم بھی رخصت کی اجازت چاہنے لگا۔ وہ وقت اب کہاں جب خوب کڑاکے کی سردیاں پڑتی تھیں۔ جاڑا سی سی کرتے ہوئے آتا تھا ،، سردیوں سے دانت بجنے لگتے تھے، سورج بھیگی بلی بن کر چھپا رہتا تھا۔سردیوں کے مخصوص ملبوسات مہینوں کام میں آتے تھے، یہ باتیں اب کتابوں کی زینت بن گئیں۔
گلابی سردی سے بہتر کوئی موسم نہیں۔ جی چاہتا ہے شہر سے کہیں دور ، کھلی فضا میں، کسی میدان میں جا کر بیٹھ جائیں، دوستوں کی محفل ہو اور چائے ، کافی اور قہوہ کا دورہو، گپ بازیاں ہوں اور ۔۔۔ بس۔
جیسے جیسے سردیاں بڑھنے لگتی ہیں ، اس کے اثرات انسانی زندگی پر دکھائی دینے لگتے ہیں۔ سڑکوں اور بازاروں کی رونق جلد ہی ختم ہوجاتی ہے۔ آدمی گھر میں رہنے میں عافیت محسوس کرتا ہے۔ سڑکوں اور چوک چوراہوں پر ہجوم کم ہوجاتا ہے، ہاں !چائے خانوں کی بات الگ ہے۔ رات میں جلد ہی ہر طرف خاموشی ، سکون اور سناٹا چھا جاتا ہے۔ دوستوں کی محفلیں بھی کم ہوجاتی ہیں۔ انسان کیا جانور بھی سڑکوں پر کم ہی دکھائی دیتے ہیں، ہاں! کتّے اس سے مستثنیٰ ہیں۔
سردیاں شدت کی ہوں تو ٹھنڈے پانی سے منہ دھونا بھی کار گناہ لگتا ہے۔ طبیعت غسل کے بجائے تیمم کی جانب مائل ہوجاتی ہے۔مگر خواتین کا کوئی جواب نہیں، سردی کتنی بھی شدت کی ہو کپڑے دھونا، برتن دھونا، گھر کی صاف صفائی اور دیگر معمولات زندگی میں ذرہ برابر خلل پیدا ہوجائے۔ نا ممکن۔۔۔۔
سردیوں کے دن چھوٹے اور راتیں لمبی ہوتی ہیں۔ سردی میں جسم چاق و چوبند رہتا ہے، کام کرنے کے لیے طبیعت مائل رہتی ہے۔ کام کرنے پر بھی تکان کا احساس نہیں ہوتا۔ پسینے کی الجھن سے چھٹکارہ مل جاتا ہے۔سردیوں کی راتوں کو ہر طرف خاموشی ہونے کے سبب جو یک سوئی راتوں میں میسر آتی ہے وہ اور کسی موسم میں نہیں۔ ایسی یک سوئی کہ ہم اپنے آپ سے بھی ملاقات کر سکتے ہیں۔ اسی لیے سردیوں کی راتیں مطالعہ کرنے یا پھر تخلیقی کاموں کے لیے بہترین ہیں۔ رات دیر گہے سونے پر بھی نیند پوری۔
سردیوں کا موسم ا طلبہ کے لئے خوشی کا پیغام لے کر آتا ہے، سردیوں کی چھٹیاں طلبہ کے لئے انعام سے کم نہیں ہوتیں مگر یہی سردیوں کا موسم طلبہ کے لیے کسی امتحان سے بھی کم نہیں۔ صبح گرم بستر چھوڑ کر سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے اسکول جانا کسی مجاہدے سے کم نہیں، تاخیرہونے پر استاد کی مار کا ہاتھوں پر دیر تک محسوس کرنا۔ بھلا ہو ان استاتذہ کو جو سردیوں میں مارنے کی بجائے دوڑنے کی سزا دیتے ہیں۔
جاڑا، اپنے ساتھ کچھ خاص عارضے بھی لاتا ہے۔ کھانسی، نزلہ، زکام وغیرہ۔ ڈاکٹروں کے دواخانوں میں سردی اور نزلے کے مریضوں کی بھیڑ دیکھنے کو ملتی ہے۔ طبیبوں کی دکانوں کے کاؤنٹر پر سردی کی سیرپ ،معجون سعال، شربتِ سعال، شربت نزلہ، معجون اسطخدوس،اطریفل اسطخدوس اور طرح طرح کےمعجونوں اور چاٹنوں کےاسٹاک سردیوں کی آمد کا اعلان کرتے نظر آتے ہیں۔ہاں ! پیٹرولیم جیلی اورواسلین کو سردیوں کی سزا ضرور کہا جاسکتا ہے۔
