URDU NEWS se ek story ..........dabboo ji ke creator AABID SURTI per
دلیپ کمار نےروزانہ پہنچنےکی شرط رکھی تھی لہذا میں نےان کی فلم چھوڑ دی
کہانی کاراور کارٹونسٹ عابد سورتی ان دنوں گینگسٹرپر لکھے ناول ’ صوفی ‘ کے سبب خبروں میں ہیں
اسپیشل اسٹوری : فرحان حنیف وارثی
بالی ووڈ اداکار شاہ رخ خان کو بچپن میں جس کارٹون کیریکٹرنے اپنا گرویدہ بنایا تھا، اس کانام ’ڈبّوجی ‘ تھا۔ ڈبّوجی کے خالق عابد سورتی ، گجراتی اور ہندی کے معروف ناول نویس ، کہانی کار اور کارٹونسٹ ہیں۔ موصوف کی کہانیوں اور کتابوں کا ترجمہ اردو اور انگریزی میں ہوچکاہے۔ عابد سورتی اپنی ’ سیو واٹر‘ مہم کی وجہ سے کافی مشہور ہیں ۔سوپر اسٹار امیتابھ بچن انھیں اپنے ٹیلی ویژن شو میں مدعو کر چکے ہیں ۔میرا روڈ کے رہائشی عابد سورتی لکھنے والوں کے درمیان ’عابدبھائی ‘ کی عرفیت سے مقبول ہیں ۔
عابد سورتی کا اردو میں ’ صوفی ‘ نامی ایک ناول شائع ہوا ہے جس کا ترجمہ اردو کے منفرد افسانہ نگار اور صحافی م۔ناگ نے کیاہے۔ یہ ناول ان دنوں کی کہانی پر مبنی ہے جب عابد سورتی جنوبی ممبئی کے علاقے ڈونگری میں رہتے تھے ۔صوفی ایک گینگسٹر ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گینگسٹر اور صوفی ؟
عابد بھائی نے جواب دیا:’یہ ناول گجراتی کے اخبار ’ سندیش ‘ میں قسط وار شائع ہو اتھا۔ ہندی میں پہلی مرتبہ یہ ناول چھپا تو اس کا عنوان ہم نے ’مسلمان ‘ رکھا تھا ۔ہندی کے قارئین کو یہ عنوان پسند نہیں آیا اور ناول بکا نہیں ۔ جب پینگوئین نے اسے چھاپنے میں دلچسپی دکھائی توہم نے اس کا عنوان صوفی تجویز کیا ۔دراصل اس عنوان کے پیچھے ایک دلچسپ قصہ ہے۔‘
وہ بتاتے ہیں :’ میری ماں اپنے کمرےمیں آرام کر رہی تھیں۔اس وقت ناول کا بنیادی کرداراقبال روپانی مجھ سے ملنے آیا تھا۔ ہم باتوں میں مشغول تھے اور اسلام ، قرآن ، حدیث اور شریعت پر بات کر رہے تھے ۔روپانی صوفیانہ انداز میں اسلام اور قرآن پر بول رہا تھا۔اس کا انداز ایسا تھاکہ مولوی بھی لاجواب ہو جائے۔جب وہ اٹھ کر گیا تو میری ماں اپنے کمرے سے باہر آئیں اور پوچھا کہ کون صوفی آیا تھا، جو اتنی خوبصورت باتیں کرکے گیا؟مجھے اردو میں ترجمہ کراتے وقت ماں کی وہ باتیں یاد آگئیں اور میں نے یہی نام پسند کیا ۔خوشی اس بات کی ہے کہ انگریزی میں یہ خوب بک رہاہےاور امریکا، لندن اور آسٹریلیا سے قارئین اپنی تاثرات بھیج رہے ہیں ۔‘
عابد سورتی کے مداحوں کی فہرست میں دلیپ کمار، راج کپور اور دیو آنند بھی شامل تھے۔اس تریمورتی نے عابد سورتی کی کہانیوں پر فلمیں بنانے کا ارادہ کیا تھا۔
