دو تین روز قبل زیر تعمیر پرانے آگرہ روڈ سے گزر رہا رات تقریباً آٹھ بجے کا وقت رہا ہوگا ۔ پاور آف تھی اور روڈ کے ایک ہی جانب کا راستہ جاری تھا نتیجتا ٹریفک جام۔ حسب معمول سبھی کو نکلنے کی جلدی تھی۔ طبعیت کچھ ناساز ہونے کے سبب میرا بیٹا بائیک ڈرائیو کر رہا تھا میں پیچھے کی جانب بیٹھا ہوا نئے فاران کی سمت جا رہا تھا۔ ایک چاچا جان عمر ساٹھ پینسٹھ ، دبلے پتلے سے روڈ کراس کر رہے تھے۔ مخالف سمت سے آرہے شخص کی بائیک سے ٹکراتے ٹکراتے بچ گئے۔ غلطی کس کی تھی دیکھ نہیں پایا۔ بڑے میاں کی اونچی آواز میں گالی گلوچ نے مجھے ان کی جانب متوجہ کر دیا۔ اپنے بیٹے سے بائیک کنارے لگانے کو کہا اور اتر کر ان کی جانب بڑھا۔ قریب جاکر دیکھا بائیک والا شخص پینتیس سال کے قریب عمر، کافی تندرست و صحت مند اور گلے میں بھگوا رنگ کا گمچہ لپیٹے ہوئے ایک کٹر ہندو کی شبیہ پیش کر رہا تھا۔ لیکن آپ یقین جانئیے اس وقت وہ بڑے میاں کے سامنے کسی بچے کی طرح گڑگڑا رہا تھا۔
“ ارے چاچا معاف کردو غلطی ہوگئی۔ میں نے ہارن بجایا۔ تم نے سنا نہیں۔”
لیکن چاچا اس کی بات کو سنے بغیر بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے جھنجھوڑےجارہے تھے اور گندی گندی گالیاں دئیے جا رہے تھے۔
حالانکہ وہ شخص بڑے میاں کو ہلکا سا دھکا بھی دے دیتا تو لڑھک کر دور جا گرتے۔ لیکن ظاہر ہے اس پر اس بات کا خوف حاوی تھا کہ وہ اس وقت مسلم علاقے میں تھا۔ اور اس کی یہ “غلطی” اسے بھاری پڑ سکتی ہے۔
میں نے چاچا سے کہا،” حضرت کم از کم اپنی عمر کا لحاظ کیجئے۔ گالی گلوچ نہ کریں۔ چلئیے معاف کریں اور جائیے”
یہ سن کر اس بائیک والے کے چہرے پر اطمینان نظر آیا۔ مجھ سے کہنے لگا۔
“بھیا میری غلطی نہیں ہے۔ چاچا اچانک سامنے آ گئے۔”
اس وقت تک اور دو تین لوگ وہاں آکر رک گئے۔ لیکن مجھے مصالحت کرتے دیکھ کسی نے کچھ نہ کہا۔ورنہ مجھے ڈر تھا کہ ہمارا کوئی بہادر نوجوان اس پر ہاتھ صاف کرنا نہ شروع کردے۔
میرا اشارہ پا کر وہ شخص روانہ ہو گیا۔
جب میں واپس اپنی بائیک کے پاس گیا تو میرا لڑکا معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ مسکراتے ہوئے میری جانب دیکھا ۔ میں بھی مسکرا دیا ۔ اور ہم آگے بڑھ گئے۔ دل میں اس خیال کے ساتھ میرے لڑکے کو اس سے یقیناً کچھ اچھا ہی سبق ملا ہوگا۔
اس واقعہ نے کافی عرصہ پہلے ہوئے واقعہ کی یاد تازہ کر دی ۔ میں اپنے دوست کے ساتھ سائیکل پرڈبل سیٹ کیمپ کے علاقے میں شام کے وقت عیدگاہ میدان کے پاس سے گزر رہا تھا۔ عام بچوں کی طرح تھوڑی مستی کے موڈ میں ہونے کی وجہ سے سائیکل آوٹ آف کنٹرول ہوئی اور ایک ادھیڑ عمر کے شخص سے پیچھے کی جانب سے ٹکرا گئی۔ وہ شخص پیچھے مڑا اور کچھ محسوس کرتے ہوئے ( یہ کہ ہم مسلم ہیں) زوردار طمانچہ میرے دوست کو رسید کردیا۔ دوست کو یقیناً اس طمانچہ نے آسمان کی سیر کرا دی ہوگی لیکن اس سے بھی زیادہ حیرت ، تکلیف اور درد کا احساس مجھے اس شخص کے اس جملے سے ہو ا کہ