سردی کاموسم صحت کا موسم بھی ہے۔ بہت سے لوگ کثرت کرنے اور صحت بنانے کے لیے سردیوں کا انتظار کرتے ہیں۔ سردیوں کی راتوں اور صبحوں میں چہل قدمی کرنے کا اپنا مزہ ہے۔ سردیوں کی دھوپ میں بیٹھنا اور دھوپ کھانے کا لطف انگیٹھی تاپنے والے اور ہیٹر کے پیچھے چھپ کر بیٹھنے والے کیا جانیں ۔
سردی کے موسم کا تعلق کھانے پینے سے بھی ہے۔ سردیوں میں لوگ خاص قسم کی غذائیں استعمال کرتے ہیں۔ مرغن غذاؤں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ سمندری خزانے کی مانگ بڑھ جاتی ہے۔ اڑت کے دال کے لڈو، گوند کے لڈو اور میتھی کے لڈو اور سردیوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ میوہ جات کی کھپت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ سردیوں میں مونگ پھلی اور بھٹّے کھانے کا اپنا مزہ ہے۔ باجرے کی روٹیاں الگ ہی مزہ دیتی ہیں۔ گاجر کا حلوہ خاص سردیوں کی چیز ہے۔ سردیوں میں توانڈے اورچٹ پٹے پکوانوں کی بات ہی کچھ اور ہے۔ دال ، چنے اور پکوڑوں کا تو جواب نہیں۔ بڑے بوڑھے کہتے تھے کہ ’’سردیوں کا کھایا سارے سال کفایت کرتا ہے‘‘۔ مگر اب وہ زمانہ کہاں اب تو ساراسال کھانے پینے کا موسم ہے۔ کھانا اب ضرورت سے آگے بڑھ کر شوق میں داخل ہوگیا ہے۔
چائے، کافی ، مسالے والی چائے ، شربتی چائے، ادرک والی چائے اور قہوہ سردی کے خاص مشروب ہیں ۔ سردیوں میں ان کا مزہ دو بالا نہیں بلکہ سہ بالا ( شادی والا نہیں) ہوجاتا ہے ۔ سردیوں میں حقہ پینے والوں کی تو بن آتی ہے ۔
آئسکریم کے ذکر خیر کے بغیر سردیوں کو ذکر مکمل نہیں ہوسکتا۔ آئسکریم کھانے کا جو مزہ سردیوں میں ہے وہ اور کسی موسم میں نہیں ۔ یہ بات اور ہے کہ زکام ہونے کی صورت میں رومال سے بار بار ناک صاف کرنے کا بھی جو مزہ سردیوں میں ہے وہ کسی موسم میں نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ زکام ایسی بیماری ہے جو علاج کرنے پر آٹھ دن میں اور علاج نہ کرنے پر ایک ہفتے میں ختم ہوجاتی ہے۔
بات سردی کی چل رہی ہے، مجھے مشتاق احمد یوسفی کی وہ بات یاد آرہی ہے کہ ’’جاڑے اور بڑھاپے کو جتنا محسوس کروگے اتنا ہی لگتا چلا جائے گا۔ "
بہر حال جارا بڑھنے سے، جاڑا لگتا بھی ہے ، جاڑا کھانے سے جاڑا چڑھتا بھی ہے،مگر جاڑے کی چاندنی کسی کام کی نہیں ۔
قدرت بھی سردیوں میں بڑی فیاضی سے کام لیتی ہے۔ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے مناظر سردیوں میں دیدہ عبرت نگاہ کو دعوت نظارہ دیتے ہیں۔ قدرت اپنی مصوری کے بہترین نمونے آسمان میں بکھیرتے رہتی ہے۔ یہ مناظر سکون قلب و نظر کے ساتھ اس کے مالک سے متعلق غور و خوض کی دعوت بھی دیتے ہیں۔
