ہمارے نقطۂ نظر سے خلافت کی خصوصیات بیک قلم ملوکیت کے آتے ہی ختم نہیں ہو گئیں۔ ملوکیت کے بعد بھی وہ بدستور اسلامی حکومت میں جلوہ گر رہی ہیں۔ بالخصوص حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ) کے دور میں، ان پر جو کچھ زوال آیا ہے وہ بتدریج آیا ہے محض ملوکیت کے نتیجے میں نہیں آیا ہے۔
اپنے اس نقطہ نظر کی تائید میں خود مولانا مودودی صاحب (رحمۃ اللہ) کی زیر ادارت و نگرانی میں شائع ہونے والے رسالے "ترجمان القرآن" کے اداریے (اشارات) کا حوالہ پیش ہے، جس میں وہی بات کہی گئی ہے جس کی وضاحت ہم نے کی ہے۔
اور اسلامی بادشاہوں میں بحیثیتِ مجموعی اسلامی کردار کی یہ خوبی خلافتِ عثمانیہ (ترکی) کے آخری حکمران تک میں رہی ہے۔ حالانکہ خلافت (یا شخصی حکومت) کا یہ دور، جس پر خلافت کے ادارے کا خاتمہ ہو گیا، سابقہ ادوارِ خلافت کے مقابلے میں بڑا زوال یافتہ اور زبوں حالی کا آئینہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن آخری فرمان روائے خلافتِ عثمانیہ سلطان عبدالحمید ثانی (1876ء - 1909ء) کا یہ کردار کس طرح ناقابل فراموش ہے کہ انہوں نے ارضِ فلسطین میں یہودیوں کی قومی حکومت بنانے کی پوری شدت سے مخالفت کی، انہیں اس کے بدلے میں خطیر مالی مفاد کی پیشکش کی گئی، وہ بھی انہوں نے ٹھکرا دی۔ حتیٰ کہ انہوں نے اس بنا پر معزول ہونا پسند کر لیا لیکن اسلام اور ملت اسلامیہ کے مفاد کے خلاف مذکورہ اقدام نہیں کیا۔ اب یہ تاریخی حقائق کھل کر سامنے آ گئے ہیں کہ سلطان عبدالحمید ثانی کے معزول کیے جانے میں اس کے اس اسلامی کردار کو بھی بہت دخل تھا جو اس وقت کی نوجوان ترکوں کی فعال تنظیم "انجمن اتحاد و ترقی" کے لیے ناپسندیدہ تھا۔
اس سلسلے میں سب سے اہم دستاویز خود خلیفہ عبدالحمید ثانی کا وہ مکتوب ہے جو انہوں نے اپنی معزولی کے بعد سلسلۂ شاذلیہ کے ایک بزرگ "محمود ابو الشامات" کو، جن سے خلیفہ بیعت تھے، لکھا تھا۔ اس مکتوب میں خلیفہ عبدالحمید اپنے معزول کیے جانے کا راز اور پس منظر یوں بیان کرتے ہیں:
یہ مکتوب ترکی زبان میں تھا جسے بڑی حفاظت سے شیخ محمود کے صاحبزادگان نے رکھا ہوا تھا اور خاص خاص لوگوں کو اس کی زیارت کروائی جاتی تھی۔ پروفیسر سعید افغانی دمشقی نے 1972ء میں اس کی فوٹو اسٹیٹ کاپی لے کر عربی میں منتقل کرایا اور اسے کویت کے رسالہ "العربی" کی اشاعت شوال 1392ء (دسمبر 1972) میں شائع کرا دیا۔ وہاں سے بعض اور کتابوں میں بھی نقل ہوا۔ اور اس کا اردو ترجمہ بھی بعض اردو رسائل میں مکمل طور پر شائع ہو گیا ہے۔ ہم نے خط کا مذکورہ اقتباس اسی اردو ترجمے سے لیا ہے جو جماعت اسلامی کے آرگن "ایشیا" لاہور (28/نومبر 1982) میں شائع ہوا ہے۔
کوئی کہہ سکتا ہے کہ خلیفۂ مذکور کا یہ کردار تو اس کا اپنا بیان کردہ ہے، کوئی اور شہادت بھی اس کے اسلامی کردار کی موجود ہونی چاہیے۔
تو لیجیے مولانا مودودی صاحب کے "ترجمان القرآن" کے صفحات سے انہی کے ایک رفیق خاص کی زبانی اس کی شہادت ملاحظہ فرما لیجیے۔
جناب خلیل الرحمن حامدی صاحب اپنے مضمون "دورۂ ترکی کے مشاہدات" (جو 'ترجمان القرآن' کی 10-11 قسطوں میں شائع ہوا تھا) اپنی ایک تقریر کا ذکر کرتے ہیں جو انہوں نے ترکوں کے ایک اجتماع میں کی تھی، جس میں بقول ان کے "لادینی نظامِ تعلیم کے اندر تربیت پانے والے نوجوان اور مغربی لباس اور مغربی تہذیب کا چلتا پھرتا نمونہ پیش کرنے والے مرد و زن" تھے، اس میں انہوں نے خالص جذباتی رنگ میں کہا:
"اے ترک بھائیو! اے سلطان محمد الفاتح کے وارثو، حضرت ابو ایوب انصاری کے پڑوسیو! سلطان عبدالحمید ثانی کے جانشینو، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقو اور قرآن کے علم بردارو!