وہ بتاتے ہیں :’ 1971 کی بات ہے۔انگریزی کے اخبار الیسٹریٹیڈویکلی آف انڈیامیں ہر ہفتےمیرا ’دوڑ ‘ نامی کارٹون چھپ رہا تھا۔ راج کپور کارٹون کے بے حد شوقین تھے ۔ایک دن مجھے فون آیاکہ وہ مجھ سے ملنا چاہتے ہیں ۔انھوں نے مجھے آر کے اسٹوڈیو میں بلایاتھا۔میں ان سے ملنے گیا ۔یہ ایک ڈاکو اورایک بہادر پولیس انسپکٹر کی کہانی تھی ۔ میں نے کہانی سنانا شروع کی اور آدھے حصے تک پہنچا ہی تھاکہ راج صاحب نے مجھے روک دیا اور کہاکہ آگے کی کہانی میں سناتا ہوں ۔انھوں نے میری سوچی ہوئی پوری کہانی بیان کی اور کہاکہ یہ فلم میں بناؤں گا۔انسپکٹر کے کردار میں دھرمیندر کو لیا گیا اور ونود کھنہ کوڈاکو بنایا گیا۔ہیروئین ممتاز کو بنایا گیا اور ڈائریکشن کی ذمہ داری رندھیر کپور کو سونپی گئی ۔اس وقت ’ میرا نام جوکر‘ فلاپ ہو چکی تھی اور ’بوبی ‘ کی شوٹنگ چل رہی تھی ۔راج کپور نے کہاتھاکہ ’ بوبی ‘ صرف دو ہفتے ہی چلے گی اور اتر جائے گی ،مگر ’ بوبی ‘ اتنی بلاک بسٹرثابت ہوئی کہ راج کپور نے ’ دوڑ ‘ کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا اور ’ ستیم شیوم سندرم‘بنانے کی تیاریوں میں لگ گئے ۔‘
دلیپ کمار اور دیو آنند کے بارے میں بتایا :’بریج کینیڈی کے بھولا بھائی انسٹی ٹیوٹ میں میرا اسٹوڈیو تھا۔ایک دن اسٹوڈیو کے دروازے پر دلیپ کمار کھڑے تھے ۔میری لکھی کتاب ان کے ہاتھوں میں تھی ۔انھوں نے کہاکہ مجھے ایک غیر فلمی رائٹر کی تلاش تھی ۔دو دن بعد میں پالی ہل پر واقع ان کے بنگلے پر گیا اور لان میں اپنی کہانی سنانی شروع کی ۔دلیپ کمار نے ایک شرط رکھی کہ آپ کو روزانہ 11؍ بجے بنگلے پر آنا ہوگا ۔میں نے یہ شرط منظور نہیں کی اور ان کی فلم لکھتے لکھتے رہ گیا اور ان کی فلم چھوڑ دی ۔‘ دیو آنند کے بارے میں وہ بتاتے ہیں :’ دیو صاحب کو میری ایک کہانی بڑی پسند آئی ۔ایک گجراتی نوجوان کسی طرح امریکا جانا چاہتا ہے۔ویزے کی خاطر وہ ممبئی میں ایک امریکی لڑکی سے فرضی سگائی کرتا ہے اور امریکا چلا جاتا ہے۔1986میں ’ ودیش ‘ عنوان سے میری اسکرپٹ تیار ہوئی ۔دیو آنند ان دنوں ’ سچے کا بول بالا ‘ کہانی پر کام کر رہے تھے ۔میری اسکرپٹ تھوڑی مہنگی تھی ،کیونکہ امریکا جانا تھا۔’ سچے کا بول بالا ‘ بننے میں تاخیر ہوئی اور دیو آنند نے ’ ودیش ‘ روک دی ۔‘
عابد بھائی کا گجراتی میگزین ’چیت مچھندر‘ میں ’ بٹُوک بھائی ‘ کارٹون شائع ہونے لگا ۔یہ 1962کی بات ہے۔ یہ کارٹون نہیں چلا ۔اُدھر دھرم ویر بھارتی ’ دھرم یُگ ‘ میں ایک کارٹون پیج شروع کر چکے تھے ۔آر کےلکشمن اور ماریو میرانڈا کے کارٹون چھ مہینے چھپ کر بند ہوچکے تھےاور متعدد کارٹونسٹوں کو آزمایا جا چکا تھا۔دھرم ویر بھارتی نے عابد بھائی کو بلایا ۔عابد بھائی نے ’ بٹُوک بھائی ‘ کا نام تبدیل کرکے ’ ڈبُو جی ‘ رکھا ۔دھرم یُگ میں ڈبُوجی چھپتے ہی ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔اٹل بہاری واجپائی ،ہری ونش رائے بچن ، امیتابھ بچن اور اوشو رجنیش بھی ڈبّو جی کے مرید بن گئے ۔
عابد سورتی کے بقول : ’ اوشو اپنے پر وچنوںاور بھاشنوں میں ڈبّوجی کا ذکر کرتے تھے ۔’ دھرم یُگ ‘ سے جب بھی کوئی صحافی اوشو کا انٹریو کرنے پونے جاتا تو وہ مجھے یاد کرتے۔انہی دنوں مجھے پتہ چلا کہ امریکا میں اوشو نے 99؍ رولس رائیس گاڑیاں خرید رکھی ہیں، تو میں نے انھیں دو خط لکھے ۔میں نے کہاکہ آپ مجھے ایک رولس رائیس گاڑی تحفے میں دے دیں ۔یہ میرا کاپی رائٹ ہوگا ۔ انھوں نے خطوں کا کوئی جواب نہیں دیا ۔اس کے بعد اوشو اپنے پروچنوں اور بھاشنوں میں ملّا نصیرالدین کا قصہ سنانے لگے ۔‘
-------___
انڈیا کی ہار پر دکھ کیوں ؟
شکیل رشید ( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
احمدآباد کے اسٹیڈیم میں ، جہاں ایک لاکھ ۳۳ ہزار شائقین بیٹھ سکتے ہیں ، ’ انڈیا جیتے گا ‘ کی گونج کام نہ آئی ، اور آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ کے مقابلوں میں مسلسل دس میچ جیت کر فائنل میں پہنچنے والی ہندوستان کی ٹیم ہار گئی ۔ شکست آسٹریلیا کی اُس ٹیم نے دی جو اپنے دس میچوں میں سے دو ہار چکی تھی ، اُس میں سے ایک ہار انڈیا کی ٹیم کے ہاتھوں تھی ۔ کھیل اور مقابلوں میں ہار اور جیت تو لگی رہتی ہے ، اس معنیٰ میں انڈیا کا ہارنا کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پر دکھ کا اظہار کیا جائے ، لیکن اس معنیٰ میں یہ ہار دکھ دینے والی ہے کہ انڈیا کی ٹیم نے آخری میچ میں اُس کھیل کا مظاہرہ نہیں کیا ، جس کا مظاہرہ وہ پورے ٹورنامنٹ میں کرتی چلی آئی تھی ، اور جس کے نتیجے میں ہندوستانی شائقین نے یہ ’ یقین ‘ کر لیا تھا یا یوں کہہ لیں کہ میچ شروع ہونے سے پہلے ہی مان لیا تھا کہ ’ جیتے گی تو انڈیا ہی ‘ ۔ دکھ اس بات کا بھی ہے کہ جن کھلاڑیوں نے انڈیا کی ٹیم کو فتح کے قریب لا کر کھڑا کر دیا تھا اُنہیں فتح کا مزہ چکھنے کا موقعہ نہیں ملا ، بالخصوص کپتان روہت شرما کو ، جو پورے ٹورنامنٹ میں ٹیم کے لیے کھیلے ، وراٹ کوہلی کو ، جنہوں نے پورے ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ رن بنائے ، محمد شمی ( محمد سمیع ) ، جنہوں نے صرف سات میچ کھیل کر سب سے زیادہ وکٹیں ( ۲۴ وکٹیں ) حاصل کیں ، اور ٹیم کے باقی کھلاڑیوں کو جنہوں نے اس ٹورنامنٹ کو اپنے شاندار کھیل سے یادگار بنا دیا تھا ۔ انڈیا کی ٹیم آئی سی سی کا کوئی مقابلہ ایک طویل عرصہ سے نہیں جیت سکی ہے ، اس لیے بھی یہ ہار دکھ دینے والی ہے ، اس بار آئی سی سی کا مقابلہ جیتنے کا سنہرا موقعہ تھا ۔ اب ورلڈ کپ چار سال بعد آئے گا ، اور تب تک انڈیا کی کرکٹ ٹیم کا چہرہ کافی حد تک تبدیل ہو چکا ہوگا ۔ ممکن ہے روہت شرما کپتان نہ رہیں ، ممکن ہے کہ وراٹ کوہلی یک روزہ مقابلے کھیلنا چھوڑ دیں ، اور یہ بھی ممکن ہے کہ ٹیم آج جیسی مضبوط نہ ہو ۔ محمد شمی ایک فاسٹ گیند باز ہیں ، وہ مزید چار سال آج کی طرح کیا پتہ گیندبازی کر سکیں گے یا نہیں ! کئی سوالات ہیں جن کے جواب آنے والے دنوں میں ملیں گے ۔ ٹیم انڈیا کو کوئی دوش نہیں دیا جا سکتا ، اس نے بہترین کھیل کا مظاہرہ کیا ، لیکن کچھ باتیں ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ کیا شبھمن گل ، سریش ائیر اور سوریہ کمار یادو نے اپنی صلاحیت کا درست استعمال کیا ؟ یہ ایک اہم سوال ہے ۔ کیا آٹھ دس اووروں میں یادو نے جتنے رن بنائے اُس سے زیادہ رن وہ نہیں بنا سکتے تھے ؟ حیرت اس بات پر ہے کہ انہوں نے آسٹریلیا کے گیندبازوں پر حاوی ہونے کی کوشش تک نہیں کی ! اسپین گیند بازوں کے اووروں میں وہ ایک دو رن پر اکتفا کرتے رہے ۔ عظیم بلے باز سنیل گاؤسکر نے کمنٹری کرتے ہوئے اس جانب اشارہ کیا تھا کہ محتاط ہو کر کھیلنے کا یہ مطلب نہیں کہ رن بنانے کی کوشش ہی نہ کی جائے ۔ ایک اور اہم سوال ہے کہ بھلا کیوں محمد سراج سے بھمرا کے ساتھ بالنگ نہیں کروائی گئی ؟ محمد شمی نئی گیند پر قابو نہیں کر پا رہے تھے ، ممکن ہے کہ محمد سراج نئی گیند سے کامیاب رہتے اور محمد شمی ان کے بعد آتے تو اپنا وہ جادو جگا پاتے جو سارے مقابلوں میں نظر آیا تھا ۔ خیر ، یہ تو سب ’ اگر اور مگر ‘ کی باتیں ہیں سچ یہ ہے کہ آسٹریلیا کی ٹیم نے کیا بالنگ ، کیا بیٹنگ اور کیا فیلڈنگ ہر شعبے میں غضب کا مظاہرہ کیا ، اور پیٹ کمنس نے منصوبہ بندی سے کپتانی کی ، نیز اس کے کھلاڑیوں نے دفاع کے لیے نہیں جیتنے کے لیے میچ کھیلا ، نتیجہ مثبت نکلا ۔ اس ٹورنامنٹ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہندوستان اب دنیائے کرکٹ کا قلب بن گیا ہے ، اور کسی اور ملک کے مقابلے کرکٹ کے سب سے زیادہ شائقین انڈیا میں پائے جاتے ہیں ۔ اس ٹورنامنٹ سے کرکٹ کی دنیا میں ملک کا دبدبہ بڑھا ہے ، اس کی معیشت کو فائدہ پہنچا ہے اور سیاحت کا بھلا ہوا ہے ۔ لیکن ایک بات کے لیے افسوس رہے گا کہ ہندوستان نے آئی سی سی کے میزبان ملک کی حیثیت سے غیرجانبداری کا مظاہرہ نہیں کیا ، بیرون ممالک کے بہت سارے کرکٹ شائقین کو ویزے نہیں دیے گیے ، ساری توجہ انڈیا کی ٹیم پر مرکوز رکھی گئی اور جس اسٹیڈیم میں بھی انڈیا کی ٹیم کھیلی وہاں مائک پر ’ انڈیا جیتے گا ‘ کے نعرے گونجتے رہے ! ٹیم انڈیا کے کھلاڑیوں نے تو ثابت کر دیا کہ کرکٹ کا کھیل ’ کثرت میں وحدت ‘ کی عمدہ مثال ہے ، ہر کوئی ٹیم میں شامل ہے ، اور ہر ہندوستانی ٹیم کو جیتنا دیکھنا چاہتا ہے ، لیکن کرکٹ کے ذمے داران کو جس وسیع القلبی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا ، وہ ان سے نہیں کیا جا سکا ۔ یہ دکھ کا ایک سبب ہے ۔
____________
غزل
کچھ بھی نہیں ہے کیا پس دیوار دیکھنا
سائے کو ڈوبتے ہوئے ہر بار دیکھنا
عورت ہوں میری ماں نے سکھایا کہ عمر بھر
آئینہ بن کے آئینہ ِبردار دیکھنا
یہ سوچ کر ہی میں نے جلایا نہیں چراغ
کیا روشنی کو بر سر پیکار دیکھنا
میں تو چراغ شب تھی چلو بجھ گئی مگر
تم تو سحر کے خیر سے آثار دیکھنا
جب اعتبار ِدیدہ ِدل اٹھ گیا تو پھر
کیا رہ گیا ہے یار طرح دار دیکھنا
زریاب کیا خریدنے نکلی ہو دھوپ میں
کیا گرمیوں میں گرمئی بازار دیکھنا
ہاجرہ نور زریاب
______
کلکتہ احسان فرَاموش ہے-
🔴پرسن کُمار مکھوپادھیائے 🔴
ناشکرے کلکتہ، تم اپنی ترقی اور اپنے نظم و نسق سے چمٹے ہوئے ہو
________تم آرام سے بیٹھے ہوئے ہو، اپنی للت کلاؤں، رابندر سدن،
کلا مندر کے بیج، اور تمہارے نیچے، باغی جوانوں کی لاشیں، لہو
اور ہڈیاں دَبی ہوئی ہیں، فٹ پاتھ پر، حوالاتوں میں-تمہارے مہذب شہری
بھکاری کے چولھے پر ہر روز پانی انڈیل دیتے۔ ہیں_______اور ہوائی حملوں کا کوپ جاری رہتا ہے
بلیک آوٹ کی مشقوں کے ساتھ-انھیں اس سب کا مزہ لینے دو
"امن دستے کے، لوگوں نے کس طرح کسان لڑکیوں کی عصّمت دری کی
جبکہ وہ انھی کے لیے چاول چھپا کر لائی تھیں---"
انھیں سب کا مزہ لینے دو______نوکری سے نکالا ہوا مزدور کس طرح بھاگ کھڑا ہوا پولیس کی گاڑی دیکھتے ہی فٹ پاتھ پر اپنی لوٹ کا مال چھوڑ کر----
انھیں مزہ لینے دو____آج اس سب کا مزہ لینے دو
اس لیے کہ لہو سے سینچی دھان کی کھیتی کسان کی کٹیا تک پہنچ نہ سکے
اس لیے کہ استحصال جاری رہے اور درندے پنپتے رہیں،
ہر گاؤں کو ابھی کچھ اور چاہیے____(اب ہم چپ ہو جائیں)
اور اسی کارن یہ ضروری ہے کہ شہروں کا نظم و نسق قائم رہے
پس کلکتہ_______تم اپنی ترقی، اپنے نظم و نسق سے چمٹے رہو
اپنے یوُاوانی سمینار، باٹک، ڈہلیا، اور روزمرہ کے دوسروں درشنوں سے
⚫⚫⚫(پرسن کمُار مکھوپادھیائے:-چھٹے دہے کے ایک معروف شاعر تھے نئی بنگالی شاعری کو ایک واضح سمیت دینے میں سرگرم رہے )
🔴شہر خوں آشام "سے،(شیم حنفی )
ناشر و طابع:-بَلراج مین رَاء
شعور" پبلیکیشنز نئی دہلی
انتخاب و ٹایپنگ
⚫احمد نعیم مالیگاؤں ممبئی بھارت