سردیوں کی خاموش راتوں میں فجر کی اڈان کی آواز ایک الک ہی سماں پیدا کردیتی ہیں۔ پھر ٹھنڈے پانی سے وضو کر کے اپنے مالک سامنے سجدہ ریز ہو کر مالک سے سرگوشی کرنے کی کیفیت کو ضبط تحریر میں لانا نا ممکن ہے۔
عاشقوں کو کسی موسم میں چین نہیں آتا ۔ یہ مخلوق ہر موسم میں پریشان نظر آتی ہے ۔ سردیوں کا موسم عاشقوں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کردیتا ہے۔
بات سردی کی ہو اردو شاعروںکا ذکر نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے۔ ہمارے شاعروں نے سردی کے موسم کو بھی خوب نواز ہے۔ چند اشعار دیکھیں
*اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی راتوں میں اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
*یہ سرد رات یہ آوارگی یہ نیند کا بوجھ ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے🍁
___:::
"ایک نظم بس ایک نظم ہوتی ہے"
🔴احمد نعیم
پوسٹر :-🎬 بہ شکریہ Zara Rizwan
ایک نظم بس ایک نظم ہوتی ہے
جب یہ دل میں ہوتی ہے
سوچ کے دائرے میں گردش کرتی ہے
تب یہ زندہ ہوتی ہے
لیکن
جیسے ہی یہ اظہار کا راستہ پاتی ہے
مردہ ہوجاتی ہے
تم اُسے کسی اسپتال کے ڈسٹ بن میں پھینک کر
آگے بڑھ سکتے ہو۔۔۔۔۔
یا
کسی مریض کے بازو میں سوئی کے ذریعے داخل کر سکتے ہو۔۔
یا کسی بس اسٹاپ پہ اُسے اکیلا چھوڑ کر بھاگ سکتے ہو
کسی نظم کو اپنی چھتری بھی نہ دو
جب وہ بارش میں بھیگ کر تھرتھر کانپ رہی ہو
ایک نظم کو کسی سینما ہال کے اندھیرے میں بھی چھوڑ کر باہر نکل سکتے ہو
تم نظم کو کوڑے کے ڈھیر پر لاوارث اولاد کی طرح بنا مڑے,
پھینک کر جا سکتے ہو
تم نے نظم کو بہت سنجیدگی سے لے لیا ہے
تم نظم کو تباہ کردو گے ۔۔۔
نظم جیسے ہی سنجیدگی محسوس کرتی ہے
مر سی جاتی ہے
یہ احساس ہی اُسے کچل دینے والا ہے
کہ ____!!
نظم اداسی کے ذائقہ سے تر بہ تر ہے
تم نے اس میں سے باقی ذائقے تحلیل کر دییے ہیں
تم نظم سے بچے کا سا برتاو کرو
اپنا شفیق لمس دو
یا پھر
کسی موسیقار سا احساس دو
کہ جس کی پوریں ساز چھوتے ہی اسے امر کر دیں
یہ مت سمجھو !
کہ تم نظم کے ساتھ کوئی عظیم احسان کر رہے ہو
اپنی نظم کو اپنا ساز بننے دو
جب تم کسی کے لیے خوشی سے قربانی دیتے ہو تو یہ مقدس بن جاتی ہے
بس
ایک نظم کے لیے ....
ایسی ہی قربانی دو
جو خوشی کے ساتھ دی جائے وہ مقدس بن جائے
یہ فرائض میں شامل ہوتا ہے
جیسے آئینہ دیکھ کر نقل اتارنا
یا آئینہ میں اپنے آپ کو مکا مارنے جیسا
نظم کا انتظار کسی آٹھ ماہ کی
حاملہ عورت سے پوچھ سکتے ہو
وہ اس وقت کیسا محسوس کر رہی ہے
جب نظم تخلیق کے مرحلے میں ہو۔۔۔۔
۔