تم نے ماضی میں جو کردار ادا کیا ہے، وہ اسلامی تاریخ کے اندر سنہری حروف میں ثبت ہو چکا ہے۔ اب پھر اللہ کا نام لے کر اٹھو اور عظمت رفتہ کو زندہ کر دکھاؤ۔ ویانا کی فصیلیں اور افریقہ و ایشیا کے جبال و صحرا پھر اسی پرچم کو سربلند دیکھنا چاہتے ہیں جو اسلام کے غلبے کی علامت تھا۔ ترکوں کے آخری عہد پر بڑی تنقیدیں کی گئی ہیں لیکن تنقید کرنے والوں سے پوچھا جا سکتا ہے کہ سلطان عبدالحمید ثانی کے اس کردار کی کوئی مثال پیش کر سکا ہے کہ یہودیوں کی طرف سے اسے دولت کے انبار پیش کیے گئے اور ان کے عوض اس سے صرف یہ مطالبہ کیا گیا کہ فلسطین کے اندر یہودیوں کو آباد ہونے کی اجازت دے دی جائے مگر سلطان نے یہ کہہ کر اس دولت کو ٹھکرا دیا کہ بیت المقدس کی سرزمین کی مٹی کی ایک مٹھی بھی میرے لیے تمہارے تمام انبار ہائے سیم و زر سے زیادہ قیمتی ہے، فلسطین ہمارے آباء و اجداد نے خون سے خریدا تھا اور ہم سے بھی خون کے عوض ہی خریدا جا سکتا ہے۔"
حامدی صاحب مزید لکھتے ہیں:
"سلطان عبدالحمید ثانی کا نام اب ترکوں کے لیے بڑا محبوب ہے، میں نے جب ان کا (اپنی تقریر میں) ذکر کیا تو اس پر خوب خوب حاضرین نے داد دی"
(بحوالہ: ماہنامہ ترجمان القرآن، لاہور، اپریل 1969)
یہ تذکرہ ہے بزمِ ملوکیت کی اس آخری شمع کا، جسے مولانا مودودی صاحب دنیا بھر کی خرابیوں کی پوٹ باور کرا رہے ہیں۔ حالانکہ خلافتِ عثمانیہ ملوکیت کا یہ دورِ واپسیں ہے جس کے زوال و ادبار کی داستانیں عام ہیں۔ اس دورِ لازوال و انحطاط میں بھی اسلامی بادشاہوں کا اسلامی کردار انتہائی قابل فخر اور بےمثال ہے اور بلاشبہ کہا جا سکتا ہے ع
جس کی خزاں یہ ہو، اس کی بہار مت پوچھ
بہرحال تمام اسلامی خلفا و ملوک کو مطلقاً اسلامی کردار سے محروم اور ان کے نظامِ حکومت کو اسلامی خصوصیات سے عاری قرار دینا تاریخِ انسانیت کا سب سے بڑا جھوٹ ہی نہیں، تاریخِ اسلام پر ظلمِ عظیم بھی ہے اور اسی جھوٹ اور ظلمِ عظیم کا ارتکاب کتاب "خلافت و ملوکیت" میں کیا گیا ہے۔
آہ! سچ ہے:
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے!
ایک ہم ہیں، لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ!