قطب الدین ایبک ایک دفعہ شکار کھیلتے ہوئے ایک کھیت سے گزرا۔ وہاں ایک کسان ہل چلاتا ہوا نظر آیا تو اس نے پوچھا، " تم دن میں کتنا کما لیتے ہو ؟ کسان نے کہا، ”حضور چار روپے کما لیتا ہوں۔ “قطب الدین ایبک نے پوچھا، ” تم ان چار روپوں کو کس طرح خرچ کرتے ہو ؟ کسان نے کہا، پہلا روپیا میں خرچ کرتا ہوں، دوسرار و پیا اُدھار دیتا ہوں، تیسرا روپیا قرض اتارنے میں صرف کرتا ہوں اور چوتھا روپیا کنویں میں پھینک دیتا ہوں۔ قطب الدین ایبک نے حیران ہو کر کہا ”میں تمہاری باتوں کا مطلب نہیں سمجھا۔ “ کسان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ” پہلا روپیا خود پر اور اپنی بیوی پر خرچ کرتا ہوں۔ دوسرا روپیا بچوں پر خرچ ہوتا ہے تاکہ جب میں بوڑھا ہو جاؤں تو وہ مجھے کھلا سکیں۔ تیسرا روپیا اپنے والدین پر خرچ کرتا ہوں، انہوں نے
بچپن میں مجھے پالا تھا اور چو تھا روپیا میں خیرات کرتا ہوں اور دنیا میں اس کا اجر نہیں چاہتا۔ ۰۰۰۰۰۔ علامہ شبلی نعمانی اپنے بحری سفر کا ایک سبق آموز واقعہ لکھتے ہیں کہ دورانِ سفر جہاز کا انجن بے کار ہو گیا اور جہاز نہایت آہستہ آہستہ ہوا کے سہارے چل رہا تھا۔ میں سخت گھبرایا ہوا تھا۔ اس اضطراب میں اور کیا ہو سکتا تھا، دوڑا ہوا مسٹر آرنلڈ کے پاس گیا۔ وہ اس وقت نہایت اطمینان سے ایک کتاب کے مطالعے میں مصروف تھے۔ میں نے کہا، "آپ کو کچھ خبر بھی ہے ؟ وہ بولے ”جی ہاں، جہاز کا انجن خراب ہو گیا ہے۔“ میں نے کہا ” آپ کو کچھ پریشانی نہیں ؟ بھلا یہ کتاب دیکھنے کا موقع ہے ؟“ وہ بولے کہ اگر جہاز کو ڈوبنا ہی ہے تو یہ تھوڑا سا وقت قابلِ قدر و قیمت ہے جسے رائیگاں کرنا بے عقلی ہے ۔ “ ان کے استقلال اور ہمت سے
مجھے اطمینان ہوا۔ آٹھ گھنٹے بعد انجن درست ہوا اور جہاز پہلے کی طرح چلنے لگا۔ ۰۰۰۰۰۰ شتر مرغ میں سے تیس انڈے دیتا ہے۔ پھر ان کے تین حصے کرتا ہے، ایک حصہ زمین میں دفن کرتا ہے، دوسرا حصہ دھوپ میں رکھتا ہے اور تیسرے حصے کو سیتا ہے۔ جب بچے نکل آتے ہیں تو دھوپ والے انڈونکو تو ڑ کر بچوںکو پلاتا ہے۔ جب وہ ختم ہو جاتے ہیں تو دفن کیے ہوئے انڈونکو نکال کر ان میں سوراخ کر دیتا ہے۔ اس میں سے نکلنے والے مواد کو کھانے کے لیے چیونٹیاں اور دوسرے کیڑے مکوڑے جمع ہو جاتے ہیں، جنہیں پکڑ پکڑ کر وہ اپنے بچونکے آگے ڈالتا ہے۔