“ کیا رے سیدھے سے رہو۔پاکستان جانا ہے کیا؟”
سامنے یاد نہیں کس چیز کی لیکن چھوٹی سی دکان تھی وہاں سے دھوتی پہنے ہوئے ایک معمر شخص اٹھ کر ہماری طرف آیا اور اس شخص سے مراٹھی زبان میں کہا۔
“ اے جانے دے بچے ہیں۔”
اور ہم سے کہنے لگا ۔
“بیٹا ذرا آرام سے چلا سائیکل۔”
اس کے ان الفاظ کا میرے ذہن و دل پر وہی اثر ہوا جو آگ پر پانی کا ہوتا ہے۔ اس واقعہ کو تقریباً تیس سال گزر چکے ۔ لیکن اب بھی ذہن میں تازہ ہے۔
فیصلہ آپ کیجئے ان دونوں واقعات کے کرداروں میں کون بزدل ہے اور بہادر کون ؟
عظمت اقبال عامری۔ موبائل ۔ 9970666785
___________🔴
افسانہ
آشوا سن
افسانہ نگار وسیم عقیل شاہ جلگاؤں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس کے پاؤں میں پڑے چھالے پھوٹنے لگے تھے، جن سے رسنے والا پانی پسینے سے مل کر شدید جلن پیدا کر رہا تھا ۔ اس پر دھوپ کی تمازت اسے الگ بے حال کیے ہوئے تھی ۔ اب ایک قدم بھی آگے بڑھانا اس کے لیے محال تھا، لیکن اس کا عزم ہی تھا جو اسے گھسیٹتے ہوئے جلوس کے ساتھ ساتھ لیے چل رہا تھا۔
سفر کی سرد وگرم صعبتوں اور مشقتوں کو برداشت کرتا ہوا، لوگوں کی ہمدردیاں اور دعائیں لیتا ہوا ،ہزاروں کسانوں کا یہ جلوس سیکڑوں میل پیدل مارچ کرتا چلا جا رہا تھا ۔ وشوا بھی اپنی پگڑی میں امیدیں باندھے اس جلوس میں شامل ہوا تھا۔اسے بھی آس تھی کہ اب کے حکومت کی حس ضرور جاگے گی اور جلد ہی کسانوں کے مطالبات پورے کر دیے جائیں گے۔ اسی لیے وہ اس طویل سفر میں درپیش ہر تکلیف کو اپنے خوابوں کی خوش آئند تعبیر کے بدلے برداشت کرتا ہوا چل رہا تھا۔ اور مسلسل چل رہا تھا ۔ راستے میں لہلہاتے کھیتوں کو دیکھ کر اس کے رگ و پے میں مسرت کی لہر دوڑ جا تی اور اس کے قدم خود بخود تیز ہونے لگتے ۔ اتنے تیز کہ وہ عَلم اٹھائے، پیش پیش رہنے والے جلوس کے پرجوش نوجوانوں سے بھی آگے نکلنے لگتا ۔ یہ امیدیں ہی اس کے حوصلے اور راحت کا سبب بن رہی تھیں، وگرنہ اپنی بے فیض زندگی سے وہ گویا بجھ سا گیا تھا۔
اسے اپنی بیوی شکنتلا کے بے موت مرنے کا شدید غم تھا۔ اگر پچھلے برس فصل کی قیمت اس کی محنت کے برابر آئی ہوتی تو وہ اس کا علاج صحیح ڈھنگ سے کرواتا اور شاید وہ بچ بھی جاتی! مگر بیماری کے بعد وہ جی ہی کتنا! نہ اس کے پاس وقت تھا نہ وشوا کے پاس کہ وہ پھر سے قرض کے لیے دوڑ بھاگ کرتا ۔ حالانکہ اس کے ناتواں کاندھوں پر پہلے ہی قرض کا اتنا بوجھ تھا کہ وہ اگلا قرض لینے کا کسی بھی طرح سے اہل نہیں تھا ۔ تب بھی اگر کوئی بینک یا ادارہ ترس کھا کر اسے قرض دیتا بھی تو ضابطے کی کاروائی پوری کرنے تک شکنتلا کے پاس وقت کتنا تھا ! ۔... اسے لگتا تھا کہ شکنتلا، سندھیا ہی کو دیکھ دیکھ کر جیتی تھی اور مری بھی شاید اسے ہی دیکھ دیکھ کر ۔ آخر وقت میں سندھیا کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں جو حسرت آمیز کیفیت تھی اسے یاد کر کے وشوا کے دل میں ایک ہوک سی اٹھتی۔
