یہ بات تو کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ بی جے پی اقتدار میں رہنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ اگر سیاسی فائدہ نظر آئے تو وہ دوستوں کو دشمن اور دشمنوں کو دوست بنا سکتی ہے۔ مسلمانوں کے تعلق سے بی جے پی کی پالیسی بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ پھر بھی وہ یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ مسلمانوں کو بھی اپنا مانتی ہے اور اپنے قریب لانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ اس کے لیے اس نے مسلم راشٹریہ منچ نامی تنظیم بنائی اور دیگر تنظیموں میں بھی مسلمانوں کی شمولیت کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وہ اس میں کسی حد تک کامیاب بھی ہے۔ جو لوگ مسلم راشٹریہ منچ میں ہیں یا اس کے سربراہ اندریش کمار کے قریب ہیں ان کا کہنا ہے کہ مسلم راشٹریہ منچ کے پروگراموں میں ٹوپی داڑھی والوں کی اکثریت نظر آتی ہے۔ البتہ وہ خود کو پردے میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کی خواہش پر ایسے پروگراموں کی ویڈیو ریکارڈنگ نہیں کی جاتی۔
بی جے پی کو یہ بات معلوم ہے کہ مسلمان من حیث القوم نہ تو اس کے قریب جا سکتے ہیں اور نہ ہی اس کو متفقہ طور پر ووٹ دے سکتے ہیں۔ اس لیے وہ مسلمانوں کے ایک ایک طبقے کو نشانہ بنا رہی ہے۔ کبھی شیعہ سنی تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی صوفی کانفرنس کرکے صوفیوں کو اپنا ہمنوا بنانے کے جتن کیے جاتے ہیں۔ اس نے مسلم خواتین کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی کروا دیا۔ یعنی اگر کوئی مسلمان اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیتا ہے تو ایک تو وہ طلاق نہیں ہوگی اور دوسرے طلاق دینے والا سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا جائے گا۔ بی جے پی یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ مسلم خواتین کی ہمدرد ہے اور اسی لیے اس نے یہ قانون منظور کرایا ہے۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ مسلم خواتین کا ایک طبقہ اس کی جانب مائل ہوا ہے۔
اسی طرح وزیر اعظم نریندر مودی نے پسماندہ مسلمانوں کے معاملے کو اچھالا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بی جے پی پسماندہ مسلمانوں کو مسائل کے دلدل سے نکالنا چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں لکھنؤ میں ایک کانفرنس بھی منعقد ہو چکی ہے۔ حالانکہ باخبر لوگوں کا کہنا ہے کہ اس بارے میں معاملہ زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھا ہے۔ جبکہ بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ وہ پسماندہ مسلمانوں کو اپنے قریب لانے کے لیے مزید پروگرام بنانے والی ہے۔ اس طرح بی جے پی مسلمانوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کی اجتماعیت کو توڑنے کی کوشش کر رہی ہے اور وہ اس میں کسی حد تک کامیاب بھی ہے۔ ہر دور میں مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا رہا ہے جو اقتدار کے قریب رہ کر فائدہ اٹھاتا رہا ہے۔ اس کے نزدیک نہ تو اصولوں کی کوئی اہمیت رہی ہے نہ ہی ملی غیرت کی۔ اس وقت بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے۔
بی جے پی نے مسلمانوں پر اب ایک اور پانسہ پھینکا ہے۔ یعنی اس نے مسلمانوں کے اندر ’مودی متر‘بنائے ہیں اور اس سلسلے میں مزید پیش رفت ہو رہی ہے۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اندھ بھکت صرف غیر مسلموں میں ہی نہیں ہیں بلکہ مسلمانوں میں بھی ہیں۔ حالانکہ اس بارے میں ہندوستانی میڈیا میں کوئی خبر شائع نہیں ہوئی ہے لیکن عالمی میڈیا ادرے ’رائٹرز‘ نے ضرور ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ مسلم اندھ بھکت جنھیں مودی متر بنایا گیا ہے ہندوستانی میڈیا سے بات کرنے میں شرما رہے ہوں یا جھجک رہے ہوں۔ ممکن ہے کہ انھوں نے یہ سوچ کر کہ بین الاقوامی ادارے سے بات کریں گے تو مسلمانوں میں کوئی نہیں جان پائے گا، رائٹرز کو انٹرویو دیے ہوں۔ انھوں نے اس سے گفتگو میں اعتراف کیا کہ ہاں انھیں مودی متر بنایا گیا ہے اور ان کا کام 2024 کے عام انتخابات میں مسلمانوں کے زیادہ سے زیادہ ووٹ بی جے پی کو دلوانا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق مدھیہ پردیش کے رہنے والے نفیس انصاری ایک اسکول کے پرنسپل ہیں اور انہیں بی جے پی نے مودی متر کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ اس فہرست میں شامل افراد وزیر اعظم نریندر مودی کی آئندہ برس انتخابات میں کامیابی کے لیے رضاکارانہ خدمات پیش کر رہے ہیں۔ ’مودی متر‘ یعنی مودی کے دوست۔ بی جے پی نے 25 ہزار مسلمانوں پر مشتمل یہ گروپ تشکیل دیا ہے جس کے ارکان مسلمانوں میں جا کر وزیر اعظم مودی اور ان کی پالیسیوں کا دفاع کرتے ہیں۔ نفیس انصاری بھی مودی متروں میں شامل ہیں۔ وہ لوگوں سے ملاقاتیں کر کے مسلمانوں کے لیے وزیر اعظم مودی اور ان کی پارٹی کے فلاحی منصوبوں کے بارے میں مہم چلا رہے ہیں۔ نفیس انصاری لوگوں سے ملاقاتوں میں بی جے پی کی پالیسیوں کے نتیجے میں تمام اقلیتی برادریوں کو ملنے والے فوائد کا پرچار کرتے ہیں اور وزیر اعظم مودی کی قیادت میں عالمی سطح پر ہندوستان کے بلند ہوتے قد کا دعویٰ کرتے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ نے پانچ مودی متروں اور بی جے پی کے چھ ذمے داروں سے بات کی ہے جو آئندہ انتخابات کی حکمت عملی بنانے کے ذمہ دار ہیں۔ بی جے پی کے اقلیتی شعبے کے سربراہ جمال صدیقی کے مطابق ان کی پارٹی تعلیم کے شعبے سے وابستہ ایسی مسلم شخصیات، علما اور ریٹائرڈ مسلم ملازمین کی تلاش میں ہے جو خوشی سے وزیر اعظم مودی کی معاونت کریں۔ بی جے پی کے اقلیتی سیل کے ترجمان یاسر جیلانی کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی نے گزشتہ دو عام انتخابات میں مسلمانوں کا نو فی صد ووٹ حاصل کیا تھا اور اگلے سال ہونے والے الیکشن کے لیے یہ ہدف سولہ سے سترہ فی صد ہے۔ بی جے پی کی انتخابی حکمت عملی بنانے والے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کی پارٹی کی تمام تر توجہ لوک سبھا کی 543 میں سے ان 65 نشستوں پر مرکوز ہے جہاں مسلم آبادی 30 فی صد ہے۔ البتہ انھوں نے ان حلقوں کی نشاندہی نہیں کی۔ تاہم بی جے پی کے مودی متروں نے پسماندہ مسلم علاقوں میں بی جے پی کے پیغامات کو پہنچانا شروع کر دیا ہے۔
نفیس انصاری کا تعلق پسماندہ علاقے سے ہے اور وہ اپنے علاقے میں بی جے پی کی فلاحی اسکیموں کے بارے میں ہر کسی کو بتا رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے دوستوں اور قریبی لوگوں سے بات کرتے ہوئے حکومت کے نئے پروگرام کے بارے میں بتایا اور کہا کہ بی جے پی کی ریاستی حکومت ضرورت مند خواتین کو ماہانہ 1250 روپے جب کہ مرکزی حکومت ڈیڑھ لاکھ روپے کی ہاؤسنگ سبسڈی فراہم کرے گی۔
عزیر حسین بھی مودی متر ہیں جن کا تعلق مغربی بنگال سے ہے۔ پیشے کے اعتبار سے وہ ایک تاجر ہیں جو بی جے پی کے معیشت پر مبنی بیانیے کو لوگوں تک پہنچا رہے ہیں۔ عزیر کہتے ہیں کہ ماضی کی حکومت کے مقابلے میں وزیر اعظم مودی کی حکومت کی جانب سے کرائے گئے کاموں میں زمین آسمان کا فرق ہے اور انہی کاموں سے متاثر ہو کر وہ بی جے پی کی طرف راغب ہوئے ہیں۔ عزیر کے حلقے سے تعلق رکھنے والے ایک شخص قاسم نے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حقیقت میں مسلمان بی جے پی کو پسند نہیں کرتے۔ لیکن عزیر حسین کہتے ہیں کہ ہمیں کم از کم یہ سننا چاہیے کہ بی جے پی ہمیں کیا دے رہی ہے۔
واضح رہے کہ ایک طرف یہ نام نہاد مسلمان ہیں جنھیں مودی متر بنایا گیا ہے، حالانکہ انھیں مودی متر نہیں بلکہ اندھ بھکت کہنا چاہیے اور دوسری طرف مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ اول الذکر طبقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے بھی کام کر رہی ہے۔ جبکہ سچائی یہ ہے کہ 2014 کے بعد سے مسلمانوں کو کہیں زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔ ان کے مذہب پر حملے ہوتے ہیں۔ انھیں بھیڑ کے ہاتھوں ہلاک ہونا پڑتا ہے۔ ان کے مدرسوں کو دہشت گردی کے اڈے کہہ کر ان کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔ ان کی اسلامی شناخت کو مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ حکومت کے بہت سے کارندے بھی کر رہے ہیں اور شدت پسند ہندو بھی۔
نفیس انصاری کو بھی اس کا اعتراف ہے کہ ملک میں شدت پسندی بڑھی ہے۔ ان کے مطابق شدت پسند ہر جگہ موجود ہیں۔ بی جے پی کو شدت پسند کارکنوں پر قابو پانا ہو گا جنہوں نے پارٹی کے تشخص کو نقصان پہنچایا ہے اور وہ اب بھی پارٹی میں موجود ہیں۔ اس کے باوجود وہ مودی متر بن کر مودی حکومت کا گن گان کر رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ انھیں ذاتی طور پر فائدہ پہنچ رہا ہو۔ لیکن انھیں پوری ملت کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ ماہرین کا کہنا ہے بی جے پی آئندہ انتخابات میں ہر حال میں کامیاب ہونا چاہتی ہے اس لیے اسے مسلمانوں کا ووٹ بھی چاہیے اور اس کے لیے ہی وہ اس قسم کی حکمت عملی اختیار کر رہی ہے۔
بہرحال مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ایسے مودی متروں سے ہوشیار رہیں اور ان کے جال میں نہ پھنسیں۔ کیونکہ اگر 2024 میں بھی بی جے پی کامیاب ہو گئی تو بہت سے مبصرین کا کہنا ہے کہ اس صورت میں ہندوستان ایک سیکولر ملک نہیں رہے گا۔ آئین کو ختم کر دیا جائے گا اور اس کے بعد پھر کوئی الیکشن نہیں ہوگا۔ لہٰذا ان مودی متروں یا ’اندھ بھکتوں‘ سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے