اس بار کے کالم میں کرکٹ کی کچھ یادیں ،باتیں
ہندوستان بمقابلہ نیوزی لینڈ میچ فیصلہ کن موڑ پرپہنچ چکا تھا۔کام ختم کرنے کے بعد میں ٹی وی کے سامنے جاکھڑا ہوا۔ ارادہ تھا کہ دفتر میں ہی پورا میچ دیکھ لیاجائے۔ لیکن بھائی جاوید کیساتھ کیا گیا کھانے کا وعدہ یاد آگیا، اسلئے مجھے نکلنا پڑا۔ دفتر کی گاڑی میں نشست سنبھالتے ہی میں نے فون پر میچ لگادیا۔ ساتھ بیٹھے تنویربھائی بھی ’میچ بین ‘ بن گئے۔میں نے چھیڑاکہ آپ تو کرکٹ نہیں دیکھتے۔ کہنے لگے، ’’اپنی ٹیم کا میچ ہے، دیکھنا تو پڑے گا۔‘‘ باندرہ اسٹیشن پہنچنے تک نشریات بلاکسی رکاوٹ کے چلتی رہی۔ پھر انٹرنیٹ نے ہاتھ بتادیا۔ دوسرے نمبر کے ڈیٹا پیک کو زحمت دی گئی لیکن وہ بھی چلنے سے رہا۔ موبائل کا اسکرین سیاہ ہوگیا اور ’بفرنگ‘ کا چکر گھومتا رہا۔ ۔میچ اعصاب شکن ہوجائے اور پھر ایساکچھ خلل پڑ جائے تو دماغ بھنّا جاتا ہے۔ تنویر بھائی نے مشورہ دیا، میچ دکھائی نہیں دے رہا ہے تو اسکور دیکھ لو۔ میں نے کہا انٹرنیٹ ہی کام نہیں کررہا ہے۔ اسی درمیان فاسٹ لوکل آگئی۔ اندر پہنچے تو بیٹھنے کو جگہ بھی مل گئی ۔ موبائل کے ساتھ ’انگشت آزمائی ‘ کے باوجود نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات نکلا۔ عقب میں نظر پڑی تو ایک نوجوان موبائل میں پریشان نظر آیا۔ وہ بھی میچ دیکھ رہا تھا لیکن اس کا اسکرین بھی رک رک کر چل رہاتھا۔ جب تک انٹرنیٹ بحال ہوا تب تک میچ ہندوستان کی گرفت میں آچکا تھا۔ ادھر سمیع نے آخری وکٹ گرایا اور اُدھر ہم بمبئی سینٹرل پہنچ گئے۔ میں نے تنویر بھائی سے کہا’’کیا بولتے بھائی فائنل کا؟‘‘انہوں نے اپنے ہی انداز میں جواب دیا’’اپنی ٹیم ہی جیتے گی راجہ‘‘یہ سننا تھا کہ سیڑھیوں پر ساتھ چلنے والے ایک چچا نے تائید کی ’’ہاں ...بالکل جیتے گی، سارے کھلاڑی فارم میں ہیں...اس بار کی آسٹریلیا ،انڈیا ہے...‘‘ ان کا تجزیہ و تبصرہ معنی خیز لگا۔ صاحبو آپ بھی جانتے ہی ہوں گے کہ آسڑیلیا نے اب تک ۵؍ ورلڈکپ اپنے نام کئے ہیں اور ۲۰۰۳ء اور ۲۰۰۷ء میں وہ ناقابل تسخیر رہی۔اس بار ٹیم انڈیا کے تیور بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔ خیال آیا کہ اگر آسٹریلیا فائنل میں آتی ہے تو بڑا مزہ آئے گا۔ پچھلے کچھ حساب بے باق بھی ہوجائیںگے۔ قسمت دیکھئے کہ جنوبی افریقہ ’چوکر‘ کا داغ مٹانے میں اس بار بھی ناکام رہی۔ ۱۹۹۹ء کی طرح اسے ایک بار پھر کنگاروؤں نے رلادیا۔ تب وہ ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے شکار ہوئی تھی اس بارہدف کا دفاع کرنے میں ناکام رہی۔ ویسے آسٹریلیا سے ہم ٹیم انڈیا کے مداحوں کے بھی کچھ پرانے حساب نکلتے ہیں۔ ۲۰۰۳ء میں ’دادا (گنگولی)‘ کی قیادت میں ہماری ٹیم خطاب سے بس ایک قدم کی دوری پر تھی۔بیس سال کا انتظارختم ہی ہونے والا تھا کہ پونٹنگ اینڈ کمپنی وہ خطاب بڑی بے دردی سے چھین لے گئی۔ وہ فائنل بھولے نہیں بھولتا۔ خیر، دن گزرا، سال بدلے۔ ہندوستانی کرکٹ نے بھی رنگ و روپ بدلا۔ ایک سے بڑھ کر ایک کھلاڑی آئے اور کرکٹ کے افق پر چھائے۔ ٹیم انڈیا ۲۰۱۵ء میں ونڈے کرکٹ کی ورلڈچمپئن بنی ۔ کئی خطاب اپنے نام کئے ۔ لیکن اب بھی ہندوستانی مداحوں کے دلوں میں کچھ کسک باقی ہے۔ کنگاروؤں سے ملے ’زخم‘ بھرتو چکے ہیں لیکن نشانات باقی ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اس بار ٹیم انڈیا ایسے سارے حساب بے باق کرے گی ۔ یہ امید بھی ہے کہ وہ فاتح بن کر ہمیں یاددگار لمحات کا تحفہ دے گی۔ وہ لمحات جو مستقبل میں قابل رشک ماضی بنیں گے اور جن کے قصے نئی نسل کے کرکٹ بینوں کو خوشی خوشی سنائے جائیں گے۔یہ سطریں لکھتے ہوئے ۱۹۹۹ء کا ایک اشتہاری گیت یاد آگیا جس کے ابتدائی حصے میں اسٹیڈیم کی جالی پکڑے نوجوان پرجوش انداز میں کھلاڑیوں کو جوش دلاتا ہے’’کم آن انڈیا دکھادو، دنیا کو ہلادو‘‘اس اتوار کو سبھی ہندوستانیوں کا یہی نعرہ ہوگا۔ ہے ناں؟
-اظہر مرزا
#comeonindiadikhado #india
السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
*اردو کارواں کا ساتواں عشرۂ اردو*
*28 Nov. 2023 - 9 Dec. 2023*
*افسانہ گوںٔی مقابلہ (آن لاںٔن) براۓ بی-ایڈ و ڈگری کالج (آل مہاراشٹر مقابلہ)*
*اردو کارواں* کی جانب سے مہاراشٹر کی سطح پر بی-ایڈ اور ڈگری کالج کے اسٹوڈنٹس کے مابین افسانہ گوںٔی کا آن لاںٔن مقابلہ منعقد کیا گیا ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہیں۔
تاریخ : *3 دسمبر 2023 (اتوار)*
وقت : *شام 5 بجے*
پلیٹ فارم : *گوگل میٹ (لنک شیںٔر کر دی جاۓ گی)*
قوانین و ضوابط :
١) *افسانہ منہ زبانی سنانا ہے۔*
٢) *صوتی تاثرات کا خیال رہے۔*
٣) *تلفظ صاف اور شستہ ہو۔*
٤) وقت : *7 تا 10 منٹ*
٥) *افسانہ معیاری ہوں۔*
٦) *افسانے کا انتخاب اپنی مرضی سے کر سکتے ہیں۔*
٧) *حرکات و سکنات مناسب ہونا چاہیے۔*
کالج انتظامیہ / پرنسپل/ سرگرمی انچارج ٹیچر سے گزارش ہے کہ وہ اپنے کالج سے *ایک طالب علم /طالبہ* کے نام کا اندراج کریں۔
نوٹ 1 : نام درج کرانے کی *آخری تاریخ 28 نومبر 2023 (منگل)* ہے۔
نوٹ 2 : منصفین کا فیصلہ حتمی و قطعی ہو گا۔
رابطہ ١ : *محترمہ شبانہ ونو* (پرنسپل آل انڈیا خلافت کمیٹی جونیئر کالج آف ایجوکیشن، باںٔیکلہ ایسٹ، ممبئی)
9819900559
رابطہ ٢ : *محترمہ ساںٔرہ خان*(پرنسپل آر-سی اردو جونیئر کالج آف ایجوکیشن، امام باڑہ، ممبئی)
8452882622
الداعی : *فرید احمد خان* (صدر اردو کارواں) 9967941228
________
نسیاں کے نام
شب زدو حوصلہ رات ڈھلنے کو ہے
رقصِ وحشت میں جاں سے گزرتے ہوئے دلبرو حوصلہ
رات ڈھلنے کو ہے
راکھ بنتی ہوئی بستیوں کے مکیں
میرے روشن جبیں
بے امانی میں لٹتے ہوئے قافلو حوصلہ
رات ڈھلنے کو ہے
سب کناروں پے ڈوبی ہوئی کشتیاں
ناخداؤں کو تکتی ہوئی پتلیاں
ہاں مگر
رات کا یہ پہر آخری
تم پے ٹوٹا ہوا یہ قہر آخری
اے بھلائے ہوو اے ستائے ہوو
مردہ لمحوں کا بوجھا اُٹھائے ہوو
دشتِ وحشت کے سارے اسیرو سنو
اِ س زمانے کے سچ
سارےیکسر جُدا
تیر و حلقوم کی ہر کہانی الگ
خامشی ،مصلحت اور کذب و ریا
کا زہر آخری
وقت لکھے گا اب مرثیہ آخری
مردہ ہوتے ہوئے اِس زمانے کے نام
زندگی کے نئے اِس فسانے کے نام
اِن غلافوں میں لپٹی کتابوں کے نام
ٹوٹتے ہر زمیں پے عذابوں کے نام
بند آنکھوں کے نام
چپ زبانوں کے نام
وحشت کے اِن سب زمانوں کے نام
اے اُجڑتی ہوئی بستیو حوصلہ
رات ڈھلنے کو ہے
شاہین کاظمی
_____