سندھیا۔۔۔! اس کی سگھڑ بیٹی۔۔۔ سچ مچ وشوا کو پتا ہی نہ چلا کہ کھیتوں کی بالیوں اور جھاڑیوں کے پیچھے چھپ کر اسے ستانے والی اس کی معصوم گڑیا کا بچپن، کب اور کس اوٹ چھپ گیا! مگر اب جب کہ سندھیا اٹھائیس کے اوپر ہوچلی تھی تو اس کے بڑھتے سن کا ایک ایک دن وشوا پر بھاری گزر رہا تھا۔
بھلا ہو ان نیتاؤں کا جنہوں نے کسانوں کو جاگرت کیا اور انہی کے حق میں ریاستی سطح پر ایک بڑے جلوس کا اہتمام کیا ۔تاکہ سرکار اور اس کے کارندوں کو کسانوں کے مسائل سے آگاہ کرایا جاسکے ۔. سندھیا کو لیکر وشوا نے اپنی ساری امیدیں اور آشائیں اسی جلوس سے باندھ لی تھیں۔ اب تو اسے گویا یقین ہوچلا تھا کہ حکومت ان کا ساتھ دے گی اور فصل کے صحیح داموں میں خریدو فروخت کا قانون بنے گا، جس کی بنا پر اب کی بار فصل کے دام مناسب آئیں گے ۔ اور رہی بات قرض کی تو وہ سرکار سے پر امید تھا کہ یقیناً اس کا قرض معاف کر دیا جائے گا یا اطمنان کی حد تک اس میں کمی کر دی جائے ۔ اس نے ایک موٹا موٹا حساب جوڑ کر یہ بھی اندازہ لگا لیا تھا کہ اگلے چھ، آٹھ مہینوں میں اس کے پاس اتنی رقم جمع ہوسکتی ہے جس سے سندھیا کے جہیز اور لگن کا ٹھیک ٹھاک بندوبست ہوجائے گا۔ اسی لیے جلوس میں شامل ہونے سے ہفتہ بھر پہلے ہی وہ گاؤں کے رشتہ لگانے والے ’بدھوا‘ سے ملا تھا او ر اسے پیشگی ہزار روپیے دے کر سندھیا کے لیے اچھا سا ’بر‘ ڈھونڈنے کی منتیں کی تھیں ۔
پانچ دنوں کے طویل سفر کے بعدجلوس اپنے مقام پر پہنچا۔ رات کومنتظمین اور کچھ فلاحی اداروں کی جانب سے جھنکا بھاکر اور کچھ ہلکے پلکے کھانے کا انتظام کیا گیاتھا۔ اسے زہر مارکر کے سبھی تھکے ہارے کسانوں نے سوتے جاگتے رات گزار لی۔صبح کو جلوس کے اہم لیڈروں نے منتریوں اور سرکاری نمائندوں سے تین گھنٹے کی طویل میٹنگ کی ،پھر جب باہر آئے تو یہ بھاشن دیا۔
'' دیش واسیوں کے لیے اَناج پیدا کرنے والے ہر ایک کسان کا مسئلہ اس کا اپنا ذاتی نہیں بلکہ پورے دیش کا مسئلہ ہے ۔ سرکار مانتی ہے کہ سبھی کسانوں کے مسائل ایک جیسے ہیں لیکن ان میں ہر ایک کی ذمہ داریاں مختلف ہیں ۔ لہذا اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے سرکار نے کسانوں کی بیشتر مانگوں کو قبول کر لیا ہے اورآشواسن دیا کہ اگلے چھ مہینوں بعد ان پر عمل کرنا شروع کر دیا جائے گا ۔اس کے علاوہ بقیہ مانگوں پر غور کرنے کے لیے ایک سال کی مدت لی ہے تاکہ ان مانگوں پر ہرپہلو سے غور کیا جاسکے۔ ''
سرکاری فیصلے سے ہجوم پر کہیں خوشی تو کہیں غم کی لہر دوڑ گئی۔ بیشتر کسانوں کے مطابق اس فیصلے میں سوائے واپسی کے لیے سفری انتظامات کرنے کے ہر ایک مدعا آشواسن تھا۔ اور آشواسن کا لفظ خاص کر کسانوں کے لیے کبھی بھی نیا نہیں رہا بلکہ آشواسن کے معنی ان کے نزدیک صرف انتظار۔۔۔۔انتظار اور انتظار کے سوا کچھ نہیں تھا ۔
فیصلہ سنتے ہی وشوا کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اوربدن پر جیسے لرزا سا طاری ہوگیا۔وہ سر تھامے کپکپاتے پیروں سے زمین پر اکڑوں بیٹھ گیا۔پتا نہیں وہ کتنی دیر اسی کیفیت میں بیٹھا رہاکہ اچانک اس نے اپنے کاندھے پر کسی کا ہاتھ محسوس کیا۔ دھیرے سے آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ سامنے ایک شخص کھڑا تھا،اس کی شکل کچھ جانی پہچانی سی لگ رہی تھی ۔وہ دھیرے دھیرے اٹھ کر کھڑا ہوا اور اس شخص کو پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔
’’ارے وشوا ،کیا تو نے مجھے پہچانا نہیں میں کیشو ہوں کیشو۔ ‘‘
کیشو کا نام سن کر اس کی آنکھوں میں شناسائی اتر آئی اور دونو ں دوست بغل گیر ہوگئے۔
کیشو نے بتایا کہ وہ بیس برسوں سے دور کے ایک گاؤں میں اپنے سسرال کی زمین پر کاشت کار رہا ہے اور اب وہیں بس گیا۔ پھر اس نے وشوا کے اترے ہوئے چہرے پر نظریں جما کر پوچھا :
’’تیرا کیا حال ہے؟‘‘
وشوا نے افسردگی سے اپنی بیوی کی موت کی خبر سنائی۔سن کر کیشو نے بڑا افسوس ظاہر کیااور کچھ توقف کے بعد پوچھا :
’’تیری ایک بٹیا بھی ہے نا؟کیا نام ہے اس کا ۔۔۔۔۔؟
’’سندھیا۔ ‘‘
وشوا نے جواب دیا:
’’ہاں ،سندھیا۔۔۔اب تو شادی ہوگئی ہوگی اس کی ۔۔؟‘‘
وشوا نے مایوسی سے گردن ہلائی اور دھیمی آواز میں کہا:
’’ اسی کی تو فکر ستارہی ہے مجھے۔‘‘
وشوا نہیں چاہتا تھا کہ وہ اپنے بارے میں اسے اپنے حالات سے آگاہ کرے مگرکیشوکی ضد کے آگے وہ مجبور ہوگیا ۔
کیشو نے پوری بات سن کر اسے غور سے دیکھا اور اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر گویا ہوا:
’’وشوا، چنتا مت کر سب ٹھیک ہوجائے گا۔ ‘‘
’’نہیں رے کیشو تو نہیں جانتا مجھے اپنی کھیتی سے زیادہ سندھیاکی فکر ہے اور تو تو جانتا ہے آج کل لڑکے والے ’ہنڈا ‘ (ریاستِ مہاراشٹر میں روپیوں کی شکل میں دیا جانے والا جہیز) لیے بغیر کہاں راضی ہوتے ہیں ۔‘‘
تبھی پیچھے سے ایک نوجوان نے کیشو کو آواز دی۔چلو بابا دیری ہو رہی ہے ،کہیں بس نہ نکل جائے۔‘ ‘
وشوا نے دیکھا ایک اچھے قد و قامت کا نوجوان کیشو سے مخاطب ہو ا اور پلٹ کر پاس ہی کھڑے اپنے دوستوں کی طرف بڑھ گیا ۔
’’شایدیہ تیرا بیٹا ہی ہے ،ہے نا۔۔۔؟ کتنا بڑا ہوگیا۔۔۔۔۔۔!‘‘
کیشو نے دیکھا وشوا کی نظریں نوجوان کا تعاقب کر رہی ہیں ۔اس کے ہونٹوں پر ایک معنی خیز مسکراہٹ پھیل گئی ۔
وشوانے پوچھا :
’’لڑکی دیکھی ؟ ‘‘
’’ہاں دیکھی تھی ،پندرہ برس پہلے ۔۔۔۔۔‘‘
کیشو نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’پندرہ برس پہلے۔۔۔۔ کہاں دیکھی تھی ؟‘‘
اب کے وشوا کے لہجہ میں گہرا استعجاب تھا ـ
’’تیرے گھر میں۔ ‘‘
یہ سنتے ہی وشوا حیرت و مسرت کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ کیشو کا منہ تکنے لگا۔
’’اب منہ کیا دیکھتا ہے جلدی سے اپنے گاؤں کی بس پکڑ اور چنتا چھوڑ میں جلدہی تیری وہینی (بھابی ) کو لے کر سندھیا کا ہاتھ مانگنے تیرے گھر آؤں گا ۔ ‘‘
مائک سے مسلسل آنے والی آوازیں اب بند ہوچکی تھیں البتہ دس دس منٹ بعد ہدایتی پیغام ضرور آ رہے تھے ۔ میدان دھیرے دھیرے خالی ہو نے لگا تھا ۔ جلوس میں شامل کسان جوق در جوق ریلوے اسٹیشن اور بس اڈے کی طرف چلے جا رہے تھے ۔
کیشو کی باتوں سے وشوا کی ڈھارس بندھی ۔وہ بس میں سوار ہوا اور جگہ بنا کر ایک سیٹ پر بیٹھ گیا۔ بس چلنے لگی تو کھڑی سے آتی ہوا سے اسے راحت کا احساس ہوا، اس نے سیٹ سے ٹیک لگاکر آنکھیں بند کر لیں اور کیشو کے بارے میں سوچنے لگا ۔ ’’کتنا بھلا آدمی ہے کیشو ،پرانی دوستی کا مان رکھ لیا اور میری اتنی بڑی پریشانی دور کردی۔‘‘وہ اس دن کا تصور کرنے لگا جس کا آشواسن کیشو نے دیا تھاکہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ سندھیا کا ہاتھ مانگنے اس کے گھر آئے گا اور وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔اچانک ایک منحوس سا خیال اس کے ذہن میں بجلی کی طرح کوندا:
’’ کہیں کیشو کا آشواسن بھی سرکاری آشواسن کی طرح صرف انتظار۔۔۔۔۔ انتظاراور انتظار ہی بن کر نہ ر ہے جائے !‘‘
___________
غزل (ظہیر قدسی، مالیگاؤں -
سُنی سنائی سی تھیں بےوفائیاں کیا کیا بنائیں لوگوں نے لیکن کہانیاں کیا کیا
اسے تو کارِجہاں سے نہیں ملی فرصت ہوئی ہیں دل کو مگر بدگمانیاں کیا کیا
اُداسی، درد و غم و رنج، ہجر تنہائی ملی ہیں پیار کی ہم کو نشانیاں کیا کیا
بکھیرے گیسو کبھی، کھنچ لے کبھی...
________
تتلی کے کئی خواب سجاتی ہیں بیٹیاں
شگفتہ سبحانی
دو بات اُس نے کہہ دی تو ہوجاتے ہیں طلاق...
دروازے پر کھڑے کھڑے دے دی گئی طلاق!
بیٹی کبھی ماری گئی ماؤں کے پیٹ میں
دفنا دیا گیا اسے مٹی کے ڈھیر میں
پھینکا گیا ہے چہرے پہ تیزاب تو کبھی
زندہ جلا دیا اسے سسرالیوں نے ہی
لٹکائی جاتی ہیں کبھی پنکھے پہ مار کے
اغوا کرائی جاتی ہیں غنڈوں سے بیٹیاں
ہلکان ہورہی ہیں زمانے میں بیٹیاں...
حیران ہورہی ہیں زمانے میں بیٹیاں....!
غربت کی ماری نکلے جو روزی کے واسطے
آنکھوں میں کھٹک جاتی ہیں مجبور بیٹیاں
سہتی ہیں ظلم، ظلم کی حد بھی تو ہو کوئی
کہلاتی ہیں آوارہ بھی معصوم بیٹیاں
پھر آسمان سر پہ اٹھاتی ہیں بیٹیاں
رو رو کے آسمان ہلاتی ہیں بیٹیاں
بچوں کو پالتی ہیں مشقت سے یہ سبھی
خدمت کریں یہ سب کی محبت سے بہتریں
پھر بھی یہ مار کھاتی ہے شوہر کی کس لئے
کہہ دو زمانے سے کہ ہے مظلوم بیٹیاں
گھر کو سجائیں، کھانا پکاتی ہیں ہر دفعہ
تندور میں بھی ہاتھ جلاتی ہیں بیٹیاں
کوئی اداس ہو تو سبھی کام چھوڑ کے
پہلے اسے مناتی ہیں معصوم بیٹیاں
اپنی بہن پہ سب کو رحم آتا ہے مگر
دوجوں کی بیٹیوں پہ بھی ظالم تو رحم کر
بیٹی کسی کی ہو وہ ہے رحمت کا ایک گھر
بیٹی سے زندگی کی حسیں ساری رہ گزر
آپ اپنا مقدر وہ سجاتی ہیں بیٹیاں
پھر شان سے زمانے میں چھاتی ہیں بیٹیاں
اسلام نے کہا ہے کہ رحمت ہیں بیٹیاں
بیٹی کسی کی بھی ہو وہ جنت ہیں بیٹیاں